وجود

... loading ...

وجود

شام۔گیس اور ایک سرد جنگ

هفته 05 نومبر 2016 شام۔گیس اور ایک سرد جنگ

ہم شام سن 2007میں گئے تھے۔وہاں کی حلب ( Aleppo )یونی ورسٹی کے ریسٹ ہاؤس میں ہمارا قیام تھا۔ICARDA کے ادارے کا پروگرام تھا۔یہ ادارہ دنیا بھر میں کم پانی والے نسبتاً خشک علاقوں کی فصلوں پر ریسرچ کرتا ہے۔کیا زبردست ادارہ ہے۔ پاکستان کی ایگری کلچر ریسرچ کاؤنسل تو اس کے آگے کسی سرکاری اسکول کی لیبارٹری لگتی ہے ۔ اس کا انتظام اور اس سے وابستہ افراد کی فنی صلاحیتیں دیکھ کر ہم تو ششدر رہ گئے تھے۔اس کے ڈائیریکٹر جنرل کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ وہ ہمارے مربی اور محسن فیڈرل سیکرٹری ڈاکٹر ظفر الطاف کے ایسے ممدوح و معترف تھے کہ جب انہیں یہ علم ہوا کہ ہمارا تعلق سول سروس سے ہے اور ہم ایک سنئیر افسر ہیں تو وہ بضد ہوئے کہ ہمیں ریسٹ ہاؤس سے نکال کر ایک فائیو اسٹار میں منتقل کردیں۔

حلب یونیورسٹی اور ریسٹ ہائوس

حلب یونیورسٹی اور ریسٹ ہائوس

ہم انکاری ہوئے۔دو دن میں ہماری اپنے ساتھیوں سے بہت دل لگی ہوچلی تھی۔دل نہ مانا کہ ان انیس ساتھیوں کو جن میں گیارہ عرب خواتین اور آٹھ افریقی مرد دوست شامل تھے،انہیں ہم یہ احساس دلائیں کہ ہماری سرکاری حیثیت ان سے بلند و برتر ہے۔اس میں بعد میں چھ افسر اور آن کر شامل ہوئے۔ یہ سب شامی تھے۔ چار خواتین اور دو مرد۔ہمیں ان کے طور اطوار دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ ان کا تعلق ان کی خفیہ ایجنسیNational Security Bureau, سے ہے۔ان میں اولیٰ بھی شامل تھی جو ان کے یونان میں سفیر کی بیٹی تھی۔پیکر حسن و جمال ، اپنے کرسچن ڈی اؤر کے چشمے سے اسٹڈیم جیسی کشادہ آنکھوں پر Taupe eye shadow لگاتی تھی۔ویسی ہی ذرا گہری جامنی لپ اسٹک بھی لگاتی تھی۔ مگرگفتگو بھی بہت ذہانت بھری کرتی تھی ،انگریزی کا مطالعہ بھی بہت ہمہ جہت تھا۔
شام کو سیر و تفریح کے لیے جب ہم سب ساتھی نکلتے تو وہ ہمیں کسی نہ کسی طور علیحدہ کرکے ایک موڑ پر غائب ہونے کا اشارہ کرتی تھی۔وہ ہمیں حلب کی گلیاں اور ان کے چھوٹے مگر بے حد لذیذ کھانوں اور جان لیوا نرگیلا (شیشے) والے ہوٹلوں میں لے جاتی تھی۔ہم سے پہلے شیشے کے کش لگاتی تھی۔چاندی کی پنی پر اس کی لپ اسٹک اپنا نشان چھوڑجاتی۔ہم کش لیتے تو وہ رنگین ،نرم لبوں کاترکہ ہمارے ہونٹوں سے چپک جاتا تھا۔وہ ہنستے ہوئے ٹشو پیپر سے جب اسے مٹانے کی کوشش کرتی تو یہ ضرور جتاتی تھی کہ ہماری بیگم یہاں ہوتی تو ہمارا گھر میں داخلے کا مسئلہ ہوجاتا۔ ہم اس سے کہتے تھے کہ ساری عمر ہم نے ناکردہ گناہوں کی صفائی دی ہے۔قیامت میں بھی یہی معاملہ ہوگا۔ہمارا جواب سن کر اس کی ہنسی کا ایک فوارہ بلند ہوتا، لہراتا، کھنکناتا، ادھر

حلب کے ایک شیشہ کیفے کا منظر

حلب کے ایک شیشہ کیفے کا منظر

اُدھر ڈولتا۔
حلب شہر کی ان گلیوں اور ان ہوٹلوں کے مالکان اور بیروں کو وہ ایسے ہی جانتی تھی جیسے وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں سے واقف تھی۔دیار باقر نامی ایک قہوہ خانے میں جو حلب یونی ورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے دار الفرقان نامی کتب گھر کی پشت پر ایک تنگ سی گلی میں واقع تھا۔ جب اس کی تقلید میں ہم نے گرما گرم عربی قہوے کا گھونٹ بھرا تو زبان جل گئی۔ تب اسی نے ہمیں بتایا کہ پہلے پیار میں ناکامی ہو یا قہوے کے پہلے گھونٹ پر زبان جل جائے تو دونوں کا مزہ جاتا رہتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ وہ اتنا تلخ گرم قہوہ کیسے اتنے آرام سے گُھٹکالیتی ہے تو کہنے لگی کہ ’’عربی قہوے کے بارے میں ہم شامی کہتے ہیں کہ
cafe-near-castle-in-aleppoلازم ہے ’’ عربی قہوہ محبت کی طرح کھولتا ہوا گرم اور موت کی مانند تلخ ہو‘‘۔
پاکستان پر اس قدر سوال کرتی کہ ہم ہلکان ہوجاتے تھے۔اسی نے ہمیں لکھنے لکھانے کی ترغیب دی۔ سو اب ہم لکھتے ہیں۔ علیٰ الصباح چار بجے حلب یونیورسٹی کی مختلف مساجد کے مناروں سے قرآن الکریم کی بہت مدھم مگر بے حد تقدیس بھری تلاوت سنائی دیتی۔ یہ وہاں کا الارم سمجھ لیں۔ اس کی آواز سنتے ہی ہوسٹل کی کھڑکیوں میں روشنیاں جگمگا نے لگتی تھیں۔
شام کی موجودہ خانہ جنگی جس کا آغاز 15 مارچ 2011 سے ہوا اس کی اُن دنوں علامت دور دور تک دکھائی نہ دیتیں تھیں۔ بشار الاسد کی گرفت حکومت پر بہت مضبوط تھی۔ہر جگہ ان کی تصاویر اور اقوال درج دکھائی دیتے تھے۔ مارچ میں یہ خانہ جنگی عرب بہار (Arab Spring )سے وہاں کے صدر بشار الاسد کے خلاف ایک مقبول region-syriaتحریک سے شروع ہوئی ۔
ہاتھیوں کی اس جنگ میں پاکستان بھی اس Proxy War کی لپیٹ میں آگیا۔ایران شام میں بشار الاسد کی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے گلگت اور کوئٹہ سے نوجوان بھرتی کرتا ہے۔عرب ان قبائل پر جو اس جنگ میں شامی افواج کا ساتھ دیتے ہیں ان پر حملہ پاکستان میں کرتے ہیں۔ عرب دنیا کے پاکستانی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے حلقوں میں یہ الزام بھی عام طور پر لگایا جاتا ہے کہ شام کی جنگ کے لیے گلگت ،پارہ چنار، کوئٹہ سے ہزارہ نوجوانوں کو ایران بھرتی کرتا ہے۔انہیں پچاس ہزار روپے ماہانہ دیا جاتا ہے۔ دوران جنگ ہلاکت پر پینشن اور بچوں کی ایران میں اعلیٰ تعلیم کا بندوبست بھی ہوجاتا ہے۔جب پاکستان میں وہاں متحارب گروپ حملے کے لیے اس خانہ جنگی میں شامل ہونے والے نئے بھرتی شدہ افراد کو نشانہ بناتے ہیں تو اس میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا عنصر نمایاں انداز میں غالب آجاتا ہے۔
اس تناؤ کو بھڑکانے میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را بھی اپنا حصہ ڈالتی ہے تاکہ پاکستان میں فرقہ وارانہ مخاصمت کو بھڑکایا جاسکے۔ یاد رکھیے مدراس کے کلوے کو کراچی میں لیاقت آباد کے مہاجرین میں تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسا سوکھے تنکوں کے ڈھیر میں سوئی کو ڈھونڈنا۔ بھارت کے بہت سے Sleeping Cells ملیر،اورنگی، لیاقت آباد اور دوسری گنجان آبادیوں اور لوکل گورنمنٹ کے اداروں میں1986 سے تخریب کاری میں مصروف ہیں۔
بادی النظر میں تو شام کی یہ خانہ جنگی سعودی عرب اور ایران کی لڑائی لگتی ہے۔پاکستان میں اس جنگ کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور اس جنگ کے نتیجے میں مہاجرین کا ایک سیل رواں جو یورپ ترکی اور دوسرے ممالک کی جانب رواں ہے ،اس پر ہم سب ہی حیران ہوتے ہیں۔اب تک اس جنگ میں پانچ لاکھ افراد لقمہء اجل بن چکے ہیں۔اس سے دگنی تعداد مہاجرین کی ہے۔ایران کی ترانے دوست علی اس جنگ کو ایران کی ISIS کے خلاف کارروائی سمجھتی ہے۔یہ سرکاری پروپیگنڈے کا کمال ہے۔ بظاہر تو یہ خانہ جنگی ، ایسا لگتا ہے کہ پانچ سے بھی کم فیصد والے علوی اقلیت سے تعلق رکھنے بشار الاسد کی حکومت کی مخالفت کی حرب مہم ہے ۔نویں صدی کے علوی جنہیں عرب نصیری کہتے ہیں گو خود اہل تشیع اسے hate speech گردانتے ہیں۔علوی سیدنا علی مرتضیؓ سے تثیلث کا تصور جوڑ کر انہیں خدا وندِ کریم کا انسانی مظہر سمجھتے ہیں۔آپس میں بے حد جڑے اس فرقے کو صلاح الدین ایوبی اور عثمانی خلفاء نے بہت نقصان پہنچایا تھا۔بشار الاسد کی چین ، ایران اور روس کی فوجی حمایت نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہن میں بہت سوالات اٹھا رکھے ہیں۔
اس حمایت کی تہہ میں ہماری طرح کے سی پیک کا ایک بہت بڑا منصوبہ اس اصل فوجی مداخلت کا سبب ہے۔ دو سپر پاور اپنی اپنی پسند کی ایک گیس لائن کھینچ کر two-pipelinesیورپ تک لے جانا چاہتے ہیں۔ قدرتی گیس کی یہ دونوں لائنیں شام سے لازماً گزرتی ہیں۔امریکا کی حمایت سے بننے والی یہ مجوزہ لائن دوہا قطر سے نکل کر اردن سے ہوتی ہوئی اناطولیہ ترکی سے ہوتی ہوئی یورپ تک آتی ہے۔یہ یورپ کے موجودہ صنعتی Lay-Out کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔روس کی مجوزہ گیس لائن ایران کے صوبے شیراز سے ہوتی ہوئی عراق کے علاقے اربیل سے ہوتی ہوئی براستہ شام ، قبرص، یونان اور مشرقی یورپ سے روس تک جاپہنچتی ہے۔ روس اپنے لیے اس گیس لائن کو اپنی متبادل لائف لائن سمجھتا ہے۔ سردست یورپ کی چوتھائی کے قریب گیس روس سے خریدی جاتی ہے۔ اس میں سے80 فیصد کے قریب روس کی ایک سرکاری کمپنی Gazprom فراہم کرتی ہے۔روس اپنی اس اجارہ داری کو ہر طور قائم رکھنا چاہتا ہے۔
امریکا کی سوچ یہ ہے کہ اگر وہ اس اجارہ داری کو توڑنے میں کامیاب ہوجائے تو روس کا اثر و رسوخ یورپ میں کمزور ہوجائے گا۔ افغانستان کی جنگ کے بعد وہ بمشکل اس اثر و روسوخ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔اس گیس سپلائی کا متبادل لاکر وہ روس کا باقی ماندہ کنٹرول بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔ روس اس معاشی چال بازی کو خوب سمجھتا ہے۔پچھلے دنوں یوکرین اور جیارجیا کی مملکتوں میں روس نے جو براہ راست فوجی مداخلت کی تھی وہ اس کی جوابی حکمت عملی کا حصہ تھی تاکہ یورپ اس کے نعم البدل کے طور پر مشرق وسطی سے منگوائی ہوئی گیس پر انحصار نہ شروع کردے۔امریکا کا ایک دور رس منصوبہ یہ بھی ہے کہ وہ یورپ کی گیس کی باقی ماندہ ضرورت اپنے ہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے گیس فروخت کرکے پوری کرے۔
شام کی خانہ جنگی سے پہلے یہ قطر اور ایران کی یہ دونوں گیس لائنوں کا منصوبہ شام کے زیر غور تھا۔ سن 2009 میں تو یہ منصوبہ اس حد تک آگے بڑھ گیا تھا کہ قطر کی گیس کی پائپ لائن میں سعودی عرب بھی ترکی واردن کے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔قطر کے پاس بحیرۂ فارس Persian Gulf میں سمندر کی سطح سے 3000 میٹر دنیا میں قدرتی گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔قطر کی مشکل یہ ہے کہ وہ یہ گیس موجود حالت میں صرف بحری جہازوں کے ذریعے فروخت کرسکتا ہے ۔ جو یورپ کو بطور خریدار روس سے خرید ی گئی گیس کے مقابلے میں خاصا مہنگا پڑتا ہے۔ روس اور ایران کے دباؤ میں آ کر جب شام کے صدر بشار الاسد نے 2009 والا منصوبہ رد کیا تو ایران نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا یورپ کو گیس فروخت کرنے کا 10 بلین امریکی ڈالر کا متبا دل منصوبہ سامنے رکھا۔اس منصوبے کے تحت یہ لائن عراق اور شام سے Sea. Mediterranean یعنی بحیرۂ روم سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے۔
بشار الاسد نے اس منصوبے کی منظوری ایران سے مل کر 2012 میں دے دی۔جس کی تکمیل کی مدت چار سال یعنی موجودہ سال تھی۔وہ تمام ممالک جو شام کی خانہ جنگی میں اپنا حصہ ڈالے بیٹھے ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی طور گیس فراہمی کے اسی منصوبے سے ہے۔ یوں معاشیات کی یہ جنگ ساری دنیا کے سامنے شیعہ سنی جنگ کے طور پر سامنے آئی ہے، جب کہ ایسا ہرگز نہیں۔اب تک صرف قطر نے ان تمام باغی حربی دھڑوں کو جو شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف برسر پیکار ہیں تین بلین امریکی ڈالر سے مدد کی ہے۔ایران اور شام ان تمام دھڑوں کی اس طرح کی امداد کا الزام سعودی عرب پر بھی لگا تے ہیں۔
اگلا سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ ترکی اس تمام معاملے میں کہاں کھڑا ہے۔ایران الزام لگاتا ہے کہ ترکی کے صدر طیب اردگان براہ راست شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ترکی پر ایران یہ بھی الزام لگا تا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کا سب بڑا حامی ہے۔ ترکی میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ شام ان کے ہاں کرد باغیوں کی امداد بہت فراخدلی سے کرتا ہے۔ ترکی امریکی پائپ لائن کا اس لیے بھی حامی ہے کہ وہ یورپی یونین کا ممبر بننے کے لیے بہت شدت سے خواہشمند ہے۔یہ پائپ لائن اس کے لیے نہ صرف راہداری کا کرایہ فراہم کرے گی بلکہ اسے بھی گیس یورپ سے بہت سستی ملا کرے گی۔سردست ترکی اپنی گیس کی ضروریات روس کے ذریعے پوری کرتا ہے۔ امریکی پائپ لائن اس کا روس پر انحصار ختم کردے گی۔
بشار الاسد والی ایرانی پائپ لائن البتہ اسے ان تمام فوائد سے محروم کردیتی ہے چونکہ وہ اس کے علاقے سے نہیں گزرتی۔روس جب شامی باغیوں پر فضائی حملے کرتا ہے تو وہ چلتے چلتے ان روسی ترکمان مسلمان قبائل کو بھی ان حملوں کا نشانہ بناتا ہے جو

ترکمان باشندے کی ایک فائل فوٹو

ترکمان باشندے کی ایک فائل فوٹو

ترکی کے حامی ہیں۔
سو صاحبو، دیدہ ورو، شام کی خانہ جنگی دین اور فرقوں کی لڑائی نہیں بلکہ وسائل کی ایک نئی سرد جنگ ہے۔


متعلقہ خبریں


مغربی ممالک میں پھوٹ امریکا وبرطانیہ ناقابل بھروسہ قرار دے دیے گئے وجود - بدھ 31 مئی 2017

امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد ہی سے مغربی ممالک کے درمیان سنگین نوعیت کے اختلافات سر اٹھارہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سراقتدار آنے کے بعد یورپی ممالک پر نیٹو کے لیے رقم کی فراہمی میں اضافے کے بعد ہی سے یورپی ممالک امریکا سے ناراض نظر آرہے تھے اور نیٹو میں بھی ان ...

مغربی ممالک میں پھوٹ امریکا وبرطانیہ ناقابل بھروسہ قرار دے دیے گئے

جنوبی کوریا میں امریکی تھاڈ میزائلوں کی تنصیب شہلا حیات نقوی - جمعه 05 مئی 2017

چین نے جنوبی کوریا میں امریکی میزائل دفاعی نظام کو مسترد کر تے ہوئے اسے چین کی سلامتی کے خلاف قرار دیا ‘جنوبی کوریا میں ہمارا تھاڈ دفاعی میزائل نظام اب کام کرنے کی حالت میں آ گیا،امریکی ترجمان امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان تلخیوں میں اضافہ اور نوبت جنگ تک پہنچ جانے کے بعد ام...

جنوبی کوریا میں امریکی تھاڈ میزائلوں کی تنصیب

نیو فاؤنڈ لینڈ امریکا میں رنگا رنگ کینیڈین فیسٹیول ایچ اے نقوی - بدھ 26 اپریل 2017

[caption id="attachment_44288" align="aligncenter" width="784"] تقریب میں کرشماتی حیثیت کے حامل وزیر اعظم کینیڈاجسٹن ٹروڈو،امریکی صدرکی صاحبزادی ایوانکا بھی اس تقریب میں شریک ہوئیں فیسٹیول کینیڈا کے شہریوں کی طاقت کی علامت، کینیڈین شہریوں کے آئیڈیلز کے اظہار اور نئی امریکی انتظا...

نیو فاؤنڈ لینڈ امریکا میں رنگا رنگ کینیڈین فیسٹیول

شام میں جنگ بندی،5نشستیں ناکام مذاکرات کا چھٹا دور اگلے ماہ متوقع وجود - منگل 25 اپریل 2017

[caption id="attachment_44281" align="aligncenter" width="784"] جنیوامذاکرات کے علاوہ رواں ہفتے استانہ میں سہہ فریقی بات چیت ہونی تھی ،امریکا نے بغیر وجہ بتائے شرکت سے انکار کردیا ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کو پوری دنیا میں تنہا کررہے ہیں،ناقدین ۔انکار کے بعد روسی حکام اور اقوام متحدہ کے ...

شام میں جنگ بندی،5نشستیں ناکام مذاکرات کا چھٹا دور اگلے ماہ متوقع

شمالی کوریا - امریکا کشیدگی دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر۔۔!! وجود - اتوار 16 اپریل 2017

[caption id="attachment_44130" align="aligncenter" width="784"] شام پر امریکی حملے اور شمالی کوریا کو دھمکی کے تناظر میں گزشتہ روزگوگل پر ’’تیسری عالمی جنگ‘‘ ٹاپ سرچ رہا، شمالی کوریا کی جانب سے ایک اور ایٹمی تجربے کاامکان شمالی کوریا نے اپنے بانی قائد کی 105ویں سالگرہ پر منعقدہ پ...

شمالی کوریا - امریکا کشیدگی دنیا تیسری عالمی جنگ کے دھانے پر۔۔!!

امریکا روس اورایران پر مزید پابندیاں لگانے کے لیے پَرتولنے لگا ایچ اے نقوی - بدھ 12 اپریل 2017

[caption id="attachment_44083" align="aligncenter" width="784"] ڈونلڈ ٹرمپ خود کو ایک مضبوط قائدانہ صلاحیت کاحامل شخص ثابت کرنے کیلئے سخت فیصلے کریں گے شامی حکومت کی جانب سے کیمیائی حملے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں ،اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کا دعویٰ[/caption] اقوام متحدہ...

امریکا روس اورایران پر مزید پابندیاں لگانے کے لیے پَرتولنے لگا

امریکا اور کمبوڈیا میں قرضوں کا تنازع وجود - جمعرات 06 اپریل 2017

امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کمبوڈیا کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے ویت نام کی جنگ کے دوران امریکا سے حاصل کئے گئے قرض کی رقم سود سمیت واپس نہیں کی تو اس کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔دوسری جانب کمبوڈیا کی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ویت نام کی جنگ کے دوران امریکا نے کمبوڈیا کی مع...

امریکا اور کمبوڈیا میں قرضوں کا تنازع

امریکا کی قومی سلامتی کے اہم ترین راز چوری وجود - هفته 25 فروری 2017

امریکا کی قومی سلامتی کے اہم ترین راز چرالئے گئے ہیں، گزشتہ دنوں یہ خبر اس وقت سامنے آئی جب امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے امریکا میں دشمن پر نگاہ رکھنے اور جاسوسی سے متعلق ادارے میں کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کو گرفتار کرلیا، اس 51سالہ ٹھیکیدار کوادارے میں موجود سی آئی اے، اور ام...

امریکا کی قومی سلامتی کے اہم ترین راز چوری

ٹرمپ انسان بن جائے گا احمد اعوان - هفته 25 فروری 2017

ٹرمپ اپنے سرکاری جہازیوایس ایئر فورس ون میں سفرکررہاتھا۔وہ اپنی کرسی سے اٹھااورباتھ روم گیا۔وہاں سے باہر نکل کراس نے تولیے سے ہاتھ پونچھے اور وہاں موجود ایک خاتون سے کہا کہ یہ تولیہ کھردراہے، نرم تولیہ رکھو،تاکہ ہاتھ جلدی خشک ہوسکیں،اس کے بعدٹرمپ اپنی سیٹ پربیٹھ گیا۔مگریہ واقعہ پ...

ٹرمپ انسان بن جائے گا

امریکی دستبرداری فلسطین کی پیٹھ میں خنجرکے مترادف ابو محمد نعیم - منگل 21 فروری 2017

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل سے دست برداری کو مبصرین نے اس حل کی پیٹھ میں ’رحم دلانہ گولی‘ مارنے کے مترادف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ٹرمپ کے موقف کے بعد اسرائیل کو فلسطینی عرب علاقوں میں یہودی آباد کاری کا مزید موقع ہاتھ آگیا ہے۔ 1993میں تنظ...

امریکی دستبرداری فلسطین کی پیٹھ میں خنجرکے مترادف

دشمنوں کے درمیاں وجہ دوستی ہے تو محمد اقبال دیوان - پیر 20 فروری 2017

ہمارے نوید منتظر میاں المعروف بہ مونٹی کو دیکھیں تو پنجاب ضلع جھنگ کی تحصیل اٹھارہ ہزاری کی اس مٹیار کی آہِ محبوبیت سمجھ میں آجاتی ہے کہ اُچا لمّا گبھرُو تے اَکھ مستانی۔۔پُتر کسے ماں دا، تے میرا لگے ہانی(ہم عمر).....قد چھ فٹ،کشادہ سینہ،بوجھل آنکھیں،زخموں کی ٹکور کرتا لب و لہجہ،حل...

دشمنوں کے درمیاں وجہ دوستی ہے تو

افغان امن عمل کے لیے روس کی مزید پیش رفت وجود - جمعه 17 فروری 2017

افغانستان میں اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ 20 عسکری گروپ اور خطے کے بہت سے جنگجو سرگرم ہیں اور افغانستان بدستور دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا علاقائی اور عالمی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ا س صورت حال کو تبدیل کرنے اور افغانستان سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کرکے وہاں موجود دہشت گردوں کی وجہ ...

افغان امن عمل کے لیے روس کی مزید پیش رفت

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر