... loading ...
فلک کج رفتار نے کب یہ منظر دیکھا تھا کہ کراچی پر 32 سال تک راج کرنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ یوں بکھر جائے گی۔ آہنی نظم و ضبط کی نسبت سے مشہور پارٹی کے سرکردہ رہنما آپس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں گے‘ ٹانگیں کھینچیں گے‘ ایک دوسرے کے ’’کارنامے‘‘ بیان کریں گے۔ ایم کیو ایم کے بطن سے جنم لینے والی نوزائیدہ جماعت پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفےٰ کمال نے اپنے دیرینہ ساتھی اور 14 سال سے مسلسل گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو ’’رشوت العباد‘‘ کہا‘ زمینوں پر قبضوں اور چائنا کٹنگ میں ملوث قرار دیا اور گورنر ہاؤس کو کرپشن کا گڑھ کہہ کر ان کے ایم کیو ایم بانی الطاف حسین سے بدستور رابطوں کی تصدیق کی تو گورنر عشرت نے جواباً مصطفےٰ کمال کو مغلظات سے نوازتے ہوئے کہا کہ کمال انتہائی گھٹیا‘ کم ظرف اور نفسیاتی ہے۔ اس کا کردار اس کے محلے والوں سے پوچھیں۔ گورنر نے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے ایک سابق چیئرمین مقتول عظیم احمد طارق اور معروف طبیب مقتول حکیم محمد سعید کے قتل کیس دوبارہ کھولنے اور سانحہ 12 مئی اور بلدیہ ٹاؤن کے ذمہ داروں کو چوراہوں پر لٹکانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب مدفون خطرناک ہتھیار فوج اور رینجرز سے لڑائی کے لیے خریدے گئے تھے۔ اتفاقاً اسی روز اورنگی ٹاؤن سے بھی زیر زمین دفن مہلک ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ گورنر عشرت اور مصطفےٰ کمال ایک ہی صفحہ پر ہیں اور ان کی لڑائی ’’نورا کشتی‘‘ ہے۔ اس طرح ایم کیو ایم کے حوالے سے بہت سی باتیں منظر عام پر آرہی ہیں جو عام طور پر ایک سربستہ راز تھیں اور سامنے نہیں آرہی تھیں‘ اب اس پارٹی کے دو مرکزی رہنما خوب ’’انکشافات‘‘ کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر عظیم احمد طارق قتل کیس اچانک یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح حکیم محمد سعید قتل کیس کو بھی برسوں گزرچکے ہیں‘ پھر گورنر سندھ کو اچانک یہ مقدمات کیوں یاد آگئے ہیں۔ ان دونوں مقدمات میں ایم کیو ایم کا نام آتا ہے۔ اس کے کئی کارکنوں کے نام ان میں شامل رہے ہیں۔ کئی دھائی بعد ان کا اچانک تذکرہ بے سبب نہیں ہوسکتا۔ شنید ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ ایم کیو ایم سے لے کر دوبارہ وفاقی پارٹیوں کو عطا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایم کیو ایم کا قیام 1986 ء میں عمل میں آیا تو جنرل ضیاء الحق کی حکومت کا سورج سوانیزے پر چمک رہا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایم کیو ایم کی تشکیل اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی کا نتیجہ تھی۔ کراچی لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوگیا، حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کے قابل نہیں رہا اور جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی کے 11 سال کسی بڑی مزاحمت کے بغیر آرام سے کٹ گئے۔ 17 اگست 1988 ء کو بستی لال کمال پر جنرل ضیاء الحق کا طیارہ حادثے میں تباہ نہ ہوتا تو ضیائی اقتدار مزید کرشمے دکھاتا۔ اس کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بنے۔ ان کا تعلق ’’مہاجر برادری‘‘ سے تھا۔ پھر اکتوبر 1999 ء میں جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آئے، ان کا تعلق بھی ’’مہاجر برادری‘‘ سے ہے۔ اس طرح ایم کیو ایم کو وقفے وقفے سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی۔ سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے بڑی چھان پھٹک کے بعد 27 دسمبر 2007 ء کو ڈاکٹر عشرت العباد کو سندھ کے گورنر کی سیٹ پر بٹھایا اور کلہ اتنی مضبوطی سے گاڑا کہ ڈاکٹر عشرت آج بھی سندھ کے گورنر ہیں وہ ہمیشہ پرویز مشرف کی ’’گڈبک‘‘ میں رہے۔ کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے ٹرائیکا میں شامل تینوں شخصیات پرویز مشرف‘ عشرت العباد اور مصطفےٰ کمال نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی جماعت بنالی جسے زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔ بعض مہاجر اکابرین کا خیال ہے کہ پرویز مشرف ایم کیو ایم کے گروپوں کویکجا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا قد کاٹھ ایک قومی لیڈر کا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس مشکل وقت میں وہ تسبیح کے دانوں کو ایک لڑی میں پرو سکتے ہیں لیکن انہوں نے اکابرین کی بات کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ ایم کیو ایم بہت بدنام ہوچکی ہے، وہ اس کی قیادت نہیں کریں گے۔ ایم کیو ایم سے باہر ڈاکٹر سلیم حیدر کی جماعت مہاجر اتحاد تحریک اور مہاجر قوم پرست دانشور سہیل ہاشمی کے تشکیل کردہ مہاجر قومی جرگے کے علاوہ آفاق احمد کی پارٹی مہاجر قومی موومنٹ المعروف’’ حقیقی‘‘ بھی میدان میں ہیں اور ’’مہاجروں‘‘ کو بند گلی سے نکالنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن عام ’’مہاجر‘‘ گومگو کی کیفیت میں ہے۔ پنجابی زبان کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے ۔
میں کہڑے پاسے جاواں۔ تے منجی کتھے ڈاہواں
ایک دن خبر نشر ہوئی کہ گورنر عشرت العباد کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے لیکن دوسرے ہی دن وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اس کی تردید کردی۔ اس صورتحال میں ’’مہاجر‘‘ سیاسی تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ فیصلہ کن گھڑی آپڑی ہے۔ کراچی سے اکابرین کا ایک وفد دبئی جاکر پرویز مشرف سے ملاقات کامنصوبہ بنا رہا ہے تاکہ پرویز مشرف کو ’’مہاجروں‘‘ کی قیادت پر آمادہ کیا جاسکے۔ ’’مہاجر قومی کونسل‘‘ کے نام سے نیا پلیٹ فارم بنانے کا ارادہ سامنے آیا ہے جس میں سارے گروپوں کی نمائندگی ہو۔ ایم کیو ایم لندن سے بھی رابطہ کیا جائے اور سارے گروپ پرویز مشرف کی سربراہی میں یکجا ہوجائیں۔ گو کہ اس کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں، ہر گروپ اپنے اندر ایک انجن ہے۔ سب کی بین اور اپنی بانسری ہے، اپنا پروگرام اور اپنا منشور ہے۔ پرویز مشرف تو بہت دور ہیں‘ یہ آپس میں ہی دست و گریباں ہیں۔ مصطفےٰ کمال نے گورنر عشرت العباد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے الطاف حسین کو اپنا محسن قرار دیا ہے۔ حروں کے روحانی پیشوا اور پیر پگارا ثانی مرحوم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’مہاجروں‘‘ نے کبھی عقلمندی کی بات نہیں کی۔ 1947 ء میں پاکستان قائم ہوا تو آگ اور خون کے دریا عبور کرکے ’’مہاجر‘‘ پاکستان آگئے۔ زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے لہٰذا سول سروس میں شامل ہوگئے‘ قائم خانی اور دیگر مارشل نسل کے لوگ فوج کا حصہ بن گئے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ بیرسٹر کمال اظفر کے سسر ایس ایس جعفری پہلے ڈپٹی کمشنر لاہور اور پھر ایوبی دور میں وفاقی سیکریٹری رہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیورو کریسی کا 85 فیصد حصہ بھارت سے ہجرت کرنے والے مہاجر افسروں پر مشتمل تھا۔ بعد کے حکمرانوں نے انہیں ملازمت سے فارغ کرنا شروع کیا۔ 1959 ء میں وفاقی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو متعدد مہاجر افسروں نے کراچی چھوڑنا قبول نہیں کیا اور کراچی کے کوارٹرز میں رہائش کو ترجیح دی۔ 1968 ء میں صدر یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر کراچی کی وفاقی حیثیت بحال کرنے کی تجویز دی تو مہاجر اکابرین نے انکار کردیا اور سندھ صوبہ میں شامل رہنے کو ترجیح دی۔ اس وقت سائیں جی ایم سید اور میر منور تالپور جیسے سیاستدان کراچی کو وفاقی علاقہ قرار دینے کے لیے رضا مند تھے جس کا اعلان جولائی 1948 ء میں خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ آج کے مہاجر اکابرین اور لیڈر شپ اسے اپنے بزرگوں کی غلطی قرار دیتے ہیں۔ سیاست میں سمجھداری کا عنصر شامل ہو تو ہندوؤں کی مخالفت کے باوجود پاکستان وجود میں آجاتا ہے۔ اگر حماقت حاوی ہو تو اسی پاکستان کا 1971 ء میں جغرافیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ سندھ میں کروڑوں کی آبادی ہونے کے باوجود آج کراچی کا ’’مہاجر میئر‘‘ جیل میں بند ہے اور سندھ اسمبلی میں 50 سیٹیں ہونے کے باوجود بھی سندھ حکومت میں نمائندگی نہیں ہے۔ سندھ کے ’’مہاجر‘‘ اس وقت فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں اورآئندہ کسی بے وقوفی کی گنجائش نہیں ہے۔
کراچی کے صوبائی حلقے پی ایس 114 کے ضمنی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سے متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار کی شکست کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے اس پر تبصروں کاسلسلہ جاری ہے ، اس انتخاب کے فوری بعد پی ایس پی کے سربراہ اور بانی مصطفی کمال نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے س...
