... loading ...
خدا خدا کرکے مغرب کا وقت ہوا، اس دوران خان صاحب بولتے رہے اور ہم سنتے رہے۔ اپنے گاؤں کے قصے ، کراچی میں بیتے دنوں کا احوال اور سعودیہ میں گزرنے والے دنوں کی روداد، لیکن خان صاحب کی گفتگو میں تسلسل نہیں تھا،اس لیے ہماری دلچسپی برقرار نہ رہ سکی۔ہم خالی سر ہلاتے رہے جبکہ بولنے کا کام خان صاحب ہی سرانجام دیتے رہے۔مغرب کا وقت قریب ہوا تو ہم نے خان صاحب سے کہا چلیں نماز کے لیے جنادریہ کی جامع مسجد چلتے ہیں۔نماز پڑھ کر ہم نے گلزار کی دکان کی راہ لی ،خان صاحب ہمارے ہمراہ تھے۔گلزارہمیشہ کی طرح خوش دلی سے ملا۔ ہم نے خان صاحب کا تعارف کروایا ، کچھ دیر گپ شپ کی ، اور دکان کے پچھلے حصے میں جا کر بیٹھ گئے۔ خان صاحب کوبھی ہم نے اپنے پاس بلا لیا۔ گلزار اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ خان صاحب ہمارے کان کھائے جا رہے تھے، اب ان کی گفتگو میں کھانا بھی شامل ہو چکا تھا۔ ہم نے گلزار سے پوچھ کر پیاز ،ٹماٹر وغیرہ کاٹنا شروع کر دیئے، خان صاحب بھی کھانے کی تیاری ہوتی دیکھ کر کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گئے تھے۔ گلزار نے سالن پکانا شروع کیا ، اس دوران ہم روٹیاں لینے بقالے پر چلے گئے ، ہم خان صاحب کوساتھ نہیں لائے تھے۔ یہ سوچ کر کہ چلو کچھ دیر تو سکون سے گزرے ، بقالے میں ہم نے کچھ زیادہ وقت لگا دیا۔ واپس گلزار کی دکان پر پہنچے تو خان صاحب باقائدہ ناراض ہو چکے تھے ،ان کا کہنا تھا ہم انہیں کیوں ساتھ لیکر نہیں گئے ، شائد گلزار ان کی گفتگو میں شریک نہیں ہوا تھا، وہ سالن پکانے اور اپنے کام میں لگا رہا تھا۔ ہم نے خا ن صاحب سے معذرت کی او ر کھانا لگانا شروع کیا۔ گلزار نے مکس سبزی پکائی تھی جو خان صاحب کو زیادہ پسند نہیں آئی۔ کہنے لگے ’’مڑا یہ کیسا پھیکا پھیکا سالن بنایا ہے ،تم کو تو سالن بنانا بھی نہیں آتا‘‘۔ ہم اور گلزار ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ کھانا کھاتے ہی ہم نے واپسی کا ارادہ کیا کیونکہ ہمیں لگ رہا تھا کہ گلزار ہماری وجہ سے پریشان ہو رہاہے۔ ہم نے خان صاحب سے کہا چلیں آپ کو جنادریہ گھماتے ہیں۔ خان صاحب بولے مڑا تمہارے پاس گاڑی تو ہے نہیں کیسے گھمائے گا۔ ہم نے کہا خان صاحب ہمت مرداں مدد خدا ، چھوٹا سا علاقہ ہے ہم پیدل ہی گھوم لیں گے۔ خان صاحب مشکل سے راضی ہوئے۔ ہمارا رخ جنادریہ بازار کی جانب تھا، خان صاحب آہستہ چلتے تھے ،اس لیے ہمیں بھی اپنی رفتار کم رکھنی پڑ رہی تھی۔ ہم نے علاقے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا خان صاحب ویسے تو اس پورے علاقے کو جنادریہ کہتے ہیں لیکن اس آبادی کو نیا آباد ہونے کی وجہ سے جنادریہ جدید کا نام دیا گیا ہے۔ریاض کے مضافات میں واقع اس علاقے جنادریہ میں ہر سال سعودی عرب کا ایک بڑا قومی میلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ جنادریہ میلے کا افتتاح سعودی عرب کے بادشاہ خادم حرمین شریفین خودکرتے ہیں۔ بادشاہ سلامت اپنی کابینہ کے اراکین اور شاہی خاندان کے دیگر ممتاز افراد کیساتھ ملکر سعودی عرب کے روایتی رقص میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ جنادریہ کا میلہ دو سے تین ہفتے جاری رہتا ہے۔ روزانہ عصر سے لیکر رات بارہ بجے تک مختلف پروگرام پیش کئے جاتے ہیں جن میں سعودی عرب کی ثقافت پیش کی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے ہرصوبے اور علاقے کی الگ الگ ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے الگ الگ پویلین لگائے جاتے ہیں۔ حرمین شریفین کے پویلین کو ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ یہ پویلین میلے کا دورہ کرنے والوں اور مذہبی ورثے سے دلچسپی رکھنے والوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہوتاہے۔ اس کے ذریعے لوگوں کو مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز آل سعود کے وقت سے لے کر موجودہ بادشاہ کے زمانے تک کے منصوبوں، پیش رفت کے مراحل اور آئندہ متوقع توسیع کے حوالے سے اہم معلومات حاصل ہو تی ہیں۔ حرمین شریفین کے پویلین میں مملکت کی تاریخ کے دوران پیش رفت کے تمام مرحلوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ ان میں ہر سال کروڑوں ریال کی لاگت سے تیار کیا جانے والا غلاف کعبہ، آب زمزم کے کنوئیں کا منصوبہ، غسل کعبہ کے دوران استعمال ہونے والے برتن اور اس کے لیے مخصوص عطر اور خوشبوئیں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ایک بہت بڑی اسکرین پر حرمین شریفین کے انتظامی امور اور بعض دیگر خصوصی کارروائیوں اور ذمہ داریوں کی انجام دہی سے متعلق خصوصی تعارفی وڈیو بھی دکھائی جاتی ہے۔ جنادریہ کامیلہ گزشتہ تیس سال سے منعقد ہو رہا ہے۔ پہلے تین یا چار دن صرف مرد حضرات کے لیے مخصوص ہوتے ہیں اور اس کے بعد آخر تک یہ میلہ بمع اہل و عیال کے لیے کھلا رہتا ہے۔ اس دوران اکیلے مردوں کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔۔۔ جاری ہے۔
سعودی عرب اورخلیج کی بعض دیگر ریاستوں کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ کے بعد پاکستان کیلئے اس خطے میں اپنی حیثیت خاص طورپر خطے میں توازن پیداکرنے والی قوت کے طورپر اپنی حیثیت برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگیاہے۔اب سے پہلے شاید کبھی بھی اس طرح کی مشکل صورت حال کاتصور بھی نہ کیاگیاہوگا۔ نواز ...
تازہ ترین اطلاعات سے انکشاف ہواہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے یمن کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کے لیے خفیہ طورپر گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اسی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں سعودی عرب کی زیر قیادت بننے والے اتحاد کے طیارے یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ حکومت کے خلاف نبرد آزما مجاہدین پر اندھادھن...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...