... loading ...
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسانی جبلت پر جس قدر معاشی معاملات اثر دکھاتے ہیں اس سے زیادہ اثر پذیری کسی فانی چیز میں نہیں رکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں معاشی نظام کو بے شمار کدورتوں سے پاک رکھنے کے لیے واضح احکامات صادر کیے گئے کیونکہ غلط اور حرام طریقے سے حاصل شدہ سرمایے کی بنیاد پر انسان کبھی اپنے نفس کی زمین پر حق کی فصل نہیں بو سکتاجبکہ اللہ رب العزت انسان سے نیت اور فعل میں صرف صالح عمل پذیر ی چاہتا ہے۔ اس لیے ضروری تھا کہ جبلت کی زمین پر کسی ایسی حرام کمائی کا بیج نہ بویا جائے جو نتائج کے لحاظ سے ’’شجرہ خبیثہ‘‘ کی شکل اختیار کرجائے۔اسی لیے سب سے زیادہ سود کی حرمت پر زور دے کر مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی کیونکہ معاشی نظام میں سود دجال کا اہم ترین ہتھیار ہے اور اسی کے ذریعے وہ عالم انسانیت کو معاشی جہنم میں دھکیل دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرتی، اخلاقی، اجتماعی اور فکری تباہی خود بخود واقع ہوجاتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انبیائے کرام کی دعوتِ حق میں سب سے زیادہ رکاوٹ ہر دور کے سرمایہ داروں نے ڈالی، ابلیس انہی سرمایے کی بنیاد پر اس زعم باطل میں مبتلا کردیتا تھا کہ ان کی حاکمیت کو کبھی زوال نہیں آنے والا اور وہ ہر مشکل کا مقابلہ سرمایہ کی بنیاد پر بآسانی کرلیں گے۔ اسی زعم باطل میں مبتلا ہوکر نمرود اور اس کی سرمایہ دار بیوروکریسی نے ابراہیم ؑ کے خلاف متحدہ محاذ قائم کیا تھا اور اسی کی بنیاد پر فرعون اور قارون موسی ؑ کی دعوت حق میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے رہے ، اسی حربے کو شیطان نے اس وقت استعمال کیا جب موسی ؑ کوہ طور پر گئے اور پیچھے سامری نے سرمائے کی حرص میں مبتلا بنی اسرائیل کو ورغلا کر سونے کا بچھڑا بنا لیا تھا۔ یہی معرکہ سلیمان علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے کاہنوں کے درمیان لڑا جاتا رہا۔یہی وہ جنگ تھی جس کا سامنا عیسی ؑ ابن مریم نے کیااور آخر میں رسول پاک ﷺ کو قریشی سرمایہ داروں کے ساتھ اس نوع کی آخری اور فیصلہ کن جنگ لڑنا تھی۔اس کے بعد یہ ذمہ داری امت مسلمہ اور اس کے اکابرین کے کاندھوں پر آن پڑی لیکن حیرت کی بات ہے کہ تابعین اور تبع تابعین کے دور کے بعد اس اہم ترین موضوع پر انتہائی کم توجہ دی گئی اور بے خبرامت اپنے زوال اور اخلاقی گراوٹ کے اسباب دیگر غیر اہم وجوہات میں تلاش کرتی رہی۔
رسول پاک ﷺ سے پہلے سب سے بڑا معرکہ عیسی ؑ نے خود اپنی قوم کے خلاف لڑا، کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ یہ معرکہ کیوں لڑا گیا؟ آخر ایسی کیا وجوہات تہیں کہ ہیکل کے تمام کاہن اللہ کے نبی عیسی علیہ السلام کے خلاف ہوگئے؟ کن وجوہات کی بنیاد پر ان کاہنوں نے رومی گورنر کے سامنے نبی اللہ کے خلاف گواہی دی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بنی اسرائیل اپنی مذہبی روایات کے مطابق صرف ہیکل میں قربانی کرسکتے تھے لیکن چونکہ فلسطین پر رومن ایمپائر کا تسلط تھا اس لیے یہ ریاست ایک رومن نوآبادی کے طور پر رومی گورنر کے ماتحت تھی اور اس ریاست میں رومن سکہ بطور کرنسی چلتا تھاجس پر سیزر کی تصویر کندہ تھی۔ بنی اسرائیل کے عقیدے کے مطابق رومن سیزر چونکہ مشرک تھا اس لیے اس کی تصویر والے سکے سے قربانی کا جانور نہیں خریدا جا سکتا تھا اور نہ ہی اس سکے پر مشتمل کرنسی کو ہیکل میں بطور صدقہ کیا جاسکتا تھا اس کا حل بنی اسرائیل کے کاہنوں نے یہ نکالا کہ ہیکل کی ایک الگ ٹکسال بنائی گئی جہاں پر بنی اسرائیل کا الگ سکہ ڈھالا جاتا تھا جو صرف ہیکل کے امور کے کام لایا جاتا تھا ۔ بنی اسرائیل پہلے عام رومن سکے سے ہیکل کا سکہ خریدتے تھے اور پھر اس کے ذریعے اپنی قربانیاں اور صدقے کیا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہودی کاہنوں اور یہودی سرمایہ داروں نے اس سکے پر اپنی مکمل اجارہ داری قائم کرلی اور یہودی سرمایہ داروں نے ہیکل کی سیڑھیوں پر اپنے ’’منی چینجر‘‘ بیٹھا دیے جو عام یہودی سے کئی گنا زیادہ رومن سکے وصول کرکے انہیں کم تعداد میں ہیکل کا سکہ دیتے تھے بالکل اسی طرح جس طرح آج ایک ڈالر لینے کے لیے سو سے زائد روپے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ یہ وہ نظام تھا جس کے خلاف عیسی ابن مریم نے آواز حق بلند کی اور بائبل کے الفاظ میں ہیکل کے بارے میں یہ فرمایا He said to them, “The Scriptures declare, ‘My Temple will be called a house of prayer,’ but you have turned it into a den of thieves!”Matthew 21:13 ۔۔۔’’اس نے انہیں کہا میرا ہیکل عبادت کی جگہ کہلائے گا لیکن تم نے اسے چوروں کا گڑھ بنا دیا۔‘‘ (متی) ۔یہ وہ جنگ تھی جس نے تمام کاہنوں اور یہودی سرمایہ داروں کو عیسی علیہ السلام کے خلاف کردیا اور انہوں نے بہت سے زندہ معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باجود آپ ؑ کی دعوت کا انکار کردیا اور رومن گورنر کے سامنے عیسی علیہ السلام کے خلاف گواہی دے ڈالی لیکن اللہ کی قدرت سے وہ تمام لوگ شک میں ڈال دیے گئے اور عیسی علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔
اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ عیسی علیہ السلام کی قیامت سے قبل آمد میں بھی اللہ رب العزت کی ایک حکمت ہے ۔ قیامت سے قبل چونکہ دجالی نظام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہوگا جس کا نظارہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ تمام دنیا میں دجالی معاشی نظام بین الاقوامی سودی بینکوں کی شکل میں انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ۔ اسی نظام کے ذریعے اس نے تمام دنیا کو معاشرتی اور اخلاقی گرواٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ حرام چونکہ فطرت سے بغاوت پر اکساتا ہے اسی لیے سود کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ لیکن افسوس آج کی مسلم امہ میں جہاں بڑے بڑے قلابے ڈھا دینے والے ’’علماء‘‘ کی اکثریت ہے ،کیا ان میں اتنی صلاحیت یاسکت ہے کہ وہ اللہ کے باغی اس دجالی معاشی نظام کے متبادل نظام پیش کرسکیں؟ کسی نے مضاربہ کے نام سے سود کوحلال کا لبادہ اڑھانے کی کوشش کی ہے تو کوئی ’’اسلامی بینکاری‘‘ کے نام پر اپنے آپ کو دھوکا دینے پر تلا ہوا ہے جبکہ کوئی بین الاقوامی مالیاتی نظام سے الگ ہونا تصور میں ہی نہیں لاسکتا۔کیا اس مسلم ملک کے آئین کو اسلامی آئین کہا جاسکتا ہے جہاں پر موجودہ دجالی سودی بینکاری کے ذریعے معاشی نظام چلایا جاتا ہو؟ اس وقت دنیا کا معاشی نظام دجال کے پیروکاروں کے ہاتھ میں آ چکا ہے جس کی وجہ سے وہ عالمی سیاست، معاشرت اور اخلاقیات پر خود بخود قابض ہوچکے ہیں ۔ ہیکل کی سیڑھیوں پر بنے یہودی سرمایہ داروں کے ’’منی چینجرز‘‘ کی دکانیں آج فیڈرل ریزرو ،ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی شکل دھار چکے ہیں اب صرف ایک مسیحا کا انتظار ہے۔