... loading ...
فضا میں بلند ہونے سے پہلے ہوائی جہاز ائیرپورٹ کے رن وے پرآہستہ آہستہ چلنا شروع ہوا۔ ہماری سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی اس لیے باہر کے مناظر دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ۔یہ بہت دلچسپ منظر تھاایئرپورٹ پر مختلف سائز کے کھڑے جہازاور ٹرمینل کی عمارت بھی نظر آرہی تھی، ایئرپورٹ پر مختلف قسم کی گاڑیاں بھی دوڑتی پھررہی تھیں۔ جہازگھوم کر مین رن وے پر آیا۔ پائلٹ نے جہاز دوڑاتے ہوئے ٹیک آف کیلیے انجن آن کئے۔ انجن کی بڑھتی ہوئی آواز کے ساتھ جہاز کی رفتار بھی تیز سے تیز ہوتی گئی اور پھر جہاز کے پہیوں نے زمین چھوڑ دیا۔ جہاز کی کھڑکی سے یہ منظر بڑا دلفریب لگ رہا تھا ، جہاز جیسے جیسے فضاء میں بلند ہو رہا تھا ویسے ویسے نیچے زمین پر مکان ،سڑکیں ،گاڑیاں چھوٹی اور چھوٹی ہوتی چلی جا رہی تھیں۔ جلد ہی جہازبادلوں میں پہنچ گیا۔اب باہر دیکھنے کو کچھ نہیں تھا سو ہم نے بھی آنکھیں بند کرلیں، لیکن دماغ میں خیالات کے جھکڑ سے چل رہے تھے۔ گھر ،دفتر،عزیز، دوست سب یاد آرہے تھے۔ کس سے کیا کہا ،کس نے کیا کہا ،کس نے ٹھیک کہا ،کس سے غلط کہا، سود وزیاں کا ایک دفتر تھا اورہم فکر کے ربر سے بیتے کل کے کھاتے مٹا کر ٹھیک کرنے کی کوشش میں لگے تھے۔ پھر آنے والے دن کیسے ہوں گے کی فکر نے وہم کے دروازے پردستک دی اور ہم اندیشہ ہائے دور دراز میں الجھ کر کہیں دور نکل گئے۔ ایئر ہوسٹس کی کھانے کی پکار سے ہم جہاز میں واپس آگئے۔ کراچی سے ریا ض کا سفرتین گھنٹے میں تمام ہوا۔ہم نے صبح دس بجے اڑان بھری تھی ایک بجے ہمارا جہاز ریاض ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔ جہاز میں ایک دم افرا تفری مچ گئی،ہر ایک کو جہاز سے نکلنے کی جلدی تھی، جلد بازی شائد ہماری قومی عادت بن گئی ہے، حالانکہ ہمارے مذہب میں جلد بازی کو شیطان کا کام کہا گیا ہے مگر کیا مجال جو کوئی اس طرف توجہ دے۔ گھر ہو یا بازار ہوں یا بس اور ریلوے ا سٹیشن، سڑک ہو یا ایئرپورٹ پوری قوم ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ کر آگے نکلنے کی مشق کرتی نظر آتی ہے۔خیر جہاز سے نکل کر ہم جیسے تیسے امیگریشن ہال میں پہنچے جہاں لوگوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ ریاض ایئرپورٹ خطے کے مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے ایک ہے ،اس لیے یہاں ہروقت پروازوں کا سلسلہ جاری اور مسافروں کا رش لگا رہتا ہے۔ سست روی سے بڑھتی لائن میں لگ کر ہم ارد گرد کے لوگوں کا جائز ہ لینے میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے پاکستانی بھائیوں میں زیادہ تر مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے تھے، پختون بھائی بھی بڑی تعداد میں موجود تھے جو اپنے آہنی ہاتھوں سے اپنی قسمت پانے کی کوشش میں دیار غیر آئے تھے۔ جو لوگ پہلی بار بیرون ملک پہنچے تھے ان کے چہروں سے کنفیوژن عیاں ہو رہی تھی۔
امیگریشن سے فارغ ہوکر سامان لینے کا مرحلہ آیا جس کے بعد سب سے سخت مرحلہ شروع ہوا یعنی سامان کی کسٹم چیکنگ۔ یہاں پاکستانیوں کو الگ قطاروں میں کھڑا کرایا گیا، ہمارے پہنچنے تک قطاریں طویل ہو چکی تھیں، ہم ایک قطار میں کھڑے ہو گئے، کسٹم کی قطاریں چیونٹی کی رفتار سے چل رہی تھیں۔ سعودی عرب میں سامان کی سخت ترین چیکنگ کی جاتی ہے۔ خاص طور پر منشیات اور نشہ آور اشیاء لانا سخت منع ہے۔ ہم سامان کے ساتھ قطار میں کھڑے ادھر اْدھر دیکھ رہے تھے، ایک صاحب جو پتلون قمیض میں ملبوس تھے ،قطاروں میں کھڑے لوگوں پر خاص نظر رکھے ہوئے تھے اور گاہے گاہے کسی شخص کو قطار سے نکال کر سب سے آخر میں واقع قطار میں لے جا کر کھڑا کر دیتے تھے، ہمیں ان لوگوں کی قسمت پر رشک آیا کیونکہ اس قطار میں لوگ کم تھے۔ وہ صاحب ہمارے قریب سے گزرے تو ہم نے انگریزی میں اس سے پوچھا وہ آخری قطار کن لوگوں کی ہے، انہوں نے جواب دینے کے بجائے ہمارا ہاتھ پکڑا اور اس آخری قطار میں لے جا کر کھڑا کردیا۔ ہم خوش ہوئے کہ چلو اب ہمارا نمبر جلدی آجائے گا۔ لیکن اس آخری قطار میں لگ کر پتہ چلا یہاں تو کسٹم سے بڑھ کر چیکنگ ہو رہی ہے، ایک بندے پر جتنا وقت عام قطار میں لگ رہا تھا اس سے دوگنا وقت اس قطار میں لگتا تھا۔ یہاں لوگوں کے بیگ اور جوتے تک پھاڑ کر چیک کیے جا رہے تھے۔ ہم نے کہا لو بھئی !جو نئے جوتے لیے تھے وہ تو گئے کام سے۔ اس قطار سے اکثر لوگوں کو سامان سمیت کہیں اور لے جایا جا رہا تھا شائد کہیں اور بھی چیکنگ کی جا رہی تھی۔ ہمارے آگے صرف دو آدمی رہ گئے تو وہ پتلون قمیض والا دوبارہ آیا اور ہمیں قطار سے نکال کر دوسری لائن میں لگنے کا کہا، دوسری لائن میں ہمارا سب سے آخری نمبر تھالیکن دیر پر سوا دیر۔ لیکن دیر تو انہیں ہوتی ہے جنہیں کہیں جانا ہوہم کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ایئرپورٹ سے باہر نکل کر جانا کہاں ہے۔ ہم کسٹم آفیسر تک پہنچنے والے آخری فرد تھے، وہ بھی کئی گھنٹے کی مشقت سے نڈھال سا نظر آرہا تھا۔ ہمیں دیکھا ،بیگ کھولنے کا کہا ، بیگ کھلا تو اس کو الٹ دیا اور ہم سے عربی میں کہا ، یلا خلاص، یعنی جاؤ کام ختم۔ اس کے چیک کرنے سے زیادہ وقت ہمیں سامان دوبارہ بیگ میں ڈالنے میں لگ گیا۔ سامان اٹھا کر باہر نکلے جہاں ہمارے گروپ کے دیگر لوگ ہمارے منتظر تھے،سامنے ریاض شہر پھیلا ہوا تھا۔۔۔۔ جاری ہے
[caption id="attachment_44110" align="aligncenter" width="784"] تیل کی عالمی قیمتوںاور کھپت میں کمی پر قابو پانے کے لیے حکام کی تنخواہوں مراعات میں کٹوتی،زرمبادلہ کی آمدنی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور سیاحت کی پالیسیوں میں نرمی کی جارہی ہے سیاسی طور پر اندرونی و بیرونی چیلنجز نے ...
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کو سعودی قیادت میں قائم دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئی اجازت کے حوالے سے ملک کے اندر بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات...
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
سیمی کے جانے کے بعد ہمارا کام کافی بڑھ گیا تھا، اب ہمیں اپنے کام کے ساتھ سیمی کا کام بھی دیکھنا پڑ رہا تھا لیکن ہم یہ سوچ کر چپ چاپ لگے ہوئے تھے کہ چلو ایک ماہ کی بات ہے سیمی واپس آجائے گا تو ہمارا کام ہلکا ہو جائے گا۔ ایک ماہ ہوتا ہی کتنا ہے تیس دنوں میں گزر گیا، لیکن سیمی واپس ...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...