کوئی سوچ سکتا تھا کہ کبھی بانی ایم کیوایم کے بیانات میڈیا میں شائع اور نشر نہیں ہوں گے۔ انہیں عزیز آباد جیسے علاقے میں کوئی جلسہ کرکے غدار کہے گا؟ اور پھر کوئی ردعمل بھی نہیں آئے گا؟ مگر اب یہ سب ہو رہا ہے اور یہ سب کراچی کے شہری اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔بانی ایم کیوایم کے پا...
سندھ میں اختیارات کی جنگ اپنے شباب پر ہے۔ قومی سطح پر لڑی جانے والی ”پاناما جنگ“ سے ہٹ کر صوبہ سندھ میں لڑی جانے والی اختیارات کی جنگ گرچہ صوبائی نوعیت کی ہے، لیکن اس کی بازگشت اور اثرات وفاق تک پہنچے ہوئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور ان کے وزراءاکثر وفاق سے شاکی رہت...
سیاست حادثات اور اتفاقات کا بھی کھیل ہے۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی سیاست ایسے ہی تلاطم خیز حالات سے گزر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے کراچی میں ایم کیوایم کی دگرگوں سیاست کا فائدہ منفی انداز سے اُٹھانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے باعث ایک طرف پیپلزپارٹی آئندہ انتخابات میں کراچی کے لیے ...
بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کو سندھ کے شہری عوام نے سر آنکھوں پر بٹھایا ۔ مگر انہوں نے عام آدمی کے اعتماد کاگلا گھونٹا ۔طارق میر اور محمد انور نے منی لانڈرنگ کیس میں برطانوی تحقیقاتی اداروں کے سامنے یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا کہ انہیں بھارت سے مسلسل فنڈز مل رہے ہیں اور بھارتی...
ایم کیو ایم قائد پر لگنے والی پابندی اور اس سے چند مہینے قبل قائم ہونے والی جماعت پاک سرزمین بننے کے بعد سے متحدہ دھڑوں کے درمیان سرد جنگ جاری ہے جس کا اہم ذریعہ وال چاکنگ بھی ہے۔ جس کے نتیجے میں وال چاکنگ قانون کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ فروری2014 میں سندھ اسمبلی نے وال چاکنگ ...
رینجرز اور پولیس نے دوماہ میں جتنی بھاری مقدار میں گولہ باروداوراسلحہ برآمد کیا اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی،مالیت کروڑوں روپے میں ہے ،ذرائعکراچی میں گزشتہ دو ماہ کے عرصے کے دوران رینجرز اور پولیس نے کارروائیوں کے دوران جتنی بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد...
مصطفی کمال نے عشرت العباد کو رشوت العباد اور ڈاکٹر عشرت العباد نے مصطفی کمال کو بائی پولر کا مریض قرار دے دیا [caption id="attachment_41526" align="aligncenter" width="267"] عشرت العباد اور مصطفیٰ کمال کی ایک تصویر ۔ ۔ جب دونوں ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوتے تھے[/caption] پاک سرز...
وزیر اعظم ہاؤس کے خفیہ اجلاس کی کراچی کے انگریزی اخبار میں رپورٹ کی اشاعت نے پوری حکومت کو ہلادیا۔ رپورٹ میں پاک افواج کے حوالے سے بعض ’’انکشافات‘‘ کئے گئے تھے جس پر فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا اور حکومت پر زور دیا گیا کہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی رپورٹ ت...