... loading ...
جلال صاحب کے سامنے آنسو ضبط کرنے کی ساری کوشش ناکام ہو گئی، جلال صاحب نے ہمیں بیٹھے کا اشارہ کیا اور خود ہمارے لیے پانی کا گلاس بھر لائے، ہم نے پانی پیا اور جلال صاحب کو اپنی تنہائی،بے سکونی،گھر کی یاد اور دل کی بے چینی کا احوال سنادیا۔ جلال صاحب نے ایک گہری سانس لی اور بولے میاں تم خوش قسمت ہو کہ ابھی شادی نہیں ہوئی ، نہ بیوی ہے نہ بچے یہی دو پردیس میں سب سے زیادہ یاد ا?تے ہیں ، انہی کی وجہ سے کچھ لوگ مہینہ پندرہ دن کیاندر ہی واپس چلے جاتے ہیں ، انہیں بیوی بچوں کے بغیر ایک پل چین نہیں ا?تا۔ تم تو خیر سے ابھی ا?زاد ہو تم کو کیوں اتنی شدت سے گھریاد ا?رہا ہے۔ لگتا ہے ماں کی محبت ا?پ کو کھینچ رہی ہے۔ ہم نے انکار میں گردن ہلاتے ہوئے بتایا کہ ہماری والدہ کا تو انتقال ہو چکا ہے۔ جلال صاحب نے دکھ کا اظہا رکرتے ہوئے کہا تو پھر ضرور کوئی محبوبہ ہوگی جو ا?پ کی یاد میں روز رو رو کر گھڑے بھر رہی ہے۔ لگتا ہے اس کی یاد کی شدت یہاں ا?پ کے دل پر کچوکے لگا رہی ہے۔ ہم نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا جلال صاحب محبوبہ تو دور کی بات ہماری تو کسی لڑکی سے بات چیت بھی نہیں ہے۔ جلال صاحب مسکرانے لگے بولے میاں ہم سے کیا پردہ بتا دو کون ہے اور اگر اتنا یاد کر رہی ہے تو واپس چلے جاو?، کیوں اس کو اتنا انتظار کروا رہے ہو۔ اب ہمارے چہرے پرمسکراہٹ نمودار ہوگئی، ہم نے کہا جلال صاحب جس عمر میں لڑکے لڑکیوں کے اسکول کالج کے باہر کھڑے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو چھپ چھپ کر دیکھا جاتا ہے، محبت نامے تحریر کئے جاتے ہیں یا اتنی ہمت نہ ہو تو نظروں ہی نظروں میں باتیں ہوتی ہیں، اس عمر میں ہم نے نیوی کی اپرنٹس شپ شروع کردی تھی۔ چار سال صبح سے شام تک پورے ا?ٹھ گھنٹے پڑھائی ،شام کو چھ بجے گھر پہنچتے تھے تو اتنے تھکے ہوئے ہوتے تھے کہ گھر سے باہر نکلنے کی سکت بھی نہیں ہوتی تھی، رات کو ٹھیک دس بجے سونا اور صبح فجر میں جاگنا لازمی تھا،ایسی سخت روٹین میں کون ساعشق اور کہاں کی محبت جناب۔۔ جلال صاحب نے ایک گہری سانس لی پھر بولے میاں محبت کے لیے نہ تو روز ملنا ضروری ہے اور نہ ہی ایک دوسرے سے باتیں کرنا یا خط لکھنا ، محبت تو وہ خودرو پودا ہے جو دل کی زمین پرا?پ ہی ا?پ پھوٹ پڑتا ہے۔ بندے کو تو اس وقت پتہ چلتا ہے جب یہ پودا بڑا ہو جاتا ہے اور پھر یاد کی کسک کانٹا بن کر ہلکے ہلکے چبھنے لگتی ہے۔ عشق کیا نہیں جاتا میاں یہ روگ تو بس لگ جاتا ہے۔ ہم نے کہا جلال صاحب ا?پ کی بات سے انکار نہیں لیکن ہمارے معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہے، ہمارے تو ا?س پاس خیر سے کبھی کوئی لڑکی موجود ہی نہیں رہی تو جانے انجانے میں بھی کسی موہنی سی مورت کو من میں بسانے کا کبھی کوئی امکان ہی پیدا نہیں ہوا اور ویسے بھی۔۔
محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں۔۔ یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا۔
جلال صاحب نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا میاں تو پھر کیا معاملہ ہے تم کیوں اس قدر اداس ہو کیوں واپس جانے کی باتیں کر رہے ہو۔ ہم نے کہا بس دل نہیں لگ رہا ،شائد کمپنی کی وعدہ خلافی کی وجہ سے یہاں کام کرنے اور ایڈجسٹ ہونے میں مشکل ہو رہی ہے۔ جس کام اور جس تنخواہ پر ا?ئے تھے انہوں نے وہ نہیں دی پھر رہائش بھی بہت بری ہے اور وہاں کوئی پاکستانی بھی نہیں ہے اس لیے دل نہیں لگ رہا۔ ہم نے بتایا جنادریہ میں ایک پاکستانی لڑکے گلزارسے سلام دعا ہوئی ہے اس کی بجلی کا سامان مرمت کرنے کی دکان ہے، زیادہ پڑھا لکھا نہیں لیکن اچھا مخلص بندہ ہے ، ہم کیمپ سے اس کی دکان پر چلے جاتے ہیں ، رات کا کھانا ہم ساتھ ہی کھاتے ہیں۔ جلال صاحب بولے میاں دیکھ لو وطن او ر ہم وطنوں کی قدر ملک سے باہر ا?کر ہی ہوتی ہیورنہ اپنے ملک میں تو تمہیں معلوم ہی ہے زبانوں اورقومیتوں کے نام پر کس طرح ایک دوسرے سے تعصب برتا جاتا ہے۔ کس طرح ایک دوسرے کی برائیاں بیان کی جاتی ہیں اور کس طرح کچھ سیاست دان اس تفریق کو اپنا کاروبار چمکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے جلال صاحب کی اس بات سے بھی اتفاق کیا، جنادریہ کیمپ میں ہم ایسی ہی صورتحال سے گزر رہے تھے کہ یہاں پاکستان کے کسی بھی خطے سے کوئی بھی زبان بولنے والا کسی بھی رنگ، نسل یا عمر کا کوئی ایک شخص بھی میسر ا?جائے تو یہ خدا کا بڑا کرم ہوگا۔ لیکن ابھی تو ہم پر واپس جانے کی دہن سوار ہو چکی تھی، جلال صاحب سے کہا کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ ہم یہاں سے کسی بھی طرح پاکستان واپس نکل جائیں۔ جلال صاحب بولے میاں ایک بار یہاں ا?گئے تو سمجھو واپسی کے سارے راستے بند ہوگئے، پاسپورٹ بھی پاس نہیں اور یہاں تو دوسرے شہر جانے کے لیے بھی کفیل کا اجازت نامہ چاہیئے۔ پھرجلال صاحب کچھ دیر سوچنے کے بعد بولے میاں ابھی تمہارا اقامہ تو نہیں بنا ہے نا، ہم نے کہا جی ابھی تک نہیں بنا۔ جلال صاحب نے کہا ایک صورت ہو سکتی ہے جب اقامہ کے لیے میڈیکل ہوگاتو تم یورین ٹیسٹ کی بوتل میں اسپرین کی گولی کا چھوٹا سا ٹکڑا ڈال دینا۔ رپورٹ غلط ا?ئے گی تو میڈیکل میں فیل ہو جا و? گے اس طرح اقامہ نہیں بنے گا اور کمپنی تم کو واپس بھیجنے پر مجبور ہو جائے گی۔۔۔ جاری ہے
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...