وجود

... loading ...

وجود

زبانی کلامی

جمعه 21 اکتوبر 2016 زبانی کلامی

(اردو ہم سب کی محبوب زبان ہے، بدقسمتی سے نیٹ پر اردو کی ترویج اس طرح نہیں ہو سکی جیسے اس کا حق ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے کونٹینٹ ایڈیٹر ظفر سید کے ساتھ اردو زبان کے حوالے سے ایک مکالمہ پیش خدمت ہے)
’’شاہد بھائی!آپ کے علم میں ہو گا کہ1857سے قبل برصغیر کی علمی، ادبی اور سرکاری زبان فارسی تھی۔ نہ صرف مسلمان بلکہ مرہٹہ ہندوؤں اور رنجیت سنگھ کی درباری زبان بھی فارسی ہی تھی۔ (برسبیلِ تذکرہ، دلچسپ بات ہے کہ پنڈت نہرو کے شادی کارڈ فارسی زبان میں شائع ہوئے تھے!) لیکن پھر انگریزوں نے بہ یک جنبشِ قلم فارسی کو معزول کر کے انگریزی رائج کر دی۔ جس سے کیا ہوا کہ وہ لوگ جو کل تک فارسی کے علما و فضلا تھے، اچانک جہلا کی قطار میں آگئے کیوں کہ انہیں انگریزی نہیںآتی تھی۔ آپ نے جس ضرب المثل کا ذکر کیا ہے (پڑھے فارسی، بیچے تیل) وہ کسی ستم ظریف نے ایسے ہی حالات میں گھڑی ہوگی۔ ورنہ اس سے کچھ عرصہ پیشتر تو اس کہاوت کا چلن تھا: آب آب کرتے مر گئے، پانی دھرا رہا سرہانے۔۔‘‘آداب عرض ہے،ظفر سید۔۔
’’ظفر بھائی!تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ ماضی پرستوں کو بھول جاتی ہے۔۔آپ نے 1857 کا ذکر کیا ،، مگر بھائی کیا یہ 2016 نہیں ہے۔۔کیا آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں انگریزی کا چلن نہیں ہے۔کیا آج کی کاروباری دنیا انگریزی کے بغیر چل سکتی ہے۔کیا آج دنیا گلوبل ولیج کے عام آدمی کی زبان نہیں بن چکی ؟آپ نے درست فرمایا کہ فارسی ڈیڑھ سو سال پہلے برصغیر کے خواص کی زبان تھی، دربار کی زبان تھی، مگر عام آدمی کی زبان تو نہ تھی میرے بھائی۔ عام آدمی کے لیے تو فارسی بھی باہر سے درآمد ہوئی تھی اور انگریزی بھی۔ عام آدمی اپنی زبان میں سوچتا ہے۔بدیسی زبان آپ سیکھ اور بول تو سکتے ہیں اس میں سوچ نہیں سکتے۔کیا کہتے ہیں آپ اس بارے میں‘‘۔۔ ( نوٹ: اگر ہم نے اپنی زبان کو اس کا درست مقام دیا ہوتا تو آج کیوں ہم اس فکر میں ہوتے کہ اردو کو کیسے نیٹ پر رائج کریں۔۔ یقیناًاردو پر کام کیا گیا ہوتا تو اب تک یہ نیٹ کیا دنیا بھر کے مختلف فورمز پر اپنی جگہ بنا چکی ہوتی۔۔۔ پتا نہیں ہمارا احساس کمتری کب ختم ہوگا اور کب ہم اپنی زبانوں کو اپنا کہہ سکیں گے، ہم کہ 6 ہزار سال پہلے موئن جو دڑو اور ہڑپہ میں تحریر کے فن سے واقف تھے۔ آج اتنے بے زبان بن گئے ہیں کہ کبھی فارسی کے محتاج ہوتے ہیں تو کبھی انگریزی کے۔ خیر اندیش، شاہد اے خان۔۔)
’’شاہد بھائی !آپ نے ماضی پرستی کی بات کی ہے اور آج پر زور دینے کی تلقین کی ہے۔ میری گزارش ہے کہ حضور، ماضی سے سبق نہ سیکھنے والوں کو آج بھی بھول جاتاہے۔ جس درخت کی جڑیں زمین میں گہری نہ پھیلی ہوں، وہ ہواکے معمولی جھونکے سے گر جاتا ہے۔ حال ہمیشہ ماضی کی بیساکھی ٹیکتے ہوئے مستقبل کی طرف پیش قدمی کرتا ہے۔ آپ نے آئن اسٹائن کا قول سنا ہو گا کہ میں اس لیے اونچا ہوں کہ اپنے بلند قامت پیش رووں کے کندھوں پر کھڑا ہوں۔
شاہد بھائی، آپ نے فارسی کا ذکر کیا ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم کل سے فارسی بولنا شروع کردیں۔ میرا مطلب فقط یہ تھاکہ یہ ہماری اپنی زبان تھی۔ ہماری تاریخ کا درخشاں باب ہے۔ ہم کیسے اس کو طاق پررکھ کر انگریزی کے گن گانا شروع کردیں؟ اگر ہم نے ایسا کیا تو پھرہمارے اس مذہبی، ثقافتی، فنی اور ادبی ورثے کا کیا ہوگا جو مسلمانوں نے پچھلے ہزار سال میں اکٹھا کیا تھا؟ آپ فارسی کوباہر سے مسلط کی جانے والی زبان گردانتے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ زبانیں، خیالات، حتیٰ کہ قومیں تک ایک جگہ سے دوسرے جگہ آتی جاتی رہتی ہیں۔ شاید آپ کو علم ہو گا کہ جینیاتی تجزیے کے مطابق پاکستان کے60فیصد سے زیادہ لوگ افغانستان، وسطی ایشیا اور ایران سے آئے ہوئے ہیں، یعنی باہر سے درآمدہ۔ سو نہ صرف فارسی زبان باہر سے آئی ہے بلکہ ہم میں سے بیشتر لوگ بھی ہجرت کر کے یہاںآباد ہو ئے ہیں۔ انگریز تجارت کرنے آئے تھے، اپنے منافع وصول کرکے چلتے بنے لیکن فارسی بولنے والے مسلمان ایک ہزار سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ فارسی کا عظیم ادب یہاں تخلیق ہوا ہے۔ ہندوستانی فارسی شعرا امیر خسرو، فیضی، کلیم، طالب آملی، بیدل، مرزا قتیل، مرزا غالب ، مولانا گرامی اور اقبال کو آپ کسی بھی بڑے فارسی شاعر کے پہلو بہ پہلو رکھ سکتے ہیں۔ ان قدما کا فارسی شاعری کے تین اسالیب میں سے ایک الگ اسلوب تھا جسے سبکِ ہندی کہا جاتاہے، دوسرے دو اسالیب سبکِ خراسانی اور سبکِ ایرانی ہیں۔ انگریزی ضرور سیکھیں، کون کہتا ہے نہ سیکھیں۔ یہ دورِحاضر کی علمی مجبوری ہے۔ لیکن اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے۔ ‘‘آداب عرض ہے، ظفر سید۔۔
’’ظفر بھائی !اچھی بات یہ ہے کہ آپ کے کی بورڈز سے سوچ کے پھول مہک رہے ہیں۔اردو گل دستہ ہائے رنگ برنگ ہے ، اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اردو فارسی اور عربی سے الگ ایک زبان ہے ، ایک زندہ زبان جس میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔۔برصغیر میں فارسی شاعری میں بہت کام کیا گیا ہے ،ادب کی دیگر اصناف پر کسی نے نظر کرم نہیں کی۔۔ شاعری بھی اس لیے پنپ سکی کہ دربار کا سایہ ظل الہی کے سائے کی طرح چھپر چھایا کیے ہوئے تھا۔اس سے کس کو اختلاف ہے کہ بر صغیر میں مسلم ایلیٹ کلاس نے فارسی کو اپنا کر اس میں ادب کے گراں بہا موتیوں کا اضافہ نہیں کیا لیکن وہ ماضی کا قصہ ہے اب نہ بھارتی یا پاکستانی مسلمان کو فارسی سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی کوئی کام۔زبان وہی سیکھی جاتی ہے جس سے معاش وابستہ ہوتا ہے۔اسی لیے پاکستانی انگریزی سیکھنے اور بولنے پر مجبور ہیں۔اور بھائی زبان تو تبدیل ہوتی رہتی ہے ، آج کے ایرانی بھی وہ فارسی نہیں سمجھ سکتے جس میں ہمارے برصغیر کے اسلاف شاعری فرمایا کرتے تھے۔
اردو پر فارسی کے علاوہ عربی کا بہت زیادہ اثر ہے اس کی مذہبی وجہ بھی ہے۔۔ہم برصغیر کے واسی تمام عمر اپنی شین قاف سیدھی کرنے میں گزار دیتے ہیں۔برسبیل تذکرہ ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں،مجھے کچھ عرصہ سعودی عرب میں رہنے کا اتفاق ہوا۔وہاں اصلی تے وڈے عربوں کی عربی دیکھی اور سنی۔ آپ کوشائد حیرت ہو کہ وہاں کی عربی میں قاف نہیں ہوتا اس کا تلفظ وہ گ سے کرتے ہیں، مثلا قاسم وہاں گاسم ہوتا ہے اور قفل گفل ہو جاتا ہے۔۔اسی طرح ث کا تلفظ ت سے کرتے ہیں،، ثریا ، تریا ہے ،، کثیر ، کتیر ہے اور کوثر،، کوتر ہے ،،ض، ظ، ز ، ذ سب کا تلفظ د ہے جی ہاں دال (کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا )۔رہے نام اللہ کا۔اردو ، ہندی ، پراکرت ، کھڑی ، پنجابی ،سندھی، فارسی اور انگریزی کے لسانی رشتے پر زندگی رہی تو پھر بات ہوگی۔۔‘‘خیر اندیش ، شاہد اے خان


متعلقہ خبریں


پرانی دہلی کی زبانیں اور لہجے وجود - اتوار 10 ستمبر 2017

پرانی دہلی کی پیچیدہ گلیوں کے نام قدیم دستکاریوں اور تجارت کے اعتبار سے رکھے گئے ہیں ۔ جیسے سوئی والاں یعنی درزیوں کی گلی، پھاٹک تیلیاں یعنی تیل نکالنے والوں کی گلی، کناری بازار یعنی کنارا یا کڑھائی بازار، گلی جوتے والی یعنی موچیوں کی گلی، چوڑی والاں یعنی چوڑی بنانے والوں کے گھر،...

پرانی دہلی کی زبانیں اور لہجے

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر