وجود

... loading ...

وجود

سفر یاد۔۔۔ قسط28

اتوار 18 دسمبر 2016 سفر یاد۔۔۔ 		قسط28

خان صاحب نے کھانا پکانے کا کام اپنے ذمے لے لیا تھا۔ خان صاحب کی وجہ سے ایک ہفتے تک کڑک چائے بھی پینے کو ملتی رہی۔انہوں نے کیمپ کے دیگر مکینوں سے بھی دوستی کر لی تھی جس کی وجہ سے ہماری بھی کئی لوگوں سے سلام دعا ہو گئی تھی۔کھانا ہم مغرب سے پہلے ہی کھا لیتے تھے ،مغرب کے بعد گلزار کی طرف جانا بھی برقرا ر رہا ، ہم گلزار کے لیے بھی کھانا ساتھ لے جاتے تھے۔کالج سے آنے کے بعد وقت اچھا کٹ رہا تھا، لیکن یہ اچھا وقت صرف دس دن ہی برقرار رہا۔ کالج میں ویلڈنگ کا کام ختم ہو چکا تھا جس کے بعد انہیں واپس اپنی سائٹ پرجانا تھا۔دسویں دن خان صاحب ہمارے ساتھ کالج گئے ضرور لیکن واپسی پر ہمارے ساتھ نہیں تھے۔چھٹی کے وقت ان کی سائٹ سے گاڑی نہیں لینے آگئی تھی۔ ہم اور جلال صاحب خان صاحب کو الوداع کہنے کے لیے پارکنگ تک ان کے ساتھ گئے۔عجیب جذباتی ماحول بن گیا تھا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی عزیز بچھڑ رہا ہو، صرف دس دن کا ساتھ تھا ، زبان، تعلیم اور عمروں کا فرق بھی تھا،لیکن صرف پاکستانی ہونے کے ناتے خان صاحب سے ایسا تعلق بن گیا تھا کہ ان کے جانے پر دل اداسی کے اتھا سمندر میں ڈوبتا محسوس ہو رہا تھا۔خان صاحب بالکل نارمل تھے ان کے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ ویسے خان صاحب خوش تھے کہ کام سے جان چھوٹی یہاں کالج میں انہیں ویلڈنگ کا کام کرنا پڑا تھا وہاں اپنی سائٹ پر وہ چائے بناتے تھے پلاتے تھے اور خود بھی چائے پینے میں وقت گزارتے تھے۔ خان صاحب اپنی سائٹ کو وہاں کے دوستوں کو مسِ کر رہے تھے اس لیے یہاں سے جاتے ہوئے ہہت خوش تھے۔
ہمارے لیے شاید خان صاحب کا جانا اس لیے بھی سوہان روح بنا ہوا تھا کہ ان کے جانے کے بعد کیمپ میں پھر اکیلیے پاکستانی رہ جاتے۔ پھر وہی بوریت پھر وہی تنہائی کا احساس ، گلزار ضرور موجود تھا لیکن خان صاحب کے کیمپ میں ہوتے ہوئے ہم نے گلزار کو کچھ نظر انداز کردیا تھا، اب سوچ رہے تھے کہ دوبارہ گلزار کی طرف جائیں گے تو وہ کیا سوچے گا۔ اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ خان صاحب گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی روانہ ہوگئی۔ ہماری آنکھیں بھیگ گئیں۔ جلال صاحب نے ہمیں دلاسے دینا شروع کردیا وہ سمجھا رہے تھے میاں یہ بھی کوئی رونے والی بات ہے پردیس میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں یہاں کوئی دوستیاں اور حالات مستقل نہیں رہتے۔ کیوں دل جلا رہے ہو تم نے یہیں رہنا ہے اور ایسے ہی رہنا ہے اس لے حالات سے سمجھوتہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ خان صاحب کی گاڑی جا چکی تھی،ہماری بس بھی نکل چکی تھی، جلال صاحب کی گاڑی ان کی وجہ سے رکی ہوئی تھی اور جلال صاحب ہماری وجہ سے رکے ہوئے تھے۔
ہم نے کہا جلال صاحب آپ جائیے گاڑی میں سب انتظار کررہے ہیں۔ جلال صاحب نے کچھ سوچاپھر بولے چلو تم بھی ہمارے ساتھ چلو تم کو ریاض شہر دکھاتے ہیں رات کا کھانا بھی ہمارے ساتھ ہی کھانا۔ ہم نے انکار کیا لیکن جلال صاحب کے اصرار کے آگے ہار مان لی۔ ہم اور جلال صاحب گاڑی میں جا بیٹھے۔ گاڑی نے کالج سے نکل کر مکہ روڈ پر دوڑنے لگی۔ یہ کافی چوڑی شاہ راہ ہے جس کے دونوں طرف مشہور کمپنیوں کے دفاتر اور ویئرہاوس بنے ہوئے ہیں، اس سڑک پر گاڑیوں کے مشہور برانڈز کے شو رومز بھی کافی نظر آرہے تھے۔ آگے جا کر شہری آبادی بڑھتی گئی پھر ہم انتہائی گنجان آباد علاقے میں پہنچ گئے۔ ہم بطحہ بازارکے قریب سے گزر رہے تھے یہ وہی جگہ تھی جہاں ریاض آمد کے بعد ہم ایک ہوٹل اپارٹمنٹ میں ٹہرائے گئے تھے۔ ہم بیس دن بعد دوبارہ اس علاقے کو دیکھ رہے تھے لیکن سب کچھ اجنبی لگ رہا تھا، یہاں قریب ہی ہمارے دوست امین کی رہائش تھی، جلال صاحب نے سچ کہا تھا دوست، تعلق، ماحول اور موسم سب بدل جاتے ہیں۔ جلال صاحب ہم سے باتیں کیے جا رہے تھے لیکن ہمارا ذہن کہیں اور کھویا ہوا تھا ہم ہاں ہوں میں جواب دے رہے تھے۔ گاڑی لوگوں کو اتارنے کے لیے کہیں رکتی تھی تو ہماری سوچ کو بھی بریک لگ جاتی ہے۔ بطحہ کے بعد گاڑی میں صرف ہم اور جلال صاحب رہ گئے تھے۔ گاڑی ایک گنجان علاقے کی گلیوں میں گھومتی ہوئی ایک مکان کے سامنے رک گئی، جلال صاحب نے کہا اترو میاں ہمارا گھر آگیا ہے، جلال صاحب نے اس علاقے کا نام منفوحہ بتایا۔ ریاض کی قدیم آبادیوں میں شامل منفوحہ میں زیادہ تر اجنبی یعنی غیر ملکی رہائش پزیر ہیں ،سستا علاقہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی باشندے بھی بڑی تعداد میں اپنی فیملیز کے ساتھ منفوحہ میں رہتے ہیں۔ جلال صاحب نے ہمیں باہر ہی رکنے کا کہا اور خود تالا کھول کر مکان میں داخل ہو گئے۔ کچھ ہی دیر بعد جلال صاحب نے دروازہ کھولا اور ہمیں اندر بلالیا،ہمیں بیٹھک میں بٹھانے کے بعد جلال صاحب خود دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ جلال صاحب کپڑے تبدیل کرکے واپس آئے تو ہم نے پوچھا جلال صاحب آپ یہاں تنہا رہتے ہیں کیا ، آپ نے تو بتایا تھا آپ فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔ جلال صاحب نے کہا میاں تمہاری آنٹی چائے بنا رہی ہیں ابھی لے کر آتی ہیں، ہم نے کہا لیکن دروازہ تو باہر سے بند تھا آپ نے تالا خود کھولا تھا۔ جلال صاحب مسکرائے پھر بولے یہاں ایسا ہی ہوتا ہے،سب دروازے کو باہر سے تالا لگا کر جاتے ہیں۔ خواتین اکیلے باہر نہیں نکلتیں۔ اتنے میں آنٹی چائے لے آئیں، ساتھ میں گرم گرم کباب بھی تھے۔ سلام دعا کے بعد پتہ چلا جلال صاحب نے ہمارا کافی تفصیلی تعارف کروا رکھا تھا، آنٹی نے ہماری ہمت بندھاتے ہوئے پردیس میں حوصلہ نہ ہارنے کی تلقین کی۔ آنٹی کہنے لگیں بیٹا پردیس کاٹنا بہت مشکل ہوتا ہے اب ہمیں ہی دیکھ لو ہم دونوں میاں بیوی یہاں ہیں دو بچے ہیں دونوں ہی لاہور میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ اپنے ددھیال میں رہتے ہیں ہم ہر سال ان سے ملنے جاتے ہیں،جب تک بچے کالج میں تھے گرمیوں کی چھٹیوں میں انہیں یہاں بلوالیتے تھے لیکن اب دونوں کی الگ الگ یونیورسٹی ہے چھٹیاں بھی الگ الگ ہیں اس لیے ہم ہی ان سے ملنے چلے جاتے ہیں۔ مت پوچھو بچوں کے بغیر یہاں زندگی کیسے گزر رہی ہے لیکن مجبوری ہے۔پردیس اسی مجبوری کا نام ہے۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


خلیج تنازع پاک سعودی تعلقات میں نوازشریف بوجھ بننے لگے! ایچ اے نقوی - بدھ 26 جولائی 2017

سعودی عرب اورخلیج کی بعض دیگر ریاستوں کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان کیلئے اس خطے میں اپنی حیثیت خاص طورپر خطے میں توازن پیداکرنے والی قوت کے طورپر اپنی حیثیت برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔اب سے پہلے شاید کبھی بھی اس طرح کی مشکل صورت حال کاتصور بھی نہ کیاگیاہوگا۔ نواز ...

خلیج تنازع پاک سعودی تعلقات میں نوازشریف بوجھ بننے لگے!

سعودی عر ب پریمن کا 63 فیصد تیل چرانے کاالزام وجود - هفته 11 مارچ 2017

تازہ ترین اطلاعات سے انکشاف ہواہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خفیہ طورپر گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد کے طیارے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ حکومت کے خلاف نبرد آزما مجاہدین پر اندھادھن...

سعودی عر ب پریمن کا 63 فیصد تیل چرانے کاالزام

سفر یاد۔۔۔ آخری قسط شاہد اے خان - منگل 31 جنوری 2017

سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...

سفر یاد۔۔۔ 		آخری قسط

سفر یاد۔۔۔ قسط49 شاہد اے خان - پیر 30 جنوری 2017

سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط49

سفر یاد۔۔۔ قسط47 شاہد اے خان - هفته 28 جنوری 2017

اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط47

سفر یاد۔۔۔ قسط46 شاہد اے خان - جمعرات 26 جنوری 2017

ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط46

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔ شاہد اے خان - اتوار 22 جنوری 2017

مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔

سفر یاد۔۔۔ قسط44 شاہد اے خان - جمعه 20 جنوری 2017

صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط44

سفر یاد۔۔۔ قسط43 شاہد اے خان - جمعرات 19 جنوری 2017

نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط43

سفر یاد۔۔۔ قسط42 شاہد اے خان - بدھ 11 جنوری 2017

نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط42

سفر یاد۔۔۔ قسط41 شاہد اے خان - هفته 07 جنوری 2017

رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط41

سفر یاد۔۔۔ قسط40 شاہد اے خان - جمعه 06 جنوری 2017

ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط40

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر