... loading ...
سرکاری طور پر بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دیا میر بھاشا ڈیم کے مالیاتی پلان کی منظور ی دے دی ہے ۔ ڈیم کے لیے فنڈز پی ایس ڈی پی سے فراہم کیے جائیں گے ۔ جبکہ واپڈا خود بھی پاور جنریشن کمپنیوں کے ذریعے فنڈز اکٹھے کرے گا ۔ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے اس منصوبے کا مالیاتی پلان سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگا نے وزیر اعظم نواز شریف کو پیش کیا ۔ یہاں 81لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہو گی ۔یہ مکمل طور پر ملکی وسائل سے تعمیر کیا جائے گا ۔ اس کی تعمیر کے لیے پی ایس ڈی پی فنڈ اور واپڈا وسائل سے رقم رکھی جائے گی ،ضرورت پڑنے پر واپڈا کے موجودہ منصوبے لیز پر دیئے جائیں گے۔ اس پر 2017 ء کے آخر تک کام شروع کرنے کے لیے وزیر اعظم کی جانب سے ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہے۔
ماہرین کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی افادیت کا اظہارسینکڑوں مرتبہ کیا گیا ۔ کئی دہائیوںسے تکنیکی ماہرین قومی قیادت کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر ملک کے لئے انتہائی ضرور ی ہے۔ لیکن اس منصوبے کو تعصبات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ جب بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی بات کی جاتی ہے تو مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی حمات اور مخالفت میں بیان بازی کی اس جنگ میں کالاباغ ڈیم کے مخالفین کی جانب سے بھاشا ڈیم کو اس کا متبادل قرار دیا جاتا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں اس ڈیم کا سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا گیا تھا ۔ لیکن اس منصوبے پر کام کی رفتار نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔پیپلز پارٹی کے سابق دورِ حکومت میں اس منصوبے پر جاری کام کی رفتار آہستہ آہستہ سُست ہو کر رُک گئی ۔۔ اب ایک مرتبہ پھر اسے دوبارہ شروع کرنے کی بات سرکاری طور پر کی جانے لگی ہے ۔ ماضی میں ماہرین جہاں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو کھٹائی میں ڈالنے پر پریشان نظر آتے تھے وہاں بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے پر بھی انہیں تشویش رہی ہے۔ اس کی وجہ سیاسی نہیں خالصتاً فنی ہے ،جس کا ادراک ہماری سیاسی قیادت کی سطحی اور وقتی سوچ شاید ہی کر سکے۔
یہ سب کچھ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ واپڈا اور عالمی اداروں کی ابتدائی سروے رپورٹوں خصوصاًایشیائی ترقیاتی بنک کی ایک رپورٹ میں اس ڈیم کو خطرناک قرار دیا گیا ہے۔اس کی وجوہات میں کہا گیا ہے کہ بھاشا ڈیم اور اس کے گردو نواح کا علاقہ دور دراز تک خطرناک زلزلوں کی رینج میں واقع ہے ۔ اس علاقے میں گزشتہ 30 برسوں میں بڑی شدت والے خوفناک زلزلے آ چکے ہیں۔ان میں8 اکتوبر 2005 ء کا زلزلہ سب سے بڑی مثال ہے۔
ارضیاتی سائنس کے ماہرین کے مطابق وادی چلاس کے خطہ سے کوہِ ہمالیہ کی اُٹھان شروع ہوتی ہے۔یہ وہ وسیع خطہ ہے جس کے نیچے زمین کی زیریں دو بڑی پلیٹیں آپس میں ٹکرا رہی ہیں۔ان میں سے ایک پلیٹ کا نام انڈین پلیٹ اور دوسری کا نام چینی پورلیئن پلیٹ ہے۔ماہرین کے مطابق زیر زمین ان دونوں پلیٹوں کے باہم ٹکرانے کے نتیجے میں ہمالیہ اور دوسرے پہاڑ سطح زمین پر اُبھرے ہیں۔مزید یہ کہ زیر زمین یہ ٹکراؤ مسلسل جاری ہے اور اس کے باعث ہمالیہ پہاڑ اب بھی ہر سال نصف سینٹی میٹر مزید بلند ہو جاتا ہے۔ اس عمل کے باعث ہمالیہ پہاڑ کے1200 میل لمبے سلسلے کی اُترائی میں ہزاروں میل کا وسیع علاقہ مسلسل ارتعاش کی حالت میں رہتا ہے۔اس ڈیم کے خطرناک ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے ۔بھاشا سے اُوپر دریائے سندھ برفانی گلیشیئر کا حصہ بن جاتا ہے۔اس علاقے میں دریائے سندھ خشک اور ویران بلند پہاڑی سلسلوںکے درمیان نہایت گہرے پیچ دار راستوں سے طوفان کی شکل میں بہتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑے بڑے تودے اور بڑی بڑی چٹانیں گرتی رہتی ہیں۔بعض اوقات یہ چٹانیں گرنے سے دریا کا راستہ رُک جاتا ہے اور بڑی جھیل بن جاتی ہے۔جس کے زبردست دباؤ سے دریا طوفانی انداز میں بہت بڑے سیلاب کی شکل میں اُبل پڑتا ہے اور نیچے سینکڑوں میلوں تک تمام بستیوں اور آبادیوں کو بہا لے جاتا ہے۔1841 ء میں اس قسم کے نہایت ہولناک طوفانی سیلاب نے بے شمار گاؤں اور آبادیاں نیست و نابود کر دی تھیں۔اس کے بعد بھی اس قسم کے بہت سے واقعات رُونماء ہو چکے ہیں۔ایک اہم وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بھاشا کے علاقے میں دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر کئی میل تک پہاڑی چٹانوں پر کھدی ہوئی بے شمار قدیم تصویریں اور ہزاروں تحریریںموجود ہیں جو زیادہ تر بدھ مت سے تعلق رکھتی ہیں۔عالمی ماہرین اور ریکارڈ کے مطابق یہ دنیا بھر میں اس نوعیت کا سب سے بڑا نادر اور قدیم تاریخی ذخیرہ ہے اور اسے اہم تاریخی اثاثہ قرار دیا جا چُکا ہے۔بھاشا ڈیم کی تعمیر سے یہ سارا ذخیرہ اور اس کی ہزاروں نادر، انتہائی اہم تصاویر اور نقوش آبی ذخیرے میں غرق ہو جائیں گے۔اس صورتحال پر عالمی ادارے تشویش کا اظہار کر تے رہے ہیں۔ایک اور منفی پہلو یہ ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر کے باعث شاہراہِ قراقرم کا 130 کلو میٹر حصہ ڈوب جائے گا۔اتنی سڑک نئے سرے سے بنانا پڑے گی۔ جبکہ حویلیاں سے لے کر واڑی چلاس تک 330 کلو میٹر سڑک کی چوڑائی کو دوگنا کرنا پڑے گا۔تاکہ بھاری گاڑیوں اور مشینری کی باربرداری ممکن ہو سکے۔صرف یہی نہیں بلکہ اس حصہ میں دریائے سندھ پر تعمیر شدہ چار بڑے پُل ڈوب جائیں گے۔ان میں تھلپان کا تاریخی اور مشہور پُل بھی شامل ہے۔اس طرح اس سنگلاخ پہاڑی سلسلے میں 440 کلو میٹر سڑک تقریباً دوبارہ تعمیر کرنا ہو گی۔ اور یہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا نیا پروجیکٹ ہوگا۔
ایشیائی ترقیاتی بنک کے سروے اور اعتراضات کی تائید پاکستان کے ممتاز اور بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر ِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی کی تحریروں سے بھی ہوتی ہے۔یہ تحریریں انہوں نے بھاشا ڈیم کے مجوزہ علاقہ وادی چلاس کے بارے میںتاریخی اور جغرافیائی نقطہ ء نظر سے تحریر کی ہیں۔ان میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھاشا ڈیم کے علاقے میں دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر واقع پہاڑی سلسلہ گرینائٹ کی کھوکھلی اور ناقص چٹانوں پر مشتمل ہے۔اور یہ کہ اس علاقے میں دریائے سندھ کا نہایت بلندیوں سے گرنے والا پانی صدیوں سے ہولناک تباہی مچاتا چلا آرہا ہے۔
آبی ذخائر کے ماہرین اور انجینئرز یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سمیت د نیا بھر کے بڑے مالیاتی ادارے اس آبی منصوبے کے لئے فنڈز فراہم کرنے سے معذرت کر چکے ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ میں اس بات کو بھی بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے شمالی علاقوں اورصوبہ خیبر پختونخواکے درمیان کشیدگی پیدا ہو چکی ہے۔شمالی علاقوں میں اس ڈیم کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔
تحقیقی اور تکنیکی رپورٹ میں بھاشا ڈیم کے انتہائی اہم منصوبے کے بارے میں ایشیائی ترقیاتی بنک کی خفیہ سروے رپورٹ، ماہرین ِ آثار قدیمہ کی رائے، اور دیگر شواہد پر مبنی زمینی حقائق ، اعداد و شمار اور ماہرین کی آراء اس ڈیم کے حق میں نہیں ہے۔یہ تمام رپورٹیں انتہائی مُستند ہیں۔ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ اس بنک کی مشاورتی فرم ’’ مینجمنٹ ریسورسز انٹر نیشنل انکار پورٹیڈ پنسلوانیا امریکا‘‘ کے ماہرِ اراضیات ڈی ایل گرے بل (D. L. GREYBEL ) نے 26 سال قبل تیار کی تھی اور اسے واپڈا کو بھی پیش کیا گیا تھا۔احمد حسن دانی کی کتاب بھی آج سے 21 سال پہلے شائع ہوئی تھی اور اسے شمالی علاقوں کی تاریخ کے بارے میں مسلمہ اور مستند حوالہ سمجھا جاتا ہے۔
قومی ضروریات کے مطابق بڑے ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں ہماری سیاسی قیادت کی کوتاہ نظر ی نے معاملات کو سُلجھاؤ کی بجائے مزید الجھا رہی ہے۔کالاباغ ڈیم جیسے اہم تکنیکی مسئلے کو سیاسی بھول بھلیوںمیں ڈال کر بھاشا ڈیم کو متبادل آبی ذخیرے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔۔۔ صورتحال کا واحد حل سیاسی قیادت کی جانب سے دانشمندانہ فیصلوں کا متقاضی ہے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دے کر سیاست کے میدان سے باہر پھینک دیا ہے ، اصولی طورپر ہونا یہ چاہئے تھا کہ طویل عرصے تک اقتدار کے مزے لوٹنے والے میاں نواز شریف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے پر سر خم کرتے ہوئے سیاست سے سبکدوش ہونے کااعلان کرکے اپنی ہی ...
ریمنڈ بیکر نے گندی دولت کے حوالے سے اپنی کتاب سرمایہ داری نظام کا کمزور گوشہ کے عنوان سے نواز شریف کی کرپشن کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، ریمنڈ بیکر نے اپنی کتاب ڈرٹی منی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آزاد منڈی کے نظام کی اس طرح تجدیدکیسے کی جاسکتی ہے جس سے یہ پتہ چلایاجاسکتا...
حمزہ شہباز پنجاب میں انتخابی مہم چلائیں گی نوجوان قیادت کے ساتھ نئے چہرے مہم کا حصہ ہونگے سینئرز کو کھڈے لائن لگانے کی بجائے تجربے سے فائدہ اٹھایا جائے گا‘ متوقع نئے چہرے سلمان شہباز راحیل منیر ہونگے لاہور (رانا خالد محمود قمر) پاکستان مسلم لیگ ن نے اپوزیشن سے نمٹنے اور آئندہ ...
ظفرالطاف مرکزی حکومت میں ڈپٹی سیکرٹری کیبنٹ تھے ۔ضیاالحق کی کیبنٹ کی کارروائیاں اور ان کا ریکارڈ رکھنا ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔کابینہ کے اجلاس سے لوٹتے تو بہت مایوس دکھائی دیتے تھے۔حکومت نے نیاز نائیک کی جگہ پر اکائونٹس گروپ کی گلزار بانو کو سب سے اہم عہدے پر سیکرٹری کیبنٹ ...
وزیراعظم نواز شریف نے اعلیٰ افسران کی پروموشن کے معاملے میں ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے کرپٹ افسران کو لینے کے دینے پڑجانے کا امکان ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اس مرتبہ سلیکشن بورڈ نمبر ایک کی سفارش پر 80 سے زائد افسران کو کلیئرنس کے باوجود پروموشن نہیں دیا اور ا...
برصغیر کی انگریزوں سے آزادی کی تحریک کے دو قائدین، قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور گاندھی جی نے انگلینڈ کی ایک ہی تعلیمی درسگاہ”لنکن اِن“ سے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ گاندھی تعلیم کے بعد افریقہ چلے گئے جہاں سے ان کی دو سال بعد انڈیا واپسی ہوئی،جہاں پر ممبئی بار کی جانب سے ان کے اعزاز...
گزشتہ مضمون میں بات پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش سے چلی اور نمائش کنندگان تک پہنچی تھی۔ پاکستان سے ہر سال دس ارب روپے سے زائد سرمایہ اس ذریعے سے بھارت کو گود میں پہنچا دیا جاتا ہے اور اس کے عوض ہم بھارت سے ثقافتی حوالے سے جو کچھ خریدتے ہیں اس کے آئندہ نسل پر پڑنے والے اثرات...