وجود

... loading ...

وجود

لیڈراور کباڑیا

هفته 24 ستمبر 2016 لیڈراور کباڑیا

pervez-musharraf

ایران میں جب شاہ ایران کے خلاف عوامی انقلاب نے سر اٹھایا اور اسے ایران سے فرار ہونا پڑاتواس وقت تہران میں موجود سوویت یونین کے سفارتخانے میں اعلی سفارتکار کے کور میں تعینات روسی انٹیلی جنس ایجنسی کے اسٹیشن ماسٹر جنرل شبارچین کو اچانک ماسکو بلایا گیا۔ کے جی بی کے سابق سربراہ یوری اندرے پوف صدر چرننکو کی موت کے بعد سوویت یونین کے صدر بن چکے تھے۔ جنرل شبارچین نے ایرانی انقلاب کے حوالے سے اپنے صدر کو جو رپورٹ پیش کی اس کے مطابق شاہ ایران امریکا کی مدد سے سابق وزیر اعظم مصدق کی طرح اس ایرانی انقلاب کوبھی ٹھکانے لگا دے گا۔ صدر یوری اندرے پوف جسے بہت ہی کم مسکراتے ہوئے دیکھا گیا تھا اچانک شبارچین کی جانب دیکھ کر مسکراتا ہے اور اسے کاندھے سے پکڑ کر میٹنگ روم کی اس کھڑکی کی جانب لے آتا ہے جس سے باہر برف باری کا منظر آسانی سے دیکھا جاسکتا تھا۔ شبارچین کے کان کے قریب منہ لاکر اندرے پوف سرگوشی کرتا ہے ’’ شاہ ایران اس مرتبہ ناکام ہوگا، انقلابی بیس برس سے زائد تک ایران پر پوری طرح چھائے رہیں گے، تم خمینی سے ملاقات کی کوشش کرو اور سوویت یونین کی جانب سے نیک تمنا ؤں کا پیغام پہنچاؤ‘‘۔ جنرل شبارچین کے مطابق وہ حیرت سے اندرے پوف کا چہرہ دیکھنے لگا کیونکہ اسے اس وقت تہران میں انقلابی استحکام پاتے نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ واپس تہران پہنچتا ہے اورعلامہ خمینی سے ملاقات میں سوویت حکومت کی جانب سے نیک تمناؤں کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اس دور میں سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوچکی تھیں اور علامہ خمینی نے اس ملاقات میں سوویت یونین کی جانب سے افغانستان میں مداخلت کا شکوہ کرتے ہوئے انتباہ کیا تھا کہ اگر سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجی مداخلت کی غلطی کا جلد ازالہ نہ کیا تو وہ اپنا وجود کھو دے گا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد روسی انٹیلی جنس کے اس سابق آفیسرجنرل شبارچین نے اپنی یادداشتوں میں ان دونوں عالمی رہنماؤں کی پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے جو اپنے اپنے وقت میں من وعن صحیح ثابت ہوئیں۔ اندرے پوف کی پیشگوئی کے مطابق ایران میں انقلاب نے بیس برس تک پورے زور شور سے اپنی جگہ بنائے رکھی اور بیس برس بعد صدر خاتمی کے دور میں پہلی مرتبہ اصلاحات کا نام سنا گیا تو دوسری جانب علامہ خمینی کی پیش گوئی کے مطابق سوویت یونین افغانستان میں عسکری مداخلت کی بنا پر اپنا وجود کھو بیٹھا۔ ۔ ۔ یہ لیڈر شپ ہی تھی جس نے بکھرے عوام کو ایک قوم بنا دیا۔ جنرل شبارچین کی یادداشتیں جدید روسی ’’عسکری ادب‘‘ میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔

گزشتہ صدی میں ستر کی دہائی تک سیاسی نظریات کی بنا پر اختلافات سے قطع نظر دنیا میں ایسے حکمران موجود تھے جو بصارت کے ساتھ بصیرت سے بھی بہرہ مند تھے۔ تاریخ کے مطالعہ اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے کی وجہ سے وہ اس قابل تھے کہ بدلتے حالات کے تناظر میں عالمی تبدیلوں کا رخ متعین کرسکیں۔ ستر کی دہائی کا اختتام دنیا بھر میں بڑے بڑے واقعات کے رونما ہونے کے ساتھ ہوا۔ اسی دوران میں سوویت یونین نے افغانستان کا رخ کیا تھا۔ ایران میں انقلاب نے راہ بنائی تھی، پاکستان میں بھٹو کو پس زنداں بھیج کر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ سارا مشرق وسطی افغانستان میں سوویت یونین کی آمد کی بنا پر لرزہ براندام تھا۔ بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے لیڈروں کی نسل تیزی کے ساتھ تاریخ کا حصہ بن رہی تھی۔ ان کی جگہ لینے والے ’’رہنما ؤں‘‘ کی اپنی یہ حالت تھی کہ قوم کی رہنمائی کرنے کے بجائے انہیں خود رہنمائی کی ضرورت تھی۔ بین الاقوامی سطح پرعالمی صہیونیت پر اتھارٹی رکھنے والے عین الشمس یونیورسٹی قاہرہ کے شعبہ انگریزی ادب کے سربراہ ڈاکٹر عبدالوہاب المسیری ؒ اپنی تحقیق میں بیان کرتے ہیں کہ اکیسویں صدی کا آغاز مسلم دنیا میں رہنماؤں کے بغیر ہوا ہے۔ اسلامی دنیا کا کوئی شعبہ مکمل نہیں ہے۔ مغرب کی صہیونی اتھارٹی نے اسے فکر، سیاست، نظام تعلیم، تاریخ، جغرافیہ اور اقتصادیات کے موضوعات پربانجھ بنانے میں گزشتہ نصف صدی میں زور وشور سے کام کیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالوہاب المسیری ؒ کی اس سوچ کا موازنہ صرف وطن عزیز کی صورتحال سے کیا جائے تو صرف تعلیم کے شعبے میں جو کچھ اب تک ہوا ہے وہ خون کے آنسو رلاتا ہے۔ ایک نظریاتی ملک کا نظام تعلیم کیا اس طرح کا ہوا کرتا ہے؟ بھانت بھانت کے’’ نظام تعلیم‘‘ ایک ہی علاقے میں نظر آتے ہیں۔ یہاں نااہل سیاستدانوں اورآمروں نے ایسا کوئی نظام تعلیم پنپنے ہی نہیں دیا جو آگے چل کرایک اچھی اور نظریاتی قیادت مہیا کرتا۔ قائد اعظمؒ اور اقبالؒ کا پاکستان ایک نظریاتی نظام تعلیم کے بغیر ادھورا ہے اور نظریاتی نظام تعلیم کے بغیر لیڈر شپ کی امید عبث ہے۔

اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ سابق آمر مشرف آجکل پاکستان میں کسی ’’سیاسی جھونپڑے‘‘ کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے لیکن اس کے سابقہ لبرل اتحادی بھی اسے اپنی جماعت میں ’’سیاسی پناہ‘‘ دینے کے لئے تیار نہیں۔ موصوف اپنے زمانہ حکومت میں خود کو’’ لیڈر‘‘ کہا کرتے تھے۔ لیکن لیڈر قسم کی کوئی خو موصوف میں دور دور تک نہیں پائی جاتی تھی بعد میں یہ ثابت بھی ہوگیا کہ اس کی نام نہاد لیڈری کے غبارے میں صرف فوج کے نام کی ہوا بھری ہوئی تھی جیسے ہی یہ ہوا نکلی موصوف کسی بے ہوا غبارے کی طرح زمین سے آلگے۔ ماضی قریب میں کراچی کے ایک ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صحافیوں کے سخت سوالات کا جواب دے رہے تھے اور انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ دنیا میں اب تک جتنے بھی کامیاب لیڈرگزرے ہیں وہ تمام کے تمام سابق جرنیل تھے۔ اس سلسلے میں موصوف نے فرانسیسی لیڈر جنرل ڈیگال اور امریکی صدر آئزن ہاور کا حوالہ بھی دیا تھا۔ حوالے کی حد تک بات سمجھ میں آتی ہے لیکن چونکہ موصوف بغیر تاریخ کے مطالعے کے ہی لیڈر بننے کے خبط میں مبتلا ہیں اس لئے ان دونوں عالمی شخصیات کے پس منظر سے ناواقف ہیں۔ یہ دونوں افراد پیشے کے لحاظ سے تھے تو جرنیل لیکن علم اور مطالعے کے لحاظ سے بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور معاشرے میں تہذیب اور عمرانی تغیرات کا انہیں پوری طرح ادراک تھا۔ اسی لئے جب الجزائر کے انقلاب کے دوران میں پال سارترسمیت کچھ فرانسیسی مصنفین فرانسیسی پالیسیوں پر تنقید کررہے تھے تو چارلس ڈیگال کے مشیروں نے انہیں پس زنداں ڈالنے کا مشورہ دیا جس پر ڈیگال کا جواب تھا ’’کیا میں فرانس کی ثقافت کو قید کردوں؟‘‘ لیڈر اس قسم کے ہوتے ہیں ، لیڈر اور کباڑیے میں یہ فرق ہے کہ لیڈر قوم کے بگڑے معاملات کو سنوارتا ہے اور کباڑیا بنی بنائی قوم کا بیڑا غرق کردیتا ہے۔ مشرف صاحب لیڈر تو البتہ نہیں تھے لیکن کباڑیے ضرور تھے کیونکہ امریکی غلامی میں انہوں نے ملک اور قوم کا جو کباڑا کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ ان ہی کی ’’حکمت آفرینی ‘‘ کا نتیجہ ہے کہ این آر او کی شکل میں قوم کو زرداری گروپ کا ’’کھال اتارو‘‘ دور دیکھنا نصیب ہوا، پھر نون لیگ کی شکل میں سیاسی آمریت عوام کے گلے پڑی جو سرے سے عوام کے سامنے شریف خاندان کو جوابدہ ہی نہیں سمجھتی۔ رطوبتی علاقے میں پہاڑی پھل کا بیج کبھی بارآور ثابت نہیں ہوتا۔ ایک مشرقی اسلامی نظریاتی ملک میں جب مغربی فکر اور نظام تعلیم رائج کرنے کی کوشش کی جائے گی تو وہاں رہنماؤں کی وہی فصل سر اٹھائے گی جو دکان پاکستان میں کھولیں گے لیکن مال مغرب میں جمع کریں گے ملک کا چاہے کباڑا ہوجائے۔


متعلقہ خبریں


دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو وجود - پیر 06 فروری 2023

جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم وجود - پیر 30 مئی 2022

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم

کابل سے القدس تک محمد انیس الرحمٰن - پیر 03 اکتوبر 2016

سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...

کابل سے القدس تک

پاکستانی دینی جماعتیں عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں محمد انیس الرحمٰن - جمعرات 29 ستمبر 2016

عالم عرب میں جب ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عالمی صہیونی استعماریت نے نیا سیاسی کھیل شروع کیا تو اسی وقت بہت سی چیزیں عیاں ہوگئی تھیں کہ اس کھیل کو شروع کرنے کا مقصد کیا ہے اور کیوں اسے شروع کیا گیا ہے۔جس وقت تیونس سے اٹھنے والی تبدیلی کی ہوا نے شمالی افریقہ کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کا ...

پاکستانی دینی جماعتیں عالم عرب کی ’’عرب بہار‘‘ سے سبق حاصل کریں

کسنجر کا خواب اور نئی عالمی’’دجالی تقسیم‘‘ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 18 ستمبر 2016

جن دنوں امریکامیں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت مسلم دنیا میں کوئی ادارہ یا شخصیت ایسی نہ تھی جو اس واقعے کے دور رس عواقب پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کرکے اسلامی دنیا کو آنے والی خطرات سے آگاہ کرسکتی۔مغرب کے صہیونی میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے منفی پروپیگنڈے کی وہ دھول ا...

کسنجر کا خواب اور نئی عالمی’’دجالی تقسیم‘‘

لال مسجد مقدمے میں جنرل (ر) مشرف اشتہاری قرار وجود - اتوار 18 ستمبر 2016

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو عدالت نے اشتہاری قرار دے کر اُن کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سیشن کورٹ نے لال مسجدمقدمے میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ملزم کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے پرویز...

لال مسجد مقدمے میں جنرل (ر) مشرف اشتہاری قرار

افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری بے دخلی بھارت کے لیے خوش خبری محمد انیس الرحمٰن - هفته 03 ستمبر 2016

دنیا کی معلوم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے جب کبھی کسی قوم پر احتساب کی تلوار لٹکائی تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا گیا۔قران کریم نے بھی چند مثالوں کے ذریعے عالم انسانیت کو اس طریقہ احتساب سے خبردار کیا ہے جس میں سب سے واضح مثال یمن کے ’’سد مارب‘‘ کی تباہی ہے۔ ...

افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری بے دخلی بھارت کے لیے خوش خبری

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات محمد انیس الرحمٰن - منگل 16 اگست 2016

ترکی کے صدر طیب اردگان نے گزشتہ دنوں امریکی سینٹرل کمانڈ کے چیف جنرل جوزف ووٹیل پر ناکام بغاوت میں ملوث افراد کی معاونت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل جوزف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ترکی میں بغاوت میں ملوث سینکڑوں ترک...

ترکی میں ناکام انقلاب : امریکا اور روس میں براہ راست ٹکراؤ کے امکانات

مدینہ منورہ میں خودکش حملہ: مقامات مقدسہ کو نشانا بنانے کا منصوبہ نیا نہیں محمد انیس الرحمٰن - جمعه 22 جولائی 2016

گزشتہ دنوں مسجد نبوی شریف کی پارکنگ میں خودکش دھماکے نے پوری اسلامی د نیا کو بنیادوں سے ہلا کر رکھا دیا اور شام اور عراق میں پھیلی ہوئی جنگی صورتحال پہلی مرتبہ ان مقدس مقامات تک دراز ہوتی محسوس ہوئی۔ جس نے اسلامی دنیا کو غم غصے کی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ ...

مدینہ منورہ میں خودکش حملہ: مقامات مقدسہ کو نشانا بنانے کا منصوبہ نیا نہیں

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش محمد انیس الرحمٰن - بدھ 13 جولائی 2016

امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 26 جون 2016

گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟ محمد انیس الرحمٰن - جمعه 17 جون 2016

خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر