وجود

... loading ...

وجود

شاہراۂ ترقی اور بھارت کے تحفظات (پہلی قسط)

جمعه 21 اکتوبر 2016 شاہراۂ ترقی اور بھارت کے تحفظات (پہلی قسط)

تاجران اکبری منڈی لاہور (پٹھا نون لیگ )پٹھا: دیسی کشتی کے پنجابی محاورے میں شاگرد کو کہتے ہیں ) اور قصہ خوانی بازار پشاور (پٹھا اے این پی او رپرویز خٹک )کے باہمی اختلافات سے بہت پرے بھی شاہرا ۂ معاشی ترقی و سہولت گوادر کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر کچھ ایسا پھیلاؤ نہیں سب ہی کو عزیز ہے۔ جغرافیائی محلِ _____-__-____-__-__-__-__-__-___-_____وقوع سے ہٹ کر بھی اس میں بہت نازک مقام آتے ہیں۔ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کے ان چھوٹوں بڑوں تک جو اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں اور جن کی انگریزی رسائل اور میڈیا سے فہم و رغبت کم کم ہے ، اس اکثریت کی اس حوالے سے اعانت ہوجائے۔ میڈیا صبح شام ، کچھ قابل فہم تفصیلات بتائے بغیر مغز کھاتا رہتا ہے ۔اس لیے اس منصوبے میں پاکستان کی دلچسپی ،بھارت کی اس پراجیکٹ سے خصوصی مخاصمت اور جنوبی چائنا سمندر میں چین کی حد سے زائد دلچسپی کی وجوہات سادہ الفاظ میں بیان کرنا ضروری ہے۔اگر آپ اس میں نقشوں کی مدد سے بات سمجھنے کی کوشش کریں گے تو بے حد آسانی ہوگی۔
نقشہ اول آپ کو بتا رہا ہے کہ
چین کے صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر سے پاکستان میں گوادر کی بندرگاہ تک کا یہ منصوبہ تین ہزار میل لمبا ایک کاریڈور (راہداری) ہے۔پاکستان میں46 بلین ڈالر کے خطیر اخراجات کا یہ منصوبہ ان کے عظیم پروگرام OBOR(One Belt One Road )کا ایک حصہ ہے ۔وہ اسے Made in China 2025 کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

oborایک عالم میں اس وقت برآمدات کے حوالے سے جو کساد بازاری economic slowdown وقوع پذیر ہے اس نے چین کی برآمدات کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ان کا پچھلے تیس برسوں میں جمع شدہ سرمایہ اور ان کی اضافی افرادی قوت ان دنوں اپنی پیداوری صلاحیت سے بہت نیچے مصروف کار دکھائی دیتی ہے۔ان کے تین بڑے مغربی صوبے سی چوان، گین سو،اور یونان (Yunnan) بھی مشرقی چین کے باقی علاقوں سے بہت پسماندہ رہ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ چین میں جو مسلمان ہیں وہ ان کے شمالی مغربی صوبے سنکیانگ کے یوغور مسلمان ہیں جن میں غربت کی وجہ سے شدید احساس محرومی جنم لے چکا ہے۔چین کو مشرقی ترکمانستان میں ایک بڑی مزاحمتی تحریک The East Turkestan Islamic Movement (ETIM کا سامنا ہے ۔جس کے بارے میں وہاں یہ شبہ عام ہے کہ مغربی قوتیں اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔سی پیک وہاں پائے جانے والے وسائل کی روشنی میں ایک ایسی صنعتی تحریک کو فروغ دے گا جو ان کی غربت کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ چین کی 94 فیصد آبادی ان کے مشرقی صوبوں میں رہتی ہے جہاں صنعتی ترقی کی بہتات ہے۔6فیصد آبادی مغربی چین میں رہتی ہے جو رقبے کے حساب سے مشرقی چین سے تین گنا بڑا اور دولت کی تقسیم کے حساب سے کئی سو برس پیچھے ہے۔
___-__-_____چین کی پاکستان میں یہ سرمایہ کاری امریکاکی سابقہ سرمایہ کاری سے گو بہت کم ہے لیکن بہت بامقصدہے ۔اور یہ کس کے لیے بامقصد ہے یہ ایک علیحدہ بحث ہے ۔مثلاً امریکا نے پچھلے تیرہ برسوں میں 31.1 بلین ڈالر کی امداد دی ہے۔ 10.5 بلین ڈالر تو معاشی امداد تھی 7.6 بلین ڈالر دفاعی مد میں تھی اور 13 بلین ڈالر دہشت گردی کے خاتمے کی مد میں دی گئی۔ بلین میں نو صفر ہوتے ہیں یوں یہ رقم دم تحریر کچھ ایسے دکھائی دیتی ہے 31.100,000,000ڈالر۔ اور اگر آپ ڈالر کو سو روپے سے ضرب دیں تو یہ رقم مزید دو صفر کے اضافے سے 31.100,000,00000 روپے بنتی ہے۔غور سے دیکھیں اس رقم کے ثمرات آپ کو اگر اپنے ارد گرد نہیں دکھائی دیتے ہیں تو یہ باہر کہیں جاکر اہم افراد کے خفیہ اکاؤنٹس میں منتقل ہوگئی ہے۔
امریکا اس معاملے میں کیوں غفلت شعار ہے ۔یہ ایک اور موضوع ہے ،پرانے سندھی کہتے تھے کہ دشمنوں کے بچوں کو دو پیسے دے کر خراب کیا کریں۔ نائن الیون کے بعد ایک دم سے خزانے کا منہ کھلا تو معاملہ وہی ہوا جو دکھائی دیتا ہے کہ آنے والی امداد سیاست میں شرافت کی مانند ہوگئی کہ دکھائی ہی نہیں دیتی۔
نائن الیون کے وقت امریکی وزیر دفاع کولن پاؤل اور پاکستان کے فولادی جنرل پرویز مشرف کے درمیان تعاون کی شرائط پیش کرنے کا نازک مرحلہ تھا۔وھائٹ ہاؤس میں بحث ہوئی کہ جنرل بے اعتبار کو تعاون کا فون ان کی وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس کریں یا باوردی درست جنرل کولن پاؤل۔کونڈا لیزا رائس نے یہ کہہ کر دامن چھڑایا کہ وہ اس موضوع پر ذرا سخت گیر گفتگو کر بیٹھیں گی اور جنرل صاحب سجیلے گھوڑے کی طرح بدک جائیں گے ۔ نرم گفتار اور ہم پیشہ کولن پاؤل آغاز کریں وہ وہاں موجود رہیں گی۔ضرورت پڑنے پر Whip Cracking کے لیے میدان میں کود جائیں گی۔حکمت عملی یہ رکھیں کہ اصلی تین شرائط کو باقی سات شرائط میں خلط ملط کرکے پیش کریں۔ اصلی والی دو بھی مان لیں تو بہت ہیں۔دوسری طرف جب مرد آہن نے ان شرائط کو سنا تو امراؤ جان کی طرح کندھوں کی کمان کے وسط سے ہاتھوں کی پیالی بناکر ادائے دلبری سے کہا
؂ دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجیے
بس ڈالروں کی برسات کردیں۔حضرت نے قوم کا دھیلے کا بھی خیال نہ کیا۔اس کے برعکس جب اسرائیل سے 1973ء کی جنگ کے بعد مصر کے صدر انور السادات کو کیمپ ڈیوڈ میں امریکا کے دباؤ پر امن معاہدے کے لیے بیٹھنا پڑا تو انہوں نے امریکا سے پانچ مطالبات منوائے۔
۱۔ وہ تمام علاقہ جو اسرائیل کے قبضے میں ہے حتی کہ غزہ پٹی بھی وہ مصر کو لوٹا دیے جائیں۔اسرائیلی افواج سو کلو میٹر سے بھی زیادہ مصر کے اندر گھس آئیں تھیں۔
۲۔ مصر کے تمام ذمے آج تک کے قرضے معاف کیے جائیں۔
۳۔مصر کے جنگی ساز و سامان کو دوبارہ جدید بنادیا جائے۔
۴۔سوئز کنال سے گزرنے کا ٹیکس جنگی اخراجات پورے کرنے کے لیے مصر کو دوگنا کرنے کی اجازت دی جائے۔
۵۔امریکا چار بہترین جامعات مصر میں قائم کرے اور مصری نوجوانوں کو امریکاکا ویزہ دینے میں بے حد نرمی کی جائے۔
ہمارے جنرل صاحب نادان تھے چند ہی کلیوں پر قناعت کرگئے۔
امریکانے اپنی امداد میں انفرا اسٹرکچر اور ریسرچ اور تعلیم کی کوئی شق اس لیے شامل نہ کی کہ بدمست جنرل کو ہوش نہ خبر تھی کہ اقوام کیسے بنتی ہیں۔ غیر ملکی طاقتوں کو کرپٹ، اخلاقی طور پرکمزور عاقبت نااندیش حکمران مسلم ممالک میں بہت اچھے لگتے ہیں ۔سو پاکستان میں ضیا الحق کے دور سے آج تک آنے والی امداد کا یہی حال ہے کہ یہ ذاتی جیبوں میں زیادہ اور ملکی مفاد میں کم صرف ہوتی ہے۔
پیارا چین چالاک ہے۔پاکستانیوں کے چمتکار سے نہ سہی مگر اپنے مفادات سے بخوبی آگاہ ہے۔ وہ اپنی معاشی ترقی کے لیے پاکستان میں ہی ا ن اخراجات سے مختلف Launching Pads بنا رہا ہے۔ جس میں گوادر میں ائیر پورٹ اور فری زون کی بندرگاہ، پورٹ قاسم کراچی پر قطر کی کمپنی المقرب کی شراکت سے کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کا ایک منصوبہ،تھر سندھ،ساہیوال۔ پنجاب اور مظفر آباد آزاد کشمیر میں بھی ایسے ہی منصوبے،تھر پارکر میں پاکستان کی ایک نجی کمپنی اور سندھ حکومت کی شراکت سے کوئلہ نکالنے اور اس سے بجلی پیدا کرنے کے تین منصوبے،بھاولپور میں شمسی توانائی کا ایک منصوبہ اوردیگر دو منصوبے اس میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ سڑکوں ، سرنگوں ،ریل پٹری اور پلوں کا پاکستانیوں کے پسندیدہ محاورے میں ایک جال بچھادیا جائے گا۔ اس امداد میں کتنا قرضہ ہے یہ کہیں ظاہر نہیں ہوتا مگر بعض پروجیکٹس میں وہ پاکستان کو بھی وزن اٹھانے کے لیے بطور دوسرے بیل کے گاڑی میں جوت چکا ہے۔
اب آیئے بھارت میں اس مدعے پرکیا گہرے ’وچار ‘پائے جاتے ہیں ان کا احاطہ کریں۔
بھارت میں اس حوالے سے دو اہم نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ پہلا نقطۂ نظر پاکستان میں کم کم سنا جاتا ہے۔ یہ ان کی143143143143143 Deep State سے جڑے ان بلا کے ذہین افراد کا ہے۔ وہ اس منصوبے کی بلا رکاوٹ تکمیل کے بالکل ویسے ہی حامی ہیں جیسے گاندھی جی قیام پاکستان کے اپنے آخری برسوں میں تھے۔گاندھی جی نے مسلمانوں کے ایک علیحدہ دیش بنانے کی تحریک کی مزاحمت اس وقت ترک کی جب جمعیت علمائے ہند کے علماء نے قیام پاکستان کی مخالفت شروع کی، ابوالکلا م آزاد اور کانگریس سے جڑے علما یہ کہتے تھے کہ پاکستان کے قیام سے بھارت میں مسلمانوں کی شمال کے جانب سے افواج کی آمد اور دہلی پر حکمرانی کے امکانات یکسر ختم ہوجائیں گے۔ بھارت سے مسلمانوں کی پاکستان ہجرت مسلمانوں کو ایک غیر موثر اقلیت میں بدل دے گی۔وہ جمہوریت میں’ ایک فرد۔ ایک ووٹ‘ کے اصول کے تحت بھارت پر حکمرانی کے حق سے محروم ہوجائیں گے۔پاکستان ایک Buffer State بن کر وسطی ایشیا سے مسلمان لشکر کی آمد کی راہ میں رکاوٹ بن جائے گا۔یہی افکار طالبان کے بھی ہیں جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر بھارت میں براہ راست کارروائی کی راہ میں پاکستانی تحفظات کو اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ گاندھی جی نے اسی خیال کو سامنے رکھ کر پاکستان کے قیام کی مخالفت کو نرم لہجہ عطا کیا۔
بھارت کی Deep -Stateسے وابستہ یہ بلا کے زیرک افراد (جنہیں ہم اختصار کی سہولت کی خاطر الفا گروپ کہیں گے) یہ کہتے ہیں کہ چین نے بھارت سے1962 کی جنگ کے بعد سے کوئی مہا یُدھ ( بڑی جنگ) نہیں کی۔
چین کے چیئرمین ماؤزے تنگ سے لے کر موجودہ سربراہ صدر ژی جن پنگ تک سنگاپور کے بابائے قوم لی۔ کوان۔ یو کی بہت عزت کرتے رہے ہیں اورکیوں نہ کریں ؟ان کے بارے میں کسنجر،ریگن،بڑے بش ،کلنٹن اور ان کی اہلیہ اور متوقع صدر ہیلری کی متفقہ رائے یہ تھی کہ سنگاپور کے صدر لی کوان یو کے ساتھ آدھے گھنٹے کی ملاقات ہارورڈ یونی ورسٹی کی ڈگری پر بھاری ہوتی ہے۔

لی کوآن یو

لی کوآن یو

یاد رکھیے یہ نہ کوئی معمولی افراد ہیں نہ ہارورڈ یونی ورسٹی کا معیار گومل یا وفاقی اردو یونی ورسٹی جیسا ہے۔لی۔ کوان۔ یو کو مغربی دنیا کا سب سے من پسند ڈکٹیٹر کہا جاتا تھا۔مصنف Ezra Vogel نے چینی صدر Deng Xiaoping کی سوانح میں لکھا ہے کہ لی ۔کوان ۔ یو کو اگر جدید چین کا اصل معمار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ماؤزے تنگ کی وفات کے بعد چین کے لیے دو راستے تھے کہ مغربی جمہوریت کو اپنا کر فری مارکیٹ کھول دے، یا لی ۔کوان ۔ یو کا طرز حکمرانی اپنائے، جدیدیت، معاشی ترقی مگر محدود جمہوریت۔چین کے بے شمار افسر اس ماڈل کے مطالعے کے لیے سنگاپور آتے رہے اور خود لی ۔کوان ۔ یو نے بھی چین کا تیس سے زائد مرتبہ دورہ کیا۔(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


گوادر کے باسیوں کا خوف :سی پیک کی چکا چوند میں مچھیروں کا کیا بنے گا۔۔۔؟؟ وجود - جمعه 02 جون 2017

گوادر کی بندرگاہ تیزی کے ساتھ تکمیل کے مراحل سے گزر رہی ہے، لیکن یہاں کے مچھیروں کو گھر بار اور ذریعہ معاش چھن جانے کا خوف ہے۔بندرگاہ پر کوئی 20کلومیٹر پر واقع گوادر کے مقابلے میں کافی سناٹا ہے، جہاں گہرے پانیوں کی چین کے تعاون سے بندرگاہ تعمیر کی جارہی ہے، جس کے بارے میں کہا جات...

گوادر کے باسیوں کا خوف :سی پیک کی چکا چوند میں مچھیروں کا کیا بنے گا۔۔۔؟؟

سی پیک پر رکاوٹ ڈالنے کے بھارتی منصوبے میں تیزی وجود - اتوار 28 مئی 2017

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے بچھائے ہوئے جاسوسی اور تخریب کاری کے منصوبوں پر عملدرآمد تیزہوتا محسوس ہورہاہے اور کلبھوشن کے تنخوا ہ دار بھارتی ایجنٹوں نے اب کلبھوشن کو سزا سے بچانے اور حکومت پاکستان کو اسے رہا کرکے بھارت کے حوالے کرنے پر مجبور کرنے کے لیے تخریب کاری کی نئی حکمت ...

