وجود

... loading ...

وجود

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار

بدھ 05 اکتوبر 2016 جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار

memory

جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم تھوڑی دیر کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس جدید تصور میں ایک قدری فیصلہ شامل ہے۔ جدید موقف کے مطابق حال اور مستقبل کا زمانہ نہ صرف بہتر ہے، بلکہ اچھا بھی ہے، اور ماضی نہ صرف کم تر ہے بلکہ برا بھی ہے۔ جدید عہد ’’روشنی‘‘ ہے اور پرانا زمانہ ’’ظلمت‘‘ ہے۔ اگر مذہبی آدمی زمانے کے جدید تصور کے ساتھ، اس قدری فیصلے کو بھی قبول کر لے، تو پھر وہ محض تفریح طبع کے لیے مذہبی ہے، اور اس کے مذہبی ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے۔ زمانے کا خطی یا محوری ہونا تو ایک علمی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے اور ہے بھی، لیکن اس میں پنہاں قدر کو کیونکر قبول کیا جا سکتا ہے؟ مذہبی آدمی کے لیے ماضی کی روایت پہلے ہے اور تاریخ بعد میں ہے۔ جدید آدمی کے لیے واقعہ اور متن تاریخ کا لاوارث مال ہے، اور جس کا حقدار بھی صرف وہ خود ہی ہے۔ جدید آدمی کے لیے صرف آثاریاتی ’’شے‘‘ اہم ہے تاکہ وہ تاریخ کو بھی ’’دریافت‘‘ اور ’’ایجاد‘‘ بنا کر روایتی قدر اور تاریخی واقعے کے حتمی ہونے کو منہدم کر سکے۔ مذہبی آدمی کے لیے ماضی ایک آئیڈیل ہے، اور ایک اتھارٹی ہے، اور مذہبی ہونے کا بنیادی ترین مطلب اس ماضی کا دائمی استحضار ہے۔

پھر یہ کہ جدید آدمی زمانے یا جگہ سے کوئی تقدیس وابستہ نہیں کرتا، اور تقدس جیسی کسی بھی چیز کو توہم قرار دیتا ہے۔ جبکہ مذہبی آدمی کی زندگی میں زمانے اور جگہ سے تقدیس وابستہ ہے۔ مثلاً بطور مسلمان ہمارے نزدیک وہ زمانہ جس میں حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام دنیا میں تشریف فرما ہوئے، مقدس ہے۔ نہ صرف مقدس ہے، بلکہ مستند بھی ہے اور ہمارے لیے حکمی درجہ رکھتا ہے۔ اور ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس چیز یا جگہ کو حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کا لمس مبارک نصیب ہوا، وہ مقدس ہو گئی۔ ہمارے لیے صرف وہ زمان و مکاں معتبر ہے جس کی نسبت حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ذات اقدس سے ہے، اور وہ تاریخ مقدس آئیڈیل ہے جو آپ کی خاکِ رہگزر ہے۔ یہاں موقع نہیں، لیکن اشارتاً عرض ہے کہ تاریخ کے خاتمے کے لبرل دعوے اور مارکسی تصورات اور تاریخ کے خاکِ رہگزر ہونے کے تصور کو ایک ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ جدید تصورات کس قدر لغو ہیں۔ بہرحال مقدس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ وہ لمحہ جب، اور وہ جگہ جہاں ماورا اور دنیا ایک ہو جائیں، اس شرط پہ کہ دنیا ’’خود‘‘ سے کسی معنی کا ظرف نہ رہے، اور ماورائی معنی سے معمور ہو جائے۔ تقدیس اور اتھارٹی کے بغیر روایت کا کوئی معنی نہیں ہے۔ روایت کا سادہ ترین مطلب ’’مقدس تاریخ‘‘ ہے، جبکہ جدید آدمی تاریخ کی معنویت کو اپنی تعبیر کے تیشے سے متعین کرتا ہے۔

مذہبی آدمی روایت سے جڑنے کا جو اسلوب رکھتا ہے وہ حافظہ ہے۔ حافظہ اصلاً ماضی کی یاد اور اس یاد کو تازہ رکھنے ہی کا نام ہے۔ روایت سے ملنے والے الفاظ و معانی، افعال و اعمال یعنی اقدار کو حافظے میں محفوظ، ارادے سے منسلک اور عمل کا رہنما رکھنا مذہبی آدمی کی بنیادی شخصی ساخت ہے۔ لیکن اگر حافظہ فعال نہ ہو تو یہ متحجر ہو جاتا ہے۔ حافظے کے فعال ہونے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے توشہ خانے میں موجود ’’چیزیں‘‘ عقل، نفس، تخیل اور ارادے سے زندہ تعلق رکھتی ہوں، بلکہ وہ تاریخ اور معاشرے سے بھی زندہ نسبتوں کی حامل ہوں۔ اس زندہ تعلق کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ صرف یہ عرض کرنا ضروری تھا کہ مذہبی شخصیت میں حافظہ کس قدر مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ہم ’’تذکیر‘‘ کی معنویت کو بھی ملاحظے میں رکھیں تو بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ ہدایت بھولی ہوئی چیزوں کی یاد دہانی ہی ہے، یعنی ایسی چیزوں کی جو مرکزِ شعور میں قائم نہ رہ سکیں، اور حافظے میں بھی کمزور اور پھر معطل ہو گئیں۔

سمع خراشی کا خطرہ مول لیتے ہوئے یہ گزارشات اس لیے کرنا پڑیں کہ جدید تعلیم اور حافظے کا تعلق بھی معلوم کر لیا جائے۔ جدید تعلیم میں جس چیز کو سب سے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ یہی حافظہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر فعال حافظہ کوئی پسندیدہ چیز نہیں، لیکن حافظے کو اخلاقی اور تعلیمی عیب بنا دینا جدید تعلیم کے اعلی ترین مقاصد میں سے ہے۔ مذہبی شخصیت میں حافظے کی مرکزیت کی وجہ سے حالات کے ساتھ چلنے میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، اور جدید تعلیم کی رو سے یہ بھی ایک بڑا عیب ہے۔ اگر پورے تعلیمی نظام میں حافظے کو مذموم قرار دے دیا جائے تو ایسے انسان کی تشکیل ممکن ہو جاتی ہے، جو ہوا کے ہر جھونکے پر بدل جائے، اور حالات کی ہر رو کے ساتھ چل پڑے۔ حافظے کے خاتمے کے لیے اپج کو پورے تعلیمی عمل میں مرکزیت دی گئی، جسے عام طور پر تخلیقی صلاحیت (creativity) کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل innovation ہے، تخلیقی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کا مطلب تخلیق نہیں ہے بلکہ ایک کام یا چیز کو کئی طرح سے کرنے کی صلاحیت ہے جسے انگریزی میں variation on the theme کہتے ہیں، مثلاً گلاس ایجاد کرنا تخلیقی صلاحیت کا اظہار ہو سکتا ہے۔ انوویشن دراصل پہلے سے موجود گلاس کو سو طرح سے بنانے کی صلاحیت ہے تاکہ کاروباری امکانات بہتر کیے جا سکیں۔ فنون لطیفہ اور آرٹ میں تخلیقی صلاحیت بہت اہمیت رکھتی ہے، لیکن جدید تعلیم میں تخلیقی صلاحیت کا مطلب کاروباری ہے، فنکارانہ نہیں ہے۔

جدید تعلیم میں تخلیقی صلاحیت اور حافظے کو جس طرح ایک دوسرے کی ضد قرار دیا گیا ہے، اس نے مذہبی آدمی کی شخصی ساخت کو بہت گہرے اور منفی طریقے سے متاثر کیا ہے۔ جدید تعلیم میں حافظے کو انسان کے انفسی پہلوؤں سے غیرمتعلق کر دینا، اور ہماری مذہبی تعلیم میں حافظے کو تمام آفاقی نسبتوں سے منقطع کر دینا ہماری قومی بدنصیبی کے بڑے مظاہر ہیں۔ اگر تعلیمی عمل میں concept کا غلبہ اور حافظے کا خاتمہ ہو جائے تو اقدار بے گھر ہو کر نگاہوں سے بھی اوجھل ہو جاتی ہیں۔ اور اگر حافظہ تاریخ اور معاشرے سے منقطع ہو جائے تو دینی روایت کو زندہ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ انسان کے اجتماعی امور سے غیرمتعلق ہو جاتی ہے۔ ہماری ضرورت ایک ایسی تعلیم ہے جو آخرت کے زندہ شعور کے ساتھ دنیا میں جینا بھی سکھائے اور مرنا بھی۔


متعلقہ خبریں


جدید تعلیم اور معاش محمد دین جوہر - منگل 27 ستمبر 2016

تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...

جدید تعلیم اور معاش

پاک بھارت کشیدگی محمد دین جوہر - اتوار 25 ستمبر 2016

برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...

پاک بھارت کشیدگی

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف محمد دین جوہر - بدھ 21 ستمبر 2016

چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف

جدید تعلیم اور تربیت محمد دین جوہر - پیر 19 ستمبر 2016

جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...

جدید تعلیم اور تربیت

جدید تعلیم اور نصاب محمد دین جوہر - هفته 17 ستمبر 2016

مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...

جدید تعلیم اور نصاب

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل محمد دین جوہر - جمعه 16 ستمبر 2016

زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل

جدید تعلیم اور امتحانات محمد دین جوہر - اتوار 11 ستمبر 2016

جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...

جدید تعلیم اور امتحانات

جدید تعلیم کیا ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 08 ستمبر 2016

اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...

جدید تعلیم کیا ہے؟

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک محمد دین جوہر - منگل 06 ستمبر 2016

سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 01 ستمبر 2016

سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر