وجود

... loading ...

وجود

’’حب بلوچ‘‘ نہیں ’’بغض پاکستان‘‘ ہے

جمعه 23 ستمبر 2016 ’’حب بلوچ‘‘ نہیں ’’بغض پاکستان‘‘ ہے

balochistan

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا پر ہے ۔بھارت اس کشیدگی میں مزید اضافے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ کسی تصادم سے بھی گریز نہ کرے ۔چنانچہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اندر کے مسائل و تنازعات کے فوری حل پر تو جہ دے ۔بلوچستان کا مسئلہ بھی حل طلب ہے ۔ یہ سوچنا ہو گا کہ ان نا مساعد حالات سے کیسے نکلا جائے ۔ تاخیری حربے اور پسند و نا پسند کا رویہ ملک کے لئے ضرر رساں ہو سکتا ہے ۔

براہمداغ بگٹی نے سوئٹزرلینڈ کی جانب سے سیاسی پناہ نہ ملنے کے بعد بھارت سے پناہ دینے کا مطالبہ کردیا۔ براہمداغ بگٹی کا بھارت میں سکونت اختیار کرنا بہر حال پاکستان کے حق میں بہتر نہیں۔شنیدہے کہ (پیر19ستمبر2016) کو براہمداغ بگٹی سیاسی پناہ کے لئے جنیوا میں بھارتی مشن کو باقاعدہ درخواست دے چکے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں براہمداغ بگٹی عارضی پناہ لیے ہوئے ہیں ۔ ان کی شہریت کی ایک درخواست مسترد ہوچکی ہے۔ وہ اپیل دائر کرچکے ہیں تاہم براہمداغ اپیل مسترد ہونے کے خدشے کے پیش نظر بھارتی حکومت سے رابطہ قائم کرچکے ہیں۔جبکہ بھارت شہریت دینے کے لئے تیار ہے ۔ بھارت بلوچستان کے مسئلے کو ڈھال کے طور پر اٹھانا چاہتا ہے اور پہلی بار اقوام متحدہ میں بلوچستان کا مسئلہ ا ٹھایا کہ پاکستان اس صوبے (بلوچستان) میں انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کے33ویں سیشن کے دوران اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر اور مستقل نمائندے اجیت کمار مؤقف اختیار کر چکے ہیں کہ’’ کشمیر میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ پاکستان ہے‘‘۔ سفیر کا کہنا تھا کہ’’ پرامن اور جمہوری معاشرے کے طور پر ہندوستان کی ساکھ سب اچھی طرح جانتے ہیں اور پاکستان کی شناخت آمریت، غیر جمہوری اور بلوچستان کے ساتھ اپنے ہی ملک میں وسیع انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ملک کی ہے جس نے بلوچستان اور پاکستان کے کشمیر میں اپنے شہریوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں‘‘۔ بھارت محض اس پر اکتفا نہیں کرے گا وہ حتی الوسع بلوچستان کے مسئلے کو ابھارنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اس مقصد کیلئے وہ ابلاغ کے تمام موثر ذرائع کا استعمال بھی یقینی بنائے گا۔ جیسا کہ کارگل کی جنگ میں ایک خطیر رقم عالمی سطح پر پروپیگنڈے پر خرچ کرچکا ہے حتیٰ کہ عرب ممالک میں بھی ثقافتی طائفوں کے شوز منعقد کرائے اور کارگل کی جنگ میں ہلاک ہونیوالے فوجیوں کے لواحقین کیلئے رقم جمع کی گئی۔ افغانستان میں بیٹھ کر بھارت یہ کھیل ماضی کی نسبت زیادہ آسانی سے کھیلنے پر قدرت حاصل کرچکا ہے ۔

آل انڈیا ریڈیو نے 16ستمبر کو بلوچی ملٹی میڈیا ویب سائٹس اور ایک موبائل ایپ لانچ کرنے کا اعلان کیا۔ اس ویب سائٹ کے ذریعے دنیا بھر میں لوگ یہ پروگرام سن سکیں گے۔ اگرچہ یہ معیوب نہیں ۔ مگر یہاں نیت کچھ اور ہے ،یعنی’’ حب بلوچ‘‘ کے بجائے ’’ بغض پاکستان‘‘ میں ان نشریات پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ بھارت کی جانب سے یقینی طور پر آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے پاکستان کے اندرونی معاملات پر پروگرام ہوں گے اور بلوچستان کے مسئلے کو اُچھالا جائیگا۔ نریندر مودی نے5 1اگست کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر برملا بات محض جذبات میں آکر نہیں کی تھی ۔ بلکہ بلوچستان کا تذکرہ بھارتی آزادی کے دن ان کی تقریر کا حصہ تھا۔ گو یا ایسا اعلیٰ سطح کی سوچ بچار کے بعد کیاگیا ۔ سو اب بلوچی ویب سائٹ کو جاندار طریقے سے پیش کیا جائیگا۔ادھر پاکستان ایک واضح پالیسی اور حکمت عملی اپنانے میں ہنوز ناکام ہے۔ دہشتگردی پر قابو کا واویلا کیا تو جا رہا ہے مگر عملی میدان میں نتیجہ خاطر خواہ نہیں ہے۔ بھارت افغانستان کے طلباء کو اپنے ملک میں حصول تعلیم کیلئے وظائف کی پالیسی پر گامزن ہے بلکہ سننے میں آرہا ہے کہ وہ افغان طلباء جو دینی تعلیم کے حصول کے خواہشمند ہیں کو بھارت کی معروف دینی درسگاہوں میں داخلے دلواچکا ہے اور ہم دینی مدارس کی بندش کی پالیسیوں پر غور کررہے ہیں۔ بلوچ سخت گیر سوچ کے حامل رہنماؤں سے بات چیت کے بجائے توپ و تفنگ کی بات کرتے ہیں ۔ حکومت سردار اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل کو سیاسی و قو می دھارے میں نہ لا سکی اور خان آف قلات میر سلیمان داؤد کو منانے میں بھی ناکام رہی ہے ۔ البتہ ان کے بیٹے ’’پرنس محمد ‘‘کو قومی ایام کی تقاریب میں بٹھا کر گویا فتح و کامیابی باور کرانے کی بے مقصد مشق کی جاتی رہی ہے ۔زیارت ریذیڈنسی میں خان قلات کے بیٹے کو تقریبات میں شریک کرایا گیا۔ یوں ریزیڈنسی شدت پسندوں کی نگاہ میں آگئی اور ایک دن (15جون2013) رات کے اندھیرے میں بم دھماکوں سے ریزیڈنسی پوری کی پوری تباہ کردی گئی اور اب زیارت جیسے پرامن علاقے میں بھی جگہ جگہ فورسز تعینات ہیں ۔ریزیڈنسی کا انتظام و انصرام ہر لحاظ سے فرنٹیئر کور کے ہاتھ میں ہے۔ عارضی نوعیت کے اقدامات اُٹھاکر وقت کا ضیاع کیا جارہا ہے ۔ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بلوچستان کو سنگین کے ذریعے ہی چلایا جائیگا۔ سوا ل یہ ہے کہ شدت پسند بلوچ رہنما برسوں سے دیگر ملکوں میں پناہ لیے اب تک کیوں بیٹھے ہیں؟ ان سے اب تک درست سمت میں بات چیت کا آغاز کیوں نہیں کیا جاسکا ہے؟ ظاہر ہے کوئی ہے جو یہ چاہتا ہی نہیں کہ یہ لوگ پھر سے پاکستان آئیں اور قومی و ملکی معاملات و سیاست میں شریک ہوں۔

برہمداغ بگٹی کا بھارت میں پناہ گزین ہونا دراصل پاکستان کیلئے شرم کا مقام ہے ۔ اور یہ پاکستان اور یہاں کے پالیسی سازوں کی ناکامی ہے کہ ان کے ملک کے ایک معروف قبائلی و سیاسی خانوادے کا ایک اہم فرد، بدترین دشمن ملک کی شہریت لینے جارہا ہے ۔نواب اکبر خان بگٹی پاکستان مخالف تھے اور نہ ان خیالات کی شہرت رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کے ایک قدآور قومی رہنماتھے۔ اصول کے پکے اور ہمیشہ سچ بولنے والے بزرگ تھے۔ ان کے ساتھ پرویزی آمریت میں اچھا سلوک نہ کیا گیا۔ نواب اکبر خان بگٹی سے چند غلطیاں ضرور سرزد ہوئیں ،لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ انہیں پوری طرح دیوار سے لگایا جائے اور مسلسل تعاقب کیا جا ئے ۔نواب بگٹی نے بات چیت کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے تو سوئی ایئر پورٹ پر خصوصی طیارے کا گھنٹوں انتظار کیا۔ یہ سچ تو مشاہد حسین سید اور چوہدری شجاعت حسین کو بولنا چاہیے کہ جب نواب بگٹی کو مذاکرات اور بات چیت کیلئے طلب کیا گیا تو پھرمقتدر لوگ مکر کیوں گئے؟ کیوں طیارہ نہ بھیجا گیا؟ نواب بگٹی کی شخصیت اور حیثیت پرویز مشرف سے ہر لحاظ سے بڑی تھی۔ ایک چھوٹے شخص کے پاس طاقت اور اقتدار تھا جس نے بڑے شخص کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ میں پوری بصیرت کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی سے کسی شخص یا گروہ کے مفاد کی بجائے ملک و قوم کے مفاد کے پیش نظر مذاکرات ہوں تو وہ پاکستان آنے میں ایک دن کی دیر نہیں کریں گے ۔ اگرکوئی کہتا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں اور صوبے میں امن قائم ہوگیا ہے تو میرا یہ کہنا ہے کہ بلوچستان میں آج بھی خوف اور دہشت گردی کی فضاقائم ہے۔ اور ہاں نوابزادہ براہمداغ بگٹی او ر دوسرے بلوچ رہنماؤں کے لیے بھی یہ لمحہ گہری سوچ بچار اور خرد مندی کا ہے۔ بلوچ رہنما بھارتی شہریت اور پناہ کے فریب سے اپنا دامن بچا کے رکھیں ۔ مستقبل کے راستوں کا کھلا رہنا ان رہنماؤں کے لیے بھی بہتر ہو گا ۔کیو نکہ بھارت اس ظاہری فراخ دلی کا مظاہرہ فی الحقیقت ضدپاکستان میں کر رہا ہے ۔البتہ حیر بیار مری اس سلسلہ جنبانی کی نمائش کی سنگینی کا ادراک کر چکے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


امریکا بھارت گٹھ جوڑ جلال نورزئی - منگل 13 ستمبر 2016

چین پاکستان اقتصادی راہداری ہر لحاظ سے ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ ہے۔ دونوں ممالک یعنی چین اور پاکستان سنجیدہ ہیں اور سرعت کے ساتھ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پاک آرمی پوری طرح اس پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور یقینا اس بات کی ضرورت بھی ہے۔ فوج اور تحفظ کے ا دارے فعال نہ ہوں تو منفی ق...

امریکا بھارت گٹھ جوڑ

باب دوستی پرنا مناسب احتجاج جلال نورزئی - هفته 03 ستمبر 2016

پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان تمام تر رنجشوں کے باوجود ایثار اور محبت کا رشتہ ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگر چہ غنیم یہی چاہتا ہے ۔ یہ والہانہ تعلق صدیوں پر مشتمل ہے۔ برصغیر پر انگریز راج کے بعد بالخصوص برطانوی ہند کے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ افغان امراء کا انس و قربت کا کوئ...

باب دوستی پرنا مناسب احتجاج

قومی ہم آہنگی اور یہ تبریٰ بازی جلال نورزئی - منگل 16 اگست 2016

قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار ع...

قومی ہم آہنگی اور یہ تبریٰ بازی

قومی ’’ہیروز ‘‘ کی بے قدری جلال نورزئی - اتوار 14 اگست 2016

کوئٹہ کے نوجوان باکسر محمد وسیم نے ورکنگ باکسنگ کونسل انٹرنیشنل سلور فلائی ویٹ ٹائٹل جیت کر عالمی شہرت حاصل کرلی۔ یہ مقابلہ جنوبی کوریا کے شہر سیؤل میں ہوا۔ مد مقابل فلپائن کا باکسر’’ جیتھر اولیوا‘‘ تھا جس کو آسانی سے مات دیدی گئی۔ محمد وسیم یہ ٹائٹل جیتنے والا پہلا پاکستانی باکس...

قومی ’’ہیروز ‘‘ کی بے قدری

سانحہ کو ئٹہ: دہشت گردوں کا سفاکانہ وار جلال نورزئی - جمعه 12 اگست 2016

8 اگست 2016 کا دن کوئٹہ کے لئے خون آلود ثابت ہوا۔ ظالموں نے ستر سے زائد افراد کا ناحق خون کیا ۔یہ حملہ در اصل ایک طویل منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا جس میں وکیلوں کو ایک بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتارنا تھا ۔یو ں دہشت گرد اپنے غیر اسلامی و غیر انسانی سیاہ عمل میں کامیاب ہو گئے۔ اس ...

سانحہ کو ئٹہ: دہشت گردوں کا سفاکانہ وار

یہ طرز عمل درست نہیں ! جلال نورزئی - هفته 30 جولائی 2016

ملک میں جمہوریت یرغمال ہے۔ بلوچستان کے اندر سرے سے منظر نامہ ہی الگ ہے۔ جمہوریت کا ورد کر کے حکمران اتحادی جماعتیں قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہیں۔سوچ سمجھ کر خطرناک کھیل کا حصہ بنی ہیں۔ جب حاکم اندھے، گونگے اور بہروں کی مثال بنیں تو لا محالہ تشہیر کسی کی ہی ہو گی۔ بالخصوص پشت...

یہ طرز عمل درست نہیں !

محمود خان اچکزئی، خیبر پشتونخوا اور افغانستان جلال نورزئی - هفته 23 جولائی 2016

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جون کے مہینے کے آخری عشرے میں ایک غیر ملکی ریڈیو (مشال) کو انٹرویو میں کہا کہ’’ خیبر پشتونخوا تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان کڈوال (مہاجرین )سے پنجابی، سرائیکی، سندھی یا بلوچ تنگ ہیں تو انہیں پشتونخوا وطن کی طرف بھی...

محمود خان اچکزئی، خیبر پشتونخوا اور افغانستان

وزیر اعلیٰ کا دورہ چین اور بلوچستان کا مستقبل جلال نورزئی - هفته 07 مئی 2016

وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے23سے29اپریل تک چین کا دورہ کیا۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال وفد کے قائد تھے۔ سینیٹر آغا شہباز درانی، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی، بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ کے وائس چیئرمین خواجہ ہمایوں نظامی اور وفاقی سیکرٹری مواص...

وزیر اعلیٰ کا دورہ چین اور بلوچستان کا مستقبل

پاناما پیپرز کی بازگشت میں فوجی افسران کا احتساب! جلال نورزئی - منگل 26 اپریل 2016

افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے گیارہ اعلیٰ افسران کو بد عنوانی ثابت ہونے کے بعد ملازمتوں سے برطرف کر دیا۔یہ افسران مزید صرف میڈیکل اور پنشن کی مراعات سے مستفید ہو سکیں گے۔ باقی تمام مراعات سزا کے طور پر لے لی گئی ہیں۔فوج کے افسران کے خلاف کارروائی یقینا ایک قوم...

پاناما پیپرز کی بازگشت میں فوجی افسران کا احتساب!

عشرہ کلبھوشن اور چند سرسری باتیں جلال نورزئی - هفته 09 اپریل 2016

ساٹھ اور ستر کی دہائی میں افغانستان میں پشتونستان تحریک کو سرکاری سرپرستی میں بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے۔ سال میں ایک دن ’’یوم پشتونستان‘‘ کے نام سے منایا جاتا۔ یہی عرصہ خیبر پشتونخوا(صوبہ سرحد) اور بلوچستان میں تخریب اور شرپسندی کا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کی بنیاد پر ایک خفیہ تحریک ...

عشرہ کلبھوشن اور چند سرسری باتیں

بھارت کے چہرے سے پردہ سرک گیا جلال نورزئی - بدھ 30 مارچ 2016

یوم پاکستان اس بار بھی بھر پور طریقے سے منایا گیا۔اس دن گویا بلوچستان بھر میں فوج اور فرنٹیئر کور نے تقریبات کا اہتمام کیا۔ صوبائی دار الحکومت کوئٹہ دن بھر پاکستان زندہ بادکے ملی نغموں سے گونجتا رہا۔ وادی زیارت کی قائداعظم ریزیڈنسی میں فوج اور حکومت نے پرچم کشائی کی تقریب منعقد ک...

بھارت کے چہرے سے پردہ سرک گیا

ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ کی دوسری زقند جلال نورزئی - هفته 12 مارچ 2016

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بلوچستان کے بزرگ قوم پرست سیاسی رہنما ہیں۔ زمانہ طالبعلمی سے قوم پرست سیاست سے وابستہ ہیں۔ ان کا شمار صوبے کے ان سیاسی قائدین میں ہوتا ہے کہ جن کی جدوجہد کا ایک مقصد معاشرتی و سیاسی فضاء کی ہمواری ہے جو سرداری اور نوابی کے اثرات سے پاک ہو۔ بہرحال ڈاکٹر عبدالحئ...

ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ کی دوسری زقند

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر