... loading ...
ویسے تو یہ معمول کا حصہ ہے مگر جب سے پاناما لیکس میں وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کا نام آیا ہے، بالخصوص سپریم کورٹ میں سماعت کا آغازہوا ہے،تو عدالت سے باہر سڑکوں پر اور ٹی وی چینلز پر اپنی اپنی عدالتیں سج گئیں ہیں اور ان عدالتوں سے ایسے ایسے ’’فیصلے ‘‘منظر عام پر آرہے ہیں کہ ملک بھر کے عوام کنفیوژن کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں ، اس ذہنی الجھاؤ کی صورتحال کی جانب ایک انگریزی روزنامے کے ایڈیٹر برادرم سلیم بخاری نے توجہ دلائی جس پر ایسے جوابی دلائل سامنے آئے کہ جن میں ہٹ دھرمی تو نمایاں ہے مگر ’’معقولیت‘‘کے پہلو تلاش کرنے پڑیں گے ۔ لفافہ دیکھ کر مضمون سمجھ آجانے کے مصداق ،جس طرح بعض کالم نگاروں کے نام سے ہی کالم میں مچلتے مفہوم کو جان لیا جاتا ہے اسی طرح بعض اینکرز کے اسکرین پر جلوہ گر ہوتے ہی سمجھ میں آجاتا ہے کہ کیا ’’گوہرافشانی ‘‘ ہوگی ، کس کی پگڑی اچھالی جائے گی اور کس کے غلط کو درست ثابت کرنے کی جادو گری دکھائی جائے گی، اس کے لیے یہ جواز تراشا جاتا ہے کہ معاملات یا صورتحال سے آگاہی عوام کا حق ہے ، اور ہم نے خود کو اس فرض کی ادائیگی کا پابند کرلیا ہے۔ بلا شبہ صحافی کا تعلق پرنٹ میڈیا سے ہو یا الیکٹرانک میڈیا سے عوام کو باخبر رکھنا اس کا پیشہ ورانہ فریضہ بنتا ہے ، تاہم اس کے لیے غیر جانبداری اور انصاف شرط اول ہے لیکن اگر کسی مخصوص لیڈر ، نقطہ نظر ، سیاسی جماعت اور نظریے کو پروان چڑھانا مقصد ہو یا کسی نظریے یا سیاسی جماعت اور لیڈر کو عوام کی نظروں سے گرانے کے لیے ’’ہنرکاری‘‘مقصود ہو تو یہ صحافتی اقدار و روایات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ لہذا خود احتسابی بھی لازم ہے کہ صحافی عام لوگوں کی نظروں میں صحافی ہی گردانا جائے اس پر کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کا آلہ کار ہونے کا ٹھپا نہ لگ سکے ۔
ٹاک شوز کے نام پر بعض ٹی وی چینلز پر جو ہو رہا ہے ،سلیم بخاری نے بجا طور پر اسے تماشہ قرار دیا ہے۔ بعض ٹی سی اینکرز تو صاحب کشف ہیں مثلا ایک’’ صحافتی بقراط‘‘ نے تو یہ انکشاف کردیا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ جو فیصلہ سنائے گی اس سے کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے سزا پائیں گے اور بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر وزیراعظم نوازشریف ان کے بچے نشانہ ہیں جن پر پاناما لیکس کے حوالے سے ایک کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،عدالت عظمی نے وزیراعظم نوازشریف کے حوالے سے یہ تفصیلات طلب کیں کہ وہ کن کن عہدوں پر براجمان رہے ہیں تو اسے ایسے معنے پہنائے گئے کہ عدالت نے یہ تفصیلات طلب نہیں کیں بلکہ شریف فیملی کے خلاف فیصلہ سنادیا ہے حالانکہ عدالتی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ہدایت دی ہے کہ پریس کانفرنسوں کے لیے نہ تو عدالتی احاطوں کو استعمال کیا جائے نہ ہی ججوں کے ریمارکس کو اپنے مطلب کے معنی پہنائے جائیں ۔میں نے اپنے ساتھی حافظ جاوید اقبال سے سوال کیا کہ بعض چینلز آنے والے عدالتی فیصلے کے حوالے سے جو ذہنی فضا بنا رہے ہیں اگر فیصلہ اس کے برعکس آگیا تو کیا ہوگا ،انہوں نے بہت پتے کی بات کی کہ عدالت اور ججوں کو تو براہ راست کچھ نہیں کہا جائے گا البتہ عدالتی نظام کے بخئیے ادھیڑنے کی کوشش کی جائے گی اور ایسے ایسے نکتے نکالے جائیں گے جن سے یہ تاثر پیدا ہو کہ فیصلہ کسی خاص ’’پس منظر‘‘ میں کیا گیا ہے ۔
