... loading ...
تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے کے قابل بنانا جدید تعلیم کا بنیادی مقصد اور ذمہ داری ہے۔ انسانی معاشرے میں پایا جانے والا عام فرد خام مال کی حیثیت رکھتا ہے، جسے جدید تعلیم کے نظام سے گزار کر ایک مفید شہری بنایا جا سکتا ہے۔ ”شہری“ بن کر وہ ترقی کے انفرادی اور اجتماعی آدرش کا حامل ہو جاتا ہے۔ عام ”شہری“ معاشرے میں قانون کی پاسداری کرتا ہے اور معاشی نظام میں ”فرض“ کی بجا آوری کا اہل ہوتا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصول تعلیم کو سرسری دیکھنے سے بھی فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ جدید تعلیم کے تمام مقاصد سیاسی اور معاشی ہیں یعنی ”سسٹم“ کے لیے ہیں، اخلاقی یا مذہبی وغیرہ نہیں ہیں۔
جدید علم کی مستقل کارگزاری یہ ہے کہ وہ تعلیم کے سیاسی اور معاشی مقاصد کو ادھر ادھر نہ ہونے دے، اور اخلاقی مقاصد کو صرف ڈسپلن تک محدود رکھے۔ جدید علم چونکہ خود سرمائے اور عہدے سے استناد پاتا ہے، اس لیے جدید تعلیم کے حتمی مقاصد بھی صرف معاشی اور سیاسی ہیں۔ جدید تعلیم سے ایک اور مقصد ضمنی طور پر حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقوّم علم میں مسلسل توسیع کی خدمت بھی بجا لاتی رہے۔ مغرب نے ”علمی ترقی“ کی آڑ میں تعلیم کے تہذیبی ہونے کا التباس باقی رکھا ہے۔ ہمارے ہاں یہ پہلو کبھی موجود ہی نہیں تھا اور اب ہماری جدید تعلیم ایک ننگی اور سفاک کارپوریٹ سرگرمی بن کر سامنے آئی ہے جس میں ریاست اس کی مکمل معاونت کر رہی ہے، اور متوسط اور غریب طبقات کے لیے اچھی تعلیم کے مواقع بہت تیزی سے ناپید ہو رہے ہیں۔
ہماری روایت میں تعلیم کا مقصد متعین کرنے کے لیے کوئی لمبے چوڑے علمی یا نظری مباحث موجود نہیں رہے، اور نہ کبھی ان کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ ہماری روایت میں تعلیم کا پورا عمل اور اس کے مقاصد دینی اقدار سے متعین ہوتے تھے۔ تعلیم کا اولین مقصد بھی ان اقدار تک رسائی اور ان اقدار پر اپنی زندگی کو استوار کرنا تھا۔ جدید تعلیم اور روایتی تعلیم میں ایک فرق بہت بنیادی ہے، اور وہ زبان کی اعلیٰ تدریس کا تھا۔ روایتی تعلیم میں زبان کی تدریس کو بھی اقدار کی طرح مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ زبان کی اعلی تدریس اور زباندانی کی مہارت روایتی تعلیم کو معاشرے کی سیاسی اور معاشی ضروریات سے براہ راست متعلق کر دیتی تھی۔ اگر زبان معاشرے کے سیاسی اور معاشی عمل سے متعلق نہ رہے تو اس کی ضرورت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ عدالت و قانون اور تجارت و صنعت میں جو زبان استعمال ہو گی، وہی تعلیمی طور پر بھی اہم ہو گی۔ لارڈ میکالے کی سفارشات تعلیم میں زبان کی مرکزیت اور اس کی سیاسی اور معاشی اہمیت سے آگاہ تھیں اور مقامی زبانوں کے خاتمے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی۔
ہمارے تہذیبی تناظر میں زبان ایک برزخ ہے جہاں دین اور دنیا کے دو دریا آ کر ملتے ہیں۔ روایتی تعلیم زبان کو idea (اقداری تصور) اور ”شے“ سے متعلق رکھتی تھی۔ جدید تعلیم زبان کو concept (صورت شے/مجرد تصور) اور ”شے“ سے متعلق کر دیتی ہے۔ جدید تعلیم، انفس اور آفاق میں، زبان کو ”شے“ اور ”صورت شے“ میں پورے کا پورا کھپا دیتی ہے۔ روایتی معنی میں یہ علم اور اقدار دونوں کی موت ہے۔ اب زبان کے اس برزخ میں صرف ایک ہی دریا باقی رہ گیا ہے جو دنیا کا ہے۔ زبان کو انسانی شعور کی تشکیل اور سیاسی اور معاشی ضروریات کی تکمیل کے بیک وقت قابل بنانا تعلیم کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جدید معاشرے اور معیشت کی آمد کے ساتھ یہ کام ہمارے اختیار سے نکل گیا۔ ایک صحت مند اور زندہ معاشرے کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے قومی شعور کی تشکیل ایک زبان کے ذریعے سے کرے اور معاشی اور سیاسی ضروریات کسی دوسری زبان سے پوری کرے۔ جدید عہد میں ہر معاشرے نے اپنی زبان کو ”دنیا“ میں کارآمد بنا کر ترقی کی ہے۔ ہم نے تعلیم میں زبان کی اہمیت کو نظرانداز کر دیا اور یہ مقصد اپنے مذہب کو جدید بنا کر حاصل کرنے کی کوشش کی اور ساری چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اگر زبان کا ”شے“ سے تعلق کمزور ہو جائے تو وہ دنیا میں کسی کام کی نہیں رہتی، اور اگر زبان کا تعلق ”اقداری تصور“ سے کمزور ہو جائے تو مذہب کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ دونوں کام بیک وقت کرنے کے ہیں۔ زبان کی معاش میں ضرورت اس کے بقا کی آخری سرحد ہوتی ہے۔ ہمیں اردو کو اپنی معاشی اور ذہنی دونوں ضرورتوں کے پورا کرنے کا وسیلہ بنانے کی ضرورت ہے۔
جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...
برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...
چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...
جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...
مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...
زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...
جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...
سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...
سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...
امریکی کانگریس میں ایک نئے بل کی تجویز دی گئی ہے جو امریکا میں تمام بچوں کی نفسیاتی ٹیسٹنگ اور پروفائلنگ کے لیے سرمایہ دے گا۔ منصوبہ امریکی اسکولوں کو طلبا کا حساس ڈیٹا جمع کرنے پر مجبور کرے گا جس میں سماجی و جذباتی تعلیم، رویے، اقدار، عقائد اور دیگر پہلوؤں کے حوالے سے معلومات ...