... loading ...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا بنانے کا نام سیاست ہے۔ یہ بچے جمہورے، معاف کیجئے گاعام شہری جن مداریوں کے ہاتھوں نچائے جاتے ہیں وہ عرف عام میں فصلی سیاست داں کہلاتے ہیں۔
ملک پاک میں عام شہری کسی سرکاری ادارے یا غیر سرکاری ادارے میں چپراسی بھی بھرتی ہونا چاہے تو اس کے لئے تعلیمی قابلیت، ذہنی اور جسمانی صحت اور ہر قسم کے جرائم سے دور ہونا ضروری ہے۔ ورنہ بیچارے کی اپلی کیشن ہی منظور نہیں ہوتی۔ دوسری جانب سیاست کاشعبہ ہے جس میں داخل ہونے اور نام او ر مال بنانے کے لئے کسی اسکول کا سرٹیفکیٹ ہونا ضروری نہیں، نہ ہی صحت مندی کا سرٹیفکیٹ درکار ہے اور نہ ہی قابل دست اندازی و ناقابل دست اندازی پولیس کے کسی الزام میں ملوث نہ ہونے کا کوئی پرچہ ہونا ضروری ہے۔ ویسے کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ کوئی بھی عام آدمی سیاست کے شعبے میں پاؤں رکھ سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا پاؤں کسی ہاتھی کے پاؤں کے سائز کا ہو یا دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کسی حاضر سروس سیاست دان کے فرزند ارجمند ہوں یعنی سیاست گھر کی لونڈی ہوتو آپ کو اس پر ہاتھ صاف کرنے کا قانونی حق مل جاتا ہے۔ ملک پاک میں سیاسی تربیت کے ادارے بھی نہیں پائے جاتے، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اچھا شہری بنانے والے ادارے پائے جاتے ہیں جس کا جواب نفی میں ہے، تو بھائی جب آپ اچھے شہری نہیں بنا رہے تو اچھا سیاست دان کیا کسی اور ملک سے امپورٹ کریں گے۔ ویسے ہمارے یہاں ناممکن کچھ نہیں ہم سیاست دان چھوڑ وزیراعظم تک امپورٹ کرچکے ہیں۔ ایسے ہی ایک امپورٹڈ وزیراعظم کو پاکستان آمد پرایئرپورٹ پر تاذہ بنا ہوا پاکستانی شناختی کارڈ ہاتھ میں تھمایا گیا تھا۔ اپنا وزارت عظمی کا وقت پورا کرکے انہوں نے بریف کیس اٹھایا اور یہ جا وہ جا۔ اس یہ جا اور وہ جا کے درمیان بچہ جمہورا اور جمہوریت دونوں کی ایسی کی تیسی، بس سیاست زندہ باد۔
سیاست دان ہونے کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بندے کو نوکری کی تلاش میں دھکے کھانے پڑتے ہیں اور نہ ہی کسی گھر بار چلانے کے لئے کوئی کام دھندا دیکھنا ہوتا ہے، سیاست دان کا تو بس ایک ہی دھندا ہے جو کبھی مندا نہیں ہوتا، کچھ سیاست دان اتنے گھاگ ہوتے ہیں کہ ہر حکومت کے ساتھ ناتا جوڑ لیتے ہیں یعنی گدھے کوکیسے باپ بنانا ہے یہ ان کو خوب آتا ہے اور پہلے والے گدھے کی کھال کھینچنےمیں ان کو ذرا بھی مشکل نہیں ہوتی۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ یہ گدھا بھی ان کا باپ رہ چکا ہے۔۔
ہر سیاست دان کی منزل وزارت یا مشیری ہوتی ہے لیکن ہر اس مقام ولایت پر پہنچنا چھوٹے موٹے سیاست دان کا کام نہیں۔ ایسے میں قومی یا صوبائی اسمبلی کی سیٹ ہی سیاست کی معراج بن جاتی ہے۔ لیکن یہ راستہ ہے بہت ٹیڑھا میڑھا، اس راستے پر کچھ ایسے مشکل مقامات بھی آتے ہیں کہ شیاطین بھی منہ چھپا کر گزر جاتے ہیں۔ کچھ سیاست دانوں کو جمہوریت سے زیادہ آمریت سے محبت ہوتی ہے، یہ اہل سیاست کا وہ ٹولہ ہے جو جمہور کی کھیتی کو نفاق کے ٹوکے سے کاٹ کر مفاد کی دیگ میں چڑھاتاہے اور آمریت کی دھیمی آنچ پر اس وقت تک پکاتا ہے جب کہ سب کچھ جل نہیں جاتا۔ اس جلی ہوئی کھرچن کو عوام کے کھانے کیلئے پیش کردیا جاتا ہے جو دکھوں کی چٹنی پر غربت کا تڑکا لگا کر اسے ہضم کر جاتے ہیں۔ اس کھرچن کے کھانے سے انہیں حقوق کی الٹی بھی نہیں ہوتی نہ پیٹ میں جمہوریت کا مروڑ اٹھتا ہے۔
اور اگر ایسا ہو کہ کوئی سیاست دان نہ قومی اسمبلی میں پہنچے نا سینیٹ کی سیٹ ملے او ر نہ ہی ضلعی اسمبلی کا حصہ بن پائے وہ کیسے کمائے کھائے۔ بھائی اس کے لئے پلاٹوں، پرمٹوں ، ٹھیکوں اور کمیشنوں کی گنگا بہہ رہی ہے جتنا دل کرے ہاتھ دھوئے اور زیادہ دل مچلے تو غوطہ لگا لے۔ اس گنگا میں ڈوبنے کا کوئی ڈر نہیں بلکہ جو ڈوبا سو پار والا معاملہ ہے۔ سیاست دان کسی سے نہیں ڈرتے شائد اپنی بیویوں سے ڈرتے ہوں لیکن میڈیا کے پاس ایسا منتر ہے کہ سیاستدان حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں یعنی اس کی کوئی بھی پوزیشن ہو وہ میڈیا سے پنگا لینا پسند نہیں کرتا۔ ویسے میڈیا بھی جمہور یا جمہوریت کی خیر خواہی کا کھٹراگ پالنے کے حق میں نہیں، میڈیا والوں کے بھی پیٹ ہیں جن کو پالنا بھی ضروری ہے اور اہل سیاست کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے سے تو ویسے بھی کچھ نہیں ملنا تو عقل مندی نیاز مندی اور مفادمندی کا تقاضہ ہے کہ اہل سیاست سے بنا کر رکھی جائے یوں جمہور اور اہل جمہور جائیں تیل لینے کیونکہ راوی تو سب چین ہی چین لکھتا ہے۔
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...
پیدائش اور موت کے وقفے کوزندگی کہتے ہیں۔ جو پیدا ہو گیا اس کو موت بھی آنی ہے۔ تمام حیات کے لئے قدرت کا یہی قائدہ ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ہے یعنی زندگی کتنی طویل یا مختصر ہے ۔ پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو بقا کا نام دیا گیا ہے اور انسان سمیت ہر ذی روح کی کو...