وجود

... loading ...

وجود

خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر

جمعرات 24 نومبر 2016 خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر

تحریر : شازیہ فاطمہ
پروین شاکر اردو ادب کی انتہائی معروف اور معتبر شاعرہ تھیں وہ 24 نومبر 1952 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں جبکہ 26 دسمبر 1994 ء میں راہی ٔملک ِعدم ہوئیں۔ پروین شاکر کا گھرانہ چونکہ خوشحال تھا لہٰذا اسے مفلسی اور بے زری اور محرومی کے دور سے نہیں گزرنا پڑا لیکن اس کا وژن اس قدر وسیع تھا ،اس میں ادراک کی اس قدر قوت تھی کہ اس نے اپنے ارد گرد کے ماحول میں موجود لڑکیوں اور خواتین کے ہر طرح کے جذبات و احساسات کو پوری طرح سے محسوس کرلیا تھا ۔اسی لیے جب یہ نازک اندام شاعرہ ناز و نعم میں پل کر جوان ہوئی تو اس کی شاعری محبتوں‘ امیدوںاور خوشبوئوں کا حسین امتزاج بن گئی اور یوں ’’خوشبو‘‘ جیسی شاہکار کتاب نے جنم لیا۔
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جائوں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
مرے چہرے پہ تیرا نام نہ پڑھ لے کوئی
پروین شاکر کی اولین شاعری پر رومانیت چھائی ہوئی ملتی ہے مگر یہ رومانیت مجنونانہ رومانیت نہیں ہے جو جذبوں کو دیوانگی سے ہم کنار کردے اور فکر کو پابہ زنجیر کرکے رکھ دے بلکہ اس رومانیت سے زندگی سے پیار بڑھتا ہے اور انسانی شعور و ادراک کو مہمیز لگتی ہے۔ یہ رومانیت پھیل کر جب کائنات پر محیط ہوجائے تو شاعری پیغمبری کا ایک جز بن جاتی ہے کیونکہ بڑا شاعر کبھی بھی داخلیت کے حصار میں مقید نہیں رہ سکتا‘ وہ ہمیشہ اپنے ناموافق ماحول اور معاشرے کے کھوکلے پن سے شاکی بھی رہتا ہے اور اسے اپنی شاعری کا حصہ بھی بناتا ہے۔ وہ اپنے معاشرے اور سوسائٹی کو اپنے خیالات‘ خوابوں اور تصورات کی مانند پاک و صاف اور حسین و جمیل دیکھنا چاہتا ہے ۔اسی لئے پروین شاکر کے عصری شعور نے اسے اس اجتماعی کرب سے ہمیشہ ہی دوچار رکھا۔ شاعر کا قلم اس کا طاقتور ہتھیار ہوتا ہے اور اس کی تحریر ایک ہمہ گیر صدائے احتجاج بن کر گونجتی ہے تو پورے عہد کی آواز بن جاتی ہے ۔پروین شاکر کے اس معاشرتی شعور اور آشوب آگہی کی یہ تصویر انسانی احساس کو جھنجوڑنے کے لئے کافی ہے۔
اہرام ہے یا کہ شہر میرا
انسان ہیں یا حنوط لاشیں
سڑکوں پر رواں‘ یہ آدمی ہیں
یا نیند میں چل رہی ہیں لاشیں
پروین شاکر کی پہلی کتاب ’’خوشبو‘‘ 1977 ء میں شائع ہوئی جبکہ دیگر تین مجموعہ ہائے کلام صدبرگ‘ خود کلامی اور انکار اگلے سات آٹھ برسوں میں شائع ہوئے۔ شاید قدرت ان سے ان کے حصے کا کام جلدی جلدی لے رہی تھی ۔جبکہ ان کے آخری مجموعے ’’انکار‘‘ کی اشاعت کے چند سال بعد عین اسی سال جو اس دنیا سے اس کی رخصتی کا سال تھا ،انہوں نے اگلا کوئی شعری مجموعہ شائع یا مرتب کرنے کے بجائے اپنے سابقہ چاروںشعری مجموعوں کو کلیات کی شکل میں ’’ماہ تمام‘‘ کے نام سے اپنی وفات سے چند ماہ قبل شائع کردیا۔ شعری تخلیقی سفر کا آگے جاری نہ رہنا اور سابقہ شعری سرمایہ حیات کو سمیٹ کر مرتب کرنا اس بات کی طرف کلی اشارہ تھا کہ
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تیری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
ایک ہندوستانی رائٹر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ 1986 ء میں پروین شاکر جب ہندوستان آئیں تو نئی دہلی کے ہوٹل جن پتھ میں ٹھہریں جہاں ان کی جھلک دیکھنے کے لئے لوگوں کی بھیڑ لگی رہی ۔اتنی مقبولیت اگر کسی فلمی اسٹار یا فلمی شاعر کو ملے تو حیرت نہیں ہوتی لیکن اردو کی کسی 35 سالہ شاعرہ کو یہ مقبولیت حاصل ہونا معمول کی بات نہیں کہ اس کی شاعری کے بیشتر حصے کا ترجمہ خود ان کی زندگی میں تمام عصری زبانوں میں ہوجائے ۔اس لحاظ سے تو وہ اپنے معاصر مرد شعراء سے بھی کافی آگے نظر آتی ہیں‘‘ ۔پروین شاکر نے 1981 ء میں سی ایس ایس کا امتحان دے کر ملک بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کرکے کسٹم کے محکمے کو جوائن کرلیا تھا جس سے وہ اپنی ناگہانی و حادثاتی وفات تک منسلک رہیں بلکہ 26 دسمبر 1994ء کی صبح وہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ اسلام آباد میں واقع اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ زخم اتنے شدید تھے کہ وہ جانبر نہ ہوسکیں اور یہ کہتے ہوئے ہم سے رخصت ہوگئیں کہ
میں پھر خاک کو خاک پر چھوڑ آئی
رضائے الٰہی کی تکمیل کردی


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر