... loading ...
(اردو ہم سب کی محبوب زبان ہے، بدقسمتی سے نیٹ پر اردو کی ترویج اس طرح نہیں ہو سکی جیسے اس کا حق ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے کونٹینٹ ایڈیٹر ظفر سید کے ساتھ اردو زبان کے حوالے سے ایک مکالمہ پیش خدمت ہے)
’’شاہد بھائی!آپ کے علم میں ہو گا کہ1857سے قبل برصغیر کی علمی، ادبی اور سرکاری زبان فارسی تھی۔ نہ صرف مسلمان بلکہ مرہٹہ ہندوؤں اور رنجیت سنگھ کی درباری زبان بھی فارسی ہی تھی۔ (برسبیلِ تذکرہ، دلچسپ بات ہے کہ پنڈت نہرو کے شادی کارڈ فارسی زبان میں شائع ہوئے تھے!) لیکن پھر انگریزوں نے بہ یک جنبشِ قلم فارسی کو معزول کر کے انگریزی رائج کر دی۔ جس سے کیا ہوا کہ وہ لوگ جو کل تک فارسی کے علما و فضلا تھے، اچانک جہلا کی قطار میں آگئے کیوں کہ انہیں انگریزی نہیںآتی تھی۔ آپ نے جس ضرب المثل کا ذکر کیا ہے (پڑھے فارسی، بیچے تیل) وہ کسی ستم ظریف نے ایسے ہی حالات میں گھڑی ہوگی۔ ورنہ اس سے کچھ عرصہ پیشتر تو اس کہاوت کا چلن تھا: آب آب کرتے مر گئے، پانی دھرا رہا سرہانے۔۔‘‘آداب عرض ہے،ظفر سید۔۔
’’ظفر بھائی!تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ ماضی پرستوں کو بھول جاتی ہے۔۔آپ نے 1857 کا ذکر کیا ،، مگر بھائی کیا یہ 2016 نہیں ہے۔۔کیا آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں انگریزی کا چلن نہیں ہے۔کیا آج کی کاروباری دنیا انگریزی کے بغیر چل سکتی ہے۔کیا آج دنیا گلوبل ولیج کے عام آدمی کی زبان نہیں بن چکی ؟آپ نے درست فرمایا کہ فارسی ڈیڑھ سو سال پہلے برصغیر کے خواص کی زبان تھی، دربار کی زبان تھی، مگر عام آدمی کی زبان تو نہ تھی میرے بھائی۔ عام آدمی کے لیے تو فارسی بھی باہر سے درآمد ہوئی تھی اور انگریزی بھی۔ عام آدمی اپنی زبان میں سوچتا ہے۔بدیسی زبان آپ سیکھ اور بول تو سکتے ہیں اس میں سوچ نہیں سکتے۔کیا کہتے ہیں آپ اس بارے میں‘‘۔۔ ( نوٹ: اگر ہم نے اپنی زبان کو اس کا درست مقام دیا ہوتا تو آج کیوں ہم اس فکر میں ہوتے کہ اردو کو کیسے نیٹ پر رائج کریں۔۔ یقیناًاردو پر کام کیا گیا ہوتا تو اب تک یہ نیٹ کیا دنیا بھر کے مختلف فورمز پر اپنی جگہ بنا چکی ہوتی۔۔۔ پتا نہیں ہمارا احساس کمتری کب ختم ہوگا اور کب ہم اپنی زبانوں کو اپنا کہہ سکیں گے، ہم کہ 6 ہزار سال پہلے موئن جو دڑو اور ہڑپہ میں تحریر کے فن سے واقف تھے۔ آج اتنے بے زبان بن گئے ہیں کہ کبھی فارسی کے محتاج ہوتے ہیں تو کبھی انگریزی کے۔ خیر اندیش، شاہد اے خان۔۔)
’’شاہد بھائی !آپ نے ماضی پرستی کی بات کی ہے اور آج پر زور دینے کی تلقین کی ہے۔ میری گزارش ہے کہ حضور، ماضی سے سبق نہ سیکھنے والوں کو آج بھی بھول جاتاہے۔ جس درخت کی جڑیں زمین میں گہری نہ پھیلی ہوں، وہ ہواکے معمولی جھونکے سے گر جاتا ہے۔ حال ہمیشہ ماضی کی بیساکھی ٹیکتے ہوئے مستقبل کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔ آپ نے آئن اسٹائن کا قول سنا ہو گا کہ میں اس لیے اونچا ہوں کہ اپنے بلند قامت پیش رووں کے کندھوں پر کھڑا ہوں۔
شاہد بھائی، آپ نے فارسی کا ذکر کیا ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم کل سے فارسی بولنا شروع کردیں۔ میرا مطلب فقط یہ تھاکہ یہ ہماری اپنی زبان تھی۔ ہماری تاریخ کا درخشاں باب ہے۔ ہم کیسے اس کو طاق پررکھ کر انگریزی کے گن گانا شروع کردیں؟ اگر ہم نے ایسا کیا تو پھرہمارے اس مذہبی، ثقافتی، فنی اور ادبی ورثے کا کیا ہوگا جو مسلمانوں نے پچھلے ہزار سال میں اکٹھا کیا تھا؟ آپ فارسی کوباہر سے مسلط کی جانے والی زبان گردانتے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ زبانیں، خیالات، حتیٰ کہ قومیں تک ایک جگہ سے دوسرے جگہ آتی جاتی رہتی ہیں۔ شاید آپ کو علم ہو گا کہ جینیاتی تجزیے کے مطابق پاکستان کے60فیصد سے زیادہ لوگ افغانستان، وسطی ایشیا اور ایران سے آئے ہوئے ہیں، یعنی باہر سے درآمدہ۔ سو نہ صرف فارسی زبان باہر سے آئی ہے بلکہ ہم میں سے بیشتر لوگ بھی ہجرت کر کے یہاںآباد ہو ئے ہیں۔ انگریز تجارت کرنے آئے تھے، اپنے منافع وصول کرکے چلتے بنے لیکن فارسی بولنے والے مسلمان ایک ہزار سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ فارسی کا عظیم ادب یہاں تخلیق ہوا ہے۔ ہندوستانی فارسی شعرا امیر خسرو، فیضی، کلیم، طالب آملی، بیدل، مرزا قتیل، مرزا غالب ، مولانا گرامی اور اقبال کو آپ کسی بھی بڑے فارسی شاعر کے پہلو بہ پہلو رکھ سکتے ہیں۔ ان قدما کا فارسی شاعری کے تین اسالیب میں سے ایک الگ اسلوب تھا جسے سبکِ ہندی کہا جاتاہے، دوسرے دو اسالیب سبکِ خراسانی اور سبکِ ایرانی ہیں۔ انگریزی ضرور سیکھیں، کون کہتا ہے نہ سیکھیں۔ یہ دورِحاضر کی علمی مجبوری ہے۔ لیکن اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے۔ ‘‘آداب عرض ہے، ظفر سید۔۔
’’ظفر بھائی !اچھی بات یہ ہے کہ آپ کے کی بورڈز سے سوچ کے پھول مہک رہے ہیں۔اردو گل دستہ ہائے رنگ برنگ ہے ، اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اردو فارسی اور عربی سے الگ ایک زبان ہے ، ایک زندہ زبان جس میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔۔برصغیر میں فارسی شاعری میں بہت کام کیا گیا ہے ،ادب کی دیگر اصناف پر کسی نے نظر کرم نہیں کی۔۔ شاعری بھی اس لیے پنپ سکی کہ دربار کا سایہ ظل الہی کے سائے کی طرح چھپر چھایا کیے ہوئے تھا۔اس سے کس کو اختلاف ہے کہ بر صغیر میں مسلم ایلیٹ کلاس نے فارسی کو اپنا کر اس میں ادب کے گراں بہا موتیوں کا اضافہ نہیں کیا لیکن وہ ماضی کا قصہ ہے اب نہ بھارتی یا پاکستانی مسلمان کو فارسی سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی کام۔زبان وہی سیکھی جاتی ہے جس سے معاش وابستہ ہوتا ہے۔اسی لیے پاکستانی انگریزی سیکھنے اور بولنے پر مجبور ہیں۔اور بھائی زبان تو تبدیل ہوتی رہتی ہے ، آج کے ایرانی بھی وہ فارسی نہیں سمجھ سکتے جس میں ہمارے برصغیر کے اسلاف شاعری فرمایا کرتے تھے۔
اردو پر فارسی کے علاوہ عربی کا بہت زیادہ اثر ہے اس کی مذہبی وجہ بھی ہے۔۔ہم برصغیر کے واسی تمام عمر اپنی شین قاف سیدھی کرنے میں گزار دیتے ہیں۔برسبیل تذکرہ ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں،مجھے کچھ عرصہ سعودی عرب میں رہنے کا اتفاق ہوا۔وہاں اصلی تے وڈے عربوں کی عربی دیکھی اور سنی۔ آپ کوشائد حیرت ہو کہ وہاں کی عربی میں قاف نہیں ہوتا اس کا تلفظ وہ گ سے کرتے ہیں، مثلا قاسم وہاں گاسم ہوتا ہے اور قفل گفل ہو جاتا ہے۔۔اسی طرح ث کا تلفظ ت سے کرتے ہیں،، ثریا ، تریا ہے ،، کثیر ، کتیر ہے اور کوثر،، کوتر ہے ،،ض، ظ، ز ، ذ سب کا تلفظ د ہے جی ہاں دال (کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا )۔رہے نام اللہ کا۔اردو ، ہندی ، پراکرت ، کھڑی ، پنجابی ،سندھی، فارسی اور انگریزی کے لسانی رشتے پر زندگی رہی تو پھر بات ہوگی۔۔‘‘خیر اندیش ، شاہد اے خان
پرانی دہلی کی پیچیدہ گلیوں کے نام قدیم دستکاریوں اور تجارت کے اعتبار سے رکھے گئے ہیں ۔ جیسے سوئی والاں یعنی درزیوں کی گلی، پھاٹک تیلیاں یعنی تیل نکالنے والوں کی گلی، کناری بازار یعنی کنارا یا کڑھائی بازار، گلی جوتے والی یعنی موچیوں کی گلی، چوڑی والاں یعنی چوڑی بنانے والوں کے گھر،...