... loading ...
سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو تو تالیف قلب کے لیے یہ بے حد عمدہ کتاب ہے۔ اس مین کچھ بہت نایاب وظائف بھی ہیں جو بہت سوں کے لیے باعث فیض رہے ہیں۔ آپ کے بستر کے سرہانے رہنے کے لائق کتاب کو گاہے گاہے پڑھا کیجیے۔ اس کتاب میں خانقاہِ نظامیہ پر ہونے والی مجالس اور وہاں ہونے والی گفتگو کا احوال درج ہے۔ ایک ایسی ہی مجلس 28 محرم الحرام 714 ہجری میں منعقد ہوئی یعنی آج سے ٹھیک 723 سال پہلے۔ یہ لگ بھگ سن 1293 عیسوی بنتا ہے۔ سن و سال کا ذکر اس لیے لازم ہے کہ آپ کو لگ پتہ جائے کہ لاہور کے حالات کچھ زیادہ نہیں بدلے۔ بے ایمانی کا جو ریت رواج 1293 میں تھا وہ آٹھ صدیاں گزرنے کے بعد بھی یوں ہی جاری و ساری ہے۔
سیدنا نظام الدین اولیاؒ لاہور پر نازل ہونے والی آفات کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ لاہور کے کچھ تاجر مال تجارت لے کر گجرات گئے۔ ان دنوں بھارت کا یہ علاقہ ہندوؤں کے زیر تسلط تھا۔ خریدار حیران تھے کہ لاہور کے مسلمان تاجر ہر شے کا دام ابتدا میں دگنا بتاتے ہیں اور نصف سے بھی کم پر بھاؤ تاؤ کم کرکے فروخت پر رضامند ہوجاتے ہیں۔ گجرات کے ہندو تاجروں کے لیے بہت اچنبھے کی بات تھی۔ وہ سودے کے بہت کھرے تھے۔ کم منافع رکھ کر ایک دام بتاتے تھے۔ بتائی گئی قیمت میں ہرگز کسی طور کمی نہ کرتے تھے۔ وہاں کے خریداروں کو بھی بھاؤ تاؤ کی عادت نہ تھی۔ انہیں سودے اور دام دونوں ہی پر مکمل وشواس ہوتا تھا۔
لاہور کے تاجروں سے اہل گجرات نے پوچھا کہ وہاں سودا ایسے ہی ہوتا ہے تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں کا طور طریقہ تو یہی ہے کہ ٹھوک کر دام مانگتے ہیں، پھر گاہک جتنے میں کٹ جائے۔ گجرات کے باسی کہنے لگے ’’حیرت ہے اس بے ایمانی پر بھی وہ شہر آباد ہے۔ غارت نہیں ہوتا‘‘۔ تاجروں کا یہ قافلہ واپس لاہور لوٹ رہا تھا تو اطلاع ملی کہ پنجاب پر منگولوں نے حملہ کردیا ہے۔ لاہور اب بھی کچھ مختلف نہیں لگتا۔ دبئی میں ایک بچے نے دوسرے بچے سے کہا :ہم اب گوشت صرف بقر عید پر کھاتے ہیں تو اس کے دوست نے کہا’’ کیا تم لوگ غریب ہو تو جواب ملا نہیں ہم لاہور میں رہتے ہیں‘‘۔ لاہور میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی عائشہ ممتاز نے کتے گدھوں کا گوشت اور غلاظتوں کی ملاوٹ کی روک تھام کے حوالے سے جو چھاپوں کا اودھم مچایا ہے اور سرکار کے مختلف پروجیکٹس کا ریکارڈ جس تواتر سے جل رہا ہے اس سے لگتا ہے کہ کہ وہاں سودے میں بہت گڑبڑ ہے اور مال کا دام بھی زیادہ بیان کرتے ہیں۔
آئیں گجرات کے ہندووں کی دیانت داری سے منھ موڑ کر امریکا میں موجودہ کفار کی سودے بازی میں ایمانداری کی بات کریں۔
مین ہیٹن نیویارک میں پاکستانی سفارت خانے سے ذرا ہٹ کر مشہور برانڈ نائیکی کا Flag-Ship اسٹور ہے،اسے نائیکی ٹاؤن کہتے ہیں۔ ہمیں اپنے لیے جاگرز کی تلاش تھی۔ جس خاتون نے ہمارے مسئلے کو اسٹور میں غور سے سنا، اس نے دھیرج سے بٹھایا اور تھوڑی دیر میں ہماری جانب کولہے ہلاتا ہوا،پھولدار چسپاں ٹیک پینٹس میں ملبوس،کانوں میں بڑا سا بالا لٹکائے ان کا سیلزپرسن پرنس آگیا۔ کان میں لال موتی سے جھلملاتا تنہا بالا دیکھ کر ہمارا خیال تھا کہ ہم تک پہنچتے پہنچتے وہ کہیں گانا چھیڑ بیٹھے کہ ڈھونڈو ڈھونڈو رے ساجنا ڈھونڈو مورے کان کا بالا،مورا بالا چندا کا جیسے ہالا رے۔ قریب آیا تو ایک پیکر سنجیدگی و خوش مزاجی لگا۔
اسے ہم نے مسئلہ بتایا تو اس نے پاس کھڑی لڑکی کو پیروں کا ناپ لے کر ایک فرمہ لانے کو کہا اور خود ایک جاگنگ مشین جس پر اسکرین مانیٹر لگے تھے ہمیں کھڑا کرکے کہنے لگا کہ اس پر ایک دم آہستہ، درمیانہ رفتار اور پھر تیز تیز دوڑو۔ آپ کی چھوٹی سی فلم بنے گی۔ وہ ہم آپ کو ای میل بھی کردیں گے۔ اس فلم کی روشنی میں ہم آپ کے چلنے کا جائزہ لے کر اسی مناسبت سے جوتے پہنائیں گے۔ فلم دیکھ کر اس نے بہت آہستگی سے معذرت کی کہ اگر اس کا بیانیہ ہمیں ناگوار گزرے تو یہ محض ایک مسئلے کی نشاندہی ہے، تنقید ذات اور ہدفِ تضحیک نہیں اس کا ہماری ذات گرامی قدر کے دیگر کوائف سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ گویا ہوا کہ فلم دیکھ کر لگا کہ یہ ایک ایسے فرد کی چال ہے جسے پیدل چلنے کی عادت نہیں۔ وہ بہت بد دلی سے قدم اٹھاتا ہے اور جیسے تیسے پیر زمین پر پٹختا ہے۔ اس شخص کی کمر میں بھی اکثر درد رہتا ہوگا، کیوں کہ وہ نہ تو صحیح سے گھٹنا موڑتا ہے اور زمین پر پیر بھی پنجے کی بجائے ایڑی کے سہارے پٹختاہے۔ جس کی وجہ سے سا را Impact اس کی ریڑھ کی ہڈی پر پڑتا ہے جو احتجاجاً درد سے کراہنے لگتی ہے۔ اس شخص کو اگر ان مشکلات سے نجات پانی ہے تو قدم اٹھاتے ہوئے گھٹنے موڑنے ہوں گے۔ پیر پنجے کے بل زمین پر رکھنا ہوگا۔ ہمیں خیال ہوا کہ اپنے بیانیے کی کڑواہٹ کم کرنے کے لیے اس نے واحد غائب کا صیغہ یعنی Third Person Singular کا صیغہ استعمال کیا تھا۔ خاکسار کو لگا کہ یہ مکتب سے زیادہ اس کی جنسی ترجیحات کے حوالے سے جن محافل اور روابط کو نبھانا پڑا ہوگا اس کی تعلیم ہے۔ آپ اگر بیرون ملک Gays , Lesbian , Cross Dressers کی بارز اور محافل میں شریک ہوں تو آپ کو لگے گاکہ جوش، فراق گورکھپوری کی طرح یہ زبان اورCulturation کی اور ہی دنیا میں رہتے ہیں۔
اس نے ہمارے لیے جن جاگرز کا انتخاب کیا اس کے پنجے اور ایڑی دونوں میں لینڈنگ کے وقت جھٹکا سہنے کی خوب طاقت تھی۔ کہنے لگا کہ ایک ماہ کی وارنٹی ہے سارے امریکامیں کہیں بھی واپس کرو، جوتے پہنے ہوئے بھی ہوں تو رقم بغیر سوال جواب کے پوری لوٹا دی جائے گی۔ ہم نے کہا ہم تو پاکستان میں رہتے ہیں ہم کہاں ایک ماہ میں واپس کرنے آئیں گے۔ وہ اپنی سپروائزر کو لے آیا تو وہ کہنے لگی آپ کے لیے تو میں ساری عمر کی گارنٹی دے دیتی ہوں۔ ادائیگی کرکے چلنے لگے تو وہ تھرکوا ہمیں اور اپنی سپر وائزر کو چھیڑتے ہوئے کہنے لگا۔ ان کو وارن کردیں کہ یہ وارنٹی اسی وقت قابل قبول ہوگی جب یہ اپنا موجودہ اسٹائل چھوڑ کر میری طرح چلنا شروع کردیں گے۔ ہم نے بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور کہہ دیا ایسیHip Swing سیکھنے کے لیے تو ہمیں Gigi Hadid ( عربی النسل مشہور امریکی ماڈل جو پاکستانی نژاد گلوکار زین ملک کی گرل فرینڈ ہے) کی مدد لینے پڑی گی تو اس نے دل پرہاتھ رکھ کر کچھ اس ادا سے ہمیں کلر (قاتل) کہا کہ مادھوری ڈکشٹ کا فلم دیوداس والا اللہ مار ڈالا یاد آگیا۔
ان کم بختوں کی تجارت میں ایمانداری کا دوسرا واقعہ پہلے ماحول بنانے کے لیے مصطفے زیدی مرحوم کا یہ قطعہ
مین ہٹن میں مراکش نامی اس ریستوراں میں جب ہم نے دو رات پہلے کھانا کھایا تو بغیر سلائی کا ڈوریوں سے بندھا گاؤن پہنے جب وہ آرڈر لے رہی تھی تو اس کا حسن، ادائیں اور ادا کاری دیکھ کر ہمیں لگا کہ قلو پطرہ نے اپنی کسی قریبی رشتہ دار کو ہماری خدمت پر بھیج دیا ہے۔ وہ تو سادہ لوح تھی اگر اپنے سینے پر ڈولتی پھولدار ڈوری سے Queen Nefertitti کی نیم پلیٹ لگالیتی تو اس کا شام کہسار جیسا دھواں دھواں سراپا دیکھ کر کئی لوگ اسے فرعون کے خانوادے سے تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا نام ایڈنا تھا۔ دو دن بعد ہم جب ایک شام وہاں سے گزر رہے تھے تو یکایک بارش شروع ہوگئی۔ ہم نے جلد ہی مراکش میں Duck کیا تو ایڈنا دکھائی دی۔ آج وہ شام کی شفٹ میں تھی۔ ہم نے اس کو شیشہ لانے کا کہا تو مشروب کا بھی پوچھنے لگی۔ شائے مع لیمون مع نعنا Tea with lemon and mint۔ تھوڑے سے لوگ تھے۔ باہر آتے جاتے لوگ شیشے کی بڑی کھڑکی سے دیکھو تو اچھے لگتے تھے۔
شیشہ پہلے آگیا اور چائے کی جگمگاتی قدیم طرز کی کیتلی بعد میں۔ یہ کیتلی ایڈنا نے نہیں لا کر رکھی بلکہ وہی ویٹر جو شیشہ رکھ کر گیا تھا وہ لایا تھا۔ ہم دیکھ سکتے تھے ایدنا ادھر ادھر منڈلا تو رہی ہے مگر ہماری طرف نہیں آتی۔ چائے کی کیتلی میں نہ پودینہ تھا نہ پلیٹ میں لیموں۔ ہم نے بھی سوچا کہ اب اس پر کیا بات کریں ہوسکتا ہے اس بے چاری کی کھنچائی ہوجائے۔ اٹھنے لگے اور بل کا اشارہ کیا توبل البتہ ایڈنا ہی لے کرآئی، جس میں شیشے کے بیس ڈالر تو درج تھے مگر اس چائے کی لبالب بھری کیتلی کا کا کوئی ذکر نہ تھا جس کا معاوضہ بیس ڈالر تھا اور جسے ہم نے مزے لے لے کر پیا تھا۔ اس بھول چوک پر ہم نے توجہ دلائی تو کہنے لگی کہ یہ تو وہ چائے نہیں جو آپ نے مانگی تھی۔ اس میں پودینہ اور لیموں نہیں۔ جب یہ وہ چائے نہیں تو اس کا معاوضہ کیسا۔
یہاں آج ہوٹل میں ہم چار لوگ ہی ہیں۔ بارش کی وجہ سے بھیج کر یہ اشیا منگانا بھی مشکل تھا لہذا ہم نے چائے کے پیسے نہیں لگائے۔ ہم نے بہر حال وہ بیس ڈالر بطور ٹپ For you کہہ کر چھوڑے تو ایڈنا نے خود باہر جاتے وقت دروازہ کھولا، گلی کے نکڑ تک ہاتھ ہلاتی رہی اور ہمیں لگا کہ اس کی نظر کے فیض سے سارے مین ہیٹن میں ایک استقبالی ریڈ کارپٹ سا بچھ گیا ہے لیکن پہلے بھی ہم اداس تھے پر کم اداس تھے۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...
[caption id="attachment_40697" align="aligncenter" width="640"] سینیٹر غفار خان جتوئی [/caption] پچھلے کالموں میں پنجابی، سندھی اور مہاجر افسروں کے رویوں کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کی دفعہ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ ان کالموں کو پڑھ کر اگر یہ تاثر قائم ہوکہ ...