وجود

... loading ...

وجود

پنجاب کی ترقی اور سندھ

پیر 05 دسمبر 2016 پنجاب کی ترقی اور سندھ

پنجاب کی ترقی کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے والے سندھ کی حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ اس صوبے میں ایسی ترقی کیوں نہیں ہوسکی۔ اس سوال کا جواب آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے دے دیا ہے۔ 2015-16 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے اثاثوں میں 35 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ تنخواہوں‘ پنشن‘ قرض اور ایڈوانس ادائیگی میں 25 ارب روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں اور مختلف منصوبوں کے لئے مختص بجٹ سے 8 ارب روپے کے اضافی اخراجات کئے گئے۔ رپورٹ میں 147 ملین روپے کے غیر ضروری اخراجات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ سندھ کی بیشتر شوگر ملز ایک بڑی سیاسی شخصیت کی ملکیت ہیں۔ انہیں خلاف ضابطہ 3 ارب روپے کی خطیر رقم ادا کردی گئی۔ اسی طرح تعمیراتی ٹھیکوں میں بلڈوزر چلے بغیر 28 ملین روپے ادا کردیئے گئے۔ پاکستان کے ایک مستند ادارے اے جی پی کی جانب سے پیش کردہ یہ رپورٹ ایک ہلکی سی جھلک ہے‘ اس کھربوں روپے کی کرپشن کی جو سندھ میں گزشتہ 8 سال سے جاری ہے۔ ان بدعنوانیوں کے سرغنہ اور شریک کئی اہم کردار ملک سے باہر داد عیش دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام کراچی فشریز کے سابق سربراہ نثار مورائی کا ہے۔ انہیں تجربہ کے طور پر گزشتہ دنوں دبئی سے کراچی بھیجا گیا تھا۔ یہاں وہ گرفتار ہوئے‘ کورٹ میں پیش کیا گیا‘ قابل اور ہوشیار وکیل خواجہ نوید نے ان کی ضمانت کرالی لیکن جوں ہی وہ عدالت سے باہر آئے تو رینجرز نے انہیں پھر دھر لیا۔ ان کے گھر سے بڑے پیمانے پر جدید اسلحہ برآمد ہوا تھا‘ ان دنوں وہ ضمانت پر ہیں اور رینجرز کے دفتر میں ہر دوسرے دن حاضر ہوکر یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ دوبارہ ملک سے فرار نہیں ہوئے ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ کرپشن کے خاتمہ اور امن وامان کی بحالی میں رینجرز کا بڑا اہم کردار ہے۔ ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل بلال اکبر پورے آپریشن کی قیادت کررہے ہیں۔ ان کا تین نکاتی ایجنڈا ہے جن میں جرائم اور ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ‘ عدالتوں سے انصاف کا حصول اور فلاحی و سماجی کاموں کی سرپرستی شامل ہیں۔ وہ تینوں محاذوں پر بڑی چابکدستی سے سرگرم عمل ہیں۔ پاک فوج کے نئے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کراچی آپریشن جاری رکھنے کا گرین سگنل دے دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن بھوک و افلاس‘ غربت اور بیروزگاری کو جنم دیتی ہے۔ یہ مجرم گروہوں کو نیا خون فراہم کرتی ہے۔ حدیث شریف ہے کہ مفلسی کفر تک پہنچاتی ہے۔ بدعنوانیوں سے چند سو یا چند ہزار خاندان تو امیر کبیر ہوجاتے ہیں لیکن عوام کی اکثریت محروم رہتی ہے۔ احساس محرومی پیدا ہوتا اور پنپتا ہے جو مافیائوں اور تنظیموں کو راستہ فراہم کرتا ہے۔ اس لئے میجر جنرل بلال اکبر کرپشن کے کرداروں سے بھی نمٹ رہے ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ صورتحال اب کبھی پیچھے کی طرف نہیں جائے گی۔ وہ 2009 ء سے دہشت گردی کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کا کراچی میں آباد مختلف برادریوں اور لسانی گروہوں سے براہ راست رابطہ ہے جن سے وہ امن وامان قائم رکھنے کے سلسلے میں مدد لیتے ہیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم‘ پیپلز پارٹی اور رینجرز کی اپنی ترجیحات ہیں۔ رینجرز کا ادارہ سیاسی نہیں ہے لیکن اس کے بغیر سیاسی استحکام بھی ممکن نہیں ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ واضح طور پر چار حصوں میں تقسیم ہے۔ ان میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور لندن‘ مہاجر قومی موومنٹ (آفاق احمد) اور اسی پارٹی سے الگ ہونے والی ایک تنظیم پاک سرزمین پارٹی ہے اس طرح سندھ کی ’’مہاجر سیاست‘‘ چار حصوں میں تقسیم ہے۔ چاروں کے الگ الگ پروگرام اور اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ اکثر متحارب گروپوں کے کارکنوں میں ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی اور سر پھٹول بھی ہوجاتا ہے۔ یہ صورتحال مٹھی بھر اشرافیہ کے لئے بڑی آئیڈیل ہے جو بقول وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف گزشتہ 70 سال سے ملک کو لوٹ رہی ہے۔
ہم بچاتے رہ گئے دیمک سے اپنا گھر
کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھاگئے
کراچی میں بعض حلقوں کی سوچ یہ ہے کہ پاک فوج کا سپہ سالار بدلنے کے بعد صورتحال بھی تبدیل ہوجائے گی لیکن فوج اور رینجرز کے کمانڈروں کا یہ مضبوط عزم ہے کہ
گزرا ہوا زمانہ‘ آتا نہیں دوبارہ
خبریں میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر ضیاء شاہد گزشتہ دنوں سی پی این ای کے اجلاس میں شرکت کے لئے لاہور سے کراچی تشریف لائے تو ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر سے ملاقات میں انہوں نے اسی تشویش کا اظہار کیا۔ میجر جنرل بلال اکبر نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کو پھر سر نہیں اٹھانے دیں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ بھی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ دہشت گردوں کو پھر نہیں آنے دیں گے۔ عسکری قیادت کی جانب سے ان جرأت مندانہ اعلانات اور اقدامات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اس عہد فسوں ساز میں سرحدوں پر فوجوں کے بڑے پیمانے پر ٹکرائو کی بجائے حریف ملکوں کی جانب سے اندرونی فساد پھیلا کر کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے چوکس رہنا بہت ضروری ہے۔ غلط فہمیوں اور قیاس آرائیوں کے ذریعے ملکوں کو غیر مستحکم کیا جاتا ہے۔ شکوک و شبہات کے پہاڑ کھڑے کرکے حقائق کو دفن کردیا جاتا ہے۔ سندھ کی سیاسی قیادت کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ پنجاب کیوں ترقی کررہا ہے اور سندھ پیچھے‘ اس میں کرپشن‘ بددیانتی‘ اقرباء پروری‘ سرکاری فنڈز کی خورد برد ‘ کام چوری اور نااہلی کا دخل تو نہیں ہے۔ صوبے کے عوام کی تباہ ہوتی حالت اور بڑھتی ہوئی غربت و بے روزگاری کا ذمہ دار کون ہے؟ سندھ کے تمام وزرائے اعلیٰ کا تعلق پنجاب سے نہیں‘ دیہی سندھ سے رہا ہے‘ پھر سندھ کے کھیتوں میں بھوک کیوں اُگتی ہے اور عوام پیاس سے بلکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے بقول حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کے بغیر معاشرے اور ملک ترقی نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ نے حکومت کو مارچ 2017 میں مردم شماری کرانے کا حکم دیا ہے۔ کیا ہم جائز‘ منصفانہ اور شفاف مردم شماری کے لئے تیار ہیں؟ کیا حکومت یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ ماضی کی طرح کوئی ڈنڈی نہیں ماری جائے گی۔ پاکستان کو قائم ہوئے 70 برس گزرچکے ہیں ۔ اس دوران آئینی طور پر سات بار مردم شماری ہوجانی چاہئے تھی لیکن اب تک صرف پانچ بار مردم شماری کرائی گئی ہے۔ 1973 ء کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 35 لاکھ شمار ہوئی۔ بعدازاں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ہوم سیکریٹری محمد خان جونیجو نے اعتراف کیا کہ ’’اوپر والوں‘‘ کے حکم پر کراچی کی آبادی 56 لاکھ کی بجائے 35 لاکھ دکھائی گئی تھی۔ اسی طرح لاڑکانہ کی آبادی ساڑھے تین سو فیصد زیادہ تھی۔ نواب شاہ سمیت سندھ کے دیگر کئی اضلاع کی آبادی میں بھی اضافہ دکھایا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اسمبلیوں اور قومی مالیاتی ایوارڈ میں صوبے کے شہری علاقوں کا کم حصہ مختص کیا جائے۔ اس نوعیت کی ناانصافیوں نے بالآخر ایم کیو ایم جیسی طاقتور تحریک کو جنم دیا۔ سندھ کی سیاسی فکر اور حکمت عملی کو درست اور حقوق و فرائض کا حقیقی تعین کئے بغیر صوبہ کبھی ترقی نہیں کرے گا۔


متعلقہ خبریں


سندھ میں اختیارات کی جنگ مختار عاقل - پیر 08 مئی 2017

سندھ میں اختیارات کی جنگ اپنے شباب پر ہے۔ قومی سطح پر لڑی جانے والی ”پاناما جنگ“ سے ہٹ کر صوبہ سندھ میں لڑی جانے والی اختیارات کی جنگ گرچہ صوبائی نوعیت کی ہے، لیکن اس کی بازگشت اور اثرات وفاق تک پہنچے ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کے وزراءاکثر وفاق سے شاکی رہت...

سندھ میں اختیارات کی جنگ

مضامین
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں! وجود هفته 19 اپریل 2025
مقصد ہم خود ڈھونڈتے ہیں!

وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم وجود هفته 19 اپریل 2025
وقف ترمیمی بل کے تحت مدرسہ منہدم

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری وجود جمعه 18 اپریل 2025
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری

عالمی معاشی جنگ کا آغاز! وجود جمعه 18 اپریل 2025
عالمی معاشی جنگ کا آغاز!

منی پور فسادات بے قابو وجود جمعرات 17 اپریل 2025
منی پور فسادات بے قابو

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر