وجود

... loading ...

وجود

عمران خان کی جیت کا اعلان

جمعه 28 اکتوبر 2016 عمران خان کی جیت کا اعلان

عمران خان تم جیت گئے ہو، جنگ کے آغاز سے قبل ہی ’ن لیگی ‘ حکومت کی تزویراتی شکست کا بگل بج رہا ہے۔ جس طرح ان کے لشکر میں افراتفری کے آثار نمایاں ہیں اور جس طرح لیگی تنخواہ یافتہ میراثی سرکاری اور بعض غیر سرکاری ٹی وی پر بیٹھے ٹامک ٹویاں مار کر اپنی راتب خوری کا حق ادا کر رہے ہیں تو اس سے تو یہی لگتا ہے کہ ضرب بہت کاری ہے اور بس شکست کا اعتراف ہوا ہی چاہتا ہے۔جب دلیلِ شکست کم پڑتی ہے توپھر تشدد کو راہ دیتی ہے اور تشدد کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے۔
اس شکست کے آثار اس وقت سامنے آنا شروع ہو گئے تھے جب دھرنے کی تاریخ سے دس دن قبل ہی حکومتی ٹیم کے سب سے اہم اور موثر رکن جناب اسحاق ڈار نے کراچی میں ’منہ سے آگ نکالنے ‘ کا مظاہرہ کر ڈالا اور شاہدرہ (لاہور ) میں لڑنے والی مشہورہمسائیوں کی طرح حزبِ اختلاف کو بے نقط طعنے دے ڈالے اور اس لڑائی میں پشاور سے کراچی تک چلنے والے ٹرکوں کے پیچھے لکھے فقرے پڑھنا شروع کر دیے ’جلنے والے کا منہ کالا‘ اور ’ محنت کر حسد نہ کر‘۔ حافظ محمد اسحاق ڈار جن کو حکومتی ٹیم میں سب سے نرم خو کہا جاتا ہے اور وہ حکومت کی جانب سے صلح صفائی کے پیغام لاتے رہے ہیں، انہوں نے جب منہ سے آگ نکالی تو پتہ چل گیا کہ حکومتی صفوں میں ہل چل مچ گئی ہے جس نے عمران خان کو مزید شیر کر دیا ہے۔ اب حکومت کی طرف سے رابطوں کا کام خواجہ سعد رفیق کو سونپا گیا ہے جن کی اسمبلی رکنیت اور وزارت ریلوے عدالتِ عظمیٰ کے ایک حکمِ امتناعی کی مرہونِ منت ہے۔ ظاہر ہے پی ٹی آئی ان سے مذاکرات کرنے سے تو رہی تو یوں حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے تمام امکانات معدوم کر دیے ہیں۔ دلائل سے بھاگنے کا عمل شکست کا اعلان ہی تو ہوا کرتا ہے۔
یہ اعلان شکست ہر اس ٹی وی کے پراپیگنڈا اشتہار کے ساتھ گونج رہا ہے اور بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے جو ہرپندرہ سیکنڈکے بعد ہماری آنکھوں کے سامنے ٹی وی پرظاہر ہو رہا ہے اور ہمیں باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ میاں نواز شریف نے گزشتہ ساڑھے تین سال میں ملک کے طول و عرض میں دودھ اور شہد کی جو نہریں بہائی ہیں، ان کے سوتے ہم تک پہنچا ہی چاہتے ہیں۔ اب تک کیوں نہیں پہنچے ، یہی ہمارا سوال ہے اور اس کا ہی ان اشتہارات میں کوئی جواب نہیں۔ہزاروں میگاواٹ کا گڈانی پاور پراجیکٹ کروڑوں روپے کے اخراجات کے بعد بغیر کوئی وجہ بتائے بند کیوں کیا گیا؟ نندی پور جس کی اس قدر ڈھول تاشے کے ساتھ تکمیل ہوئی تھی، وہ گرمیوں میں کیوں چل نہیں پاتا جب قوم کو بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور صرف سردیوں میں ہی کیوں چلتا ہے؟ اس کا ریکارڈ جلانا کیوں ضروری خیال کیا گیا؟
جس طرح لیگی راتب خوروں کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے لگتا یہی ہے کہ ہر سیاسی ضرب کاری اور بھاری پڑ رہی ہے۔ ن لیگ کے موجودہ طریقہ کار کے بانی مبانی جناب زبیر عمر صاحب جنہوں نے جب میاں نواز شریف کے کان میں کچھ پھونکا تو میاں صاحب نے باقی سب کو خود سے دور کر دیا اور خود کو زبیر عمر صاحب کے طریقہ کار تک محدود کر لیا، زبیر عمر کا طریقہ کار یہ تھا کہ وقت گزارا جائے تا آن کہ مارچ 2017آ جائے اور نون لیگی میاں صاحب کے آگے پیچھے دھمالیں ڈالتے مختلف منصوبوں کے پہلے مراحل کے افتتاحی فیتے کاٹنے میں مصروف ہو جائیں۔ میاں نواز شریف کے دل کا آپریشن اور پاناما لیکس پر تحقیقاتی کمیشن کے ضابطہ کار کو طے کرنے کے لیے طویل ملاقاتیں دراصل اسی پالیسی کا حصہ تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں اطراف سے مشرقی پاکستان والے جنرل غلام عمر کے صاحبزادگان، زبیر عمر اور اسد عمر ، جن کو ناکام منصوبہ بندیوں کا آبائی تجربہ ہے ، انہوں نے دونوں اطراف سے خاصہ زور لگایا ہوا ہے۔ اس لیے عمران خان وقت کا دھارا روکنے میں مصروف ہو گئے ہیں اور لگ یہی رہا ہے کہ اس کام میں ن لیگ کے راتب خور کچھ عمران خان کے زیادہ ہی مددگار ثابت ہورہے ہیں ۔
حالات کی اس خرابی میں ملک کے معروف قلم فروشوں کا بہت دخل ہے۔ جیسے ہی سیاسی ماحول میں تیزی آئی ان ضمیر فروش میڈیا کے اداروں کے لیے قومی خزانے کے منہ کھول دیے گئے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ تو سرکاری اور غیر سرکاری میڈیا پر اس آگ کو آکٹین پٹرول سے بھجائیں گے تا کہ ماحول زیادہ گرم ہو اور ان کے لیے راتب کا زیادہ سامان ہو۔ لاہور کے ایک عظیم صحافی جو اپنے ٹی وی پروگرام میں بڑی شد و مد کے ساتھ ن لیگی حمایت میں رطب اللسان نظر آتے ہیں ، انہوں نے پی ٹی آئی کے بینرز کی چھپائی کا کام بھی پکڑ لیا ہے۔ اس لیے ان صحافیوں کا پورا زور اس بات پر ہے کسی نہ کسی طور یہ لڑائی طول پکڑے اور ان کی جیبیں قومی خزانے سے لٹائے گئے اشتہارات کی رقوم سے بھر تی جائیں۔
حکومت کی موجودہ ابلاغی پالیسی کے خالقین پر قربان جانے کو دل کرتا ہے۔ جس طرح بہادر کمانڈو پرویز مشرف صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں‘‘ اسی طرح لاہور کے ایک صاحب ، جو آج کل سرکاری ٹی وی کے مدارلمہام ہوتے ہیں ، یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’میرے والدِ گرامی مولانا ۔۔۔۔ماڈل ٹاون کی مسجد میں جمعہ پڑھایا کرتے تھے‘‘۔سنا ہے آج کل وہ بھی ایک شدید قسم کے ڈپریشن میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ پی ٹی وی پر قبضہ کرنے کے بعدموصوف نے کافی مشکل سے اپنے ہونہار بروا کے لیے افرادی قوت کی برآمد کے لائسنس جاری کرنے والے سرکاری ادارے میں بہت ہی زیادہ ’پیداواری‘ پوسٹ کا اہتمام کیا تھا کہ کچھ حاسدین عدالت جا پہنچے اور وزیر اعظم کے اس خصوصی حکم پر عمل درآمد رکوا دیا ہے ۔اب طبیعت میں شدید بے چینی اور ذہن دباؤ کا شکار ہے۔ تو یہ دباؤ کہیں تو نکلے گا ناں؟
لگتا یہی ہے کہ اُدھر وفاق میں بھی ’خالو بھانجا‘ میڈیا پالیسی شکست فاش سے دوچار ہونے کو ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف کے ارد گرد اکٹھے میڈیا منیجرز نامی ذہنی بوزنوں کی اوسط عمر ستر سال سے زائد ہے۔ ان میں سے سب کی مشترکہ قابلیت یہ ہے کہ اس دور میں بھی یہ اسمارٹ فون سے بھی صرف کال ہی سننے کا کام لیتے ہیں جب دنیا کا سارا میڈیا اس موبائل فون میں سمٹ گیا ہے۔ اگر اس قدر پست ذہنی سطح کے ساتھ یہ بوزنے حکومتی ابلاغی پالیسی کے خالق اور چلانے والے ہیں تو حکومت کو سرکاری خزانے سے اربوں روپے لٹانے کے باوجود بھی اتنے جوتے پڑنے کا کام عین میرٹ پر ہورہا ہے۔
جب غنیم کے لشکر میں اس قدر ہلچل ہو تو یہ اعلانِ شکست ہوا کرتا ہے۔ اس لیے عمران خان تم میدان میں اترنے سے پہلے ہی آدھی سے زیادہ جنگ جیت چکے ہو۔ اب تم دھرنا نہ بھی دو ، اسلام آباد کا گھیراؤ نہ بھی کر سکو تو یاد رکھنا کہ تم نے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوچکے ہو۔


متعلقہ خبریں


دھرنے کے دوران پولیس اہلکار 32 کروڑ 60 لاکھ روپے ہضم کرگئے ایچ اے نقوی - منگل 29 اگست 2017

اسلام آباد میں 2014ء میں ہونے والا دھرنا ابھی تک کسی کی جان نہیں چھوڑ رہا۔ ہر روز اس حوالے سے کوئی نئی بات سامنے آجاتی ہے۔ تازہ ترین معاملہ اسلام آباد دھرنے کے حوالے سے سرکاری اخراجات میں ہونے والے گھپلوں سے متعلق ہے۔آڈیٹرز نے پولیس کے حسابات کی جانچ پڑتال کے دوران اخراجات می...

دھرنے کے دوران پولیس اہلکار 32 کروڑ 60 لاکھ روپے ہضم کرگئے

اسلام آباد احتجاج:عمران خان کے ساتھی پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے انوار حسین حقی - هفته 05 نومبر 2016

دھرنے میں پنجاب کے تینوں زونز کی قیادت اور پارلیمانی ارکان کا پول کھل گیا ،ورکراور رہنماؤں میں خلیج ،عمران خان کو اب اپنی پارٹی کے اندر بھی احتساب کا کوڑا برسانا ہو گا پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ارکان کی کارکردگی سے بھی کارکن اور قیادت مطمئن نہیں، مرکزی قیادت پیپلز پارٹی کی ط...

اسلام آباد احتجاج:عمران خان کے ساتھی پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے! نجم انوار - جمعه 21 اکتوبر 2016

پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے!

مضامین
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ! وجود جمعرات 28 نومبر 2024
دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ!

روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر