... loading ...
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہو کہ جو لوگ اس دور کا لاہور دیکھتے تھے ان کے اپنے علاقے اس سے کہیں زیادہ سڑے ہوئے اور بدبو دار ہوتے ہوں گے۔ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ کسی لاہوری نے بزعم خود لاہور کو دنیا کا سب سے شاندار شہر تصور کرتے ہوئے اسے دیکھنے والے کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہو۔ اگر ایسا ہے تو اس بندے نے لندن پیرس دیکھنا تو دور کی بات ان شہروں کا نام بھی نہیں سنا ہوگا۔ کیونکہ اگر وہ منچلا لندن یا پیرس دیکھ لیتا تو شائد اس کی کہاوت یوں ہوتی جس نے لندن پیرس دیکھ لیا اس نے زندگی میں جنت کی زیارت کرلی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے مجھے لاہور کیوں یاد آرہا ہے، بات یہ ہے کہ میں نے ابھی کچھ عرصہ پہلے لاہور دیکھا ہے اور صاحب، واقعی کیا خوبصورت شکل نکالی ہے لاہور نے، جواب نہیں۔ پرانے لاہور کی بات نہ کرتے ہوئے نئے لاہور کی سڑکیں، فٹ پاتھ، چوراہے، پل اور فلائی اوور دیکھیں تو کچھ دیر کے لیے واقعی ایسا لگتا ہے کہ آپ پاکستان سے باہر کے کسی ترقی یافتہ شہر میں چہل قدمی کر رہے ہوں۔ لاہوریو ں کو شاندار سڑکوں کے ساتھ بہترین پبلک ٹرانسپورٹ بھی مل گئی ہے یعنی عام آدمی کے لیے کم پیسوں میں عزت کے ساتھ سفر ممکن ہو گیا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے مجھے لاہور کچھ زیادہ ہی خوبصورت اس لیے بھی لگا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے۔ جی ہاں وہی شہر کراچی جس کو کبھی روشنیوں کا شہرکہا جاتا تھا اور کسی زمانے میں کراچی کو عروس البلاد بھی کہتے تھے۔ عروس دلہن کو کہتے ہیں اور بلاد جمع ہے بلد کی جس کا مطلب ہے شہر۔ شہروں کی یہ دلہن اب بیوہ ہو چکی ہے، اس کی مانگ اجڑ چکی ہے اور غریب کی بیوہ کی طرح کراچی سب کی بھابھی بنا ہوا ہے۔
کراچی والے کو لاہور دیکھ کر ایسا ہی جھٹکا لگتا ہے جیسا کسی کچرا کنڈی کے سامنے رہنے والے کو پارک فیسنگ مکان میں رہنے سے لگ سکتا ہے۔ مجھے بھی لاہور دیکھ کر ایسا ہی جھٹکا لگا اور دوسرا جھٹکا لاہور سے دوبارہ کراچی لوٹنے پر لگا۔ بزنس ٹرین کے کینٹ اسٹیشن پہنچتے ہی احساس ہوا کہ کسی اجڑے دیار میں داخل ہو گئے ہوں۔ ایک طرف اسٹیشن پر پھیلی گندگی اور دوسری طرف ٹوٹی پھوٹی اور رنگ و روغن سے محروم دیواریں کراچی آنے والے مسافروں کا استقبال کرتی ہیں۔ اسٹیشن سے باہر آئیں تو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ان پرہر طرف کوڑے کچرے کا نظارہ۔ بدحال سڑکیں اور اس پراس سے زیادہ بدحال مسافر بسیں جو ستر کی دہائی سے اب تک اپنا وجود بچائے رکھنے کی کشمکش میں رنگ اور باڈی سب کھو چکی ہیں۔
مسافر کو ذرا صاف ستھرے طریقے سے سفر کرنا مقصود ہو تو رکشہ ہی اس کی پہلی اور آخری چوائس بن جاتا ہے۔ رکشوں کی کراچی شہر میں کوئی کمی نہیں، تین سیٹر سے لیکر گیارہ سیٹر تک لوگوں نے رکشوں کو اپنی منشا کے مطابق لمبا کرلیا ہے اور کرائے تو اس سے بھی لمبے ہو گئے ہیں۔ کراچی کے رکشہ میں میٹر نام کی چیز نہیں ہوتی، کرایہ فی کلومیٹر پچیس روپے تک ہو سکتا ہے، غریب آدمی کی تو روز کی دیہاڑی میں سے آدھے پیسے ان رکشوں کے کرائے میں خرچ ہو جاتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی کراچی کے کچرے کی اور رکشے بیچ میں آگئے۔ کراچی میں ہرطرف کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہ ڈھیر نظر نہیں آتے تو ارباب اختیار کو نظر نہیں آتے۔ کراچی سے کچرا کون اٹھائے، کیسے اٹھائے اور کیوں اٹھائے کہ اس شہر خرابی کا کوئی والی وارث تو ہے نہیں۔ عوام بھی اس شہر کو اپنا ماننے کے لیے تیار نہیں ورنہ اس قدر گندگی کے ماحول کو کیسے برداشت کرتے اور کیوں اپنی گلیوں اور سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر لگاتے۔ کراچی شہر کی سڑکوں پر دن بدن بڑھتے کوڑے اور کچرے کے ڈھیر اور ا ن سے اٹھتی بدبو اور تعفن شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ رہائشی علاقوں میں کچرا جمع ہونے سے بیماریوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ مکانوں، فلیٹوں اور دکانوں کے قریب بکھرے کچرے کے ڈھیروں سے روز مرہ کا نظام زندگی بھی متاثر ہو رہا ہے۔ سڑکوں پر کچرے سے پیدل چلنے والوں سمیت گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے، بعض جگہوں پر کچرے کے بڑے ڈھیروں سے سڑکیں تک بند ہوگئی ہیں۔ کراچی کے اس کچرے سے حکومتی اہلکاروں، بلدیاتی حکام اور ری سائیکل کی صنعت کو کتنا فائدہ ہے اس کا تو کوئی اندازہ نہیں لیکن اگر شہر سے کچرے کے یہ ڈھیر صاف نہ کیے گئے تو اس شہر کا شمار دنیا کے گندے ترین شہر کے طور پرضرور کیا جائے گا۔
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...
پیدائش اور موت کے وقفے کوزندگی کہتے ہیں۔ جو پیدا ہو گیا اس کو موت بھی آنی ہے۔ تمام حیات کے لئے قدرت کا یہی قائدہ ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ہے یعنی زندگی کتنی طویل یا مختصر ہے ۔ پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو بقا کا نام دیا گیا ہے اور انسان سمیت ہر ذی روح کی کو...