... loading ...
میاں نواز شریف کی شخصیت کا جائزہ لیں توان کی ذات میں لوئر مڈل کلاس کی وہ تمام محرومیاں یک جا نظر آئیں گی جو گھر میں موجود ایک ’’زبردست‘‘ ابا جی کی بدولت بچے کی شخصیت کو یا تو دبا دیتی ہیں یا پوری عمر کے لیے اس میں احساسِ کمتری سمو دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں جمعہ کی چھٹی ختم کرنے سے لے کر سر پر مصنوعی بال لگوانے تک ایسی ایسی حرکتیں کیں کہ کسی نو دولتیے دکاندار کے بچوں کا گمان ہوتا رہا۔ یہاں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ موصوف کے ابا جی تو کاروباری تھے تو پھر حرکتیں نو دولتیوں والی کیوں رہیں؟ تو سیدھا سا جواب ہے کہ جب تک اتفاق میں برکت تھی اور باؤ شریف اور ان کے چھ دیگر بھائی اکٹھے رہتے تھے تو اصول یہ تھا کہ جو چیز ایک گھر میں آئے گی باقی چھ گھروں میں بھی خود بخود وہی اور اسی معیار کی جائے گی۔ ایک بچے کو اگر ایک ماڈل کی گاڑی ملے گی تو باقی تمام کزنوں کو بھی اسی کا حقدار گردانا جائے گا۔ اس لیے ’’زیادہ خرچے ‘‘ کے خوف سے باؤ شریف کے بچوں کی بہت سی خواہشات دل میں ہی رہ گئیں۔
اب یہ نا آسودہ خواہشات ان کو ستاتی ہیں اور جب بندہ بیس کروڑ لوگوں کے ملک کا وزیر اعظم مل جائے تو پھر تو اور بھی ستاتی ہیں۔ ہاتھ چھوڑ کر موٹرسائیکل چلانا نہ سہی یا پھر نئی کرونا کے پیچھے زنجیروں سے پیلی پتی کے خالی سبز ڈبے لٹکانا نہ سہی، لیکن اپنی سرخ ’شاراڈ‘ کو تیل مار کے ، اونچی آواز میں ڈیک لگا کر ڈرائیو کر کے ’اُس ‘کی گلی کا ایک چکر تو بنتا ہے۔ چھوٹا بھائی تو اس سے ایک آدھ ہاتھ آگے ہی نکل جاتا ہے لیکن بڑے بھائی صرف ان لوگوں میں سے ہیں جو اُن احساس ہائے کمتری سے نکلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ جیسے وہ سہگلوں کے ان بچوں کو اپنا دستِ نگر دیکھنا چاہتے ہیں جو اُس وقت ایچی سن میں جایا کرتے تھے جب میاں صاحب گرجا اسکول میں جاتے تھے۔
آج کل میاں صاحب اور ان کے راتب خوروں کو خود کو سیکولر ظاہر کرنے کا بھوت سوار ہے۔ ایک راتب خور تو یہاں تک گرگیا ہے کہ اپنے باپ سے ہی برأت کا اظہار کردیاکہ میرے ابا جی جو ماڈل ٹاون کی ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیا کرتے تھے ، میں ان کے خیالات سے متفق نہیں ہوں۔ اس سمت میں سرپٹ بھاگتے وزیر اعظم نوازشریف نے معروف مسلمان پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر ریاض الدین کے نام سے منسوب قائد اعظم یونیورسٹی کے ’’نیشنل سنٹر فار فزکس اور فیلو شپ ‘‘ کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کی منظوری دے دی ہے اور اس کو حتمی دستخطوں کے لیے صدرکے پاس بھیج دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کے ایک باخبر صحافی مہتاب عزیز نے اس طرف توجہ دلائی ہے اور لکھا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے 70 کے عشرے کے اوائل میں پاکستان میں فزکس میں تحقیق کا ادارہ قائم کرنے کا ’’خیال ‘‘ پیش کیا تھا۔ جس کی منظوری اْس وقت کے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین نے دے دی تھی۔ اس کے لیے حکومت پاکستان نے فنڈ مختص کیا، اور کئی سال تک اس منصوبے کی منصوبہ بندی کی جاتی رہی۔ اسی دوران 1974 میں پاکستانی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ جس کے فوری بعد ڈاکٹر عبدالسلام نے غصے اور انتقام میں ہمیشہ کے لیے پاکستان کو خیر باد کہہ دیا اور پاکستان میں فزکس کی تحقیق کا ادارہ قائم کرنے کا سارا منصوبہ اور اس حوالے سے ہونے والی اب تک کی تمام منصوبہ بندی کے کاغذات لے کر اٹلی چلے گئے۔ یوں انہوں نے پاکستانی حکومت کے پیسوں سے ہونے والی منصوبہ بندی کو استعمال کرتے ہوئے اٹلی میں انٹرنیشنل سینٹر فار تھئیریٹکل فزکس کے نام سے تحقیقی ادارہ قائم کیا۔ تا ہم گورنمنٹ کالج کے ریکارڈ سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس دوران موصوف حکومتِ پاکستان کو بھی چھٹی کی جھوٹی سچی درخواستیں بھیج کر تنخواہ پاتے رہے تا ہم اٹلی والے ادارے سے وہ تادمِ مرگ وابستہ رہے۔
دوسری جانب پاکستان میں ایک مرتبہ فنڈز مختص ہونے کے باوجود جب تحقیقاتی ادارہ نہ بن سکا تو دوبارہ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں طویل عرصہ لگ گیا۔ لیکن اس کا بیڑا ڈاکڑعبدالسلام کے پائے کے ہی مسلمان سائنسدان ڈاکٹر ریاض الدین نے اٹھایا، اور شبانہ روز محنت نے بالآخر پاکستان میں بین الاقوامی معیار کے تحقیقاتی ادارے کی تخلیق کا خواب سچ کر دکھایا۔ جس کا نام نیشنل سنٹر فار فزکس رکھا گیا۔ اس تحقیقاتی مرکز کا معیار اتنا اعلیٰ ہے کہ یورپی تنظیم برائے جوہری تحقیق ‘سرن’ سمیت فزکس کے اکثر اداروں کی ممبر شپ اسے حاصل ہو گئی۔ ڈاکٹر ریاض الدین نے نہ صرف یہ ادارہ قائم کرنے کے لیے دن رات محنت کی، بلکہ وہ دم آخر تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ اسی لیے ڈاکٹر ریاض الدین کی وفات کے بعد نیشنل سینٹر فار فزکس کا نام ڈاکٹر ریاض الدین نیشنل سنٹر فار فزکس رکھ دیا گیا‘‘۔
اب ڈاکٹر ریاض الدین کے نام سے منسوب ادارے کا نام تبدیل کر کے اس کو ڈاکٹر عبد السلام سے منسوب کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔قائداعظم یونیوسٹی کے ایک دوست سے پوچھا کہ نام کی تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ تو اْس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ریاض دنیا کے صف اول کے سائنسدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک باعمل مسلمان بھی تھے۔ پانچ وقت باجماعت نماز ادا کرنے کی وجہ سے وہ اکثر ہودبھائی کی نسل کے لوگوں کو اس یونیورسٹی میں تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ اسی لیے وہ فزکس کی دنیا میں گراں قدر خدمات کے باوجود گمنام رہے یا رکھے گئے۔ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے سب سے اہم تحقیقاتی مرکز کا کسی باعمل انسان سے منسوب ہونا آج کی دنیا میں قابل قبول نہ ہو‘‘۔ڈاکٹر ریاض الدین صاحب کا تفصیلی تعارف وکی پیڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام کیوں وزارتِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو نہ دیا جا سکا کہ جس کے مشیر ڈاکٹر سلام صاحب تھے؟ اور کیسے 1973 میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد ان کی وزارت کے سائنس دانوں نے ایک بہت بڑا سادہ بارود کا دھماکا کر کے اس کو ایٹمی دھماکے کا نام دینے کا ڈرامہ رچانے کی کوشش کی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے عین وقت پر پکڑ لیا تھا۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ لیکن قادیانی لابی نے ڈاکٹر ریاض الدین کے اس دنیا سے جانے کا انتظار کیا اور جب وہ دنیا سے 2013 میں پردہ فرما گئے تو پھر یہ سمری چلائی گئی اور یوں میاں صاحب نے یہ سمری منظور کر لی۔
ڈاکٹر عبد السلام کی پاکستان اور اسلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی لیبارٹری یا اس طرح کے کسی اور ادارے کو ان کے نام سے موسوم کر دیا جاتا؟کچھ نہ کرنے کے باوجود ان کی ’’خدمات‘‘ اپنی جگہ پر لیکن ربوہ میں ایک کالج ان کے نام پر بنا دیا جاتا۔ ویسے بھی پنجاب حکومت قادیانیوں کو ان کے تعلیمی ادارے جو بھٹو صاحب نے 1973 نے قومیا لیے تھے،ان کو واپس کرنے کے لیے مرے جارہی ہے۔تو ایسے میں ایسا کوئی ادارہ جس سے ان کی روح کو بالیدگی ملتی رہتی اور ان کے عقیدے کے لوگ بھی اس سے مستفید ہوتے رہتے۔
ایسے میں میاں صاحب کی ایک اور خاصیت کا ذکر نہ کرنا نامناسب نہیں ہوگا۔ وہ یاروں کے یار ہیں ، یاری میں وہ عزت، غیرت، حمیت، سب کا جنازہ نکال دیتے ہیں۔ جیسے ان کی بیگم صاحبہ ، محترمہ کلثوم نوازشریف صاحبہ جب ان کی رہائی کے لیے نکلی تھیں تو ان کو لاہور میں جس شخص نے کئی گھنٹوں تک تماشا بنایا تھا اس کا نام بریگیڈیئر اعجاز شاہ تھا۔ میاں نواز شریف کے خاندان نے جس طرح بریگیڈیئر اعجاز شاہ کی سفارش پر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنائے گئے اس کے سگے بھانجے ، ڈاکٹر مجاہد کامران کو بچانے کے لیے صوبائی اسمبلی میں ترمیم کرائی ، اس سے تو لگتا یہی ہے کہ جب وہ بخشنے پر آئیں تو عزت، غیرت، حمیت تو رہی ایک طرف وہ اس عمل میں تو اپنے خاندان کی خواتین کی عزت و ناموس کی بھی پروا نہیں کرتے۔
اب ہوا یہ کہ جب میاں نواز شریف پھانسی کی کوٹھڑی میں بند تھے ، کچھ لوگوں کے بقول جنرل پرویز مشرف کی مرضی و منشاء سے اور کچھ کے بقول اپنے خلیفہ کے حکم پر، قبیلہ قادیان کے چشم و چراغ بریگیڈیئر نیاز آگے آئے اور یوں میاں صاحب کو گلو خلاصی کروا کر کے ان کو سرور پیلس روانہ کر دیا گیا۔ اب بریگیڈیئر نیاز کو نوازنے کا موقع ملا تو پہلے ان کو یوکرین سے آنے والے ٹینکوں کے انجن تیارو فراہمی کا آرڈر دے کر مالا مال کیا گیا۔ شنید ہے کہ اس تحقیقی لیبارٹری کا نام بھی انہی کو راضی کرنے کے لیے تبدیل کیا گیا۔ واللہ اعلم
دیکھنا یہ ہے نواز شریف کی ہڈیوں پر پلنے والا راتب خور جوازی قبیلہ اس کا کیا جواز تلاش کر کے قوم کو مہیا کرتا ہے اور اس عمل کو عین جمہوریت اور اسلام کی روح کے عین مطابق ثابت کرتا ہے۔ اللہ بہت محبت کرنے والا ہے، وہ ایسے ہی کسی پر عذاب مسلط نہیں کرتا، وہ بندے کے اپنے اعمال ہوتے ہیں۔ پھانسی کے پھندے سے واپس آنے والے کو تو یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔
دوزخ کے فرشتے نے کہا تھا کہ دنیا سے آنے والا ہر دوزخی اپنی آگ ساتھ لے کر آتا ہے۔ لگتا ہے میاں صاحب اپنی آگ اکٹھی کر رہے ہیں۔