... loading ...
جلال صاحب سے بات چیت کرکے دل کافی ہلکا ہو چکا تھا، ہم اپنے دفتر میں جا کر کام کاج میں لگ گئے، لیکن سچی بات ہے کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ ہماری نیم دلی کو ہمارے دفتر کے انچارج سیمی نے بھی محسوس کر لیا۔ سیمی نے پوچھا کیا مسئلہ ہے، کیوں اداس دکھائی دے رہے ہو؟ ہم نے رونی صورت کے ساتھ اپنی اداسی اور بے کلی کی کہانی بیان کردی۔ سیمی نے ہماری بات اطمینان سے سنی اور پھر ہنسنے لگا۔ سیمی کی ہنسی نے ہمارا موڈ اور خراب کردیا، ہم نے پوچھا اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے ۔ سیمی نے کہا اس میں رونے والی کیا بات ہے۔ کیا تم پہلے آدمی ہو جو گھر سے دور کسی دوسرے ملک میں نوکری کرنے آیا ہے۔ کیا تم واحد آدمی ہو جس کو گھر کی اور اپنے پیاروں کی یاد آتی ہے۔ کیا تم اکیلے ایسے آدمی ہو جو یہاں رہائش کے حوالے سے مشکل صورتحال کا شکار ہے۔ مسٹر خان تم اس سسٹم کا شکار ہونے والے نہ پہلے شخص ہو ، نا ہی آخری۔ اس لیے جو ہے اس میں خوش رہو اور برے کو اچھا کرنے کی کوشش کرو۔ سیمی اوساریو کا تعلق فلپائن سے تھا، انجینئر تھا اور اس کی طبیعت میں خوشی بسی ہوئی تھی، کسی بات کو سر پر سوار نہیں کرتا تھا، کسی مشکل سے نہیں گھبراتا تھا ، سیمی کے لیے زندگی زندہ دلی سے جینے کا نام تھی۔ اس لیے ہمارے بگڑے موڈ اور شکوے شکایتوں کا اس نے کوئی اثر نہیں لیا تھا بلکہ ہنسنا شروع کردیا تھا۔ سیمی نے جب دیکھا کہ ہم واقعی اداس ہیں تو ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا، سیمی نے جیب سے پرس نکالا اور اس میں سے ایک تصویر نکال کر ہماری طرف بڑھا دی، پھر بولا دیکھو یہ میری بیوی اور دونوں بچوں کی تصویر ہے۔ دیکھو کتنے پیارے بچے ہیں۔ تصویر میں ایک خاتون دوپیارے سے بچوں کے ساتھ پارک کی بینچ کر بیٹھی دکھائی دے رہی تھی۔ لڑکا اور لڑکی دونوں چھوٹے تھے اور اپنی ماں کے دامن سے لگے بیٹھے تھے۔ سیمی نے کہا میرا بیٹا چھ سال کا اور بیٹی چار سال کی ہے۔ تم نہیں جانتے مجھے ان سے کتنی محبت ہے ،میری فیملی ہی میری زندگی ہے، اب سنو میں نے دو سال سے اپنے بچوں کی صورت نہیں دیکھی، میں آخری بار دو سال پہلے چھٹی پر اپنے گھر فلپائن گیا تھا، میری بیٹی سونیا اس وقت دو سال کی تھی، بیٹا جارج چار سال کا تھا، میں صرف ایک ماہ ان کے ساتھ رہ سکا کیونکہ کمپنی نے دو سال بعد ایک ماہ کی چھٹی دی تھی۔ واپسی کے وقت جارج میری ٹانگوں سے لپٹ گیا، وہ رو رہا تھا اور میرے ساتھ آنے کی ضد کر رہ تھا، لیکن میرے پیروں کی زنجیر تو سونیا بنی ہوئی تھی ، وہ میری گود سے اترنے کا نام نہیں لے رہی تھی حالانکہ اس کو اتنی سمجھ نہیں تھی کہ میں جدا ہو رہا ہوں او ر نوکری اور اس کے بہتر مستقبل کے لیے اپنے ملک سے دور جا رہا ہوں لیکن وہ میری گود سے اترنے کے لیے تیار نہیں ہورہی تھی۔ میری بیوی کی آنکھوں میں جدائی کا دکھ آنسو بن کر بہہ رہا تھا۔ لیکن یہاں واپس آنا مجبوری تھی میرے دوست !نوکری کیلیے بچوں کیلیے واپس آنا پڑا۔
ہم اپنا غم بھول کر سیمی کے غم میں شریک ہوچکے تھے ، ہم نے تسلی دینے کے لیے سیمی سے کہا اب تو دوسال پورے ہوگئے ہیں ،آپ چھٹی پر چلے جائیں، اپنے پیاروں سے مل آئیں انہیں سامنے دیکھ کر نظروں کی ٹھنڈک بنا لیں۔ زیادہ نہیں تو ایک ماہ کے لیے آپ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہوں گے اور آپ سے مل کر وہ سب کتنا خوش ہوں گے۔ ہماری بات سن کر سیمی کو خوش ہونا چاہیے تھا لیکن اس کی آنکھوں میں اداسی تیر گئی۔ سیمی نے کہا مسٹر خان !کمپنی نے پالیسی تبدیل کر دی ہے اب چھٹی دو سال بعد نہیں تین سال بعد ملے گی۔ میں ابھی چھٹی پر نہیں جا سکتا، مجھے مزید ایک سال یہاں گزارنا ہے۔ پھر کمپنی چھٹی اور ٹکٹ دے گی۔ ہم نے حیرانی سے پوچھا یہ کیا بات ہوئی ،ایسے کیسے تین سال بعد چھٹی ملے گی ،کنٹریکٹ میں تو دو سا ل بعد چھٹی کا لکھا ہے۔ سیمی نے ایک گہری آہ بھری، پھر کہا پہلے ایک سال بعد ایک مہینے کی چھٹی ملا کرتی تھی، پھر کمپنی نے دو سال بعد ایک ماہ کی چھٹی کا طریقہ بنا لیا اور اب اس سال سے پیسے بچانے کے لیے تین سال کا کنٹریکٹ اور تین سال بعد ہی ایک ماہ کی چھٹی کا طریقہ ایجاد کیا گیا ہے۔ تم کو بھی تین سال بعد ایک ماہ کی چھٹی ملے گی، اس لیے دل مضبوط کرلو ،یہ کڑوا گھونٹ تو اب پینا ہی پڑے گا، ہم نے کہا یہ تو کمپنی نے ٹکٹ کے پیسے اور دو سال بعد ایک ماہ کی چھٹیوں کے دوران تنخواہ کے پیسے بچا لیے؟ سیمی بولا، تین سال بعد بھی یہ اپنی جیب سے ایک ماہ کی تنخواہ نہیں دیں گے، یہاں اسلامی کیلنڈر رائج ہے ،کمپنی کو ادائیگی اسلامی مہینے کے حساب سے کی جاتی ہے، جبکہ کمپنیاں ہم لوگوں کوجنوری ، فروری یعنی انگریزی مہینے کے حساب سے تنخواہ دیتے ہیں، اسلامی سال اور عیسوی سال میں دس دن کا فرق ہے،اسلامی سال عیسوی سال سے دس دن کم کا ہوتا ہے اس طرح تین سال میں پورے تیس دن بنتے ہیں، یہی تیس دن کے پیسے اور چھٹیاں یہ ہمیں دے رہے ہیں۔ ہم نے کہا یہ تو زیادتی ہے، سیمی مسکرادیا ،اس نے ہلکے سے کہا: یہ سعودی عرب ہے ۔۔۔ جا ری ہے
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...