... loading ...
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنی انتہا پر ہے ۔بھارت اس کشیدگی میں مزید اضافے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ممکن ہے کہ وہ کسی تصادم سے بھی گریز نہ کرے ۔چنانچہ ضروری ہے کہ پاکستان اپنے اندر کے مسائل و تنازعات کے فوری حل پر تو جہ دے ۔بلوچستان کا مسئلہ بھی حل طلب ہے ۔ یہ سوچنا ہو گا کہ ان نا مساعد حالات سے کیسے نکلا جائے ۔ تاخیری حربے اور پسند و نا پسند کا رویہ ملک کے لئے ضرر رساں ہو سکتا ہے ۔
براہمداغ بگٹی نے سوئٹزرلینڈ کی جانب سے سیاسی پناہ نہ ملنے کے بعد بھارت سے پناہ دینے کا مطالبہ کردیا۔ براہمداغ بگٹی کا بھارت میں سکونت اختیار کرنا بہر حال پاکستان کے حق میں بہتر نہیں۔شنیدہے کہ (پیر19ستمبر2016) کو براہمداغ بگٹی سیاسی پناہ کے لئے جنیوا میں بھارتی مشن کو باقاعدہ درخواست دے چکے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں براہمداغ بگٹی عارضی پناہ لیے ہوئے ہیں ۔ ان کی شہریت کی ایک درخواست مسترد ہوچکی ہے۔ وہ اپیل دائر کرچکے ہیں تاہم براہمداغ اپیل مسترد ہونے کے خدشے کے پیش نظر بھارتی حکومت سے رابطہ قائم کرچکے ہیں۔جبکہ بھارت شہریت دینے کے لئے تیار ہے ۔ بھارت بلوچستان کے مسئلے کو ڈھال کے طور پر اٹھانا چاہتا ہے اور پہلی بار اقوام متحدہ میں بلوچستان کا مسئلہ ا ٹھایا کہ پاکستان اس صوبے (بلوچستان) میں انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کے33ویں سیشن کے دوران اقوام متحدہ میں بھارت کے سفیر اور مستقل نمائندے اجیت کمار مؤقف اختیار کر چکے ہیں کہ’’ کشمیر میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ پاکستان ہے‘‘۔ سفیر کا کہنا تھا کہ’’ پرامن اور جمہوری معاشرے کے طور پر ہندوستان کی ساکھ سب اچھی طرح جانتے ہیں اور پاکستان کی شناخت آمریت، غیر جمہوری اور بلوچستان کے ساتھ اپنے ہی ملک میں وسیع انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ملک کی ہے جس نے بلوچستان اور پاکستان کے کشمیر میں اپنے شہریوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں‘‘۔ بھارت محض اس پر اکتفا نہیں کرے گا وہ حتی الوسع بلوچستان کے مسئلے کو ابھارنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اس مقصد کیلئے وہ ابلاغ کے تمام موثر ذرائع کا استعمال بھی یقینی بنائے گا۔ جیسا کہ کارگل کی جنگ میں ایک خطیر رقم عالمی سطح پر پروپیگنڈے پر خرچ کرچکا ہے حتیٰ کہ عرب ممالک میں بھی ثقافتی طائفوں کے شوز منعقد کرائے اور کارگل کی جنگ میں ہلاک ہونیوالے فوجیوں کے لواحقین کیلئے رقم جمع کی گئی۔ افغانستان میں بیٹھ کر بھارت یہ کھیل ماضی کی نسبت زیادہ آسانی سے کھیلنے پر قدرت حاصل کرچکا ہے ۔
آل انڈیا ریڈیو نے 16ستمبر کو بلوچی ملٹی میڈیا ویب سائٹس اور ایک موبائل ایپ لانچ کرنے کا اعلان کیا۔ اس ویب سائٹ کے ذریعے دنیا بھر میں لوگ یہ پروگرام سن سکیں گے۔ اگرچہ یہ معیوب نہیں ۔ مگر یہاں نیت کچھ اور ہے ،یعنی’’ حب بلوچ‘‘ کے بجائے ’’ بغض پاکستان‘‘ میں ان نشریات پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ بھارت کی جانب سے یقینی طور پر آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے پاکستان کے اندرونی معاملات پر پروگرام ہوں گے اور بلوچستان کے مسئلے کو اُچھالا جائیگا۔ نریندر مودی نے5 1اگست کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر برملا بات محض جذبات میں آکر نہیں کی تھی ۔ بلکہ بلوچستان کا تذکرہ بھارتی آزادی کے دن ان کی تقریر کا حصہ تھا۔ گو یا ایسا اعلیٰ سطح کی سوچ بچار کے بعد کیاگیا ۔ سو اب بلوچی ویب سائٹ کو جاندار طریقے سے پیش کیا جائیگا۔ادھر پاکستان ایک واضح پالیسی اور حکمت عملی اپنانے میں ہنوز ناکام ہے۔ دہشتگردی پر قابو کا واویلا کیا تو جا رہا ہے مگر عملی میدان میں نتیجہ خاطر خواہ نہیں ہے۔ بھارت افغانستان کے طلباء کو اپنے ملک میں حصول تعلیم کیلئے وظائف کی پالیسی پر گامزن ہے بلکہ سننے میں آرہا ہے کہ وہ افغان طلباء جو دینی تعلیم کے حصول کے خواہشمند ہیں کو بھارت کی معروف دینی درسگاہوں میں داخلے دلواچکا ہے اور ہم دینی مدارس کی بندش کی پالیسیوں پر غور کررہے ہیں۔ بلوچ سخت گیر سوچ کے حامل رہنماؤں سے بات چیت کے بجائے توپ و تفنگ کی بات کرتے ہیں ۔ حکومت سردار اختر مینگل کے بھائی جاوید مینگل کو سیاسی و قو می دھارے میں نہ لا سکی اور خان آف قلات میر سلیمان داؤد کو منانے میں بھی ناکام رہی ہے ۔ البتہ ان کے بیٹے ’’پرنس محمد ‘‘کو قومی ایام کی تقاریب میں بٹھا کر گویا فتح و کامیابی باور کرانے کی بے مقصد مشق کی جاتی رہی ہے ۔زیارت ریذیڈنسی میں خان قلات کے بیٹے کو تقریبات میں شریک کرایا گیا۔ یوں ریزیڈنسی شدت پسندوں کی نگاہ میں آگئی اور ایک دن (15جون2013) رات کے اندھیرے میں بم دھماکوں سے ریزیڈنسی پوری کی پوری تباہ کردی گئی اور اب زیارت جیسے پرامن علاقے میں بھی جگہ جگہ فورسز تعینات ہیں ۔ریزیڈنسی کا انتظام و انصرام ہر لحاظ سے فرنٹیئر کور کے ہاتھ میں ہے۔ عارضی نوعیت کے اقدامات اُٹھاکر وقت کا ضیاع کیا جارہا ہے ۔ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بلوچستان کو سنگین کے ذریعے ہی چلایا جائیگا۔ سوا ل یہ ہے کہ شدت پسند بلوچ رہنما برسوں سے دیگر ملکوں میں پناہ لیے اب تک کیوں بیٹھے ہیں؟ ان سے اب تک درست سمت میں بات چیت کا آغاز کیوں نہیں کیا جاسکا ہے؟ ظاہر ہے کوئی ہے جو یہ چاہتا ہی نہیں کہ یہ لوگ پھر سے پاکستان آئیں اور قومی و ملکی معاملات و سیاست میں شریک ہوں۔
برہمداغ بگٹی کا بھارت میں پناہ گزین ہونا دراصل پاکستان کیلئے شرم کا مقام ہے ۔ اور یہ پاکستان اور یہاں کے پالیسی سازوں کی ناکامی ہے کہ ان کے ملک کے ایک معروف قبائلی و سیاسی خانوادے کا ایک اہم فرد، بدترین دشمن ملک کی شہریت لینے جارہا ہے ۔نواب اکبر خان بگٹی پاکستان مخالف تھے اور نہ ان خیالات کی شہرت رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کے ایک قدآور قومی رہنماتھے۔ اصول کے پکے اور ہمیشہ سچ بولنے والے بزرگ تھے۔ ان کے ساتھ پرویزی آمریت میں اچھا سلوک نہ کیا گیا۔ نواب اکبر خان بگٹی سے چند غلطیاں ضرور سرزد ہوئیں ،لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ انہیں پوری طرح دیوار سے لگایا جائے اور مسلسل تعاقب کیا جا ئے ۔نواب بگٹی نے بات چیت کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا تھا ۔ انہوں نے تو سوئی ایئر پورٹ پر خصوصی طیارے کا گھنٹوں انتظار کیا۔ یہ سچ تو مشاہد حسین سید اور چوہدری شجاعت حسین کو بولنا چاہیے کہ جب نواب بگٹی کو مذاکرات اور بات چیت کیلئے طلب کیا گیا تو پھرمقتدر لوگ مکر کیوں گئے؟ کیوں طیارہ نہ بھیجا گیا؟ نواب بگٹی کی شخصیت اور حیثیت پرویز مشرف سے ہر لحاظ سے بڑی تھی۔ ایک چھوٹے شخص کے پاس طاقت اور اقتدار تھا جس نے بڑے شخص کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ میں پوری بصیرت کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی سے کسی شخص یا گروہ کے مفاد کی بجائے ملک و قوم کے مفاد کے پیش نظر مذاکرات ہوں تو وہ پاکستان آنے میں ایک دن کی دیر نہیں کریں گے ۔ اگرکوئی کہتا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں اور صوبے میں امن قائم ہوگیا ہے تو میرا یہ کہنا ہے کہ بلوچستان میں آج بھی خوف اور دہشت گردی کی فضاقائم ہے۔ اور ہاں نوابزادہ براہمداغ بگٹی او ر دوسرے بلوچ رہنماؤں کے لیے بھی یہ لمحہ گہری سوچ بچار اور خرد مندی کا ہے۔ بلوچ رہنما بھارتی شہریت اور پناہ کے فریب سے اپنا دامن بچا کے رکھیں ۔ مستقبل کے راستوں کا کھلا رہنا ان رہنماؤں کے لیے بھی بہتر ہو گا ۔کیو نکہ بھارت اس ظاہری فراخ دلی کا مظاہرہ فی الحقیقت ضدپاکستان میں کر رہا ہے ۔البتہ حیر بیار مری اس سلسلہ جنبانی کی نمائش کی سنگینی کا ادراک کر چکے ہیں ۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری ہر لحاظ سے ’’گیم چینجر‘‘ منصوبہ ہے۔ دونوں ممالک یعنی چین اور پاکستان سنجیدہ ہیں اور سرعت کے ساتھ ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ پاک آرمی پوری طرح اس پر نگاہ رکھی ہوئی ہے اور یقینا اس بات کی ضرورت بھی ہے۔ فوج اور تحفظ کے ا دارے فعال نہ ہوں تو منفی ق...
پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان تمام تر رنجشوں کے باوجود ایثار اور محبت کا رشتہ ختم نہیں کیا جاسکا ہے۔ اگر چہ غنیم یہی چاہتا ہے ۔ یہ والہانہ تعلق صدیوں پر مشتمل ہے۔ برصغیر پر انگریز راج کے بعد بالخصوص برطانوی ہند کے مسلمان رہنماؤں کے ساتھ افغان امراء کا انس و قربت کا کوئ...
قومی اسمبلی کے 9؍اگست کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی کی تقریر بہت ساروں پر بجلی بن کر گری ، برقی میڈیا پر محمود خان اچکزئی کی کچھ یوں گرفت ہوئی کہ جیسے سول ہسپتال جیسا ایک اور سانحہ رونما ہوا ہو۔اور تواتر کے ساتھ غداری کے فتوے آنے شرو ع ہو گئے۔ حالانکہ ملتے جلتے رد عمل کا اظہار ع...
