... loading ...
اگلے روز کالج پہنچ کر ہم پھر مصری منیجر کے پاس پہنچ گئے اور اس کو بتایا کہ نسیم شرقی کے ولا میں پاکستانی رہتے ہیں اور ہم کو وہاں شفٹ کردیا جائے۔ وہ بولا تمہیں وہاں شفٹ کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے، ہم نے پوچھا پھر کس کے اختیار میں ہے؟ کہا ہیڈ آفس سے بات کرنا ہوگی، ہم نے کہا تو جناب ہیڈ آفس میں بات کریں کیونکہ ہمارے لیے جنادریہ کیمپ سائٹ پر رہنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ مصری منیجر ہیڈ آفس بات کرنے کے لیے راضی ہو گیا۔ ہم وہاں سے واپس اپنے دفتر میں آگئے، ہمارا موڈ آف تھا ہمارے باس سیمی نے ہمیں کام پر توجہ دینے کا مشورہ دیا۔ ہمارا موڈ تو کئی روز سے خراب چل رہا تھا سیمی کا مشورہ ہمیں برا لگا، ہم اٹھ کر باہر نکلے اور جلال صاحب کی طرف چلے گئے۔ وہ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے، ہمارا اترا ہوا منہ دیکھا تو سمجھانے لگے ،بولے میاں ایسے نہیں چلے گا یہاں کام کرنے کے لیے آئے ہو، اس لیے کام کرو یہاں کام نہ کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ہم نے کہا جلال صاحب ہم نے کب کام کرنے سے انکار کیا ہے ہمیں تو رہائش کے حوالے سے شکایت ہے۔ کیمپ میں رہائش اچھی نہیں، دوسرے کوئی پاکستانی نہیں ، وقت گزارنا بہت مشکل ہورہا ہے، ہمارا تو دل یہی کر رہا ہے کہ کسی طرح واپس چلے جائیں۔ جلال صاحب نے کہا یہ اتنی آسانی سے نہیں جانے دیں گے،پاسپورٹ ان کے پاس ہے، صبر شکر سے کام لو میاں اب تو تین سال بعد ہی واپسی ہو سکتی ہے۔ جلال صاحب اپنے کام میں لگ گئے ،ہم کچھ دیر بیٹھ کر واپس اپنے دفتر پہنچے جہاں سیمی کا موڈ مزید آف ہو چکا تھا۔ اس نے کہا کہاں گئے تھے اور کام چھوڑ کر کیوں گئے تھے۔ ہم چپ رہے ،سیمی نے مزید کچھ سخت باتیں کیں جن کا ہم نے جواب نہیں دیا اور چپ چاپ کام میں لگ گئے۔ چھٹی کے وقت ہم پھر مصری منیجر کے پاس پہنچ گئے اس سے پوچھا کہ اس کی ہیڈ آفس بات ہوئی یا نہیں۔ مصری منیجر نے کہا اس نے ہیڈآفس سے منظوری کے لیے لیٹر لکھ دیا ہے، دو ایک روز میں جواب آجائے گا، ہم نے پوچھا کیا درخواست منظور ہو جائے گی، مصری منیجر نے کہا میں نے زور تو دیا ہے جواب کا انتظار کرو۔ہم کیمپ واپس پہنچے تو موڈ سخت خراب تھا،اپنے کیبن میں جا کر لیٹ گئے، کھانا بھی نہیں کھایا، طبیعت بوجھل ہو رہی تھی، ان حالات میں جانے کب آنکھ لگ گئی۔ کوئی زور زور سے دروازہ پیٹ رہا تھا جس کی آواز سے آنکھ کھل گئی، دروازہ کھولا تو سامنے گلزار کھڑا تھا۔ بولا بھائی کیا حالت بنائی ہوئی ہے آپ نے، کئی روز سے میری طرف چکر بھی نہیں لگایا تو میں آج دکان بند کرکے خود ہی آگیا۔ ہم نے شرمندگی کے ساتھ گلزار کا استقبال کیا اسے کیبن میں بٹھایا، رات کے ساڑھے نو بج رہے تھے ،ہماری حالت بھوک سے خراب تھی، کیبن میں جوس اور بن رکھے تھے گلزار کو جوس پیش کیا اور خود جوس اور بن کھانے بیٹھ گئے۔
گلزار نے کہا بھائی لگتا ہے آپ نے کھانا بھی نہیں کھایا ،کم سے کم کھانا کھانے ہی آجاتے۔ ہم نے کہا خان صاحب تھے تو کھانا ہم یہیں بنا لیتے تھے، ہم تمہاری طرف بھی اس لیے نہیں آرہے تھے کہ خان صاحب ساتھ ہوتے تھے اور تماری شائد خان صاحب سے نہیں بن رہی تھی۔ گلزار بولا بھائی پردیس ہے یہاں کسی سے بنے نا بنے، گزارا کرنا ہوتا ہے۔ آپ آجاتے تو اچھا ہوتا خیر اب دکان پر چلیں سالن رکھا ہے ،بقالے سے روٹی لے لیں گے آپ کھانا تو کھا لیں۔ ہم نے کہا گلزار تہمارے خلوص کا قرض ہم نہیں اتار سکتے لیکن اس وقت کہیں جانے کی ہمت نہیں ہے بن سے کام چل جائے گا، کل کھانا تمہارے ساتھ ہی کھائیں گے۔ ہم نے گلزار کو بتایا کہ ہم نے رہائش تبدیل کرنے کی درخواست دے دی ہے، منظور ہو گئی تو ہم ایک دو روز میں نسیم شرقی شفٹ ہو جائیں گے۔وہاں کچھ پاکستانی بھی ہیں۔ گلزار بولا چلیں اچھا ہے آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن جب تک آپ یہاں ہیں کھانا آپ نے میرے ساتھ ہی کھانا ہے۔ گلزار رخصت ہوا تو ہماری نیند بھی رخصت ہو چکی تھی۔ کافی دیر کروٹیں بدلتے رہے لیکن نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ ذہن میں سوچوں کی آندھی چل پڑی تھی، گھر کی یاد، محلے پڑوس کے دوست، دفتر کے ساتھی ، اپنے شہر کی گلیاں سب یاد آرہا تھا۔ اچھے مستقبل کی امید سعودی عرب کھینچ لائی تھی لیکن یہاں کے حالات نے مستقبل کی تصویر کو دھندلا کر دیا تھا،تین سال بعد کیا حالات ہوں گے، گھر والوں کی توقعات کیا ہوں گی، ہم کتنے پیسے بچا پائیں گے،یہاں تین سال کا کنٹریکٹ مکمل کرنے کے بعد کیا ہوگا۔ کیا ہم کو واپس پاکستان جانا پڑے گا یا یہیں کوئی دوسری نوکری کا انتظام ہو جائے گا۔ ہم نے سوچا جو ہوگا دیکھا جائے گا ابھی تو یہاں رہائش کا مسئلہ حل ہو جائے تو آگے کی آگے دیکھی جائے گی، اسی ادھیڑ بن میں آخر نیند آگئی۔۔۔ جاری ہے
سعودی عرب اورخلیج کی بعض دیگر ریاستوں کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان کیلئے اس خطے میں اپنی حیثیت خاص طورپر خطے میں توازن پیداکرنے والی قوت کے طورپر اپنی حیثیت برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔اب سے پہلے شاید کبھی بھی اس طرح کی مشکل صورت حال کاتصور بھی نہ کیاگیاہوگا۔ نواز ...
تازہ ترین اطلاعات سے انکشاف ہواہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خفیہ طورپر گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد کے طیارے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ حکومت کے خلاف نبرد آزما مجاہدین پر اندھادھن...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...