... loading ...
سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ہے، اگلی منزل مراکش کا شہر رباط ہے جہاں پر اس کی ملاقات شاہ حسین خامس اور سادات کے نمائندے حسن التہامی سے طے ہے۔ تل ابیب سے مراکش پہنچنے کے لیے یورپ کے دو شہروں سے گزرنا اور پیرس میں حلیہ بدلنے کا مقصد اپنے آپ کو عالمی پریس سے پوشیدہ رکھنا تھا اس کے ساتھ ساتھ یورپ خصوصاً پیرس میں فلسطینی مجاہدین کا انٹیلی جنس نیٹ ورک بھی خاصا مضبوط تھاجس کی زیادہ تر باگ ڈور الجزائری نژادمسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ مصری نمائندہ حسن التہامی جمال عبدالناصر کا قریبی ساتھی رہا تھا۔ 1953ء میں اسے امریکی سی آئی اے کے تحت تربیت دینے کے بعد پہلے آسٹریا میں مصری سفیر اور اس کے بعد انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں نمائندہ مقرر کیا گیا تھا۔ رباط میں ملاقات کا بڑا مقصد سادات کی ’’امن کی خواہش‘‘ کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے اسرائیل سے پیشگی معاملات طے کرنا تھے۔ ان سارے مذاکرات میں موشے دایان کے نقلی حلیے سے نکل کر اصلی حلیے میں آنے کے سوا کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن فلسطین کے مسئلے پر عربوں کو تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوچکا تھا۔
زیادہ دور کی بات نہیں مشکل سے چالیس برس پہلے کا قصہ ہوگا جب تمام دنیا میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ مقبوضہ فلسطین کی آزادی ہوا کرتا تھا، اس مسئلے کو دوآتشہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبلہ اول پر صہیونی ریاست کے قبضے نے کردیا تھا۔ پھر کیا تھا عالم اسلام خصوصا عرب دارالحکومتوں میں آئے روز قبلہ اول کی آزادی کے لیے زبردست احتجاج ہوا کرتے تھے۔ بات صرف عرب دارالحکومتوں کی نہیں تھی، اسلامی دنیا کے غیر عرب ممالک بھی اس میں پیش پیش تھے۔ کبھی کسی اخبار یا جریدے کے ریکارڈ روم میں جاکر پرانی تصاویر دیکھی جائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ لاہور کے مال روڈ نے بھی قبلہ اول کی آزادی کے حق میں مظاہروں کے بہت سے مناظر دیکھے ہیں۔ بلیک اینڈ وائٹ دور کی ان تصاویر میں مقاصد پوری سچائی کے ساتھ لوگوں کے چہروں پر عیاں دیکھے جاسکتے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ مغرب کی صہیونی سرمایہ دار اشرافیہ نے مصری حکومت میں موجود اپنے کارندوں کے ذریعے انور سادات کو ’’امن کی پٹی‘‘ پڑھانی شروع کی اور اس طرح مصری صدر انور سادات کو ’’امن کا شہزادہ‘‘ بننے کی سوجھی اور وہ 1977ء میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرکے مغرب کا تو منظور نظر بن گیا لیکن عرب قوم نے اسے یکسر مسترد کردیا۔ عالم عرب کو خصوصا اور عالم اسلام کو عموما القدس کے مسئلے سے دور رکھنے کے لیے عالمی صہیونیت کا یہ دوسرا قدم تھا۔ پہلا قدم اس وقت اٹھایا گیا جب عرب دنیا کا اسلام سے تعلق ختم کرنے کے لیے ’’عرب ازم‘‘ کی تحریک چلائی گئی تھی اور جمال عبدالناصر نے اس حوالے سے عالم عرب میں خاصی شہرت حاصل کر لی تھی۔ عرب ازم کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو یہ ہوا کہ مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کی بجائے عالم عرب کا مسئلہ بنانے میں آسانی ہوگئی، اس طرح عالمی سطح پر اٹھنے والا ردعمل علاقائی سطح تک محدود کیا جاسکتا تھا۔ جس وقت مصر نے اسرائیل کے ساتھ ’’امن معاہدہ‘‘ کیا، اس وقت مصر ابھی جمال عبدالناصر کے سیاسی ترکے انور سادات کے ہی ہاتھ میں تھا لیکن اس کے باوجود اس زمانے میں باقی عرب ملکوں میں ابھی جرأتِ اظہار کا کچھ مادہ موجود تھا۔ اسی بنا پر انہوں نے مصر کو عرب لیگ سے نکال باہر کیا اور مصر اپنوں میں غیر اور غیروں میں اپنا بن گیا، مغربی میڈیا نے تل ابیب میں سادات کے قدم کو نیل آرمسٹرانگ کے چاند پر رکھے گئے قدم سے کہیں زیادہ اہم قرار دے دیا۔ یہ وہ دور تھا جب عرب قوم کے درمیان فلسطین کے معاملے میں ابھی ایک ’’غیر تحریری‘‘ معاہدہ چلا آرہا تھا کہ ہر وہ عرب لیڈر جو اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا اسے اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ انور سادات نے یہ قیمت چھ اکتوبر 1981ء کو قاہرہ میں ایک فوجی پریڈ کے دوران ادا کی، خالد اسلامبولی کی مشین گن سے نکلنے والی 17 گولیوں نے عربوں کے ’’غیر تحریری‘‘ معاہدے کی توثیق کردی۔ یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا اس سے بہت پہلے 20جولائی 1950ء میں موجودہ اردن کے شاہ عبداﷲ بن الحسین کے پردادا شاہ عبداﷲ کو مسجد اقصی کی سیڑھیوں پر محض اس لیے گولی مار دی گئی تھی کہ اپنے بڑوں کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے انہوں نے بھی صہیونی ریاست کے قیام کے لیے درپردہ سودے بازی کی تھی۔ 1970ء میں اردن کے شاہ حسین حملہ آور کی گولی سے بار بار بچے۔ اسی خطرے کے تدارک کے لیے اردن نے اپنے ہاں قائم فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف مسلح کارروائی کی تھی۔ سادات کے قتل کے ایک برس بعد یعنی 1982ء میں لبنان کے صدر اور لبنانی عیسائی ملیشیا کے کمانڈربشیر الجمائیل کو بھی اسرائیل کے ساتھ خفیہ روابط کی قیمت جان دے کراداکرنا پڑی یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ اس جرم میں 1948ء سے 1971ء تک تین عرب وزرائے اعظم قتل کردیے گئے تھے۔ مصری وزیر اعظم محمود فہمی النقرشی نے 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی اور عربوں کے ہاتھوں مارا گیا، اردنی وزیر اعظم واسفی الطال جس نے 1971ء میں پی ایل او کو اسرائیل کے خلاف اردنی سرزمین استعمال کرنے سے روکا، وہ اپنی جان سے گیا، اس سے پہلے 1951ء میں لبنانی وزیر اعظم رائد الصالح نے معاملے کو محض اسرائیل کے ساتھ ہلکی پھلکی بات چیت تک محدود رکھا مگر اسے بھی وہی قیمت ادا کرنا پڑی۔ 1958ء میں عراقی شاہی خاندان کے 17 اہم افراد بغداد کے قصر الورود میں مشین گن کے صرف ایک برسٹ کا رزق بنا دیے گئے انہوں نے عراقی یہودیوں کو اسرائیل پہنچنے میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ یوں تین عرب وزرائے اعظم اور ایک بادشاہ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عرب حکمران اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی استواری میں انتہائی محتاط ہوا کرتے تھے۔
1977ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مغربی صہیونی ساہوکاروں کو سوویت یونین کی شکل میں ایک ایسا حریف میسر آیا جس نے آنے والے دور میں عالمی سیاسی بساط کو سرے سے ہی تبدیل کرا دیا۔ اب فلسطین پر قابض قوتیں اور عرب مزاحمت سوویت یونین کے خلاف ایک ہی مورچے میں بیٹھ گئی تھیں۔ 1977ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد 1979ء میں سوویت یونین کی افغانستان میں باقاعدہ عسکری مداخلت نے عالمی منظر کو یکسر بدل دیا تھا، عالمی صہیونی دجالی قوتوں نے اسے اسرائیل کے لیے ایک نادر موقع جانا کہ اب’’ اسلامی مزاحمت‘‘ کا رخ مقبوضہ القدس کی بجائے مقبوضہ کابل کی جانب ہوگا۔ افغانستان کی آزادی کے لیے ہزاروں عرب مجاہدین نے افغانستان کا رخ کیا، ان میں مصر سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کی بڑی تعداد شامل تھی جن کے لیے ایک طرف اسرائیل سے اسلحہ خریدا جاتا تھا تو دوسری جانب مصر کے لیے سوویت یونین سے دوستی کے دور کا حاصل کیا گیا ہلکا اسلحہ بھی افغانستان پہنچایا جانے لگا اور انور سادات جیسا لبرل لیڈر بڑھ چڑھ کر جہاد کی فضیلت پر تقریریں کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی کوششوں سے 1989ء میں مصر کو دوبارہ عرب لیگ کا ممبر بنا لیا گیا یوں عرب لیگ کے پلیٹ فارم میں اسرائیل نے پہلی نقب لگا لی جس کا سلسلہ بعد میں اردن، مراکش، عمان اور قطر تک جاپہنچا۔ جہاد افغانستان مجاہدین کی فتح اور سوویت یونین کی تحلیل پر منتج ہوا لیکن عالمی صہیونی قوتوں کے نزدیک کابل القدس کی فتح کا بیس کیمپ بن سکتا تھا اس لیے افغانستان پر چڑھائی کرکے سب سے زیادہ ان عرب مجاہدین کو نشانہ بنایا جانے لگا جو واپس جاکر ایک مرتبہ پھر مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔
عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...
ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری ...
جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...
دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...
ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...
گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...
امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...
گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...
خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...
ایک ایسے وقت میں جب طالبان قیادت کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کا واضح اشارہ مل چکا تھا اور طالبان لیڈر ملا اختر منصور اس سلسلے میں دیگر طالبان کمانڈروں کو اعتماد میں لے رہے تھے پھر اچانک امریکیوں کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی کہ انہوں نے طالبان کے امیر مل...
میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...
جدید تاریخ میں جب بھی دنیا کو کسی بڑی تبدیلی سے دوچار کیا گیا تو اس سے پہلے اس عالم رنگ وبو کو ایک زبردست ـ’’جھٹکا‘‘ دیا گیا۔ اس کی مثال اس انداز میں دی جاسکتی ہے کہ جس وقت جدید تاریخ کے پہلے دور میں دنیا خصوصا مغرب کو معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں سے گزارا گیا تو پہلی عالمی جنگ کا ...