کوئٹہ کے نوجوان باکسر محمد وسیم نے ورکنگ باکسنگ کونسل انٹرنیشنل سلور فلائی ویٹ ٹائٹل جیت کر عالمی شہرت حاصل کرلی۔ یہ مقابلہ جنوبی کوریا کے شہر سیؤل میں ہوا۔ مد مقابل فلپائن کا باکسر’’ جیتھر اولیوا‘‘ تھا جس کو آسانی سے مات دیدی گئی۔ محمد وسیم یہ ٹائٹل جیتنے والا پہلا پاکستانی باکس...
8 اگست 2016 کا دن کوئٹہ کے لئے خون آلود ثابت ہوا۔ ظالموں نے ستر سے زائد افراد کا ناحق خون کیا ۔یہ حملہ در اصل ایک طویل منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا جس میں وکیلوں کو ایک بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتارنا تھا ۔یو ں دہشت گرد اپنے غیر اسلامی و غیر انسانی سیاہ عمل میں کامیاب ہو گئے۔ اس ...
ملک میں جمہوریت یرغمال ہے۔ بلوچستان کے اندر سرے سے منظر نامہ ہی الگ ہے۔ جمہوریت کا ورد کر کے حکمران اتحادی جماعتیں قوم کے جذبات کو ٹھیس پہنچا رہی ہیں۔سوچ سمجھ کر خطرناک کھیل کا حصہ بنی ہیں۔ جب حاکم اندھے، گونگے اور بہروں کی مثال بنیں تو لا محالہ تشہیر کسی کی ہی ہو گی۔ بالخصوص پشت...
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے جون کے مہینے کے آخری عشرے میں ایک غیر ملکی ریڈیو (مشال) کو انٹرویو میں کہا کہ’’ خیبر پشتونخوا تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ ہے۔ افغان کڈوال (مہاجرین )سے پنجابی، سرائیکی، سندھی یا بلوچ تنگ ہیں تو انہیں پشتونخوا وطن کی طرف بھی...
وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اﷲ زہری نے23سے29اپریل تک چین کا دورہ کیا۔ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال وفد کے قائد تھے۔ سینیٹر آغا شہباز درانی، چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی دوستین جمالدینی، بلوچستان بورڈ آف انوسٹمنٹ کے وائس چیئرمین خواجہ ہمایوں نظامی اور وفاقی سیکرٹری مواص...
افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوج کے گیارہ اعلیٰ افسران کو بد عنوانی ثابت ہونے کے بعد ملازمتوں سے برطرف کر دیا۔یہ افسران مزید صرف میڈیکل اور پنشن کی مراعات سے مستفید ہو سکیں گے۔ باقی تمام مراعات سزا کے طور پر لے لی گئی ہیں۔فوج کے افسران کے خلاف کارروائی یقینا ایک قوم...
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں افغانستان میں پشتونستان تحریک کو سرکاری سرپرستی میں بڑھاوا دیا جاتا رہا ہے۔ سال میں ایک دن ’’یوم پشتونستان‘‘ کے نام سے منایا جاتا۔ یہی عرصہ خیبر پشتونخوا(صوبہ سرحد) اور بلوچستان میں تخریب اور شرپسندی کا تھا۔ پاکستان سے علیحدگی کی بنیاد پر ایک خفیہ تحریک ...
یوم پاکستان اس بار بھی بھر پور طریقے سے منایا گیا۔اس دن گویا بلوچستان بھر میں فوج اور فرنٹیئر کور نے تقریبات کا اہتمام کیا۔ صوبائی دار الحکومت کوئٹہ دن بھر پاکستان زندہ بادکے ملی نغموں سے گونجتا رہا۔ وادی زیارت کی قائداعظم ریزیڈنسی میں فوج اور حکومت نے پرچم کشائی کی تقریب منعقد ک...
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بلوچستان کے بزرگ قوم پرست سیاسی رہنما ہیں۔ زمانہ طالبعلمی سے قوم پرست سیاست سے وابستہ ہیں۔ ان کا شمار صوبے کے ان سیاسی قائدین میں ہوتا ہے کہ جن کی جدوجہد کا ایک مقصد معاشرتی و سیاسی فضاء کی ہمواری ہے جو سرداری اور نوابی کے اثرات سے پاک ہو۔ بہرحال ڈاکٹر عبدالحئ...