وجود

... loading ...

وجود

دجالی معاشی نظام اور مسیحا کا انتظار

منگل 18 اکتوبر 2016 دجالی معاشی نظام اور مسیحا کا انتظار

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسانی جبلت پر جس قدر معاشی معاملات اثر دکھاتے ہیں اس سے زیادہ اثر پذیری کسی فانی چیز میں نہیں رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں معاشی نظام کو بے شمار کدورتوں سے پاک رکھنے کے لیے واضح احکامات صادر کیے گئے کیونکہ غلط اور حرام طریقے سے حاصل شدہ سرمایے کی بنیاد پر انسان کبھی اپنے نفس کی زمین پر حق کی فصل نہیں بو سکتاجبکہ اللہ رب العزت انسان سے نیت اور فعل میں صرف صالح عمل پذیر ی چاہتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ جبلت کی زمین پر کسی ایسی حرام کمائی کا بیج نہ بویا جائے جو نتائج کے لحاظ سے ’’شجرہ خبیثہ‘‘ کی شکل اختیار کرجائے۔اسی لیے سب سے زیادہ سود کی حرمت پر زور دے کر مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی کیونکہ معاشی نظام میں سود دجال کا اہم ترین ہتھیار ہے اور اسی کے ذریعے وہ عالم انسانیت کو معاشی جہنم میں دھکیل دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرتی، اخلاقی، اجتماعی اور فکری تباہی خود بخود واقع ہوجاتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انبیائے کرام کی دعوتِ حق میں سب سے زیادہ رکاوٹ ہر دور کے سرمایہ داروں نے ڈالی، ابلیس انہی سرمایے کی بنیاد پر اس زعم باطل میں مبتلا کردیتا تھا کہ ان کی حاکمیت کو کبھی زوال نہیں آنے والا اور وہ ہر مشکل کا مقابلہ سرمایہ کی بنیاد پر بآسانی کرلیں گے۔ اسی زعم باطل میں مبتلا ہوکر نمرود اور اس کی سرمایہ دار بیوروکریسی نے ابراہیم ؑ کے خلاف متحدہ محاذ قائم کیا تھا اور اسی کی بنیاد پر فرعون اور قارون موسی ؑ کی دعوت حق میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے رہے ، اسی حربے کو شیطان نے اس وقت استعمال کیا جب موسی ؑ کوہ طور پر گئے اور پیچھے سامری نے سرمائے کی حرص میں مبتلا بنی اسرائیل کو ورغلا کر سونے کا بچھڑا بنا لیا تھا۔ یہی معرکہ سلیمان علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے کاہنوں کے درمیان لڑا جاتا رہا۔یہی وہ جنگ تھی جس کا سامنا عیسی ؑ ابن مریم نے کیااور آخر میں رسول پاک ﷺ کو قریشی سرمایہ داروں کے ساتھ اس نوع کی آخری اور فیصلہ کن جنگ لڑنا تھی۔اس کے بعد یہ ذمہ داری امت مسلمہ اور اس کے اکابرین کے کاندھوں پر آن پڑی لیکن حیرت کی بات ہے کہ تابعین اور تبع تابعین کے دور کے بعد اس اہم ترین موضوع پر انتہائی کم توجہ دی گئی اور بے خبرامت اپنے زوال اور اخلاقی گراوٹ کے اسباب دیگر غیر اہم وجوہات میں تلاش کرتی رہی۔
رسول پاک ﷺ سے پہلے سب سے بڑا معرکہ عیسی ؑ نے خود اپنی قوم کے خلاف لڑا، کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ یہ معرکہ کیوں لڑا گیا؟ آخر ایسی کیا وجوہات تہیں کہ ہیکل کے تمام کاہن اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام کے خلاف ہوگئے؟ کن وجوہات کی بنیاد پر ان کاہنوں نے رومی گورنر کے سامنے نبی اللہ کے خلاف گواہی دی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بنی اسرائیل اپنی مذہبی روایات کے مطابق صرف ہیکل میں قربانی کرسکتے تھے لیکن چونکہ فلسطین پر رومن ایمپائر کا تسلط تھا اس لیے یہ ریاست ایک رومن نوآبادی کے طور پر رومی گورنر کے ماتحت تھی اور اس ریاست میں رومن سکہ بطور کرنسی چلتا تھاجس پر سیزر کی تصویر کندہ تھی۔ بنی اسرائیل کے عقیدے کے مطابق رومن سیزر چونکہ مشرک تھا اس لیے اس کی تصویر والے سکے سے قربانی کا جانور نہیں خریدا جا سکتا تھا اور نہ ہی اس سکے پر مشتمل کرنسی کو ہیکل میں بطور صدقہ کیا جاسکتا تھا اس کا حل بنی اسرائیل کے کاہنوں نے یہ نکالا کہ ہیکل کی ایک الگ ٹکسال بنائی گئی جہاں پر بنی اسرائیل کا الگ سکہ ڈھالا جاتا تھا جو صرف ہیکل کے امور کے کام لایا جاتا تھا ۔ بنی اسرائیل پہلے عام رومن سکے سے ہیکل کا سکہ خریدتے تھے اور پھر اس کے ذریعے اپنی قربانیاں اور صدقے کیا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہودی کاہنوں اور یہودی سرمایہ داروں نے اس سکے پر اپنی مکمل اجارہ داری قائم کرلی اور یہودی سرمایہ داروں نے ہیکل کی سیڑھیوں پر اپنے ’’منی چینجر‘‘ بیٹھا دیے جو عام یہودی سے کئی گنا زیادہ رومن سکے وصول کرکے انہیں کم تعداد میں ہیکل کا سکہ دیتے تھے بالکل اسی طرح جس طرح آج ایک ڈالر لینے کے لیے سو سے زائد روپے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ یہ وہ نظام تھا جس کے خلاف عیسی ابن مریم نے آواز حق بلند کی اور بائبل کے الفاظ میں ہیکل کے بارے میں یہ فرمایا He said to them, “The Scriptures declare, ‘My Temple will be called a house of prayer,’ but you have turned it into a den of thieves!”Matthew 21:13 ۔۔۔’’اس نے انہیں کہا میرا ہیکل عبادت کی جگہ کہلائے گا لیکن تم نے اسے چوروں کا گڑھ بنا دیا۔‘‘ (متی) ۔یہ وہ جنگ تھی جس نے تمام کاہنوں اور یہودی سرمایہ داروں کو عیسی علیہ السلام کے خلاف کردیا اور انہوں نے بہت سے زندہ معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باجود آپ ؑ کی دعوت کا انکار کردیا اور رومن گورنر کے سامنے عیسی علیہ السلام کے خلاف گواہی دے ڈالی لیکن اللہ کی قدرت سے وہ تمام لوگ شک میں ڈال دیے گئے اور عیسی علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔
اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ عیسی علیہ السلام کی قیامت سے قبل آمد میں بھی اللہ رب العزت کی ایک حکمت ہے ۔ قیامت سے قبل چونکہ دجالی نظام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہوگا جس کا نظارہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ تمام دنیا میں دجالی معاشی نظام بین الاقوامی سودی بینکوں کی شکل میں انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔ اسی نظام کے ذریعے اس نے تمام دنیا کو معاشرتی اور اخلاقی گرواٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ حرام چونکہ فطرت سے بغاوت پر اکساتا ہے اسی لیے سود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ لیکن افسوس آج کی مسلم امہ میں جہاں بڑے بڑے قلابے ڈھا دینے والے ’’علماء‘‘ کی اکثریت ہے ،کیا ان میں اتنی صلاحیت یاسکت ہے کہ وہ اللہ کے باغی اس دجالی معاشی نظام کے متبادل نظام پیش کرسکیں؟ کسی نے مضاربہ کے نام سے سود کوحلال کا لبادہ اڑھانے کی کوشش کی ہے تو کوئی ’’اسلامی بینکاری‘‘ کے نام پر اپنے آپ کو دھوکا دینے پر تلا ہوا ہے جبکہ کوئی بین الاقوامی مالیاتی نظام سے الگ ہونا تصور میں ہی نہیں لاسکتا۔کیا اس مسلم ملک کے آئین کو اسلامی آئین کہا جاسکتا ہے جہاں پر موجودہ دجالی سودی بینکاری کے ذریعے معاشی نظام چلایا جاتا ہو؟ اس وقت دنیا کا معاشی نظام دجال کے پیروکاروں کے ہاتھ میں آ چکا ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی سیاست، معاشرت اور اخلاقیات پر خود بخود قابض ہوچکے ہیں ۔ ہیکل کی سیڑھیوں پر بنے یہودی سرمایہ داروں کے ’’منی چینجرز‘‘ کی دکانیں آج فیڈرل ریزرو ،ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی شکل دھار چکے ہیں اب صرف ایک مسیحا کا انتظار ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر