... loading ...
ڈائجسٹ پڑھتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ وقت دیکھا تو رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے، گلزار ابھی تک واپس نہیں آیا تھا ہمیں فکر ستانے لگی، موبائل فون ابھی عام نہیں ہوا تھا گلزار سے رابطے کی کوئی صورت نہیں تھی، اگرچہ گلزار جاتے وقت کہہ گیا تھا کہ ہم جاتے وقت دوکان کے شٹر کو باہر سے تالا لگا کر جا سکتے ہیں لیکن اب کافی رات ہو چکی تھی ہمیں گلزار کی فکر ہو رہی تھی۔ اتنے میں شٹر اوپر اٹھا اور گلزار کی شکل نظر آئی، ہم نے کہا بھائی کہاں رہ گئے تھے ،ہم تو پریشان ہوگئے تھے، گلزار نے کہا بھائی جان میں قریب دس بجے واپس آگیا تھا لیکن اپنے فلیٹ پر اتر گیا میرا خیال تھا آپ دوکان کو تالالگا کرجا چکے ہوں گے لیکن پھر خیال آیا کہ اگر آپ نہیں گئے ہوئے تو کوئی مسئلہ نہ ہو گیا ہو، یہاں کسی کی دوکان پر بغیر اس دوکان کے ورک پرمٹ کے بیٹھنا جرم ہے اور رات میں شرطے (سعودی پولیس) گشت کرتے ہیں۔ دوکان کا شٹرگرا ہوا دیکھ کر وہ ضرو ر چیک کرتے اور آپ اندر سے نکلتے تو انہوں نے سیدھا آپ کو جیل لے جانا تھا، آپ کے پاس تو ابھی اقامہ بھی نہیں ہے بس آپ کا تو کام ہو جانا تھا، اسی فکر کی وجہ سے میں فلیٹ سے بھاگا بھاگا آیا ہوں اور آپ یہیں موجود ہیں ،شکر کریں ابھی تک کوئی شرطہ نہیں آیا۔ ہم نے ڈائجسٹ دکھاتے ہوئے کہا یہ مل گیا تھا تو ہم پڑھنے میں لگ گئے وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ گلزار نے کہا ڈائجسٹ کو چھوڑیں باہر نکلیں بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہم گلزار کے ساتھ دوکان سے باہر نکل آئے اس نے شٹر کو تالا لگایا اور ہم ساتھ ساتھ چل پڑے۔ گلزار نے کہا دعا کریں شرطے نہ مل جائیں ورنہ آپ کو اقامہ نہ ہونے پر اور مجھے آوارہ گردی کے الزام میں اندر کر دیں گے۔ سڑک پر ہم دونوں پیدل چلے جا رہے تھے کچھ دیر میں اکا دکا گاڑی بھی گزر جاتی تھی۔ گلزار نے دور سے آتی ایک گاڑی کی طرف دیکھ کر کہا شرطے آرہے ہیں، اس نے اچانک ہمارا ہاتھ پکڑا اور ایک گلی میں داخل ہو گیا۔ گلیاں کافی چوڑی تھیں اور گلزار تیز تیز قدموں سے ایک سے دوسری گلی میں مڑ رہا تھا۔ گلزار نے پوچھا آپ کا کیمپ کس طرف ہے ؟ہم نے کہا بھائی ہم تو دو روز پہلے ہی یہاں پہنچے ہیں اور آج پہلی بار کیمپ سے جنادریہ کی طرف آئے تھے ، ویسے بھی ہم مغرب سے پہلے نکلے تھے، اس وقت روشنی تھی اب اندھیرے میں ہمیں کچھ اندازہ نہیں کیمپ کس طرف ہوگا۔ گلزار نے کہا یہ تو مسئلہ ہو گیا آپ کچھ سوچ کر بتائیں کوئی نشانی کوئی جگہ جو آپ کو یاد ہو۔ ہم نے کہا ہمارے کیمپ کے سامنے بڑا سا میدان ہے او ر اس کے قریب کالج واقع ہے، گلزار نے کہا یہاں تو مین روڈ کے ساتھ میدان ہی میدان ہے چلیں اللہ مالک ہے کوشش کرتے ہیں۔ گلیوں میں سناٹا تھا ہم 2 ذی روح تھے جو تیز تیز قدموں سے چلے جا رہے تھے۔ شرطوں کی گاڑی کا دھڑکا لگا ہوا تھا۔
ہم دونوں ایک گلی سے دوسری میں مڑے ہی تھے کہ سامنے آنے والی گاڑی کی لائٹوں سے آنکھیں چندھیا گئیں۔ گاڑی والے نے ہمارے قریب آکر گاڑی روک لی۔ ہم تو سہمے ہوئے تھے لیکن گلزاربھی زیادہ پراعتماد نظر نہیں آرہا تھا ، ہم نے پوچھا کیا یہ شرطے ہیں، گلزار نے کہا گاڑی تو شرطوں کی نہیں لیکن شرطے بھی ہو سکتے ہیں۔ گاڑی سوار نے شیشہ نیچے اتارا اور عربی میں زور سے کچھ کہا ، گلزار نے بھی عربی میں جواب دیا، پھر گلزا ر گاڑی کے قریب چلا گیا اور دونوں میں کچھ بات چیت ہوئی۔ اتنے میں گلزار کی آواز آئی، بھائی جان آئیں ، گاڑی میں بیٹھ جائیں۔ ہم پچھلا دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ گلزار عربی کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ہم حیران وپریشان تھے۔ گلزار نے کہا یہ عربی اس کا جاننے والا ہے، اس کے اے سی فریج وغیرہ کی مرمت گلزار کی دوکان سے ہی ہوتی ہے۔ جان پہچان تھی اس لیے بچت ہو گئی ورنہ کوئی شرطہ یا کوئی اور عربی ہوتا تو ہماری شامت آگئی تھی۔ گلزار نے عربی کوکیمپ کے بارے میں بتایا ،زراسی دیر میں ہم کیمپ کے سامنے پہنچ چکے تھے۔ ہم اپنے کیمپ پراتر گئے جبکہ وہ عربی گلزار کو چھوڑنے چلا گیا، سچ ہے اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ بلکہ زیادہ تر لوگ اچھے ہی ہوتے ہیں۔ ویسے بعد میں سعودی عرب میں ہمارا یہ خیال خام خیالی ہی ثابت ہوا۔ ہم اپنے کیبن میں پہنچے تو سوا گیارہ ہو چکے تھے۔ کیمپ میں دوسرا دن گزر چکا تھا۔۔۔۔ جاری ہے۔
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...