سی پیک پر رکاوٹ ڈالنے کے بھارتی منصوبے میں تیزی

سی پیک پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن پر شدید دبائو پڑنے کا خدشہ ایچ اے نقوی - هفته 13 مئی 2017

[caption id="attachment_44512" align="aligncenter" width="784"] جیسے ہی قرضوں کی واپسی کا سلسلہ اور چینی کمپنیاں منافع اپنے ملک لے جانا شروع کریں گی تو پاکستانی کرنسی شدید دباؤ کا شکار ہوجائے گی‘ خدشات غلط ہیں ، چین سے آنے اور جانے والی اشیا پر فیس کی مد میں پاکستان کثیر رقم کم...

سی پیک پاکستان کی ادائیگیوں کے توازن پر شدید دبائو پڑنے کا خدشہ

سی پیک منصوبہ :بھارت کوشمولیت کے لیے چینی دعوت سے شکوک وشبہات میں اضافہ ایچ اے نقوی - جمعرات 11 مئی 2017

[caption id="attachment_44491" align="aligncenter" width="784"] ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چین اور بھارت کو نئے مواقع فراہم کریں گے،یہ نظریہ غلط ہے کہ چین بھارت کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا، بھارت میں تعینات چینی سفیر ‘چین سی پیک کو بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لیے استعمال کرن...

سی پیک منصوبہ :بھارت کوشمولیت کے لیے چینی دعوت سے شکوک وشبہات میں اضافہ

سی پیک اور "مولانا" انوار حسین حقی - منگل 25 اکتوبر 2016

’’ بنی گالہ ‘‘ اسلام آباد میں گزشتہ دنوں عوامی جمہوریہ چین کے پاکستان میں متعین سفیر جناب ’’سن وی ڈونگ ‘‘نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان سے ملاقات کی ۔ذرائع کے بقول’’ اس ملاقا ت میں پاکستان تحریک انصا ف کی جانب سے دو نومبر کے مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ عمر...

سی پیک اور

شاہرا ۂ ترقی اور پاکستان بھارت کے تحفظات (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 24 اکتوبر 2016

چین اس وقت جو تیل عرب ممالک سے خریدتا ہے وہ بیجنگ تک سمندری راستے سے پہنچنے کے لیے لگ بھگ بارہ ہزار میل کا سفر طے کرتا ہے۔اس دوران اسے بحیرہ ہرمز (جو گوادر اور ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کے درمیان ہے) سے آبنائے ملاکہ جو انڈونیشیا کہ سب سے بڑے ٹاپو (ہندی میں جزیرہ سماترا )اور ملائی...

شاہرا ۂ ترقی اور پاکستان بھارت کے تحفظات (آخری قسط)

شاہرا ۂ ترقی اور بھارت کے تحفظات ( قسط ۔ 2) محمد اقبال دیوان - هفته 22 اکتوبر 2016

نومبر1978ء میں چین کے سربراہ Deng Xiaoping کی ملاقات سنگاپور کے صدر لی کوان یو سے ہوئی تو اُنہوں نے چینی سربراہ کو تین اہم مشورے دیے تھے کہ چین جیسے ملک میں مغربی ممالک کے طرز کی جمہوریت سے پرہیز کریں اور ایک پارٹی کی حکومت کو فروغ دیں۔ دوسرے وہ براہ راست کسی جنگ میں ملوث نہ ہوں ...

شاہرا ۂ ترقی اور بھارت کے تحفظات ( قسط ۔ 2)

جلسے، اقتصادی راہداری اور ملکی ترقی رضوان رضی - هفته 08 اکتوبر 2016

بُرا ہو اس پاکستانی صحافت کے موجودہ رحجانات کا کہ جس نے پوری قوم کو’جلسہ جلسہ ‘کے کھیل پر لگا رکھا ہے اور ’ترقیاتی خبروں ‘کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جانے دیا جا رہا۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک کے معاشی منظر نامے پر بہت بنیادی قسم کی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور سب سے بڑی تبدیلی ت...

جلسے، اقتصادی راہداری اور ملکی ترقی

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر