وجود

... loading ...

وجود

سندھ کے ’’مہاجروں‘‘ کا مستقبل

پیر 24 اکتوبر 2016 سندھ کے ’’مہاجروں‘‘ کا مستقبل

فلک کج رفتار نے کب یہ منظر دیکھا تھا کہ کراچی پر 32 سال تک راج کرنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ یوں بکھر جائے گی۔ آہنی نظم و ضبط کی نسبت سے مشہور پارٹی کے سرکردہ رہنما آپس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں گے‘ ٹانگیں کھینچیں گے‘ ایک دوسرے کے ’’کارنامے‘‘ بیان کریں گے۔ ایم کیو ایم کے بطن سے جنم لینے والی نوزائیدہ جماعت پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفےٰ کمال نے اپنے دیرینہ ساتھی اور 14 سال سے مسلسل گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو ’’رشوت العباد‘‘ کہا‘ زمینوں پر قبضوں اور چائنا کٹنگ میں ملوث قرار دیا اور گورنر ہاؤس کو کرپشن کا گڑھ کہہ کر ان کے ایم کیو ایم بانی الطاف حسین سے بدستور رابطوں کی تصدیق کی تو گورنر عشرت نے جواباً مصطفےٰ کمال کو مغلظات سے نوازتے ہوئے کہا کہ کمال انتہائی گھٹیا‘ کم ظرف اور نفسیاتی ہے۔ اس کا کردار اس کے محلے والوں سے پوچھیں۔ گورنر نے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے ایک سابق چیئرمین مقتول عظیم احمد طارق اور معروف طبیب مقتول حکیم محمد سعید کے قتل کیس دوبارہ کھولنے اور سانحہ 12 مئی اور بلدیہ ٹاؤن کے ذمہ داروں کو چوراہوں پر لٹکانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب مدفون خطرناک ہتھیار فوج اور رینجرز سے لڑائی کے لیے خریدے گئے تھے۔ اتفاقاً اسی روز اورنگی ٹاؤن سے بھی زیر زمین دفن مہلک ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ گورنر عشرت اور مصطفےٰ کمال ایک ہی صفحہ پر ہیں اور ان کی لڑائی ’’نورا کشتی‘‘ ہے۔ اس طرح ایم کیو ایم کے حوالے سے بہت سی باتیں منظر عام پر آرہی ہیں جو عام طور پر ایک سربستہ راز تھیں اور سامنے نہیں آرہی تھیں‘ اب اس پارٹی کے دو مرکزی رہنما خوب ’’انکشافات‘‘ کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر عظیم احمد طارق قتل کیس اچانک یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح حکیم محمد سعید قتل کیس کو بھی برسوں گزرچکے ہیں‘ پھر گورنر سندھ کو اچانک یہ مقدمات کیوں یاد آگئے ہیں۔ ان دونوں مقدمات میں ایم کیو ایم کا نام آتا ہے۔ اس کے کئی کارکنوں کے نام ان میں شامل رہے ہیں۔ کئی دھائی بعد ان کا اچانک تذکرہ بے سبب نہیں ہوسکتا۔ شنید ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ ایم کیو ایم سے لے کر دوبارہ وفاقی پارٹیوں کو عطا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایم کیو ایم کا قیام 1986 ء میں عمل میں آیا تو جنرل ضیاء الحق کی حکومت کا سورج سوانیزے پر چمک رہا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایم کیو ایم کی تشکیل اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی کا نتیجہ تھی۔ کراچی لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوگیا، حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کے قابل نہیں رہا اور جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی کے 11 سال کسی بڑی مزاحمت کے بغیر آرام سے کٹ گئے۔ 17 اگست 1988 ء کو بستی لال کمال پر جنرل ضیاء الحق کا طیارہ حادثے میں تباہ نہ ہوتا تو ضیائی اقتدار مزید کرشمے دکھاتا۔ اس کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بنے۔ ان کا تعلق ’’مہاجر برادری‘‘ سے تھا۔ پھر اکتوبر 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آئے، ان کا تعلق بھی ’’مہاجر برادری‘‘ سے ہے۔ اس طرح ایم کیو ایم کو وقفے وقفے سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی۔ سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے بڑی چھان پھٹک کے بعد 27 دسمبر 2007 ء کو ڈاکٹر عشرت العباد کو سندھ کے گورنر کی سیٹ پر بٹھایا اور کلہ اتنی مضبوطی سے گاڑا کہ ڈاکٹر عشرت آج بھی سندھ کے گورنر ہیں وہ ہمیشہ پرویز مشرف کی ’’گڈبک‘‘ میں رہے۔ کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے ٹرائیکا میں شامل تینوں شخصیات پرویز مشرف‘ عشرت العباد اور مصطفےٰ کمال نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی جماعت بنالی جسے زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔ بعض مہاجر اکابرین کا خیال ہے کہ پرویز مشرف ایم کیو ایم کے گروپوں کویکجا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا قد کاٹھ ایک قومی لیڈر کا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس مشکل وقت میں وہ تسبیح کے دانوں کو ایک لڑی میں پرو سکتے ہیں لیکن انہوں نے اکابرین کی بات کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ ایم کیو ایم بہت بدنام ہوچکی ہے، وہ اس کی قیادت نہیں کریں گے۔ ایم کیو ایم سے باہر ڈاکٹر سلیم حیدر کی جماعت مہاجر اتحاد تحریک اور مہاجر قوم پرست دانشور سہیل ہاشمی کے تشکیل کردہ مہاجر قومی جرگے کے علاوہ آفاق احمد کی پارٹی مہاجر قومی موومنٹ المعروف’’ حقیقی‘‘ بھی میدان میں ہیں اور ’’مہاجروں‘‘ کو بند گلی سے نکالنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن عام ’’مہاجر‘‘ گومگو کی کیفیت میں ہے۔ پنجابی زبان کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے ۔
میں کہڑے پاسے جاواں۔ تے منجی کتھے ڈاہواں
ایک دن خبر نشر ہوئی کہ گورنر عشرت العباد کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے لیکن دوسرے ہی دن وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اس کی تردید کردی۔ اس صورتحال میں ’’مہاجر‘‘ سیاسی تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ فیصلہ کن گھڑی آپڑی ہے۔ کراچی سے اکابرین کا ایک وفد دبئی جاکر پرویز مشرف سے ملاقات کامنصوبہ بنا رہا ہے تاکہ پرویز مشرف کو ’’مہاجروں‘‘ کی قیادت پر آمادہ کیا جاسکے۔ ’’مہاجر قومی کونسل‘‘ کے نام سے نیا پلیٹ فارم بنانے کا ارادہ سامنے آیا ہے جس میں سارے گروپوں کی نمائندگی ہو۔ ایم کیو ایم لندن سے بھی رابطہ کیا جائے اور سارے گروپ پرویز مشرف کی سربراہی میں یکجا ہوجائیں۔ گو کہ اس کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں، ہر گروپ اپنے اندر ایک انجن ہے۔ سب کی بین اور اپنی بانسری ہے، اپنا پروگرام اور اپنا منشور ہے۔ پرویز مشرف تو بہت دور ہیں‘ یہ آپس میں ہی دست و گریباں ہیں۔ مصطفےٰ کمال نے گورنر عشرت العباد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے الطاف حسین کو اپنا محسن قرار دیا ہے۔ حروں کے روحانی پیشوا اور پیر پگارا ثانی مرحوم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’مہاجروں‘‘ نے کبھی عقلمندی کی بات نہیں کی۔ 1947 ء میں پاکستان قائم ہوا تو آگ اور خون کے دریا عبور کرکے ’’مہاجر‘‘ پاکستان آگئے۔ زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے لہٰذا سول سروس میں شامل ہوگئے‘ قائم خانی اور دیگر مارشل نسل کے لوگ فوج کا حصہ بن گئے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ بیرسٹر کمال اظفر کے سسر ایس ایس جعفری پہلے ڈپٹی کمشنر لاہور اور پھر ایوبی دور میں وفاقی سیکریٹری رہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیورو کریسی کا 85 فیصد حصہ بھارت سے ہجرت کرنے والے مہاجر افسروں پر مشتمل تھا۔ بعد کے حکمرانوں نے انہیں ملازمت سے فارغ کرنا شروع کیا۔ 1959 ء میں وفاقی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو متعدد مہاجر افسروں نے کراچی چھوڑنا قبول نہیں کیا اور کراچی کے کوارٹرز میں رہائش کو ترجیح دی۔ 1968 ء میں صدر یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر کراچی کی وفاقی حیثیت بحال کرنے کی تجویز دی تو مہاجر اکابرین نے انکار کردیا اور سندھ صوبہ میں شامل رہنے کو ترجیح دی۔ اس وقت سائیں جی ایم سید اور میر منور تالپور جیسے سیاستدان کراچی کو وفاقی علاقہ قرار دینے کے لیے رضا مند تھے جس کا اعلان جولائی 1948 ء میں خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ آج کے مہاجر اکابرین اور لیڈر شپ اسے اپنے بزرگوں کی غلطی قرار دیتے ہیں۔ سیاست میں سمجھداری کا عنصر شامل ہو تو ہندوؤں کی مخالفت کے باوجود پاکستان وجود میں آجاتا ہے۔ اگر حماقت حاوی ہو تو اسی پاکستان کا 1971 ء میں جغرافیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ سندھ میں کروڑوں کی آبادی ہونے کے باوجود آج کراچی کا ’’مہاجر میئر‘‘ جیل میں بند ہے اور سندھ اسمبلی میں 50 سیٹیں ہونے کے باوجود بھی سندھ حکومت میں نمائندگی نہیں ہے۔ سندھ کے ’’مہاجر‘‘ اس وقت فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں اورآئندہ کسی بے وقوفی کی گنجائش نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں


پی ایس 114 کا ضمنی انتخاب‘ایم کیوایم پاکستان ہار کر بھی کامیاب شہلا حیات نقوی - جمعه 14 جولائی 2017

کراچی کے صوبائی حلقے پی ایس 114 کے ضمنی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سے متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار کی شکست کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر تبصروں کاسلسلہ جاری ہے ، اس انتخاب کے فوری بعد پی ایس پی کے سربراہ اور بانی مصطفی کمال نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے س...

پی ایس 114 کا ضمنی انتخاب‘ایم کیوایم پاکستان ہار کر بھی کامیاب

بانی ایم کیوایم کی گرفتاری متوقع، کھیل آخری مرحلے میں داخل الیاس احمد - جمعه 09 جون 2017

کوئی سوچ سکتا تھا کہ کبھی بانی ایم کیوایم کے بیانات میڈیا میں شائع اور نشر نہیں ہوں گے۔ انہیں عزیز آباد جیسے علاقے میں کوئی جلسہ کرکے غدار کہے گا؟ اور پھر کوئی ردعمل بھی نہیں آئے گا؟ مگر اب یہ سب ہو رہا ہے اور یہ سب کراچی کے شہری اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔بانی ایم کیوایم کے پا...

بانی ایم کیوایم کی گرفتاری متوقع، کھیل آخری مرحلے میں داخل

سندھ میں اختیارات کی جنگ مختار عاقل - پیر 08 مئی 2017

سندھ میں اختیارات کی جنگ اپنے شباب پر ہے۔ قومی سطح پر لڑی جانے والی ”پاناما جنگ“ سے ہٹ کر صوبہ سندھ میں لڑی جانے والی اختیارات کی جنگ گرچہ صوبائی نوعیت کی ہے، لیکن اس کی بازگشت اور اثرات وفاق تک پہنچے ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کے وزراءاکثر وفاق سے شاکی رہت...

سندھ میں اختیارات کی جنگ

متحدہ کی غیرمتحدہ سیاست :پیپلزپارٹی کا ایم کیوایم کو سیاسی طور پر دبانے کا فیصلہ نجم انوار - پیر 20 مارچ 2017

سیاست حادثات اور اتفاقات کا بھی کھیل ہے۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی سیاست ایسے ہی تلاطم خیز حالات سے گزر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے کراچی میں ایم کیوایم کی دگرگوں سیاست کا فائدہ منفی انداز سے اُٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے باعث ایک طرف پیپلزپارٹی آئندہ انتخابات میں کراچی کے لیے ...

متحدہ کی غیرمتحدہ سیاست :پیپلزپارٹی کا ایم کیوایم کو سیاسی طور پر دبانے کا فیصلہ

مہاجر لبریشن آرمی کے قیام کا خفیہ منصوبہ: قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے الیاس احمد - جمعرات 16 مارچ 2017

بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کو سندھ کے شہری عوام نے سر آنکھوں پر بٹھایا ۔ مگر انہوں نے عام آدمی کے اعتماد کاگلا گھونٹا ۔طارق میر اور محمد انور نے منی لانڈرنگ کیس میں برطانوی تحقیقاتی اداروں کے سامنے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ انہیں بھارت سے مسلسل فنڈز مل رہے ہیں اور بھارتی...

مہاجر لبریشن آرمی کے قیام کا خفیہ منصوبہ: قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے

متحدہ دھڑوں کی سیاست کا اہم ذریعہ‘ وال چاکنگ وجود - منگل 03 جنوری 2017

ایم کیو ایم قائد پر لگنے والی پابندی اور اس سے چند مہینے قبل قائم ہونے والی جماعت پاک سرزمین بننے کے بعد سے متحدہ دھڑوں کے درمیان سرد جنگ جاری ہے جس کا اہم ذریعہ وال چاکنگ بھی ہے۔ جس کے نتیجے میں وال چاکنگ قانون کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ فروری2014 میں سندھ اسمبلی نے وال چاکنگ ...

متحدہ دھڑوں کی سیاست کا اہم ذریعہ‘ وال چاکنگ

کراچی کی زمینوں سے2ماہ میں ریکارڈ توڑ تعداد میں ہتھیار برآمد وجود - پیر 14 نومبر 2016

رینجرز اور پولیس نے دوماہ میں جتنی بھاری مقدار میں گولہ باروداوراسلحہ برآمد کیا اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی،مالیت کروڑوں روپے میں ہے ،ذرائعکراچی میں گزشتہ دو ماہ کے عرصے کے دوران رینجرز اور پولیس نے کارروائیوں کے دوران جتنی بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد...

کراچی کی زمینوں سے2ماہ میں ریکارڈ توڑ تعداد میں ہتھیار برآمد

مصطفی کمال اور ڈاکٹر عشرت العباد کے ایک دوسرے پر حملے  نجم انوار - منگل 18 اکتوبر 2016

مصطفی کمال نے عشرت العباد کو رشوت العباد اور ڈاکٹر عشرت العباد نے مصطفی کمال کو بائی پولر کا مریض قرار دے دیا [caption id="attachment_41526" align="aligncenter" width="267"] عشرت العباد اور مصطفیٰ کمال کی ایک تصویر ۔ ۔ جب دونوں ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوتے تھے[/caption] پاک سرز...

مصطفی کمال اور ڈاکٹر عشرت العباد کے ایک دوسرے پر حملے 

ایم کیو ایم میں ترقی پسندی مختار عاقل - پیر 17 اکتوبر 2016

وزیر اعظم ہاؤس کے خفیہ اجلاس کی کراچی کے انگریزی اخبار میں رپورٹ کی اشاعت نے پوری حکومت کو ہلادیا۔ رپورٹ میں پاک افواج کے حوالے سے بعض ’’انکشافات‘‘ کئے گئے تھے جس پر فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا اور حکومت پر زور دیا گیا کہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی رپورٹ ت...

ایم کیو ایم میں ترقی پسندی

مضامین
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر