وجود

... loading ...

وجود

 “کشمیر اور ”فضلیات

جمعه 07 اکتوبر 2016  “کشمیر اور ”فضلیات

ایسے وقت میں جب کشمیریوں کی جد وجہد آزادی ایک حساس دور میں داخل ہو رہی ہے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جنگ کی سرحدوں کو چھو رہی ہے ۔ قوم کی جانب سے اتحاد و یک جہتی اور آزادی کے لیے بے مثال قربانیوں کی داستانِ خونچکاں رقم کرنے والوں کی پشتیبانی جرات مندانہ انداز میں کرنے کا تقاضا درپیش ہے ۔ اس موقع پر قومی کشمیر کمیٹی کے چیئر مین مولانا فضل الرحمن کی جانب سے کشمیریوں اور فاٹا کے بارے میں متازع بیان نے قوم کے سنجیدہ و فہمیدہ حلقوں کو چکر ا کر رکھ دیا ہے ۔ اس صورتحال نے قوم کے ایک جہاندیدہ طبقے کے اُن خدشات کو حقیقت کا روپ دے دیا ہے جن کی بنیاد پر وہ مولانا فضل الرحمٰن کو کشمیر کمیٹی کا چیئر مین بنائے جانے پر دل گرفتہ اور پرےشان نظر آئے تھے ۔
مولانا فضل الرحمن پاکستان کی رواےتی سےاست کا سمبل ہےں۔ ان کے چاہنے والے انہےں عالمِ دےن ہی نہےں بلکہ متاعِ عظےم بھی سمجھتے ہےں اور ان کے ذرےعے اسلامی انقلاب کی آمد کی اُمےدےں وابستہ کیے ہوئے ہےں ۔ ڈاکٹر شےر افگن نےازی مرحوم کی تعزےت کے موقع پرمےانوالی مےں اپنے ساتھ ہونے والی گفتگو کے دوران اِس بطلِ جلیل کی یہ بات سن کر میں تھوڑی دیر کے لیے حیران ہوا تھا کہ ” مےں اےک سےاست دان ہوں اور سےاست کرتا ہوں۔ اگر مجھے دےنی خدمت کرنا ہوتی تو مےں تبلےغی جماعت مےں شامل ہو جاتا کوئی مسجد سنبھال لیتا۔
جلالِ بادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اقبالؒ کا یہ شعر مجھے بر وقت یاد آیا مگر میں دہرانے سے اس لیے باز رہا کہ مولانا کے مذکورہ الفاظ کو اگر ان کے عمل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو تفاوت ےا تضاد بالکل نظر نہےں آتا۔دےنِ متےن کے نام پر انہوں نے جس قسم کی سےاست کی وہ سب کے سامنے ہے۔ تھوڑی سی حیرانی اس لیے ہوئی تھی کہ چاہنے والے ان کے نام کے ساتھ مولانا لکھتے ہیں اور لباس اور قطع وضع سے وہ دکھائی بھی دیتے ہیں تو پھر یہ سیاست اور دین کے درمیان حد بندی کیوں کر رہے ہیں ۔
کشمیر کے بارے میں مولانا فضل الرحمن نے جو تازہ ترین ارشاداتِ عالیہ قوم کو مرحمت فرمائے ہیں وہ نئے نہیں ہیں ۔ کچھ سال پہلے مولانا فضل الرحمن اور حافظ حسین احمد نے اپنے دورہ بھارت کے دوران ایسے ہی بھاشن دیے تھے ۔
ماضی کے جھروکوں سے سولہ سال پہلے کی اےک ےاد شہادت بن کر سامنے آئی اور مجھے پشاور کے واپڈا ٹاو¿ن کے پہلو مےں ”تاروجبہ“ کے مقام پر عالمی دےوبند کانفرنس کے مناظر ےاد آنے لگے۔ لاکھوں کے اجتماع مےں سب سے چونکا دےنے والی بات ےہ تھی کہ ہر طرف مولانا مفتی محمود ؒ کے حوالے سے بےنر آوےزاں تھے جن پر لکھا ہوا تھا کہ ”ہم بچے بچے کے ذہن مےں امریکا دشمنی بھر دےں گے “ ےہاں امرےکی اور ملٹی نےشنل کمپنےوں کی مصنوعات کی اےک طوےل فہرست بھی تقسےم کی جاتی رہی جن کے بائےکاٹ کی عوام الناس کو ہداےت کی گئی تھی۔ عالمی دےوبند کانفرنس ( منعقدہ 2001ء) کے ڈےڑھ سے دو لاکھ کے قرےب شرکاءجو درس ےا پےغام لے کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹے تھے ۔اس نے ہمارے سماج کو جن مشکلات سے دوچار کےا وہ کہانی پھر سہی لےکن اس پےغام کے داعی اور امریکا دشمنی کو اپنی سےاست کا دےباچہ قرار دےنے والے مولانا فضل الرحمن کا عمل اس حوالے سے کےا کہتا ہے اس کے لیے ”وکی لےکس“ کے مندرجات کا مطالعہ بہت کافی ہے۔
اس اجتماع کی بہت سی تلخ ےادوں میں جمعیت علمائے ہند کے رہنماو¿ں کی طرف سے کشمےر کے جہاد کی مخالفت اب بھی ےادداشت کے شہر کواضطراب سے دوچار کرتی ہے۔ یہاں پر مولانا سید اسعد مدنی ( امیر جمعیت علمائے ہند ) ، مولانا مرغوب الرحمن ( مہتمم دارالعلوم دیوبند ) ، مولانا عبد الحق اعظمی ( شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند ) ، مولانا قمر الدین ( مدیر ماہنامہ دارالعلوم دیو بند )سمیت دارالعلوم کے جید علماءجن میںمولانا حبیب الرحمن ، سید سلیمان ، مولانا امین پالنپوری ، مولانا محمد یوسف ، مفتی شبیر احمد ، مولانا شاہ عالم ، قاری محمد عثمان ، عبد الحق اعظمی اور دارالعلوم کے ترجمان اعجاز ارشد کاظمی شامل تھے ۔ ان سب سےملاقات اور گفتگو میں کشمیر ہمارا موضوع رہا ۔ ان زعماءمیں سے اکثریت کشمیر کے حوالے سے سوال پر یہی کہتی تھی کہ کشمیر میں تحریک چل رہی ہے وقت آئے گا تو ان کا نقطہ نظر دیکھیں گے ۔ ان سب کا اس پر بھی اتفاق تھا کہ ” ہندوستان میں مسلمان برابر کے شہری ہیں ، وہاں مسلمانوں کو کسی خاص قسم کی مشکلات کا سامنا نہیں ، ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل ہر لحاظ سے محفوظ ہے ۔ اگر آپ بدھا کے مجسمے گرائیں گے ، بُت توڑیں گے تو جواباً مسجدیں توڑی جائیں گی ، مسلمانوں کو تنگ کیا جائے گا ، انڈیا میں مسلم کُش فسادات نہیں ہوتے ہندو مسلم فسادات ہوتے ہیں ، اگر ہندو مسلمانوں کو مارتے ہیں تو جواباً مسلمان بھی ہندوو¿ں کو مارتے ہیں “
مولانا فضل الرحمن کی سےاسی فکر اور حکمت عملی کے حوالے سے سنجےدہ و فہمےدہ اور جہاندےدہ طبقات ہمےشہ سے ہی زبر دست تحفظات کا شکار رہے ہےں۔ ان طبقات مےں سے اکثرےت اس پر متفق ہے کہ ہمارے ہاں دےنی سےاسی جماعتوں کے قائدےن کی اکثرےت سول اورعسکری اشرافےہ کے سحر سے باہر نکلنے مےں کبھی کامےاب نہےں ہوئی ۔ انکی اسی مجبوری نے جنرل پروےز مشرف کے دورِ حکومت مےں مجلسِ عمل کو ملنے والی زبردست پذےرائی کے ادراک سے ان کی قےادت کو محروم رکھا۔
”خبر دےتی تھےں جن کو بجلےاں وہ بے خبر نکلے “
جمعیت علمائے اسلام ف ہر دورِ اقتدار میں ہمےشہ اپنا حصہ بخرہ لےنے مےں کامےاب رہنے کی دوسری ہیٹرک کے قریب ہے ۔ جنرل پروےز مشرف کے دور مےں ©©”متحدہ مجلسِ عمل “ نے جو کردار ادا کےا ، اس سارے کھےل کے ڈائرےکٹرو پروڈےوسر حضرت مولانا فضل الرحمن ہی تھے۔اےم اےم اے کے ڈراما کے ٹےلی کاسٹ ہونے کے بعد دےنی سےاسی جماعتوں کا سورج ہمےشہ کے لیے غروب ہو گےا ہے۔ اس کی ذمے داری کسی استعماری قوت پر عائد نہےں ہوتی بلکہ وہی ” پےرانِ حرم “ اس کے ذمے دار ہےں جو عماموں اور چغوں کے ساتھ نئے جہاں کی نوےد لے کر خےبر پختونخوا کے راج سنگھاسن کے مالک بنے تھے۔2013 ءکے عام انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہےں کہ دےنی سےاسی جماعتوں کی قےادت نے صورتِ حالات پر مناسب نقد کرنے کی کبھی کوئی کوشش نہےں کی ۔ حالانکہ تارےخ سازی کے عمل مےں اجتماعی غلطےوں کے انبار کے باوجود قدرت نے اس قدر مواقع کسی کو عطا نہےں کیے جتنے مواقع دےنی سےاسی جماعتوں کی قےادت کو فراہم کیے۔
مولانا فضل الرحمن ایک طویل عرصے سے قومی کشمیر کمیٹی کی مراعات قومی خزانے سے سمیٹ رہے ہیں جبکہ کشمیر یوں کی جدوجہد آزادی کے بارے میں ان کا موقف کئی مرتبہ سامنے آچُکا ہے ۔ ایسے میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ان تمام حکمرانوں کو مسئلہ کشمیر سے کوئی خاص دلچسپی نہیں جنھوں نے مولانا صاحب کو پارلمنٹ کی کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنایا ۔ اخلاقی طور پر مولانا فضل الرحمن پراب یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات کو قومی کشمیر کمیٹی سے علیحدہ کر لیں ۔
پاک بھارت کشیدگی کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ قوم نے مولانا فضل الرحمن کا موقف بھی سُنا اور اُس کپتان کا موقف بھی سامنے آیا جسے مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھی یہودیوں کا ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے ۔ مولانا فضل الرحمن ماضی میں کئی مرتبہ یہ کہ چُکے ہیںکہ ” ان کے والد پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے “ ۔جبکہ کپتان کا کہنا ہے کہ ” میرے والد اکرام اللہ خان نیازی 23 مارچ 1940 ءکے لاہور کے اُس جلسے میں ایک نوجوان کی حیثیت سے موجود تھے جس جلسہ میں قائد اعظم ؒ کی زیر قیادت قراردادِ پاکستان منظور ہو ئی تھی۔۔۔“
نظریات کا یہ تفاوت قیام پاکستان کے وقت بھی موجود تھا اور اب استحکامِ پاکستان کے مرحلے پر بھی اپنے بھر پور اظہاریے کے ساتھ پایا جاتا ہے ۔ اللہ پاک پاکستانی قوم پر رحم فرمائے ۔


متعلقہ خبریں


کشمیر۔۔۔۔کیا مسلح جہاد کے سوا کوئی اور راستہ بچا ہے شیخ امین - پیر 24 اکتوبر 2016

1987ء میں مسلم متحدہ محاذ کے قیام اور ریاستی اسمبلی میں اس کی شرکت کا واحد مقصد یہ تھا کہ آئینی اور پرامن ذرائع استعمال کرکے بھارت کو با عزت طریقے سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی طرف راغب کیا جاسکے ۔اس اتحاد میں ریاست کی تمام آزادی پسند تنظیمیں یا ان سے وابستہ افراد شا مل تھے ۔تاریخ سا...

کشمیر۔۔۔۔کیا مسلح جہاد کے سوا کوئی اور راستہ بچا ہے

برہمن باتوں سے ماننے والا نہیں, پاکستان کشمیریوں کی عسکری مدد بھی کرے,سپریم کمانڈر حزب المجاہدین شیخ امین - هفته 22 اکتوبر 2016

ظلم و جبر پر عالمی برادری کی خاموشی افسوس ناک ہے،پاکستانی قیادت کو سمجھنا چاہیے مذاکرات اور قراردادوں سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، مجاہدین کو وسائل مہیا کیے جائیں جب دنیا ہماری آواز نہیں سن رہی تو پھر ہمارے پاس آزادی کے لیے مسلح جدوجہد ہی آخری آپشن ہے،سید صلاح الدین کا ایوان صحا...

برہمن باتوں سے ماننے والا نہیں, پاکستان کشمیریوں کی عسکری مدد بھی کرے,سپریم کمانڈر حزب المجاہدین

تحریک آزادیٔ کشمیر کا مستقبل شیخ امین - بدھ 19 اکتوبر 2016

تاریخ گواہ ہے کہ مزاحمت دو طریقوں سے کی جاتی ہے ،عسکری جدوجہداور غیر متشدد انہ طریقہ کار کے ذریعے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر اور ہیگ میں قائم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس آزادی کے حصول کے لیے دونوں طریقہ ہائے کار کو جائز سمجھتے ہیں۔کشمیر ی عوام اپنی آزادی کیلیے دونوں طریقے آزما رہے ہیں ۔کشم...

تحریک آزادیٔ کشمیر کا مستقبل

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر