... loading ...
احمد جاوید کے اس قول زریں کا سادہ مطلب یہ ہے کہ انسان ایک مسافر ہے، اور ہر سفر کسی منزل کے لیے ہے اور اس سفر کی منزل وہ خود نہیں ہے۔ اس قول میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ انسان مسافر ہے یا منزل ہے، اور وہ بیک وقت دونوں چیزیں نہیں ہے۔ اس سفر سے انسان کے خود منزل ہونے کا التباس پیدا ہو سکتا ہے، اور اگر انسان خود ہی منزل ہے تو سفر تحصیل حاصل ہے اور لغو ہے۔ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ سفر پر کوئی اختلاف نہیں ہے، منزل میں یقیناً ہے۔ لیکن جدید انسان کمال درّاکی بر وزن سفاکی رکھتا ہے، اور اس نے سفر کو ایک ایسی ہیئت دے دی ہے، جس سے منزل کا تصور ہی غائب ہو گیا ہے۔ اگر مٹی کا کوئی ڈھیلا زور سے پھینکا جائے تو وہ جس راستے سے ہوتا جاتا ہے، اسے trajectory کہتے ہیں۔ جدید انسان تاریخ اور معاشرے میں اپنے سفر کو اب یہی نام دے رہا ہے کیونکہ اس کے سفر کی وجودیات اور حرکیات بھی اب ڈھیلے اور اس کی حرکت جیسی ہے، اور اسے ’’سفر‘‘ کہنا اقداری احتمالات رکھتا ہے، جو جدید انسان کو گوارا نہیں۔ بہرحال اور فی الحال، ہم اس میں نہیں جاتے۔
انسان کے سفر دو طرح کے ہیں، ایک تقدیری اور دوسرا ارادی۔ تقدیری سفر میں سب انسان برابر ہیں۔ انسان ایک ایسی مسافر ’’شے‘‘ ہے جو اپنے خالق کے لیے ہے، اس کے خالق ہی نے اسے یہاں بھیجا ہے، اور اسے اپنے خالق ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، بھلے وہ لوٹنا چاہے یا نہ چاہے، یہ واپسی اس کی تقدیر ہے۔ لیکن یہاں جس سفر کا ذکر ہے وہ ارادی ہے اور اس کی منزل بھی ارادی ہے۔ مراد یہ کہ انسان کا ’’ہونا‘‘ اور داخلی سفر سے کچھ ’’بن جانا‘‘ کیا خود کے لیے ہے، یا اپنے خالق کے لیے؟ انسان کو مخلوق ماننا بے معنی ہے، اگر اس کا اپنے خالق کے لیے ہونا نگاہوں سے اوجھل رہے۔
اس قول زریں کی معنویت ’’انسان کون ہے؟‘‘ کے سوال سے جڑی ہوئی ہے۔ دنیا کا ہر انسان اسی سوال کا چلتا پھرتا جواب ہے۔ انسان ایک وجود ہے، اور وجود بالشعور ہونے کی وجہ سے اصلاً ایک ’’امکانِ وجود‘‘ ہے، اور سفر اسی امکان کی برآری کا عمل ہے۔ اس سوال کا جواب ہی یہ طے کرتا ہے کہ سفر کیسا ہو گا۔ اگر انسان نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ محض ایک مادی وجود ہے، جس پر حیات اور نفس کے اسٹکر صرف زیبائش کے لیے لگے ہوئے ہیں تو اس کے نزدیک خلائی سفر ضروری اور اہم ہے، اور سیر اَنفس محض مذاق ہے۔
’’انسان کون ہے؟‘‘ کے بہت سے جوابات ہیں، اور انسانوں کے مابین تمام مماثلتوں اور امتیازات کی بنیاد ہیں۔ ایک جواب جدید عہد نے بھی دیا ہے۔ یہ جواب اس قول زریں کا حجاب ہے۔ جدید تصورِ انسان اور اس قول میں انسان کا جو تصور مضمر ہے، اس میں کوئی ایک پرت بھی باہم مشترک نہیں ہے۔ جدید آدمی وحی کے بغیر انسان کی جس معنویت تک پہنچا ہے، وہ حیرت انگیز ہے۔ جدیدیت کے آغاز میں، جدید انسان خود کو humanbeing کہتا تھا، یعنی ایسا وجود یا ایسا مظہر وجود جو کہ ’’انسانی‘‘ صورت میں ہے، اور اسی بنا پر جدید فکر میں انسان اور کائنات کی باقی موجودات میں امتیاز کو کچھ عرصہ باقی رکھا گیا۔ جدید انسان کی فکر پر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اس نے اس ترکیب سے human کے لفظ کو حذف کر دیا اور خود کو صرف being یعنی ایک وجود کہنا شروع کر دیا۔ یعنی وہ آخری انکار جو ممکن تھا، وہ اسی human کا تھا اور اب وہ بھی ہو چکا۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں اب انسان بھی عین اسی طرح کا ایک وجود ہے جس طرح بھیڑ بکری، مینڈک چھپکلی، آلو گوبھی، اینٹ روڑا وغیرہ ہے۔ جدید فکری تناظر میں انسان کی سطح وجود کو مادی فرض کیا گیا ہے، اور نفس، ارادے اور شعور کو اسٹکر کی طرح اس پر چپکایا جا رہا ہے۔ انسان اس کائنات کی واحد مخلوق ہے جو اپنے انفس یا، سادہ لفظوں میں روحانی پہلوؤں کی وجہ سے، اپنی سطح وجود کو تبدیل کرنے کا اختیار اور وسائل رکھتی ہے۔ اگر انسان کو محض جسم فرض کر لیا جائے تو اس امکان کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ صاف ظاہر ہے وجود اور شعور کے جدید فکری تناظر میں رہتے ہوئے اس قول کا کوئی معنی نہیں ہے، اور وہ سفر جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ کوئی ارضی یا خلائی سفر نہیں ہے بلکہ اَنفسی ہے اور انسان کی سطح وجود اور اس میں تبدیلی سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ یہ قول صرف اور صرف مذہبی فکر کے اندر رہتے ہوئے بامعنی اور جدید فکر پر نقد ہے۔
مذہبی اور سیکولر تناظر میں ’’انسان کون ہے؟‘‘ کا ایک ہی جواب یا ’’مشترکہ‘‘ جواب ممکن نہیں ہے۔ جدید انسان نے بطور مادی وجود اپنی جو تعریف متعین کی ہے اور اپنے آپ کو جو ’’حقوق‘‘ تفویض کیے ہیں، اس میں انفسی سفر اور روحانی منزل دونوں کا تصور ختم ہو گیا ہے۔ جدید انسان کسی ایسے داخلی سفر پر یقین نہیں رکھتا جو اس کی سطح وجود کو تبدیل کر دے۔ جدید انسان کی سطح وجود مادی ہے اور وہ اپنے حیاتیاتی اور نفسیاتی پہلوؤں کو مادے ہی کے مظاہر قرار دینے پر ایڑی چوٹی کا سائنسی زور لگائے ہوئے ہے۔ جدید انسان حیات اور شعور کے مسئلے کو ایٹموں اور مالیکیولوں کی جمع تفریق سے حل کرنا چاہتا ہے۔ جدید انسان اپنی سطح وجود کے مادی ہونے پر شدت سے مصر ہے اور جو انسان کو پیدائش سے حاصل ہے اور موت پر ختم ہے۔ اس تناظر میں سطح وجود میں ’’تبدیلی‘‘ کا تصور بھی مکمل طور پر مادی ہے، یعنی اچھا برگر کھانے سے، اچھا لباس اور جوتا پہننے سے، ’’چیزیں‘‘ جمع اور استعمال کرنے سے انسان کی سطح وجود ’’تبدیل‘‘ ہو جاتی ہے اور اس میں بہتری کا فرق درجات سے پیدا ہوتا ہے، نوع کا نہیں ہے۔ جدید مادی انسان کی سطح وجود موسمی درجۂ حرارت کی طرح تبدیل ہوتی ہے لیکن اس میں کوئی اقداری فرق واقع نہیں ہوتا۔
انسان کا سفر دراصل اپنی سطح وجود کو تبدیل کرنے کا سفر ہے۔ اقدار یعنی ہدایت کی عطا کردہ تعلیمات اس صعودی سفر کے زینے ہیں اور اس سفر کی منزل حضورِ حق ہے۔ دائمی حضورِ حق کا نام جنت ہے۔ مذہبی انسان اپنے مادی وجود سے سفر کا آغاز کر کے حضور حق کی جس منزل تک پہنچتا ہے اس کی نردبان اقدار ہیں۔ ہدایت کی عطاکردہ جمالیاتی، اخلاقی اور روحانی اقدار دراصل سطح وجود کے مختلف مدارج ہی کا نام ہے۔ ان اقدار کے تحقق سے انسان وجود کی ایک ایسی سطح پر فائز المرام ہو جاتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پاؤں اور آنکھ کان بن جاتا ہے، یعنی وہ حضور حق کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ مذہبی انسان کے نزدیک ’’ہونے‘‘ کے یعنی becoming کے مختلف مدارج ہیں اور ان کے لیے سفر ہے جو ہر سفر کی طرح کٹھن ہے۔ اگر جسم کے لیے خلائی سفر ازحد کٹھن ہے تو حق کے لیے انفسی سفر کو آسان کیونکر فرض کیا جا سکتا ہے؟ اس سفر میں خود کو منزل سمجھنا تو دور کی بات ہے، انسان اگر خود کو دیکھ بھی لے تو راہ کے سارے چراغ گل ہو جاتے ہیں۔ مذہبی تناظر میں انسان کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ خود کو خود کا پائیدان بنا کے حضور حق میں پہنچنے کے سفر کا آغاز کرے۔ اس سفر میں اگر منزل خدا ہے تو وہ اشرف المخلوقات ہے، اور اگر وہ خود کے لیے ہے تو اسفل السافلین ہے۔
قول :احمد جاوید؍ تشریح: محمد دین جوہر