وجود

... loading ...

وجود

پاک بھارت کشیدگی

اتوار 25 ستمبر 2016 پاک بھارت کشیدگی

pak-india-border

برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صرف اس وقت بنتا ہے جب یہاں کوئی سیاسی وحدت بھی قائم ہو جائے۔ برصغیر میں امن سے مراد اس کا سیاسی اکائی بن جانا ہے۔ اگر برصغیر ایک سیاسی وحدت یا اکائی نہ رہے، تو اس میں امن کا قیام بھی ممکن نہیں رہتا۔ دوسرے لفظوں میں برصغیر کے جغرافیہ اور تاریخ کا ایک ہونا امن کی لازمی شرط ہے۔

تاریخی طور پر مغلیہ دور میں کچھ عرصے کے لیے برصغیر تقریباً ایک سیاسی وحدت کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ مغلیہ زوال کے بعد برصغیر میں انتشار، طوائف الملوکی اور جنگ کا دور دورہ ہوا۔ برطانوی استعمار کے جبر اور غلبے سے برصغیر میں ایک بار پھر سیاسی وحدت قائم ہوئی اور جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ استعماری حکومت کے اختتام کے ساتھ ہی برصغیر کی سیاسی وحدت کا ایک بار پھر خاتمہ ہو گیا، اور یہ دو غیرمساوی ملکوں میں تقسیم ہو گیا۔ تقسیم کے نتیجے کے طور پر برصغیر میں فوراً ہی جنگ کی واپسی بھی ہو گئی اور امن رخصت ہو گیا۔ برصغیر کی جغرافیائی وحدت اور ثقافتی رنگا رنگی ایک فطری صورت حال ہے۔ لیکن اس کا لازمی نتیجہ سیاسی وحدت کی صورت میں سامنے نہیں آتا جو تاریخی عوامل کے تابع ہے۔ برصغیر کی سیاسی وحدت کا خاتمہ دراصل امن ہی کا خاتمہ ہے۔ یہ وہ بنیادی سوچ ہے جس کی وجہ سے برصغیر کی سیاسی ”تقسیم“ کو جغرافیائی ”لکیر“ قرار دینے کی غیردانشمندانہ کوشش کی جاتی ہے۔ یہ کوئی ”لکیر“ نہیں ہے، خون میں بجھی ہوئی تاریخ کی رہگزر ہے، اور یہی وہ تاریخ ہے جو آج بھی ہماری شناخت ہے اور ہمارا عمل ہے۔

فی الوقت برصغیر میں سیاسی وحدت کے قیام کے صرف دو ممکنات ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ہندو غلبے میں قائم ہو اور دوسرے یہ کہ وہ مسلم غلبے میں سامنے آئے، اور موجودہ حالات میں دونوں کا امکان صفر ہے۔ برصغیر میں سیاسی وحدت کے خاتمے کا مطلب امن کا خاتمہ تو ہے ہی، لیکن کیا اس کا مطلب مستقل جنگ بھی ہے؟ غیر ایٹمی برصغیر میں اس کا مطلب مستقل جنگ ہی تھا۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے ایٹمی طاقت بن جانے سے برصغیر کی سیاسی اور حربی صورت حال ایک stalemate پر منتج ہوئی ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جسے کچھ سیاسی اور جنگی تجزیہ نگار ’’نہ امن نہ جنگ‘‘ کی ترکیب سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے اس کا stalemate کے طویل ہونے کا امکان ہے، اور امن یا جنگ دونوں کا امکان بہت کم ہے، سوائے اس کے کہ دونوں میں سے ایک ملک کی قیادت یا تو مکمل طور پر پارسا ہو جائے یا پاگل ہو جائے اور پھر اقتدار میں بھی موجود رہے۔ اس پارسائی اور پاگل پن کا امکان بھی معدوم ہے کیونکہ دونوں خودکشی کے ہم معنی ہیں۔ لیکن جو مذہبی اور غیرمذہبی رومانوی لوگ برصغیر کی سیاسی وحدت پر یقین کامل رکھتے ہیں، انہیں بھی معلوم ہے کہ موجودہ حالات میں جنگ برصغیر کو ایک نئی وحدت دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایک ایسی وحدت جو راکھ کے ڈھیر میں ہوتی ہے۔

برصغیر میں مسلمانوں کی ثقافتی، لسانی اور مذہبی بقا ہمارے خیال میں بنیادی سوال نہیں ہے۔ اصل سوال برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت اور بقا کا ہے۔ اٹھارویں صدی کے آغاز سے وسط بیسیویں صدی تک برصغیر کی ہند مسلم تاریخ میں ایک کے علاوہ ایسا کوئی امکان ہی موجود نہیں ہے جو یہاں مسلمانوں کی سیاسی بقا کو ممکن بنا سکے۔ وہ ایک امکان، وہ ایک فیکٹر، آقائے سرسید کی تعلیمی تحریک ہے جو آگے چل کر برصغیر کی تقسیم اور یہاں مسلمانوں کی سیاسی بقا کا واحد وسیلہ ثابت ہوئی۔ لیکن اس کا براہ راست سیاسی مطلب برصغیر میں امن کا خاتمہ بھی تھا، اور آگے چل کر ہونے والی واقعاتی اور امکانی جنگوں میں ہماری بقا کے لیے خطرات حقیقی تھے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے برصغیر میں یہ صورت حال ایک stalemate میں تبدیل ہو گئی۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ عالمی طاقت کے نظام میں ۲۰۰۱ء کے بعد ہماری بقا کا سب سے بڑا ذریعہ بھی یہی صورت حال ہی بنی ہے۔ تاریخ اور سیاسی امور کو غیررومانوی انداز میں دیکھنے والے اس امر سے باخبر ہیں کہ اگر یہ stalemate موجود نہ ہوتا تو ۲۰۱۱ء کے بعد پاکستانی معاشرہ اور ملک اب تک بخارات میں تحلیل ہو چکے ہوتے۔

پاک بھارت کشیدگی کی موجودہ فضا کو صرف علاقائی تناظر میں دیکھنا درست نہیں ہے۔ اس کشیدگی کے کانٹے دار موقعے پر امریکی کانگریس میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک قرار دینے کا بل بھی پیش کیا گیا جس کا اصل مطلب مقبوضہ کشمیر پر ٹوٹتی قیامت کے لمحے میں بھارت کو امریکی تعاون اور حمایت فراہم کرنا ہے۔ گزارش ہے کہ اکیسویں صدی کو امریکی صدی بنانے کا جو ایجنڈا تھا، اس میں پوری مسلم دنیا کو ملبے کا ڈھیر بنانا پہلی امریکی ترجیح تھی۔ اس منصوبے کا آغاز افغانستان سے ہوا تھا جسے مسلم ممالک کی ملبہ سازی کے منصوبے کا ہیڈکوارٹر بنایا جا رہا تھا۔ مسلم دنیا کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے یا ملبے کا ڈھیر بنانے میں امریکہ کو جزوی کامیابی ہوئی ہے۔ امریکہ کی طرف سے گزشتہ پندرہ سال میں ”صرف“ آٹھ مسلم ممالک کی ملبہ سازی ہو سکی ہے۔ پاکستان، ایران اور ترکی اپنی جغرافیائی وحدت کو شدید جارحانہ حالات میں برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان تین ملکوں کی جغرافیائی وحدت قائم رہ جانے سے امریکی منصوبے میں رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ جو دفاعی معاہدات کیے ہیں اور پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے کی جو بات شروع کی ہے اس کا یہی تناظر ہے۔ موجودہ پاک بھارت کشیدگی میں امریکی مہاسرمائے کے مفادات نہایت بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ افغانستان میں چار جہتی امن فارمولا ختم کرنے کا امریکی فیصلہ بھی بھارت کی خوشنودی اور پاکستان پر دباؤ میں اضافے کے لیے تھا۔ موجودہ فضا میں امریکی عزائم سے کوئی توقع وابستہ کرنا شعلے سے گل کی آرزو کرنا ہے۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ موجودہ پاک بھارت کشیدگی کا عالمی تناظر بہت اہم ہے۔ بیسیویں صدی میں امریکی عالمی غلبے کی معاشی اور سیاسی اساس مسلم دنیا پر اس کے ”قبضے“ سے فراہم ہوئی تھی۔ اکیسیویں صدی میں عالمی غلبے کی اساس مسلم دنیا کے ”ملبے“ سے فراہم ہونے جا رہی تھی۔ لیکن اس میں جزوی کامیابی کی وجہ سے امریکی غلبے کو برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ بڑھیا روس اور چڑھیا چین کی وجہ سے بھی امریکی غلبے کو شدید چلینج کا سامنا ہے۔ اس بدلتی ہوئی عالمی صورت حال میں امریکہ کے لیے اب بھارت کی حیثیت وہی ہے جو اسرائیل کی ہے۔ امریکہ کی داخلی سیاسی جدلیات اور عالمی نظام پر امریکی گرفت کی کمزوری سے پوری دنیا کے سیاسی حالات سخت بے چینی اور دگرگونی کا شکار ہو گئے ہیں اور کسی عالمگیر جنگ کے خطرے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن یہ بالکل عیاں ہے کہ امریکی عالمی غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے بھارت امریکہ کا مکمل اتحادی ہے۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے خلاف جارحانہ بھارتی رویوں کو مکمل امریکی پشتی بانی حاصل ہے۔ موجودہ حالات میں بھارت کے ساتھ امن اور جنگ کو ایک ہی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ جنگ کی بدلتی ہوئی حرکیات میں ”امن“ بھی جنگ کی طرح خطرناک ہو سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا میں آئے ہوئے بھونچال کے باوجود ہماری رائے یہ ہے کہ پاک بھارت باہمی صورت حال ”نہ امن، نہ جنگ“ کی صورت حال میں جوں کی توں برقرار ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس بھونچال کی دھواں دھاری میں مسئلہ کشمیر نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔


متعلقہ خبریں


سانحہ کوئٹہ:"را" اورافغان خفیہ اداروں کی مشترکہ کارروائی، کَڑیاں ملنے لگیں وجود - جمعرات 27 اکتوبر 2016

کوئٹہ پولیس ٹریننگ مرکز پر حملے کی نگرانی افغانستان سے کی گئی، مقامی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا حساس اداروں نے تفصیلات جمع کرنا شروع کردیں ، افغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے  بھاری ہتھیاروں  کے ساتھ کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے خود کش  حم...

سانحہ کوئٹہ:

سفارتی محاذ پربھارت کو ایک اور شکست,برطانیہ نے بھی پاکستان مخالف پٹیشن مسترد کردی شہلا حیات نقوی - هفته 22 اکتوبر 2016

امریکاکے بعد برطانیہ نے بھی پاکستان کودہشت گردوں کی پناہ گاہ قراردینے کا بھارتی دعویٰ یکسر مسترد کردیا برطانیہ میں مقیم بھارتیوں کی آن لائن پٹیشن پر پاکستان کی قربانیوں کے برطانوی  اعتراف نے بھارتی غبارے سے ہوا نکال دی امریکا اوربرطانیہ دونوں ممالک نے بھارتی حکومت کے اشارے اور ...

سفارتی محاذ پربھارت کو ایک اور شکست,برطانیہ نے بھی پاکستان مخالف پٹیشن مسترد کردی

بھارتی جارحیت، مقابلے کے لیے جارحانہ سفارتکاری کی ضرورت ایچ اے نقوی - جمعرات 06 اکتوبر 2016

بھارتی فوج کی جانب سیکنٹرول لائن پر دراندازی کے واقعے کے بعدجسے اس نے سرجیکل اسٹرائیک کانام دینے کی ناکام کوشش کی، بھارتی فوج کے سربراہ نے عالمی سطح پر بھارت کی اس مذموم کارروائی کی مذمت سے بچنے کیلیے اعلان کیاتھا کہ کنٹرول لائن پر جو واقعہ ہوا، اس کے بعد اب بھارت پاکستان کے خلاف...

بھارتی جارحیت، مقابلے کے لیے جارحانہ سفارتکاری کی ضرورت

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار محمد دین جوہر - بدھ 05 اکتوبر 2016

جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار

پاک بھارت تنازع، بھارتی سیاستدان منتشراور پاکستانی سیاستدان متحد، خوش کن منظر ایچ اے نقوی - بدھ 05 اکتوبر 2016

اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے کوششوں کیلیے وزیر اعظم کابھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔اپوزیشن کے رہنماؤں نے اس ناز...

پاک بھارت تنازع، بھارتی سیاستدان منتشراور پاکستانی سیاستدان متحد، خوش کن منظر

کشمیر میں جاری آپریشن توڑ پھوڑ الطاف ندوی کشمیری - بدھ 05 اکتوبر 2016

یوں توآج کل پورا برصغیر آپریشنوں اور اسٹرائیکوں کے شور سے پریشان ہے مگر کشمیر براہ راست ان کی زد میں ہے۔ یہاں حکومت نے آپریشن ’’کام ڈاؤن‘‘کا آغاز کرتے ہو ئے پورے کشمیر کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص سیکورٹی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ انھیں مکمل طور پر کھلی چھوٹ ہے۔...

کشمیر میں جاری آپریشن توڑ پھوڑ

بڑی طاقتوں کی صبر کی تلقین، پاک بھارت جنگ نہیں روک سکتی ایچ اے نقوی - منگل 04 اکتوبر 2016

بھارت کنٹرول لائن پر در اندازی کی کوشش کو پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا نام دے کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرکے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر اپنے سفاکانہ مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں ناکامی اور اس ناکامی کے بعد سے مسلسل سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے، جس کا اندازہ اس ...

بڑی طاقتوں کی صبر کی تلقین، پاک بھارت جنگ نہیں روک سکتی

پاکستان کی مضبوط سفارتی مہم اور قومی یکجہتی، مودی پسپائی پر مجبور انوار حسین حقی - منگل 04 اکتوبر 2016

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ان دنوں زبردست سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے سفارتی حلقوں کو بہت زیادہ سرگرم کیا ہواہے ۔ پاکستان کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کی شبانہ روز کاوشوں نے بھارت کو سفارتی اور دفاعی لح...

پاکستان کی مضبوط سفارتی مہم اور قومی یکجہتی، مودی پسپائی پر مجبور

جنگ سے پہلے بھارتی شکست مختار عاقل - پیر 03 اکتوبر 2016

منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...

جنگ سے پہلے بھارتی شکست

سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ، بھارتی فوج اپنے ہی عوام کو اُلو ّ بنانے لگی ایچ اے نقوی - جمعه 30 ستمبر 2016

بدھ کی شب تقریباً ڈھائی بجے یا یوں کہیے کہ جمعرات کو علی الصبح جب کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے شہری اپنے گھروں میں آرام سے سو رہے تھے بھارتی فوج نے یہ سوچ کر کہ شاید پاکستانی فوجی بھی خواب غفلت میں کھوئے ہوں گے کنٹرول لائن عبور کرنے کی کوشش کی لیکن پاک فوج نے اس کافوری جواب دیا، ب...

سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ، بھارتی فوج اپنے ہی عوام کو اُلو ّ بنانے لگی

بھارتی میڈیا اور انتہا پسندوں کا دباؤ‘ سرجیکل اسٹرائیکس ڈرامے کی وجہ بنا عارف عزیز پنہور - جمعه 30 ستمبر 2016

اوڑی حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیے جانے کے بعد بھارتی حکومت پر وہاں کے میڈیا اور انتہاپسند ہندو تنظیموں کا شدید دباؤ تھا کہ اس کا جواب دیا جائے گا۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے جوش خطابت میں پاکستان کو دندان شکن جواب دینے کی بڑھکیں تو لگادیں مگر جب انہیں عملی جامہ پہانے ...

بھارتی میڈیا اور انتہا پسندوں کا دباؤ‘ سرجیکل اسٹرائیکس ڈرامے کی وجہ بنا

آبی جارحیت کی دھمکی، بھارتی اقدام پر سندھ بنجر ہو جائیگا انوار حسین حقی - بدھ 28 ستمبر 2016

’’آب اور لہو ایک ساتھ نہیں بہ سکتے ‘‘ یہ نئی بڑھک جنگی جنون میں مبتلا بھارت کے انتہا پسند ہندو وزیر اعظم نریندر مودی نے لگائی ہے ۔ کشمیری حریت پسندوں کے جذبہ حُریت سے خوفزدہ بھارتی قیادت نے بین الاقوامی سفارتی سطح پر پاکستان کے خلاف ناکامی کے بعد سندھ طاس کمیشن کے مذکرات معطل کرن...

آبی جارحیت کی دھمکی، بھارتی اقدام پر سندھ بنجر ہو جائیگا

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر