وجود

... loading ...

وجود

اردشیر کائوس جی ،نینسی اور فریال ۔آخری قسط

پیر 31 اکتوبر 2016 اردشیر کائوس جی ،نینسی اور فریال ۔آخری قسط

ارد شیر کاؤس جی حسب وعدہ ہمیں اپنی مرسڈیز اسپورٹس میں لینے پہنچ گئے۔پھولدار شرٹ اور خاکی ٹراؤزر۔ہم نے کار میں بیٹھ کر انہیں تنگ کرنے کے لیے جب گجراتی میں یہ کہا کہ Wire-Tapping نوں تو پروگرام نتھی؟ ( خفیہ ریکارڈنگ کا تو کوئی پروگرام نہیں )توتاؤ کھاگئے۔کار سائیڈ پر روک کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قمیص اتار دی۔ہم نے کہا دوسروں کو تو مٹی میں ملانے میں ایک منٹ نہیں لگاتے اور کوئی تم سے مذاق کرے تو اتنا برا مناتے ہو، نہیں جاتا میں تمہارے کھانے پر۔ ہمارے یوں روٹھ جانے پر کہنے لگے تم نے یہ کیا تو میں باپ کو کیا جواب دوں گا۔ دعوت کی ضد اسی نے کی تھی ۔اس کی اور تمہارے سب سے چھوٹے نانا محمد پٹیل کی پالی ہلز ممبئی کی ایک پارسی چھوکری کے ساتھ بہت لڑائی ہوئی تھی۔ بعد میں دوست بن گئے تھے۔
گھر پہنچے تو رستم فقیر کاؤس جی تو موجود نہ تھے البتہ ایک کمرے میں عبدالکریم لودھی ، احمد مقصود حمیدی اور کنور ادریس پرانے بیورکریٹس موجود تھے۔کاؤس جی تینوں پرانے سی ایس پی افسران کے دوست اور میزبان تھے۔ عبدالکریم لودھی کو وہ قابل مگر متلون مزاج، احمد مقصود حمیدی کو قابل مگر سرکاری ملازمت میں Misfit اور کنور ادریس کو قابل مگر بزدل اور مصلحت پسند افسر سمجھتے تھے۔ ہم نے کہا ہم چلے جاتے ہیں ،پھر کبھی۔ تو کہنے لگے رستم کاکا (چچا) میرے کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔یہ سالے( سالا ان کا تکیہ کلام تھا جس کا لوگ بہت برا مناتے تھے۔ انہیں گجراتی حس مزاح سے کوئی واسطہ نہ پڑا تھا ۔ پارسی اس کی بدترین شکل تھے۔چھوٹی سی کمیونٹی ہونے کی وجہ سے انہوں نے تکلفات کو ایک طرف رکھ چھوڑا تھا۔ کیا عورتیں، کیا مرد بے حد بے تکلفی سے بات کرتے تھے۔جسے عام تخاطب میں گالم گلوچ سمجھا جائے وہ ان کے ہاں روز مرہ کا محاورہ تھا) ایک دو شاٹ لگائیں گے۔ گھر بھے گی (راہ لینا) ہوجائیں۔ You talk to a darling girl
تھوڑی دیر میں چشمہ لگائے ٹرے میں اورنج جوس کے دو گلاس سجائے، کریپ سلک کی نیلی ساڑھی پارسی انداز میں لپیٹے نینسی آگئیں۔ وہ ارد شیر کی بیگم تھیں اور کراچی کی مشہور ڈنشا فیملی سے ان کا تعلق تھا۔ عبداللہ کچھی جس نے انگریز کے زمانے سے محکمہ مال کی نوکری کی تھی۔ ہمیں زبانی گزیٹ کے طور پر سنا تا تھا کہ ڈنشا اور ہارون فیملی پر بے تحاشا ملکیت کی وجہ سے مزید جائداد خریدنے پر پابندی تھی۔اس کی تحریری سند ہمیں کہیں دکھائی نہیں دی۔اس سے پہلے کہ ہم گلاس منھ سے لگاتے انہوں نے ہم سے پوچھ لیا You dont mind screw driver? (ووڈکا اور اورنج جوس کی کاک ٹیل) ہم نے انکار کیا تو وہ ناخوشی سے ہماری بیورکریسی سے تعلق دار ی پر تف بھیجنے لگیں۔ہم آدھا گھنٹہ ہندوستانی میوزک اور کراچی کے حالات پر بات کرتے رہے، ایک دفعہ بہت آہستگی سے کاؤس جی جھانک کر بھی گئے لیکن وہ ہمارے سینئر افسر چلے گئے تو انہوں نے ہم دونوں کو گفتگو میں منہمک پاکر آہستہ سے کہا کہ
Before you two decide to elope , have dinner at my place.
اگر تم دونوں نے بھاگنے کا ارادہ کرلیا ہے تو کم از کم میرے گھر کھانا ہی کھالو۔یہ کاؤس جی کے مذاق کا عام معیار تھا۔
رستم کاؤس جی نے ہم سے اپنے ناناؤں کے بارے میں بہت سوال کیے، دو کی موت تو ہماری پیدائش سے پہلے ہوچکی تھی۔امیر جی پٹیل بھی بعد میں اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ وہ ان سے واقف نہ تھے۔کھانا ختم ہوا تو والدہ اٹھیں اور سونے کی پلیٹ میں قیمتی چاکلیٹ اپنی الماری سے نکال کر لائیں۔ ہم نے کہا کہ ہم چاکلیٹ نہیں کھاتے تو وہ یہ سوچے بغیر کہ ہم مہمان ہیں کاؤس جی سے کہنے لگیں ’’تو کئیا گدھیڑا گھر بولاوی لئی چھے ،چاکلیٹ نتھی کھاتو اے کوئی مانس چھے( تم کن گدھوں کو گھر پر بلالیتے ہو۔جو چاکلیٹ نہ کھائے وہ بھی کوئی انسان ہے)۔دہلی والوں کی طرح گھر کے بزرگ کا آپ کو میٹھا پیش کرنا گجراتیوں میں بھی مہمان کی تواضع اور تکریم کا بہت اونچا درجہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘ گھر کی دو عورتوں سے ایک دعوت میں ان کے معیار میزبانی سے گرنے کا شرف ہمیں دو بار حاصل ہوا۔چلتے وقت فقیر جی نے کاؤس جی سے کہا کہ پرانے لوگ ہیں ان کا جب بھی موقع ہو خیال رکھنا۔
راستے میں ہم نے ان سے پوچھا کہ سن1976 میں بھٹو صاحب نے انہیں 72 دن کے لیے جیل کیوں بھیجا تھا۔ اپنے مخصوص انداز میں کہنے لگے جوانی میں سالا کوئی صدر کی کسی گوانیزچھوکری کے پیچھے ناراض ہوگیا ہوگا ۔دل میں خنس رکھ کر بیٹھا ہوئے گا۔ کاؤس جی کی الہی بخش سومرو سے بہت دوستی تھی۔ سندھ کے کھوڑے ، سومرے اور پیر سائیں پگارا کی بھٹو خاندان سے پرانی مخاصمت تھی۔الطاف گوہر کو بھی ڈان میں لگانے کا ذمہ دار وزیر اعظم بھٹو کاؤس جی کو سمجھتے تھے۔ڈان گروپ کا ہارون خاندان اور الطاف گوہر چونکہ امریکا کی طرف ایک واضح جھکاؤ رکھتے اور بھٹو مخالفت میں پیش پیش تھے لہٰذا ممکن ہے یہ بھی ایک سبب ہو۔
ہم نے علاقے کی آخری تین رجسٹریوں کو سامنے رکھ کر اوسط سے فی گز سو روپے کم کا ایوارڈ آف کمپینسیشن جاری کیا تو وہ ادارہ، سرکار بذریعہ ڈپٹی کمشنر اور کاؤس جی سبھی ہمارے خلاف عدالت چلے گئے۔شاہد حامد ہمارے ڈی سی اور کر م فرما تھے۔بہت لحاظ کرتے تھے مگر کہنے لگے کہ ان کا ہمارے خلاف اپیل میں جانا ادارے کی دشمنی کو کند کردے گا ۔ڈی سی نے یہ اعتراض کیا کہ سوا کروڑ کا خطیر ایوارڈ دیتے ہوئے ہم نے ان سے پوچھا تک نہیں۔یہ ذہانت کی بات تھی، بیورو کریسی کو ایسے بہت گر آتے ہیں۔ادارے کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ خیال نہیں کیا کہ وہ اتنے عرصے سے اس جگہ کے کرائے دار ہیں ۔
ہم نے ان کی تجویز کردہ قیمت سے سو فیصد زیادہ کا ایوارڈ دیا ہے۔کاؤس جی جنہوں نے سو ا کروڑ کا چیک بطور معاوضہ احتجاجاً وصول کیا اس بات کو عدالت میں چھیڑاکہ انگریز نے سونے کے بدلے سونے کا جو اصول بتایا ہے اسے ہم نے اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔جسٹس سلیم اختر کی عدالت تھی۔سب سے پہلے انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ اس قانون میں یہ کہاں لکھا کہ کلکٹر صاحب ڈپٹی کمشنر سے ایوارڈ آف کمپنسیشن دیتے وقت ڈپٹی کمشنر سے کوئی حکم حاصل کریں۔ یوںیہ اعتراض تو فی الفور رد کردیاگیا۔ادارے کا اعتراض کہ وہ اس عمارت کو کم قیمت میں خریدنے کے لیے اس وجہ سے حق دار ہیں کہ وہ قیام پاکستان سے پہلے یہاں ایک شفاخانہ اپنے ملازمین کے لیے چلاتے ہیں۔ اس پر عدالت نے اس دلیل کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ اس رعایت سے تو کشمیر پر ہندوستان کا اور اسرائیل کا فلسطین پر ان کی مقرر کردہ شرائط پر قبضہ جائز ہوجاتا ہے۔آپ اگر ایک ٹیکسی میں ایک عرصے تک گھومیں اور کسی دن اس ٹیکسی کو خریدنے کا موڈ بن جائے تو کرایہ کار کی مالیت میں شمار کرنا ناجائز ہوگا۔کاؤس جی کی امارت اور دولت کااحوال ظاہر کرتے ہوئے انہیں ہماری ادارے کی مجوزہ قیمت سے زائد کا ایوارڈ خوش دلی سے قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ہمارے بارے میں ان کا مستحسن فیصلہ یہ تھا کہ تین پارٹیاں جس پر معترض ہوں اس ایوارڈ میں نہ صرف قانونی طور پر کوئی سقم نہیں بلکہ انصاف کے تمام تر تقاضے بھی بطریق احسن پورے کیے گئے ہیں۔
کاؤس جی سے ہماری دوستی پکی ہوگئی۔ فریال کی طرح انہوں نے اس کے بعد ہمارے ایوارڈ پربھی کبھی کوئی گفتگو نہیں کی۔ایک دن آئے تو ہم انہیں لیاری کے ایک سرکاری میٹرنٹی ہسپتال لے گئے ۔اس کی ڈاکٹر انچارج کو وہاں کچھ لوگوں کی بے جا مداخلت سے بہت شکوہ تھا۔یہ معاملات پی پی کے ایم پی اے جناب عبدالخالق جمعہ اور علی ہنگورہ جو ہمارا بہت لحاظ کرتے تھے ان کی مدد سے بغیر پکڑ دھکڑ کے ہم نے حل کرادیے۔ وہ بہت مطمئن تھیں۔ارد شیر کاؤس جی نے اس سے جب دواؤں کا بجٹ پوچھا تو بتایا گیا کہ حکومت بجٹ کی مدمیں کل پچیس ہزار روپے سالانہ دیتی ہے۔کاؤس جی نے اس کے سامنے سے تشخیصی نسخے لکھنے والا پیڈ کھینچا اور کوٹ کی جیب سے قلم نکال کر کراچی کے ایک بیرونی بینک کے نام ایک لاکھ روپے ان کے اکاؤنٹ سے بطور عطیہ دینے کا لکھا۔ دلفریب اور جواں سال ڈاکٹر صاحبہ جو نہ کاؤس جی سے واقف تھیں نہ ان کے انداز مہربانی سے ۔کہنے لگیں’’ اس نسخے پر لکھے گئے عطیے کو کون مانے گا‘‘۔وہ کہنے لگے ’’ چل ایک وعدہ کر کہ کل پیسے مل جائیں تو کل تو مجھ سے شادی کرے گی، نہیں تو اس پر ایک زیرو تو اپنے ہاتھ سے اضافہ کرنا اور اتنی ہی رقم کل تیرے اکاؤنٹ میں بطور ہرجانے کے جمع کرادوں گا۔Third Party Guarantee تیرے علاقے کا یہ ایس ڈی ایم اور جمعہ صاحب ہوں گے۔باہر نکلے تو ایک سپاہی مل گیا۔ یہ لیاری کا ایک گجراتی تھا۔ہماری آستین کھینچ کر ایک طرف لے گیا۔ اس کی بیوی زندگی اور موت کی زیست کی کشمکش میں کسی خیراتی ہسپتال میں پڑی تھی۔ڈاکٹر نے جان بچانے کے لیے دس انجکشنوں کا جو نسخہ لکھا تھا اس کا ایک انجکشن ہی سن نوے میں سولہ ہزار روپے تھا۔ہم نے کہا کل ہم اس کے ڈی آئی جی افضل شگری سے معاونت کی درخواست کریں گے ۔ وہ مہربان ہیں ، مان جائیں گے۔پولیس ویلفئر فنڈ سے کوئی امداد کریں گے۔ ارد شیرکاؤس جی جو گیٹ پر بے تابی سے ہمارے منتظر تھے۔پوچھنے لگے کہ کیا معاملہ ہے؟ ہم نے احوال سنایا تو وہی پیڈ منگایا کراچی کے ایک بڑے میڈیکل اسٹور کو لکھا کہ نسخہ دیکھ کر اسے ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے کے انجکشن دے دیے جائیں۔ وہ بھی متذبذب تھا مگر اسے اشارہ کیا کہ وہ کار میں سوار ہوجائے ۔ ہم بندر روڈ پر اس میڈیکل اسٹور پر رکے ۔اسے وہیں انجکشن لے کر دیے۔ اس کی مسرت اور حیرت دونوں ہی دیدنی تھیں۔
ایک صبح سات بجے فون آگیا کہ آتا ہے گاڑی بھیج رہا ہوں۔ناشتہ کرلیا ہے نہیں تو تیار کراؤں۔ہم نے شوخی سے کہا Noritake Gold- Plated Dinner Set میں ہم Acacia Honey کے ساتھ tea Darjeeling long leaf سوئس چیز اور حلوہ پوری-
پہنچے تو دوپہر کو ان کی ملاقات کے۔ ڈی ۔ اے ایک میلے سے ڈی ۔جی اور بلڈنگ کنٹرول سے تھی۔وہ چاہتے تھے ہم بھی اس ملاقات میں شریک ہوں۔ان دنوں ان کی تین تلوار کے قریب واقع گلاس ٹاؤر اور گلف ٹاؤر پر عدالت میں جنگ چل رہی تھی۔ ہم نے پہلو تہی کی کہ اس کا ہمارا سرکاری تعیناتی سے کوئی تعلق نہیں۔ Just for sobering effect and drilling reasons in their stone heads.۔ہم انکاری ہوئے۔دفتر پہنچے تو ڈھونڈیا مچی تھی ڈی ۔جی، کے۔ ڈی ۔ اے۔انہیں چیف سیکرٹری سالک نذیر کے دفتر سے فون آیا تھا کہ ہم کو لازماً ساتھ لے جایا جائے۔
دوپہر کاؤس جی کے گھر چار میری روڈ باتھ آئی لینڈ جب یہ وفد پہنچا تو ان کا ڈیش ہاؤنڈ کتا ڈیوک لپک کر باہر آیا ۔کاؤس جی پیچھے پیچھے چلے آتے تھے۔ ڈی جی صاحب اور دیگر شرکاء کی تو جان ہی نکل گئی۔کاؤس جی کو پوچھنے لگے ’’ کتا کاٹے گا تو نہیں؟‘‘ کاؤس جی کہنے لگے ’’ حرامی ہوگا تو کاٹے گا، دیکھ اقبال کے آس پاس کیسے مزے سے گھومتا ہے۔یہ پہلی دفعہ بھی آیا تھا ڈیوک کچھ نہیں بولا تھا۔ کاؤس جی کے گھر میں جانداروں اور کاروں کے علاوہ کوئی بھی شے سو سال سے کم پرانی نہیں تھی۔
ان کی تحریروں ، گفتگو اوران کی پسندید پر سر ونسٹن چرچل کا اثر بہت غالب تھا۔24 نومبر 2012 کو وہ اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ ہمارا خیال ہے کہ ان سے بہتر پاکستان کو امریکا اور بھارت میں کوئی اور سفیر نہیں مل سکتا تھا۔ فیلڈ مارشل جنرل مانک شا ،گجرال اور ایڈوانی سے ان کی ذاتی دوستی تھی۔وی پی سنگھ اور واجپائی دھیرو بھائی امبانی اور عزیز پریم جی سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔کوئی ایسا امریکی سفیر سے وہ جب چاہے مل سکتے تھے۔ ہم اس یاد رفتگاں کو ان کی اس نصیحت پر ختم کرتے ہیں جو ارسلا جاوید کو انہوں نے موت سے ایک سال پہلے ایک ملاقات میں کی تھیWe are surrounded by chariyas who will never do anything. I have not seen anyone reclaim Jinnah146s Pakistan in my lifetime. But maybe your generation will. Don146t ever give up on this hope, you hold so dear.148
ہم چاروں طرف سے پاگلوں میں گھرے ہیں۔جو جناح کا پاکستان میری زندگی میں نہیں بناپائیں گے لیکن شاید آپ کی نسل میں یہ کام کوئی کر پائے ہمیں اس حوالے سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر