وجود

... loading ...

وجود

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

پیر 03 اکتوبر 2016 جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

marmaduke-pickthall

مارماڈیوک پکتھال


سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے تو اس کے لئے بھی کچھ جگہ نکل آئے گی۔ اس نمازی کے حلیے سے لگتا تھا کہ یہ کوئی قبائلی پٹھان ہے جس نے سر پر چترالی ٹوپی اور بدن پر موٹی سے شال لپیٹی ہوئی تھی۔ اس نے جواب میں خاکسار کو انگریزی میں جب “What?”کہا تو لگا کہ یہ لب و لہجہ ہرگز پاکستانی نہیں۔

پوچھنے پر علم ہوا کہ موصوف کا تعلق امریکا سے ہے۔ ہماری دلچسپی کچھ بڑھی تو کہنے لگا کہ وہ تراویح کے بعد اس سے مزید بات چیت کرے گا۔ نماز کے بعد وہ مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ اس نے بتایا کہ اس کا نام طاہر عبداللہ ہے اور وہ پہلے کبھی امریکی فوج میں ہوتا تھا۔ کویت میں اپنی تعیناتی سے قبل جب وہ وہاں بھیجے جانے کے لئے چنے گئے تو انہیں تین باتیں بتلائی گئیں۔ ایک تو وہ کیمپ سے باہر اکیلے نہ جائیں۔ دوسرے کسی مسلمان سے مذہب پر بات نہ کریں اور تیسرے انگلیوں سے ایک مخصوص اشارہ نہ کریں۔ اسے عرب دنیا میں بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ کویت پہنچ کر اس نے سب سے پہلے وہاں موجود کسی عرب سے اس اشارے کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ایسی کوئی بات اس نے کبھی بھی نہیں محسوس کی۔ اب اس امریکی فوجی کو خیال ہوا کہ یہ ایک طرح کی برین واشنگ تیکنک تھی کہ وہ بتلائی گئی ہدایات پر کتنا عمل پیرا ہوتے ہیں۔

کویت میں تعیناتی کے دوران میں اس کی ملاقات ایک عجیب شخص سے ہوئی۔ یہ ایک سویلین تھا جو کچن میں کام کرتا تھا۔ اس کا نام سعد تھا اور یہ ایک فلسطینی تھا۔ وہ روزانہ اسے اسلام پر پڑھنے کے لئے کچھ نہ کچھ دے جاتا تھا۔ طاہر عبداللہ جو اس وقت تک مسلمان نہ ہوا تھا۔ اس نے سعد کی شکایت کیمپ کمانڈنٹ سے کر دی اور اس شکایت کے نتیجے میں اس کی ملازمت ختم کردی گئی۔ جس دن سعد کا کیمپ میں نوکری کا آخری دن تھا، وہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ وہ بالکل اس بات کا غم نہ پالے کہ اس کی نوکری اس کی شکایت پر ختم ہوئی ہے۔ اللہ نے میرا رزق شاید یہاں اتنے دن کے لئے ہی لکھا تھا۔ البتہ وہ اسے ایک تحفہ دینا چاہتا ہے مگر ایک وعدے کے ساتھ کے وہ اس کی بے حرمتی نہیں کرے گا۔ طاہر عبداللہ نے یہ وعدہ کیا تو اس نے خوبصورت کاغذ میں لپٹا ہوا قرآن پاک کا نسخہ اسے دیا جو انگریزی ترجمے کے ساتھ تھا۔ طاہر عبداللہ کہنے لگا کہ جیسے ہی وہ تحفہ اس کے ہاتھ میں آیا اسے لگا کہ کہیں سے روشنی اس کے اندر سما گئی ہے۔ ایسی روشنی جو صرف اسے اپنے اندر اترتی ہوئی دکھائی دی۔ سعد نے اسے گلے لگایا اور چل دیا۔

کویت سے طاہر عبداللہ کو مراکش بھیج دیا گیا۔ مراکش ایک عجیب ملک تھا۔ وہ وہاں کے قہوہ خانوں میں بالکل اسی طرح جا جا کر بیٹھتا تھا جیسے شاید مارماڈیوک پکتھال صاحب کبھی بیٹھا کرتے تھے۔ پکتھال صاحب وہ ہیں جنہوں نے قرآنِ کریم کا انگریزی ترجمہ کیا جو آج تکThe Meaning of the Glorious Koran کے نام سے مشہور تراجم میں شمار ہوتا ہے۔ مراکش پکتھال صاحب اپنے کسی عزیز کے ساتھ پہنچے تھے۔ ان کا تعلق عیسائی پادریوں کے ایک مستند گھرانے سے تھا۔ گو وہ ایک عمدہ ناول نگار تھے مگر اس کے باوجود سب انہیں مکمل طور پرایک ناکام شخص سمجھتے تھے۔ ان کی جھگڑالو طبیعت سے تنگ آ کر ان کا ایک پادری عزیز انہیں فلسطین لے آیا۔ جہاں انہوں نے عربی سیکھی۔ مراکش میں ان کی اسلام پر وہاں قہوہ خانوں میں بیٹھے لوگوں سے کئی دفعہ بات چیت ہوئی۔ پکتھال صاحب وہاں سے ملک شام پہنچے۔ جہاں دمشق کی مسجد بنو امّیہ کے امام صاحب کے ہاتھ پر جب انہوں نے اسلام قبول کرنا چاہا تو انہوں نے ایک عجب توجیہہ پیش کی۔ ـ”تم ابھی نوجوان ہو۔ تم ہمارے زیر اثر ہو، یہاں ہماری اکثریت ہے۔ اسی طرح کئی اور ہمارے ایسے مسلمان نوجوان ہوں گے جو ان ممالک میں تمہاری مانند تنہا ہوں گے جہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ اگر ہمارا کوئی نوجوان بیٹا، وہاں کسی عیسائی مبلغ کے ہاتھوں اپنے دین سے منحرف ہوجائے تومجھے کتنا دکھ ہوگا۔ جب تم واپس چلے جاؤ اور تمہارا دل اسلام پر یوں ہی مائل رہے تو وہاں اسلام قبول کرلینا۔ ‘‘

پکتھال پر اس بات کا گہرا اثر ہوا۔ پکتھال صاحب 29نومبر 1917ع کو” اسلام اور ترقی “کے موضوع پر لیکچر دے رہے تھے اور لیکچر کے اختتام پر انہوں نے کلمہ شہادت پڑھ کر سب کے سامنے انتہائی ڈرامائی انداز میں اسلام قبول کرلیا۔ طاہر عبداللہ کے ساتھ ایسا کچھ نہ ہوا مگر قہوہ خانے میں اس سے کسی نے پوچھا کہ وہ کس مذہب کو اپنے نزدیک بہتر سمجھتا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ اگر اس سے دل کی بات پوچھی جائے تو وہ عیسائیت سے تثلیث کی وجہ سے کافی دور ہوچکا ہے۔ البتہ وہ ان دنوں اپنی امن و آشتی کے پیغام کی وجہ سے بدھ مت کو ایک بہتر دین تصور کرتا ہے۔ اس کی بات چیت جس شخص سے ہورہی تھی وہ کہنے لگا کہ وہ یہ تو مانتا ہے نہ کہ گوتم بدھ ایک شہزادہ تھا جو نیپال کے پاس ایک چھوٹی سی راجدھانی کپل وستو میں پیدا ہوا۔ ان کے والد صاحب سدھودھنا ایک بادشاہ تھے اور ان کی والدہ صاحبہ مایا دیوی بھی ایک شہزادی تھیں۔ ان کی شادی بھی شہزادی یشودھراسے ہوئی تھی۔ یہ تمام شواہد ثابت کرتے ہیں کہ مہاتما گوتم بدھ بالاخر ایک انسان تھے۔ اس نے کہایہ جو اس قہوہ خانے کی چھت ہے کیا ایک انسان اپنے ہاتھوں پر اٹھا سکتا ہے۔ طاہر عبداللہ کہنے لگا ہرگز نہیں۔ اس پر وہ شخص میرا ہاتھ پکڑ کر باہر لے گیا اور کہنے لگا اوپر دیکھو یہ آسمان ہے اسے کس نے تھاما ہوا ہے۔ اللہ نے ہمارے قرآن میں اس طرح کی کئی آیات ظاہر کی ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔

اس گفتگو کے بعد طاہر عبداللہ بدھ مت سے بھی دور ہوگیا، اس کے ذہن میں مذہب کے بارے میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا جہاں اب اسلام آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنانے لگا۔ اس نے سعد کے دیے ہوئے کلام پاک کا مطالعہ شروع کردیا۔ کچھ دنوں بعد اس کی تعیناتی جرمنی میں ہوگئی۔ جرمنی میں اسے ایک ترک لڑکی سے پیار ہوگیا۔ وہ باقاعدہ حجاب پہنتی تھی اور بڑی رکھ رکھاؤ والی نیک طینت لڑکی تھی۔ یہ اگست کا مہینہ تھا۔ جب اس نے شادی کی درخواست کی تو اس نے بھی کم و بیش وہی شرائط پیش کیں جو فرانس میں لکاس کیون کو طوبیٰ نے پیش کی تھیں۔ یعنی کہ وہ اسلام قبول کرے۔ شریعت کی پابندی کرے اور جہاد میں حصہ لے۔ اس کا معاملہ البتہ لکاس کیون کی نسبت ذرا زیادہ پیچیدہ تھا۔

وہ امریکی فوج میں تھا۔ مگر وہ جو ہمارے صوفی شاعر حضرت سچل سرمست نے کہا تھا کہ جیں دل پیتا عشق دا جام، او دل سچلؔ مست مدام(جس دل نے عشق کا جام پی لیا، وہ دل تو سچلؔ مست اور بے خود ہوگیا)سو یہ امریکی فوجی بھی دل کے ہاتھوں ہار گیا اورٹھان لی کہ وہ اس ترک لڑکی سے شادی ضرور کرے گا۔

طاہر عبداللہ نے اجاز ت چاہی کہ وہ پہلے قرآنِ کریم کا مطالعہ اچھی طرح کرے گا اور اس کا دل اس طرف مائل ہوا تو باقی دو شرائط پر عمل کرنا کوئی ایسی بڑی مشکل نہیں۔ طاہر عبداللہ کی شادی ہوگئی اور چار بچے بھی ہوئے، وہ پاکستان ان کے ساتھ ہی آیا تھا۔ کافی دن وہ ترکی، مراکش، افغانستان، اور صوبہ سرحد میں رہا تھا۔ بچوں سے خاکسار کی ملاقات ہوئی تو وہ حیران رہ گیا کہ بچے انگریزی جرمن، عربی اردو، پشتو اور ترکی زبانیں روانی سے بولتے تھے۔ سات سال سے تین سال کی عمر کے یہ بچے یا تو حافظِ قرآن تھے یا قرآنِ پاک حفظ کرنے میں مصروف تھے۔

وہ ہمیشہ سے اس نظرئیے کا حامی رہا کہ کسی بھی زبان کا آنا ذہنی نشو و نما کی خاص علامت ہوتا ہے اور ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والے عام افراد کی نسبت زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ اسے لگا کہ تہذیبوں کے اس تصادم کا دائرہ بہت وسیع ہوچکا ہے اور جس شدت سے اس کے مخالفین کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی شدت سے اس کے پیروکار بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ غالبؔ نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ع

رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے، رواں اور


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم محمد اقبال دیوان - جمعه 16 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40697" align="aligncenter" width="640"] سینیٹر غفار خان جتوئی [/caption] پچھلے کالموں میں پنجابی، سندھی اور مہاجر افسروں کے رویوں کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کی دفعہ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ ان کالموں کو پڑھ کر اگر یہ تاثر قائم ہوکہ ...

ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم

مضامین
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

بریک تھروکا امکان وجود جمعرات 21 نومبر 2024
بریک تھروکا امکان

انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی وجود بدھ 20 نومبر 2024
انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی

ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ وجود منگل 19 نومبر 2024
ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر