... loading ...
دو روز گزر گئے، ہیڈ آفس سے لیٹر نہ آیا ہم روز صبح صبح مصری منیجر کے پاس پہنچ کر پوچھتے کیا جواب آیا اور وہ کہتا ابھی کوئی جواب نہیں آیا ۔ہم کہتے ہیڈ آفس فون کرکے پوچھیں، وہ کہتا معلوم کیا ہے ایک دو روز میں جواب آ جائے گا۔تیسرے روز بھی یہی ہوا جس کے بعد ہم چپ چاپ اپنے دفتر میں جا کر کام میں لگ گئے۔ دوپہر کو ایک بجے کے قریب مصری منیجر نے ہمیں بلوایا ، ہم دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے دفتر میں پہنچے ہمیں اندازہ تھا کہ ہیڈ آفس سے جواب آ گیا ہے اس لیے ہمیں بلوایا گیا ہے لیکن جواب کیا ہوگا یہ سوچ ہمیں پریشان کر رہی تھی۔ اگر ہماری درخواست مسترد ہو گئی تو کیا ہوگا۔ ہمارے لیے کیمپ میں رہناسوہان روح بنا ہوا تھا۔ ایسے میں ہیڈ آفس کی منظوری امید کی آخری کرن تھی ،یہ کرن بھی نظر نہ آتی تو آس کا سورج ہی ڈوب جاتا۔ ہم مصری منیجر کے سامنے رکھی کرسی پربیٹھ گئے، ہماری نظریں اس کے چہرے پرسوالیہ نشان کی طرح گڑی تھیں۔ مصری منیجر کے چہرے پر سنجیدگی پھیلی ہوئی تھی ،ہم نے اس کے چہرے کے تاثرات سے ہیڈ آفس سے آنے والے جواب کا اندازہ لگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ ہمارا دل عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا، ایک نامعلوم دھڑکا لگا ہوا تھا۔ مصری منیجر کچھ دیر ہماری کیفیت کا جائزہ لیتا رہا پھر اس نے سکوت توڑ دیا۔ تمہاری درخواست کا جواب آگیا ہے ہیڈ آفس نے تمہاری رہائش تبدیل کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ہم نے پوچھا کیا سچ میں ہیڈ آفس نے ہماری درخواست منظور کرلی ہے ۔مصری منیجر نے کہا ہاں ایسا ہی ہے پھر اس نے دراز سے ہیڈ آفس کا لیٹر نکال کر ہمیں دکھایا۔ ہماری خوشی کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں تھا، ہم کرسی سے کھڑے ہو گئے اور مصری منیجرکا شکریہ ادا کرنے لگے۔ منیجر نے ہمارا کاندھا تھپ تھپایا اور کہا جا کر کیمپ سے اپنا سامان لے آؤ اور آج ہی نسیم شرقی شفٹ ہو جاؤ، میں نے وہاں فون کردیا ہے، تمہاری رہائش کا انتظام ہوگیا ہوگا۔ ہم یہ خوش خبری دینے سیدھا جلال صاحب کے پاس پہنچے، انہیں بتایا کہ ہماری درخواست منظور ہو گئی ہے اور ہم آج ہی نسیم کے ولا میں شفٹ ہو رہے ہیں۔ جلال صاحب بہت خوش ہوئے ،بولے میاں اب تو تم ہمارے ساتھ ہی جایا کرو گے راستے میں بھی گپ شپ رہے گی۔ ہم ڈرائیور کے ساتھ کیمپ پہنچے، سامان کیا تھا ایک سوٹ کیس ہی تھا، وہ اٹھاکر گاڑی میں رکھ لیا۔ ہم نے سوچا گلزار سے بغیر ملے جانا بہت بری بات ہوگی ویسے بھی اس کے خلوص کا تقاضہ تھا کہ ہم اس سے مل کر اور اس کی میزبانی کا شکریہ ادا کرکے جاتے۔ ہم نے ڈرائیور سے جنادریہ بازار چلنے کا کہا، گلزار کی دکان پر پہنچے لیکن گلزار موجود نہیں تھا، دکان کھلی ہوئی تھی اس کا مطلب تھا کہ وہ کہیں قریب ہی گیا ہے اور جلدی واپس آجائے گا۔
ہم نے ڈرائیور سے تھوڑا انتظار کرنے کیلیے کہا لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ابھی واپسی کی شفٹ بھی اٹھانی ہے اس لیے نہیں رک سکتا۔ گلزار کے نہ ملنے کا افسوس تھا، اس کو خدا حافظ کہے بغیر جانے کا دل نہیں چاہ رہا تھا لیکن مجبوری تھی۔ گاڑی کالج کی جانب دوڑنے لگی۔
کالج سے گاڑی میں نسیم ولا کے لوگ اور شہر کی جانب جانے والے سوار ہوگئے، جلال صاحب ہمارے برابر میں بیٹھ گئے۔ ہم چپ چاپ بیٹھے تھے، جلال صاحب بولے میاں اب کیا ہوا اب تو تم نسیم ولا میں رہنے جا رہے ہو، اب کس بات پر چپ لگی ہے۔ ہم نے گلزار سے بغیر ملے آنے کا بتایا، جلال صاحب بولے ارے بھائی نسیم ولا کون سا دور ہے اور تم نے روز کالج آنا ہی ہے کسی بھی دن جا کر گلزار سے مل لینا، اتنی سی بات پر کیوں موڈ خراب کر کے بیٹھے ہو۔ یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں تھا کہ گلزار کون سا بھاگا جا رہاہے اور ہم کونسا کسی دوسرے شہر جا رہے ہیں، گلزار جنادریہ میں ہے اور کالج بھی جنادریہ میں ہے ،ہم کل جا کر اس سے مل لیں گے، رہائش کی تبدیلی کا بھی بتا دیں گے اور اس کی میزبانی اور خلوص کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کر دیں گے۔ ہم مطمئن ہو گئے تھے ،اس لیے جلال صاحب سے گپ شپ میں لگ گئے۔ پندرہ بیس منٹ میں گاڑی نسم ولا پہنچ گئی۔ ہم نے جلال صاحب کو خدا حافظ کہا، سوٹ کیس اٹھایا اور ولا میں داخل ہو گئے۔ یہاں ہمیں عبدالقدوس سے ملنا تھا جو یہاں کا انچارج تھا۔ ہم اس کا کمرہ تلاش کرتے ہوئے وہاں تک پہنچ گئے۔ عبدالقدوس چھوٹے قد،سانولی رنگت کے بے زار سے نظر آنے والے شخص تھے ان کا تعلق بنگلا دیش سے تھا۔ ہم نے بتایا کہ ہمیں یہاں شفٹ کر دیا گیا ہے، اس لیے انہیں ہماری رہائش کا انتظام کرنا ہے ،بولے ہاں فون آگیا تھا تم کو پاکستانی لوگوں کے ساتھ شفٹ کر رہا ہوں۔ ہم سمجھے جن سے ہم پہلے مل چکے ہیں ان ہی کے ساتھ رہنے کا انتظام کیا گیا ہوگا۔ عبدالقدوس نے ہمیں سامان اٹھا کر اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ہم اس کے پیچھے چل پڑے، وہ دوسرے ولا میں پہلی منزل پر ایک کمرے کے دروازے پر جا کر رک گیا اور ہم سے کہا یہ کمرہ ہے ،تم ادھر رہے گا۔ یہ وہ کمرہ نہیں تھا جہاں ہمیں وہ تین پاکستانی ملے تھے ان کے کمرے تو پہلے ولا کی چھت پر تھے۔ ہم نے دروازے پر دستک دی کوئی جواب نہیں ملا ،دوسری بار ہم نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔۔۔ جاری ہے
سعودی عرب اورخلیج کی بعض دیگر ریاستوں کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان کیلئے اس خطے میں اپنی حیثیت خاص طورپر خطے میں توازن پیداکرنے والی قوت کے طورپر اپنی حیثیت برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔اب سے پہلے شاید کبھی بھی اس طرح کی مشکل صورت حال کاتصور بھی نہ کیاگیاہوگا۔ نواز ...
تازہ ترین اطلاعات سے انکشاف ہواہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خفیہ طورپر گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد کے طیارے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ حکومت کے خلاف نبرد آزما مجاہدین پر اندھادھن...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...