... loading ...
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے گزشتہ دنوں اپنے اجلاس میں عالمی مالیاتی صورتحال کاجائزہ لینے کے بعد متنبہ کیاہے کہ اگر پوری دنیا کی حکومتوں نے افراط زر پر قابو پانے کے لیے اپنے مرکزی بینکوں کی مدد نہ کی تو دنیا افراط زر پر کنٹرول کی جنگ ہار جائے گی، جس کے پوری دنیا اور خاص طورپر ترقی پذیر ممالک کی معیشت پر سنگین نتائج پڑ سکتے ہیں، عالمی ماہرین معاشیات کاکہناہے کہ اگر افراط زر پر کنٹرول کی جنگ میں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور اس حوالے سے مرکزی بینکوں کی کوششیں ناکام ہوگئیں تو دنیا بھر میں بیروزگاری کاسیلاب آجائے گا۔
عالمی مالیاتی فنڈ کے ماہرین نے اپنے اجلاس میں دنیا بھر اور خاص طورپر ابھرتی ہوئی معیشتوں والے ممالک کی اقتصادی صورتحال اور ان ممالک میں افراط زر پر کنٹرول کی کوششوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے مرکزی افراط زر پر کنٹرول کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن دنیا بھر میں معاشی نمو میں عمومی کمی کی وجہ سے ان کو اپنی کوششوں میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہاہے۔ اگر پوری دنیا کے مرکزی بینک معاشی نمو میں کمی کی وجہ سے پیداہونے والی صورتحال پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات میں ناکام ہوئے یعنی افراط زر میں کمی کی جنگ ہار گئے تو ان کی معیشت بیٹھ جانے کاخدشہ پیدا ہوجائے گااور وہ تفریط زر کا شکار ہوجائیں گے۔
جہاں تک تفریط زر کا تعلق ہے تو معاشیات کاعلم رکھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسی صورت میں قیمتوں میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے، کمپنیاں اور صارفین اخراجات کم بلکہ بند کردیتے ہیں جس کی وجہ سے سرمایہ کاری رک جاتی ہے، صارفین کی جانب سے اخراجات روک لئے جانے کی وجہ سے مارکیٹ میں اشیا تو ہوتی ہیں لیکن ان کے خریدار نہیں ملتے جس کی وجہ سے صنعتوں کو اپنی پیداوار میں کٹوتی کرنا پڑتی ہے اور صنعتیں جب پیداوار میں کمی کرتی ہیں تو لازمی طورپر ملازمین کی چھانٹی بھی شروع کردیتی ہیں۔ اس طرح معیشت کاپہیہ رک جاتاہے، تفریط زر کی صورت میں عالمی سطح پر زرعی پیداوار کی کھپت بھی کم ہوجاتی ہے اور ان کی قیمتوں میں بھی کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کابراہ راست اثر زرعی شعبے اور کاشتکار پر پڑتاہے کیونکہ زرعی پیداوار کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے کاشتکا ر کے لیے فصلوں پر ہونے والے بیج کھاد اور آبپاشی وغیرہ جیسے اخراجات پورے کرنا مشکل ہو جاتاہے، اس طرح کھیت اور کھلیان خالی ہونا شروع ہوجاتے ہیں اس صورتحال میں کم وسیلہ ممالک کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ زرعی اور صنعتی پیداوار کی کھپت اور پیداوار میں کمی کی وجہ سے ملکوں کو ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدنی بھی کم ہوجاتی ہے اور قرضوں کابوجھ بڑھ جانے اور سرمایہ رک جانے کی وجہ سے ان ملکوں کے نوجوانوں کو روزی کی فراہمی ناممکن ہوجاتی ہے۔ آمدنی کے ذرائع محدود اور مسدود ہوجانے پر لوٹ مار، چوری، ڈکیتی اور دیگر اخلاقی جرائم میں اضافہ ہوتاہے اور معاشرہ افراتفری کاشکار ہوجاتاہے۔
جہاں تک تفریط زر کا تعلق ہے تو یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی کم وسیلہ ملک تفریط زر پیدا کرنے کاسبب نہیں بنتا بلکہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی جانب سے یہ کم وسیلہ ممالک پر مسلط کیاجاتاہے، اس کاطریقہ کار یہ ہے کہ افراط زر پر کنٹرول میں ناکامی کے بعد جب تفریط زر کادور شروع ہوتاہے تو بڑے صنعتی ممالک اپنی صنعتوں کاپہیہ چلتا رکھنے کے لیے اپنی مصنوعات انتہائی کم قیمت پر کم وسیلہ ممالک کو فروخت کرنا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ ان کم وسیلہ ممالک کی صنعتیں خسارے کاشکار ہوکر بند ہونے لگتی ہیں اور اس طرح باوسیلہ ترقی یافتہ ممالک اپنے عوام کو بیروزگاری سے بچانے کے لیے غریب ممالک کے عوام کو غربت اور بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ماہرین کا یہ انتباہ اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ عالمی سطح پر افراط زر پر کنٹرول کی کوششوں میں نمایاں کامیابی نہ ملنے کے سبب اب صورت حال تفریط زر کی جانب گامزن نظر آتی ہے اوراس کاسب سے زیادہ اثر صنعتی پیداوار پر نظر آرہاہے۔ پوری دنیا کے مالیاتی ماہرین کو اس صورتحال کو اپنے لئے ایک چیلنج تصورکرنا چاہئے اور اس پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں اور دنیا بھر کی حکومتوں کو اس حوالے سے اپنے مرکزی بینکوں کی بھرپور مدد کرنی چاہئے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ماہرین کاکہنا ہے کہ پوری دنیا میں شرح سود پہلے ہی اتنی کم کی جاچکی ہے کہ اس میں مزید کمی کرنا ناممکن نظر آتاہے کیونکہ شرح سود میں مزید کمی کی صورت میں ملکی بچتوں پر اثر پڑے گا اور لوگ بچت کرنے کے بجائے اپنی رقم دیگر ذرائع پر لگاسکتے ہیں جس سے صنعتی شعبے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا، کیونکہ بچتیں کم یا نہ ہونے سے ان کو قرضوں کے حصول میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے صنعتوں میں توسیع اور انھیں وقت کی ضرورت کے مطابق جدید بنانا ممکن نہیں رہے گاجس سے صنعتی پیداوار کم ہونے کے ساتھ ہی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا، اور صنعتی پیداوار کی لاگت میں اضافے کی صورت میں عالمی منڈی میں دیگر ممالک کے مقابلے میں ان کی فروخت ممکن نہیں رہے گی۔
عالمی ماہرین معاشیات کو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ برطانوی عوام کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے فیصلے کابنیادی سبب بھی تفریط زر کی علامات ہی تھیں جس کی وجہ سے برطانوی صنعتوں میں توسیع کاعمل جمود کاشکار ہوگیاتھا، برطانوی ماہرین معاشیات اوروزیرخزانہ ملکی معیشت کی بحالی کی سعی لاحاصل میں مصروف تھے، بینک آف انگلینڈ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں مسلسل کمی کے بعد اس میں اضافہ نہ کرنے کی پالیسی پر گامزن تھا لیکن صنعتی شعبے میں جمود کی صورتحال کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگوں کوملازمتیں فراہم کرنا ممکن نہیں رہاتھا جس نے برطانوی عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ اگر غریب یورپی ممالک کے لوگوں کے برطانیہ میں داخلے کو سختی سے کنٹرول کرلیاجائے تو وہ ملازمتیں جو غریب یورپی ممالک کے باشندے زیادہ محنتی ہونے اور نسبتاً کم اجرت پر کام پر تیار ہوجانے کی وجہ سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں انھیں ملنے لگیں گی اور اس طرح ان کی غربت اور مسائل کسی حد تک کم ہوجائیں گے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر برطانیہ میں صنعتوں میں توسیع واضافہ کاسلسلہ جاری رہتاتو برطانوی باشندے کبھی بھی یورپی یونین سے علیحدگی کا مطالبہ نہ کرتے۔
یہ صورتحال پوری دنیا خاص طورپر امریکہ کے فیڈرل ریزرو بینک، یورپ کے سینٹرل بینک اور بینک آف جاپان کے ماہرین اور ارباب اختیار کے لیے ایک ایسا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے انھیں کمر بستہ ہونا پڑے گا، جہاں تک یورپی مرکزی بینک اور بینک آف جاپان کا تعلق ہے تو ان دونوں بینکوں نے اس حوالے سے کوششیں شروع کردی ہیں اور انھوں نے یہ محسوس کرلیاہے کہ اگر انھوں نے اپنے ملکوں کی صنعتوں اور عوام کو تفریط زر کے اثرات سے بچانے کے لیے یہ لعنت دنیا کے غریب ممالک اور کم وسیلہ ممالک کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کی تو بھی یہ کوشش عارضی ثابت ہوگی، کیونکہ جب کم وسیلہ ممالک کی معیشت بیٹھ جائے گی تو ان ملکوں کے عوام بھی ان کی مصنوعات خریدنے کی سکت کھوبیٹھیں گے اور انتہائی کم عرصے میں یہ لعنت دوبارہ ان کے ملکوں میں پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ واپس لوٹ آئے گی۔
اس صورتحال کی سنگینی کااندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ عالمی ادارہ تجارت یعنی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے بھی گزشتہ روز جنیوا میں اپنے اجلاس میں تجارتی اشیا کی تجارت سے متعلق اپنے پہلے کے اندازوں اور اس حوالے سے اپنی پیشگوئی میں نمایاں کمی کردی ہے، ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہاگیاہے کہ دنیا بھر میں صنعتی پیداوار میں کمی کے رجحان کے بعد اب پہلے لگائے گئے اندازے کے مطابق صنعتی پیداوار میں اضافے اور تجارتی حجم بڑھنے کاامکان نہیں رہا ہے۔ عالمی ادارہ تجارت نے یہ انتباہ یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان آزادانہ تجارت کے معاہدے کے لیے ہونے والے اجلاس کے موقع پر جاری کیاہے اور انتباہ میں صاف صاف کہاگیاہے کہ موجودہ صورتحال میں دنیا بھر میں تجارتی سرگرمیوں میں تیزی کاامکان مفقود نظر آتاہے۔
عالمی ادارہ تجارت نے اپریل میں بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے اپنی پیشگوئی میں رواں مالی سال کے دوران عالمی تجارت میں 2.8 فیصد اضافے کاامکان ظاہر کیاتھا لیکن گزشتہ روز کے اجلاس میں اس کو کم کرکے1.7 فیصد کردیا ہے، جبکہ گزشتہ سال عالمی تجارت کی شرح میں 3.9 فیصد تک اضافے کاامکان ظاہر کیا گیا تھا۔ عالمی ادارہ تجارت کے ماہرین کاکہناہے کہ دنیا بھر میں تجارتی شرح نمو میں مسلسل کمی کارجحان ہے اور اب یہ اپنی سست ترین سطح پر آگئی ہے، عالمی ادارہ تجارت نے تجارتی شرح نمو بہتر بنانے کے لیے مختلف ممالک کے درمیان شرح تبادلہ اور تجارتی معاہدوں کو زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