ایک اینکر پرسن نے جن کے بارے میں میرا گمان تھا کہ یہ صاحب اپنے دیگر دو ساتھیون کے مقابلے میں معقولیت کا جامہ پہنے ہوئے ہیں انہوں نے ایسی خطر ناک بات کی کہ میں ہل کر رہ گیا ،وزیر اعظم نوازشریف کی مخالفت کرنا یا ان کے اقتدار کے خاتمے کی خواہش کا اسیر ہونا کسی طور غلط نہیں ہے، ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس کی چاہے سیاسی حمایت اور مخالفت کرے لیکن مخالفت میں حد سے نہ گزرنا چاہیے ،نہ حمایت میں انصاف کا دامن چھوڑنا چاہیے ،اس اینکر نے جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ آج تک پنجاب کے کسی حکمران یا بڑے آدمی کے خلاف فیصلہ نہیں آیا اور اعتزاز احسن کو بھی یہ خدشہ ہے، اعتزاز احسن کی حد تک تو بات سمجھ آتی ہے کہ آصف زرداری اور ان سے بہت گہری قربت رکھنے والوں کے سروں پر احتساب کی جو تلوار لٹک رہی ہے وہ اس حوالے سے مختلف اندازمیں دھول اڑانے کی کوشش کریں گے تاکہ کسی بھی کارروائی کو ایک ’’غیر پنجابی ‘‘ کے ساتھ ناانصافی کا رنگ دیا جاسکے لیکن ایک اینکر پرسن کا یہ کہنا’’ آج تک کسی پنجابی حکمران یا برے آدمی کے خلاف فیصلہ نہیں آیا ‘‘ جس چیز کی نشاندہی ہے وہ صوبائی منافرت پھیلانے کی شعوری یا لاشعوری کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ جو اپنی بات یا لکھی تحریر کے فوری اور دوررس مضمرات اور نتائج کا ادراک نہ کرسکے وہ دانشور ’’سقراط،بقراط ‘‘کچھ بھی ہوسکتا ہے صاحب نظر صحافی نہیں ہے ،نہ ایسا تاثر پھیلانا حب الوطنی ہے ۔ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف جو مقدمہ زیر سماعت ہے اس کی لفظ بہ لفظ رپورٹنگ کی جاسکتی ہے وکلا کے دلائل، معزز ججوں کے ریمارکس خبر کی صورت میں شائع کرنا یا ٹی اسکرین پر دکھانا صحافتی عمل ہے لیکن رنگ آمیز تبصروں اور تجزیوں کے ذریعے خاص ذہنی فضا بنانے کی کوشش مسلمہ صحافتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتی ۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمے میں میں کورٹ روم میں موجود ہوتا تھا پاکستان ٹائم کے مقبول شریف ، اے پی پی کے فاروق نثار ، ڈان کے محمود زمان ، پی پی آئی کے مصبح الحق ، نوائے وقت کے سعید آسی ، مشرق کے ممتاز احمد ، جنگ کے فاروق شاہ اور روزنامہ مغربی پاکستان سے یہ کالم نگا رمقدمے کی رپورٹنگ کرتے، اخبارات کی فائلیں اٹھا کردیکھ لی جائیں سماعت کے دوران جو کچھ ہوتا وہی خبر کی صورت اخبارات میں جلوہ گر ہوتا ۔اس دور میں ذوالفقار علی بھٹو کے پرجوش حامی صحافی بھی تھے اور ان سے سیاسی اختلاف رکھنے والے بھی ۔مگر مقدمے کے پہلے دن سے فیصلے کی گھڑی تک متوازی عدالتیں لگتی تھیں نہ مرضی کے فیصلے سنائے جاتے ،نہ کسی کو یہ کشف ہوتا کہ عدالت کیا فیصلہ کرے گی ۔صحافت کا وہ انداز صحافتی روایات کے مطابق تھا یا آج کی صحافت( مستثنیات کے ساتھ )زیادہ بہتر اندا ز رکھتی ہے، یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں ۔
اسرار بخاری
اگر بارِ خاطر گراں نہ گزرے اور جان کی امان عطا ہو تو عرض بس اتنا ساکرنا تھا کہ جن لوگوں نے بہت بڑے بڑے منہ کھول کر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، ان کے بچوں ، رشتے داروں اور دیگر ساتھیوں کے مالی معاملات کے عدلیہ کے پاس جانے پر بغلیں بجائی تھیں اور اسے اپنی فتح پر محمول کیا تھا ،...