... loading ...
یومِ اقبال ؒ کے موقع پر آدھے پاکستان میں تعطیل تھی اور آدھے پاکستان میں کارِ سرکارکی انجام دہی کا سلسلہ جاری رہا ۔معاملہ چھُٹی کا نہیں وابستگی اور دلبستگی کا ہے ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ’’ یومِ اقبال ‘‘ کی چھٹی کے لیے اپنے حضور پیش کی جانے والی سمری مسترد کردی تھی ۔ گزشتہ سال موجودہ حکومت نے بیٹھے بٹھائے اچانک 9 نومبر کی تعطیل کی 64 سالہ قومی روایت کوختم کر دیا تھا۔ اس حکومتی فیصلے کا پس منظر کیا ہے ؟؟؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔
ایک ہفتہ سے اخبارات اور سوشل میڈیا میں مصورِ پاکستان کے پوتے بیرسٹر ولید اقبال کی وہ تصویر سنجیدہ حلقوں اور اقبالؒ سے عقیدت رکھنے والوں کے لیے اذیت کا باعث بنی ہوئی ہے جس میں اسلام آباد پولیس کے اہلکار انہیں گریبان سے پکڑ کر گھسیٹ رہے ہیں ۔۔۔ ’’اقبالؒ کے دیس ‘‘ میں اقبالیات سے ہونے والے سلوک کا نوحہ لکھنے کا سوچا تو انجمن ترقی اردو ( ہند) نئی دہلی کی شائع کردہ کتاب ’’حیاتِ محروم‘‘ کا صفحہ 130 سامنے آگیا ۔ بھارت میں اقبالؒ کی نشاۃ الثانیہ کا سبب بننے والے ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کی تحریر کے مندرجات بے قراری میں اضافے کا سبب بن رہے تھے ۔۔۔ اقبالیات کے اس عاشق کو جو اسی مٹی کا فرزند تھا ہم نے اُس کے نابغہ روزگار والد تلوک چند محروم سمیت مہاجر بنا کر بھارت بھیج دیا تھا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’رات کو جب قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تو ریڈیو پاکستان لاہور سے میرا قومی ترانہ
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
اے سر زمینِ پاک
اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام
اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام
اپنا وطن ہے راہِ ترقی پہ تیز گام
آزاد ، با مُراد ، جواں بخت، شاد کام
اب عطر بیز ہیں ، جو ہوائیں تھیں زہر ناک ۔
نشر ہوا ۔ اور اس تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دوسرے دن 15 ۔ اگست کو جب ہندوستان کا جشنِ آزادی منایا جارہا تھا تو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے حفیظ جالندھری کا ترانہ
اے وطن اے انڈیا اے بھارت اے ہندوستان نشر ہو رہاتھا ۔۔۔
پاکستان کے پہلے قومی ترانے کے خالق ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کا تعلق میانوالی کے علاقے عیسیٰ خیل سے تھا وہ اپنے دور کے نامور شاعر تلوک چند محروم کے صاحبزادے تھے ۔ قیامِ پاکستا ن کے وقت تلوک چند محروم راولپنڈی میں جبکہ آزا د لاہور میں تھے دونوں پاکستان چھوڑنا نہیں چاہتے تھے ۔ لیکن حالات بگڑتے چلے گئے ، ہندو مسلم فسادات اپنی انتہا کو پہنچے تو دونوں ہجرت پر مجبور ہوگئے تھے ۔
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں۔’’تقسیم ہند کے ابتدائی برسوں میں بھارت میں اقبال ؒ کا نام لینے والوں کو فرقہ پرست اور بھار ت دشمن خیال کیا جاتا تھا۔یوں سمجھئے کہ اقبالیات کے حوالے سے سناٹا چھایا ہوا تھا۔جگن ناتھ آزاد نے اس سناٹے کو توڑا۔اس ضمن میں ایک واقعے کا ذکر قارئین کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا۔کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر آصف علی اصغر فیضی نے آزاد سے فرمائش کی کہ وہ یونیورسٹی میں غالب پر تین لیکچر دیں۔آزاد نے کہا کہ آپ مجھ سے اقبال ؒ پر لیکچر دلوائیے۔وائس چانسلر کو کچھ تعجب ہوا۔۔ وہ کہنے لگے 1947 ء سے آج تک تو جموں و کشمیر یونیورسٹی میں کسی نے اقبال ؒ کا نام نہیں لیا ۔آزاد نے اقبال ؒ پر لیکچروں کے حق میں کچھ دلائل دیے اور کہا کہ یونیورسٹی میں اقبال ؒ پر لیکچرز کا انتظام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔وائس چانسلر کو پھر بھی ایسا قدم اُٹھاتے ہوئے تامل تھا۔ انہوں نے سوچ بچار کے لیے کچھ وقت مانگا۔آخر کئی روز کے غورو فکر کے بعد وائس چانسلر نے آزاد کو اقبال ؒ پر لیکچرز کا دعوت نامہ بھجوا دیا۔اس وقت وہ حکومتِ ہند کے محکمہ اطلاعات میں ملازم تھے۔لیکچر انہوں نے تیار کر لیے، مگر جب محکمے سے سری نگر جا کر لیکچر دینے کی اجازت مانگی تو متعلقہ وزیر صاحب نے درخواست مسترد کر دی۔اور اس موضوع پر بات کرنے کے لیے وزیر اطلاعات انڈیا نے آزاد کی بات سننے سے بھی انکار کر دیا۔انہی دنوں سجاد ظہیر جیسے نام نہاد ترقی پسند دانشوروں نے آزاد پر الزام لگایا تھا کہ وہ اقبالؒ پر لیکچروں کے ذریعے مسلم فرقہ پرستی کو فروغ دے رہے ہیں۔‘‘
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک بھارت میں اقبال ؒ دشمنی عروج پر تھی۔گور کھ یونیورسٹی نے بھارت کے ایک اور اقبالؒ شناس ڈاکٹر عبد الحق کو اقبالؒ پر ڈاکٹریٹ کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اقبالؒ ہندوستان دشمن تھے۔اور اس پر پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔ایسے کٹھن حالات اور گھٹن زدہ ماحول میں ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد نے بھارت میں اقبالیات کو عام کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔1973 ء میں ’’ اقبال نمائش ‘‘ کا اہتمام کیا۔اس نمائش کے باعث انہیں زبردست عتاب کا سامنا کرنا پڑا۔انہیں غدار اور ملک دشمن کہا گیا۔ہندو اخبارات نے اداریے تحریر کیے اور لکھا’’ان دنوں اگر بھارت میں مسلم نواز حکومت ( جنتا پرٹی کی حکومت ) نہ ہوتی تو آزاد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔اقبالؒ کی آفاقی حیثیت اپنے آپ کو خود منواتی ہے۔کچھ اقبال ؒ کی آفاقیت کا کمال تھا کچھ جگن ناتھ آزاد کی محنتوں کا ثمر ، بھارت کے علمی اور ادبی حلقے اقبالیات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔اِسی سال( 1973 ء) میں دہلی میں ایک بین الاقوامی اقبال ؒ کانگرس کا انعقاد ہوا۔اس کانگرس کے سیکرٹری ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد تھے۔اس کے بعد اقبالیات بھارت کے طول و عرض میں پھیلتی چلی گئی۔کشمیر یونیورسٹی میں اقبال ؒ چےئر قائم ہوئی۔جو اَب اقبال ؒ انسٹی ٹیوٹ کے نام سے اقبال ؒ شناسی کا کام کر رہی ہے۔اس انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام اقبالیات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی لیول کا کام ہورہا ہے۔
’’اقبال ؒ صدی ‘‘کے حوالے سے دسمبر 1977 میں ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد پاکستان آئے۔ ایک ملاقات کے دوران انہوں نے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم سے دریافت کیا کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اقبال ؒ چےئر قائم ہے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خیرات محمد ابنِ رساء کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا۔
وائس چانسلر نے نفی میں جواب دیا۔
آزاد اس موقع پر گویا ہوئے ’’ جنرل صاحب کشمیر( مقبوضہ ) یونیورسٹی پنجاب یونیورسٹی سے آگے بڑھ گئی ہے۔‘‘ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے فوری طور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اقبال ؒ چےئر قائم کرنے کا حکم دیا۔ یوں اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر پاکستان کی یونیورسٹی میں اقبالؒ چےئر کا قیام بھی ڈاکٹر جگن ناتھ آزادکا تحفہ قرار دیا جا سکتا ہے۔اسی سال صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے حکومتِ پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کو ’’ اقبال ایوارڈ ‘‘ عطاء کیا تھا۔
آزاد ہندو ہونے کے باوجودکھلے ذہن اور کھلے دل کے مالک تھے۔ وسیع القلبی ، بے تعصبی،اسلام و مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے ہمیشہ خیر سگالی کے جذبات کا اظہا ر کیا۔1949 ء میں انہوں نے “بھارت کے مسلمانوں ” کے عنوان سے ایک معرکۃ الآراء نظم بھی لکھی تھی۔بابری مسجد کی شہادت پر انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز میں کیا تھا کہ
یہ تُو نے ہند کی حُرمت کے آئینے کو توڑا
خبر بھی ہے تجھے مسجد کا گنبد توڑنے والے
ہمارے دل کو توڑا ہے عمارت کو نہیں توڑا
خباثت کی بھی حد ہوتی ہے اے حد توڑنے والے
جگن ناتھ آزاد کی مادری زبان پنجابی اور قومی زبان ہندی تھی۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنے دامن میں اردو کی محبت کو سموئے رکھا ۔ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کی علمی ادبی خدمات میں ان کی تخلیقات بہت نمایاں ہیں ۔ اقبالیات کے حوالے سے ان کی جو کتب منظرِ عام پر آئی ہیں ان میں اقبال ؒ اور اس کا عہد،اقبالؒ اور مغربی مفکر،اقبالؒ کی کہانی ،اقبال ؒ اور کشمیر،مرقع اقبال( البم (،اقبالؒ ایک ادبی سوانح حیات ،اقبال ؒ کی زندگی شخصیت اور شاعری،اقبال ؒ مائنڈ اینڈ آرٹ(انگریزی ) ، اوراقبالؒ ہزپوئٹری اینڈ فلاسفی( انگریزی ) شامل ہیں۔ان کی شاعری کی کتب میں بیکراں،ستاروں سے ذروں تک،اردو، وطن میں اجنبی،نوائے پریشاں اور بوئے رسیدہ نمایاں ہیں جبکہ نثری تخلیقات میں میرے گزشتہ شب و روز( خود نوشت )،آنکھیں ترستیاں ہیں ( خاکے )،نشانِ منزل( تنقیدِ ادب)، پشکن کے دیس میں( سفر نامہ )،کولمبس کے دیس میں ( سفر نامہ )،حیاتِ محروم ( سوانح عمری ) گراں قدر ادبی اثاثے کے طور پر محفوظ ہیں۔
28 جولائی2004 ء ڈاکٹر جگن ناتھ اقبال ؒ شناس حلقوں کو اداس چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے ۔اقبال شناسی اور ارُد و کے حوالے سے ان کی خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ وہ اقبالؒ کے کلام کو ازبر کرنے کے حوالے سے ہمیشہ حافظِ اقبال کہلائیں گے۔برصغیر میں جب بھی روشن خیالی، خیر سگالی اور بے تعصبی کا ذکر آئے گا تو ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد کا نام روشنی کی کرنیں بکھیرے گا۔ اقبالؒ کے عاشق اور اقبالیات کے پروانے مایوسی کی بجائے اُمید کے دیے روشن کرتے رہیں گے ۔
چیست فقر اے بندگان آب وگل یک نگاہ راہ بیں، یک زندہ دل (اے دنیا کے غلامو جانتے ہو کہ فقر کیا ہے۔ ایک نگاہ جو صحیح راستہ دیکھ لے۔ ایک دل جو اللہ کی محبت سے زندہ ہو) فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا ست ما امینیم ایں متا ع مصطفیٰﷺ است ( فقر ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کی کیفیت ہے۔صرف ...
تحریر:ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ان کی آنکھ بینا تھی‘ ذہن بیدار تھا اور فکر عالمگیر تھی۔ علامہ اقبال اپنے وسیع مطالعے‘ فکری تجربے اور ذہنی مشاہدے سے صحیح معنوں میں ’دیدہ ور‘ کی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ وہ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ اس مختصر کُروی زندگی کی آموزش گاہ میں فیضیاب ہوکر’دیدہ ور‘ ...