وجود

... loading ...

وجود

قوم پرست جنونی ہندوئوں سے کون منوائے گا؟؟

جمعرات 05 جنوری 2017 قوم پرست جنونی ہندوئوں سے کون منوائے گا؟؟

بھارت کی عدالت عظمیٰ نے1996 کے ہندوتوا کیس میں داخل متعدد درخواستوں پر سماعت کے بعد ایک انتہائی اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی پارٹیاں مذہب کے نام پر ووٹ نہیں مانگ سکتیں۔ قانون میں اس کی اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی مذہب، عقیدہ، ذات پات، نسل اور زبان کے نام پر ووٹ مانگے گا تو اس کا انتخاب کالعدم قرار دیا جائے گا۔عنقریب سبکدوش ہونے والے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کے حوالے سے فریقین کے وکلا کے دلائل کی سماعت کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ تین ججوں نے چیف جسٹس کے موقف کی حمایت کی اور تین نے اختلاف رائے کیا۔عدالت عظمیٰ نے 1996 میں اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ ہندوتواکوئی مذہب نہیں بلکہ طرززندگی ہے۔ تازہ فیصلے کے بعد اگر کوئی امیدوار یا اس کا مخالف مذہب کی بنیاد پر ووٹ مانگے گا تو اس کے خلاف عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایک شخص اور خدا کے مابین رشتہ شخصی آزادی پر مبنی ہے۔ اور مملکت کو مذہبی سرگرمیوں سے روکا گیا ہے۔
بظاہر بھارتی عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ بہت ہی خوشکن ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کون کرائے گا ،کیونکہ بھارتی معاشرے میں مذہب، عقیدہ، ذات پات، نسل اور زبان کے نام پر ووٹ مانگنے اور ہر منفی کام کاالزام اقلیتوں پر دھر دینے کا رواج عام ہوچکاہے ،اگر انتخابی مہم کے دوران کوئی امیدوار اپنے مخالف امیدوار پر اپنی بیٹی کی شادی پر گائے ذبح کرکے کھلانے کا الزام عاید کردے تو اسے کون روک سکتاہے، یا اگر کوئی امیدوار اپنے مخالف امیدوار پر کسی نچلی ذات کے ہندو کے ساتھ مراسم کو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے لیے باعث تضحیک قرار دے دے تو کون اس کی زبان روکے گا ، اوراس طرح کے حربے اختیار کرکے انتخاب جیت جانے کے بعد اسے کون نااہل قرار دلوانے کی جرات کرسکے گا؟
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس فیصلے کا عنقریب اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر گہرا اثر پڑے گا۔ معروف قانون دان اور رکن پارلیمنٹ ماجد میمن کے مطابق اس سے بی جے پی کو نقصان ہوگا۔ کیونکہ وہ الیکشن میں رام مندر کا ایشو اٹھانے کی تیاری کر رہی تھی۔لیکن بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی کے خیال میں اس فیصلے کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ بقول ان کے اس نے کبھی بھی مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں مانگا۔یاد رہے کہ 1990 کے اواخر میں بی جے پی کے رہنما لال کشن ایڈوانی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے لیے پوریبھارتمیں رتھ یاترا نکالی تھی جس کے بعد پورے ملک میں بی جے پی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1984 کے انتخاب میں بی جے پی 545 کی لوک سبھا میں صرف 2 نشستیں جیت پائی جبکہ 1991 میں اسے 120 نشستوں پر کامیابی ملی جو 1996 میں 161 ہو گئی۔ادھر ایک سینئر تجزیہ کار این کے سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں فیصلے کا الیکشن پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ یہ امتیاز کرنا مشکل ہوگا کہ کون سی اپیل مذہبی ہے کون سی نہیں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے قوانین موجود ہیں اس کے باوجود سیاسی پارٹیاں 70 برسوں سے یہی سب کرتی آئی ہیں۔ اس بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی کوئی ضرورت نہیں،الیکشن کمیشن کے قوانین ہی کافی تھے۔جماعت اسلامی ہند نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ جماعت کے سکریٹری جنرل محمد سلیم انجینئر نے ایک بیان میں کہا کہ یہ کوئی نیا فیصلہ نہیں ہے۔ پھر بھی اس پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہونا چاہیے۔جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بھی فیصلے کی ستائش کی اور کہا کہ اس سے فرقہ پرست قوتوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر عمل د رآمد کرائے۔ہندو احیا پسند جماعت وشو ہندو پریشد نے بھی فیصلے کا یہ کہتے ہوئے خیر مقدم کیا کہ مذہب کی سیاست ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ بھارت کی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے سیاست دانوں کی طرف سے انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے مذہب اور ذات پات کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔اس حوالے سے روزنامہ ’دی ہندو‘ کے سابق مدیر اور تجزیہ کار سدہارت وردراجن کا کہنا تھا کہ اس قانون سے وہ غلط فہمی یا الجھاؤ ختم ہوا ہے جو خود عدالت عظمیٰ کے 1996 کے ایک حکم کے نتیجے میں پیدا ہو گیا تھا۔ان کے بقول اب سیاستدانوں کی اس بات میں زیادہ وزن نہیں رہے گا کہ چونکہ مذہب ایک طریقۂ حیات ہے اس لیے سیاست میں اس کے ذکر سے یہ مطلب لینا درست نہیں کہ وہ مذہب کے نام پر سیاست کر رہے ہیں۔
بھارت میں ذات پات کا نظام کیا ہے؟
بھارت میں موجود ذات پات پر مبنی نظام دنیا بھر میں سماجی سطح پر طبقاتی تقسیم کی سب سے پرانی صورت ہے۔تین ہزار سال سے زائد عرصے سے رائج اس نظام کے تحت ہندوئوں کو ان کے کرما (کام) اور دھرما (فرض) کی بنیاد پر مختلف سماجی گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ذات پات کا تصور کیسے سامنے آیا؟
تین ہزار سال پرانی کتاب مانوسمرتی جسے ہندو قوانین کا سب سے اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے، میں ذات پات کے نظام کو سوسائٹی میں تنظیم اور ترتیب کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا اور اس کے حق میں دلائل دیئے گئے ہیں۔ ذات پات کا نظام ہندوئوں کو برہمن، شتری، ویش اور شودر کے نام سے چار کٹیگری میں تقسیم کرتا ہے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس تقسیم کا ماخد تخلیق سے متعلقہ ہندو دیوتا براہما ہے۔اس طبقاتی تقسیم میں سب سے اوپر برہمن آتے ہیں جن کا کام تعلیم تربیت اور دماغی کاموں کی انجام دہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ برہما کے سر سے وجود میں آئے ہیں۔اس کے بعد شتریوں کا درجہ آتا ہے جو پیشہ کے لحاظ سے حکمران اور سپاہ گری سے متعلق ہیں اور وہ برہما کے بازوئوں سے وجود میں آئے ہیں۔تیسرے نمبر پر ویش ہیں جو تجارت پیشہ ہیں اور برہما کی رانوں سے وجود میں آئے ہیں۔سب سے آخر میں شودروں کا نمبر آتا ہے جو برہما کے پیروں سے بنے ہیں اور وہ ہاتھوں سے کرنے والے کام اختیار کرتے ہیں۔ان ذاتوں کو تین ہزار مزید ذاتوں اور ثانوی ذاتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس کی بنیاد مخصوص پیشوں پر ہوتی ہے۔اچھوتوں یا دلتوں کا شمار ہندو ذات پات کے نظام سے باہر سمجھا جاتا ہے۔
ذات پات کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟
صدیوں تک ذات پات ہی ہندو مذہب اور سماجی زندگی کے ہر پہلو کی بنیاد رہی ہے اور اس پیچیدہ نظام میں ہر گروپ کی اپنی مخصوص جگہ برقرار رہی ہے۔دیہی آبادی کی ترتیب خاص طور پر ذات پات کی بنیاد پر ہوتی رہی ہے اور اونچی اور نچلی ذاتوں کے لوگ بالکل علیحدہ دائروں میں زندگیاں بسر کرتے رہے ہیں۔ ان کے پانی کے کنوئیں علیحدہ رہے ہیں۔ برہمن شودروں کے ساتھ نہ کھانا کھا سکتے تھے نہ پانی پی سکتے تھے اور بچوں کی شادیاں بھی اپنی ذات کے اندر ہی کی جاتی رہی ہیں۔روایتی طور پر اونچی ذات کے ہندوؤں کو بہت سے صوابدیدی اختیار حاصل رہے ہیں جبکہ نچلی ذات کے ہندوؤں پر طرح طرح کی پابندیاں کا سامنا رہا ہے۔
ذات پات پر مبنی تقسیم پربھارتی آئین کیا کہتا ہے؟
آزادی کے بعد سے ڈاکٹر امبیدکر کے لکھے بھارت کے آئین میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق پر پابندی ہے۔ تاریخی لحاظ سے ہونے والی ناانصافیوں کے ازالے کے لیے شیڈیول ذاتوں اور قبائل کے لیے 1950 میں حکومتی نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوں میں کوٹے کو متعارف کرایا گیا۔ 1989 میں او بی سیز یا دیگر پسماندہ کلاسوں کو بھی اس کوٹے میں شامل کر دیا گیا تاکہ اونچی ذاتوں کے مقابلے میں ان کی پسماندگی کو ختم کرنے میں مدد ملے۔حالیہ دہائیوں میں سیکولر تعلیم کے فروغ اور شہری زندگی میں ترقی کے باعث ذات پات کے اثر میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس میں شہروں میں رہنے والی آبادی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کیوںکہ شہروں میں مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندو ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور ایک ذات کے نوجوانوں کی دوسرے ذات میں شادیاں عام ہیں۔کئی جنوبی ریاستوں اور بہار میں سماجی اصلاح کی تحریکوں کے اثر میں ذات پات کی نشاندہی کرنے والے ناموں کا استعمال بند کر دیا ہے۔لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود ذات پات کی بنیاد پر شناخت ابھی بھی مضبوط ہے اور خاندانی نام ہمیشہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کوئی شخص کس ذات سے تعلق رکھتا ہے۔


متعلقہ خبریں


طالبان نے 5لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے ،برطانوی میڈیا کا دعویٰ وجود - هفته 19 اپریل 2025

  ہتھیار طالبان کے 2021میں افغانستان پر قبضے کے بعد غائب ہوئے، طالبان نے اپنے مقامی کمانڈرز کو امریکی ہتھیاروں کا 20فیصد رکھنے کی اجازت دی، جس سے بلیک مارکیٹ میں اسلحے کی فروخت کو فروغ ملا امریکی اسلحہ اب افغانستان میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کے پاس بھی پہنچ چکا ہے ، ...

طالبان نے 5لاکھ امریکی ہتھیار دہشت گردوں کو بیچ دیے ،برطانوی میڈیا کا دعویٰ

وزیر خارجہ کادورہ ٔ کابل ،افغانستان سے سیکورٹی مسائل پر گفتگو، اسحق ڈار کی اہم ملاقاتیںطے وجود - هفته 19 اپریل 2025

  اسحاق ڈار افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند ، نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر سے علیحدہ، علیحدہ ملاقاتیں کریں گے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی کریں گے ہمیں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہے ، افغانستان میں سیکیورٹی...

وزیر خارجہ کادورہ ٔ کابل ،افغانستان سے سیکورٹی مسائل پر گفتگو، اسحق ڈار کی اہم ملاقاتیںطے

بلاول کی کینالز پر شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی وجود - هفته 19 اپریل 2025

  ہم نے شہباز کو دو بار وزیراعظم بنوایا، منصوبہ واپس نہ لیا تو پی پی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی سندھ کے عوام نے منصوبہ مسترد کردیا، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے...

بلاول کی کینالز پر شہباز حکومت کا ساتھ چھوڑنے کی دھمکی

کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں،وزیراعظم وجود - هفته 19 اپریل 2025

قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو آمدن میں اضافہ کرنا ہوگا ورنہ قرضوں کے پہاڑ آئندہ بھی بڑھتے جائیں گے ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا سفر شروع ہوچکا، یہ طویل سفر ہے ، رکاوٹیں دور کرناہونگیں، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فی...

کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فیصلے ناگزیر ہیں،وزیراعظم

سندھ میں مقررہ ہدف سے 49فیصد کم ٹیکس وصولی کا انکشاف وجود - جمعه 18 اپریل 2025

  8ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6کھرب 14ارب 55کروڑ روپے تھا جبکہ صرف 3کھرب 11ارب 4کروڑ ہی وصول کیے جاسکے ، بورڈ آف ریونیو نے 71فیصد، ایکسائز نے 39فیصد ،سندھ ریونیو نے 51فیصد کم ٹیکس وصول کیا بورڈ آف ریونیو کا ہدف 60ارب 70 کروڑ روپے تھا مگر17ارب 43کروڑ روپے وصول کیے ، ای...

سندھ میں مقررہ ہدف سے 49فیصد کم ٹیکس وصولی کا انکشاف

عمران خان کی زیر حراست تینوں بہنوں سمیت دیگر گرفتار رہنما رہا وجود - جمعه 18 اپریل 2025

  عمران خان کی تینوں بہنیں، علیمہ خانم، عظمی خان، نورین خان سمیت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر،صاحبزادہ حامد رضا اورقاسم نیازی کو حراست میں لیا گیا تھا پولیس ریاست کے اہلکار کیسے اپوزیشن لیڈر کو روک سکتے ہیں، عدلیہ کو اپنی رٹ قائ...

عمران خان کی زیر حراست تینوں بہنوں سمیت دیگر گرفتار رہنما رہا

روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا وجود - جمعه 18 اپریل 2025

روس نے 2003میں افغان طالبان کو دہشت گردقرار دے کر متعدد پابندیاں عائد کی تھیں 2021میں طالبان کے اقتدار کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہوئی روس کی سپریم کورٹ نے طالبان پر عائد پابندی معطل کرکے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نام نکال دیا۔عالمی خبر رساں ادارے کے ...

روس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال دیا

حکومت کا ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ وجود - جمعه 18 اپریل 2025

وزیراعظم نے معیشت کی ڈیجیٹل نظام پر منتقلی کے لیے وزارتوں ، اداروں کو ٹاسک سونپ دیئے ملکی معیشت کی ڈیجیٹائزیشن کیلئے فی الفور ایک متحرک ورکنگ گروپ قائم کرنے کی بھی ہدایت حکومت نے ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ کر لیا، اس حوالے سے وزیراعظم نے متعلقہ وزارتوں ا...

حکومت کا ملکی معیشت کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز کرنے کا فیصلہ

وفاق صوبے کے وسائل پر قبضے کی کوشش کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  فاٹا انضمام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ تھی اور اس کے پیچھے بیرونی قوتیں،مائنز اینڈ منرلز کا حساس ترین معاملہ ہے ، معدنیات کے لیے وفاقی حکومت نے اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے ، 18ویں ترمیم پر قدغن قبول نہیں لفظ اسٹریٹیجک آنے سے سوچ لیں مالک کون ہوگا، نہریں نکالنے اور مائنز ا...

وفاق صوبے کے وسائل پر قبضے کی کوشش کررہا ہے، مولانا فضل الرحمان

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کی تیاریاں وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  قابل ٹیکس آمدن کی حد 6لاکھ روپے سالانہ سے بڑھانے کاامکان ہے، ٹیکس سلیبز بھی تبدیل کیے جانے کی توقع ہے ،تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے تجاویز کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہوگی انکم ٹیکس ریٹرن فارم سادہ و آسان بنایا جائے گا ، ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کی جائے گی، ب...

بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے بڑے ریلیف کی تیاریاں

جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ،سلمان اکرم راجہ وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان اور سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ عمران خان کو فیملی اور وکلا سے نہیں ملنے دیا جا رہا، جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بانی سے ملاقات کیلئے بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن...

جیل عملہ غیر متعلقہ افراد کو بھیج کر عدالتی حکم پورا کرتا ہے ،سلمان اکرم راجہ

ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ،وزیر آبپاشی کا وفاق کو احتجاجی مراسلہ وجود - جمعرات 17 اپریل 2025

  پنجاب، جہلم چناب زون کو اپنا پانی دینے کے بجائے دریا سندھ کا پانی دے رہا ہے ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ، سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے ، وزیر آبپاشی جام خان شورو سندھ حکومت کے اعتراضات کے باوجود ٹی پی لنک کینال سے پانی اٹھانے کا سلسلہ بڑھا دیا گیا، اس سلسلے میں ...

ٹی پی لنک کینال کو بند کیا جائے ،وزیر آبپاشی کا وفاق کو احتجاجی مراسلہ

مضامین
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم وجود هفته 19 اپریل 2025
وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر