وجود

... loading ...

وجود

ایل این جی اورہماری قنوطیت

جمعه 30 دسمبر 2016 ایل این جی اورہماری قنوطیت

ہمارے دوست جناب خوشنود باجوہ اپنی اولاد کی محبت میں کچھ سالوں سے آسٹریلیا اور پاکستان کے درمیان شٹل کاک بنے ہوئے ہیں۔ اولاد سے محبت ہے اس لیے اسے چھوڑنے کو ان کا دل نہیں کرتا اور پاکستان ان کو نہیں چھوڑتا۔اس دفعہ آسٹریلیا سے واپس آتے ہوئے اپنی زنبیل میں بہت سی دور کی کوڑیاں بھر کر لائے ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آسٹریلیا نے اپنی ایل این جی ٹیکنالوجی میں پائی جانے والی خرابیاں، کمیاں اور کوتاہیاں دور کر لی ہیں ، اور اب وہ دنیا کے سب سے بڑے ایل این جی برآمد کنندہ کے طور پر عالمی مارکیٹ میں ایسی تباہی مچانے آرہا ہے جو کسی بیل کے آئینہ فروش کی دکان میں گھس آنے سے ہوسکتی ہے۔ ہمارے لیے یہ ایک حیرت انگیز خبر ہے۔ خبر تو ویسے ہوتی ہی وہ بات ہے جو حیرت انگیز ہو۔
کوئی چھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ بین الاقوامی اقتصادی خبریں دینے والے امریکی ادارے بلوم برگ نے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی جس کا محور اور حاصل مضمون یہ تھا کہ دنیا بھر میں صاف ترین ایندھن مانی جانے والی ایل این جی کی عالمی منڈی اب ’’خریدار کی منڈی‘‘ بننے جا رہی ہے کیوں کہ مختلف نئے کھلاڑیوں کی طرف سے ایل این جی کی پیداوار میں بے پناہ اضافے سے اس کی عالمی قیمتیں اس قدر گر جائیں گی کہ اس کی قیمت کا تعین فروخت کنندگان نہیں بلکہ خریدار کیا کریں گے۔ خبر تحریر کرنے والے صحافی نے مزید یہ بھی بتایا کہ قطر جو اب تک اس شعبے میں دنیا کا امام چلا آرہا تھا ، اس کی اجارہ داری کو امریکا نے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو اپنی ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد عالمی منڈی میں ایل این جی کے سب سے بڑے برآمد کنندہ کے طور پر داخل ہونے کو ہے۔اور یہ کہ امریکا اور دیگر کھلاڑیوں کی اس شعبے میں داخل ہونے سے ایل این جی کی عالمی منڈی میں فراہمی اس کی موجودہ ’’مانگ‘‘ سے تین گنا زائد ہو جائے گی۔اس کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صنعت و حرفت کے مزید شعبوں میں ایل این جی کو ایندھن کی دوسروں قسموں کی جگہ استعمال کر کے اس کے استعمال کو مزید بڑھاوا دیا جائے، جس کے لیے موجودہ ٹیکنالوجی میں کچھ تبدیلیاں لانا ہوں گی اور یہ عمل وقت لے گا۔
یاد رہے کہ موجودہ دہائی کی ابتدا میں امریکیوں نے خام تیل پر اپنا انحصار کم کرتے ہوئے مقامی طور پر تیار کردہ ایل این جی نامی ایندھن کو پٹرول پمپوں تک پہنچا کر اسے گاڑیوں میں بھرنا شروع کر دیا ہے جس کا سیدھا مطلب تھا کہ امریکا میں گاڑیوں سے پٹرول اور ڈیزل کی کلی نہیں توجزوی چھٹی۔ اس طرح وہ ایندھن کی ضروریات میں خودکفیل ہونے کے باعث تیل کی مقامی پیداوار میں کمی کے باعث عالمی منڈی سے جو تیل خریدتا ہے، اسے اب اس کی ضرورت نہیں رہی اور یوں وہ عالمی منڈی سے نکل گیا ہے۔ یہ امریکا کی اس طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ تھا جو اس نے گزشتہ دہائی میں تیل کی عالمی منڈی میں تاریخی اضافے کے بعد ترتیب دی تھی، اور جس کے تحت تیل کی عالمی قیمتیں ڈیڑھ سو ڈالر فی بیرل سے بھی بڑھ گئی تھیں ۔قیمتوں میں اس چڑھاؤ کو چینی سٹے بازوں کی سرگرمیوں کا نتیجہ قرار دیا گیا جن کے پاس امریکیوں سے کمائے گئے ڈالروں کی بوریاں تھیں اور جنہوں نے اس شعبے میں کئی دہائیوں سے سرگرم امریکی اور یورپی سٹے بازوں کو بھی گھما کر رکھ دیا تھا۔
اس سے پہلے امریکی کوئلے پر چلنے والے اپنے بجلی گھروں کو بھی ایل این جی ایندھن پر منتقل کرچکے تھے ، یاد رہے کہ امریکا اپنی بجلی کی ضروریات کا چالیس فی صد کوئلے سے پیدا کرتا تھا۔ ان دونوں خبروں سے عالمی منڈی میں ایندھن کے دو اہم ذرائع، یعنی خام تیل اور کوئلے کی قیمتیں آدھی سے بھی کم رہ گئی تھیں، یعنی بقول شخصے ’کریش ‘ کر گئی تھیں۔
اب ہوا یوں کہ امریکا کے اس اعلان کے نتیجے میں کہ وہ ایل این جی کا عالمی برآمد کنندہ بننے جا رہا ہے، بین الاقوامی سطح پر ایل این جی کی اوسط قیمت چار ڈالر تک گر گئی تھی، لیکن بلوم برگ کے تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی تو یہ قیمتیں تین ڈالر تک گر سکتی ہیں۔ اب اگر یہ تجزیہ درست ہے تو آسٹریلیا کی اس منڈی میں آمد سے بات دو ڈالر تک گر سکتی ہے ،کیوں کہ بھارت میں خاصے بحث مباحثے چل رہے ہیں کہ بھارت نے ایران کو چاہ بہار بندرگاہ بنا کر دی ہے، اس لیے بھارت کو ایران سے ایل این جی دو ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر لینے پر اصرار کیا جائے۔ اس لیے دو ڈالر کا نرخ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونا چاہیے۔
باجوہ صاحب کا خیال ہے کہ آسٹریلیا اب امریکا سے بھی بڑے برآمد کنندہ کے طور پرعالمی منڈی کا دروازہ کھٹکھٹا نے والا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر ایل این جی کی قیمتیں دو ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک بھی گر جائیں گی اور یوں پاکستان کے علاوہ تیسری دنیا کے ممالک کی لاٹری لگ سکتی ہے۔ لیکن ہم کیا کریں ہم ٹھہرے سداکے قنوطی، ہمیں ہر وقت یاد آجاتا ہے کہ ہم نے ساڑھے پانچ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر قطر سے ایل این جی خریدنے کے لیے پندرہ سال کا معاہدہ کیا ہوا ہے اور ہم قیمتوں میں اس بین الاقوامی کمی کا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے کیوں کہ ہم نے اپنی قوم کا قیمتی زرمبادلہ قطریوں کو ’’دیدہ ‘‘اور ’’نادیدہ ‘‘ خدمات کے عوض بخش دیا ہے۔
ہمارے خوشنود باجوہ صاحب کسی آف شور کمپنی کا ذکر بھی کرتے ہیں، جو پاکستانی کو ایل این جی کی فراہمی کے سودے میں ملوث ہے اور جس کو ہماری ایس این جی پی ایل اور پی ایس او مقامی طور پر ایل این جی خریدنے کے خواہش مند گاہکوں سے پیشگی ڈالرپکڑ کر دیتے ہیں اور پھر ہمارا ایل این جی ٹرمینل جھومتا جھامتا ، تیرتا ہوا قطر جاتا ہے اور ایل این جی بھر کے لے آتا ہے۔ اس کمپنی کے حوالے سے وہ میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور میاں شہباز شریف کے صاحبزادے کے نام ہائے نامی لیتے پائے جاتے ہیں اور پھر خیر اپنے سیف الرحمن تو ہیں ہی ، انہیں ہم نے وہاں بٹھایا ہی اسی لیے ہے۔
لیکن کیا کریں ہم بغیر تنخواہ کے نواز شریف کے سکہ بند ایجنٹ ہیں، اس لیے ہم باجوہ صاحب کی اس طرح کی باتوں کو سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ تین گنا مہنگے ایندھن پر صنعت چلانے والے ہمارے برآمد کنندگان نے کیا عالمی منڈی میں خاک مقابلہ کرنا ہے؟ اس لیے بہت عرصے سے اپنی اس نام نہاد ایجنٹی کوبرقرار رکھتے ہوئے اس موضوع پر لکھنے سے احتراز کیا ، لیکن اب جلے دل کا پھپھولا پھوٹ پڑا ہے۔ مودی نے ایل این جی کی سب سے بڑی ڈیل جو امریکا سے کی ہے وہ بھی چار ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو پر کی ہے۔ اس معاہدے کو بھارتی حزبِ اختلاف نے بھارت کی طرف سے امریکا کو ایٹمی معاہدے کی رشوت قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاتھ تو اس قسم کا کوئی معاہدہ بھی نہیں آیا تو پھر ہم کیا کریں، کس دیوار کے ساتھ جا کر سر پھوڑیں؟
پھر ہمارے اندر سے میاں نواز شریف کا ایجنٹ فوراً بیدار ہوا اور دلیل دی کہ دیکھوناں !اس گیس کی قیمت تیل کی عالمی منڈی کے چودہ فیصد پر طے کی گئی تھی، اس لیے جیسے ہی تیل کی قیمت کم ہو گی اس کی اوسط سالانہ قیمت نکال کر ہم بھی اس ایندھن میں کمی کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ہم نے فوراً ہی اس ایجنٹ کا مکو ٹھپ دیا کہ بھائی جان کم از کم ڈیڑھ سال تو اس ایل این جی کی درآمد ہوتے ہوئے ہوگیا ہے لیکن کسی نے بھی ساڑھے پانچ ڈالر والے نرخوں میں کمی کی بات نہیں کی۔ ویسے بھی اب ایل این جی کی عالمی منڈی باقی ایندھنوں سے الگ ہو گی اور اس کی وجہ اس شعبے میں اوپیک کے ممبران کے علاوہ دیگر کھلاڑی بھی شامل ہیں اور اس کا شائد کوئی تعلق بھی تیل کی عالمی منڈی سے نہ ہو۔
ہاں اس کی ایک صورت ہو سکتی ہے۔میاں صاحبان اپنے بچوں کی کمپنی کے ذریعے ایل این جی منگوا کر پنجاب میں لگنے والے بجلی گھروں سے بجلی بنا کر مہنگی بجلی ، قومی خزانے سے اربوں روپے زر تلافی دے کرصارفین کو سستی کرکے فراہم کرتے رہیں اور اس ملک کے بدقسمت صنعت کاروں کو براہِ راست عالمی منڈی سے ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت مرحمت فرما دیں جیسا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مطالبہ بھی کرچکے ہیں جس کی تاحال حکومت نے اجازت نہیں دی۔ ایس این جی پی ایل کی کرپشن، نااہلی اور چوری کی سزا صارفین کو دینا اور پھراس کے ساتھ ساتھ اپنا رزقِ حلال بھی ان ہی سے وصول کرنا ،کہاں کا انصاف ہے؟
٭٭


متعلقہ خبریں


پیٹرولیم صارفین پر ظلم‘دیگر ممالک کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ قیمتیں ادا کرنے پر مجبور شہلا حیات نقوی - جمعرات 30 مارچ 2017

ایک ایسے وقت جب پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں روبہ زوال ہیں اور تیل کی قیمتوں میں تیزی سے ہونے والی کمی کے سبب تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک معاشی انحطاط کا شکار ہیں اور معاشی مشکلات پر قابو پانے کے لیے اپنے اخراجات میں کٹوتی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں، پاکستان میں حکومت تیل کی قیمتوں ...

پیٹرولیم صارفین پر ظلم‘دیگر ممالک کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ قیمتیں ادا کرنے پر مجبور

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر