... loading ...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلانے کے لئے پی کے بڑے جتن کرتا ہے ، کھانے پینے کا انتظام ہو یا گھر کی چوکیداری پی کے ہوشیاری کے ساتھ معاملات نمٹاتا ہے ۔ کچھ چور پی کے بھائی کے گھر میں نقب لگانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کبھی دیوار کو سیندھ لگاتے ہیں تو کبھی کھڑکی توڑ نے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پی کے کی ہوشیاری ان کو اندر گھسنے نہیں دیتی۔پی کے بیٹے آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی ہیں ، پی کے کی بیوی کو اس سے بہت ساری شکایات ہیں، پی کے ان کے جھگڑے دور کرے کی کوشش کرتا ہے اور بیوی کی فرمائشیں پوری کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے ۔پی کے اپنے گھر کے مسائل سلجھانے میں اس قدرمصروف رہتا ہے کہ اسے پڑوسیوں کے معاملات میں دخل دینے کا وقت ہی نہیں ملتا، ویسے پی کے کوئی برا پڑوسی نہیں ہے۔ پی کے کی کوشش ہوتی ہے کہ پڑوسیوں کو شکایت کا موقع نہ ملے ، کبھی کبھی پی کے بھائی کے چھوٹے بچے اپنی گیند سےپڑوسیوں کی کسی کھڑکی کا شیشہ توڑ دیں تو پی کے فورا ً معذرت کر لیتا ہے اپنے بچوں کو ڈانتا بھی ہے۔
پی کے کا ایک پڑوسی ہے جس کا نام آئی این ہے۔ آئی این کی فیملی بڑی ہے اور اس کے کئی لڑکے شادی شدہ ہیں اور ایک بیوہ بیٹی بھی ساتھ رہتی ہے۔ آئی این کے گھر میں ہر وقت ہاہاکار مچی رہتی ہے ، کہیں لڑکے لڑ رہے ہیں تو کہیں لڑکیاں بین کر رہی ہیں، کہیں پوتے نواسے اٹھا پٹخ کر رہے ہیں ۔ لیکن آئی این کو اپنے گھر والوں کو سنبھالنے کی کوئی فکر نہیں اس کو تو گاؤں کی چوپال میں پنچایت لگا کر بیٹھنا پسند ہے۔ گاؤں کا چوہدری آئی این کو کچھ خاص توجہ تو نہیں دیتا لیکن چوہدری کی پرچون کی دُکان آئی کی بڑی فیملی کی وجہ سے خوب چلتی ہے اس لئے چوہدری آئی این کو گوارہ کر لیا کرتا ہے۔
آئی این ہمارے پی کے کا پڑوسی ہے دونوں کے گھروں کی دیوار ملی ہوئی ہے ، پی کے اچھا پڑوسی بننے کی پوری کوشش کرتا ہے ، آتے جاتے آئی این سے سلام دعا کرنانہیں بھولتا، گھر میں کوئی اچھی چیز پکے تو وہ بھی آئی این کے گھر بھجوائی جاتی ہے۔اس کے باوجود آئی این کو پی کے کا گھرانہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔اس کی کوشش ہوتی ہے کسی نہ کسی طرح پی کے کو تنگ کرتا رہے۔
کبھی آئی این کی بیوی گھر کا کوڑا کچرا پی کے بھائی کے گھر کے سامنے پھینک دیتی ہے تو کبھی آئی این کا کوئی لڑکا پی کے کی بکری کھول کر لے جاتا ہے۔ خود آئی این بھی موقع ملتے ہیں پی کے کی گھوڑا گاڑی کے پہیے کے پیچ کھول دیتا ہے۔ اس بار تو حد ہی ہوگئی آئی این نے پی کے بھائی کے دروازے کے آگے اپنی چارپائی بچھائی اور محلے کو کچھ آوارہ لڑکوں کولے کر وہاں بیٹھ گئے۔پی کے نے چائی پائی ہٹانے کے لئے کہا تو آئی این نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیں، بیچارہ پی کے بڑی مشکل سے کھڑکی کے راستے کود کر باہر نکلا اور آئی این سے کہا چارپائی ہٹاؤ میرے گھر کا راستہ رکا ہوا ہے۔ آئی این نے بجائےچارپائی ہٹانے کے جواب دیا کہ میرے مہمان بیٹھے ہیں میں کیسے چارپائی ہٹا دوں میری تو بے عزتی خراب ہو جائے گی۔
لڑائی سے دامن بچاتے ہوئے پی کے نے گاؤں کے چوہدری کا دروازہ کھٹکھٹایا ، چودھری کو روداد سنائی کہ کس طرح آئی این نے اس کے گھر کا راستہ بند کیا ہو ا ہے۔ چوہدری نے پہلے تو لیت و لعل سے کام لیا پھر پی کے بھائی کے اصرار پر اس کے ساتھ چل پڑا ۔چودھری پی کے بھائی کے گھر کے سامنے پہنچا جہاں دروازے کے سامنے چار پائی لگائے آئی این مزے سے اپنے حمایتیوں کے ساتھ بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ آئی این نے چودھری کا کھڑے ہو کر استقبال کیا، پھر بولا حضور آپ نے کیوں تکلیف کی مجھے بلا لیا ہوتا میں خود چل کر آپ کے پاس آجاتا اس پی کے نا حق آپ کو اتنی تکلیف دی ، یہ بندہ ہمیشہ دوسروں کو تکلیف دے کر خوش ہوتا ہے۔ آئی این نے چودھری کو چار پائی پر بٹھا دیا اس کے لئے حقہ تازہ کیا ، اپنے لڑکے سے حلوہ اور لسی لانے کا کہا، چوہدری بھی جم کر بیٹھ گیا ، حقہ پیتے ہوئے گپ شپ ہونے لگی اس دوران حلوہ بھی کھایا گیا اور لسی کے کئی گلاس بھی خالی کیے گئے ۔ پی کے نے کئی بار چودھری کی توجہ اس چارپائی کی جانب دلائی جس پر چودھری بمعہ آئی این اور دیگر براجمان تھے لیکن ہر بار حمایتیوں نے پی کے کو ٹوک دیا ، چوہدری کو حلوہ تو کھا لینے دو ، ارے چودھری صاحب کو لسی تو پی لینے دو ، ابھی چوہدری صاحب حقہ پی رہے ہیں ۔۔ پی کے صبر کرکے بیٹھ گیا ، ہاں جاتے ہوئے چودھری صاحب نے پی کے کو حکم دیاکہ آئی این کو تنگ نہ کیا جائے اور اپنے آنے جانے کے لئے پی کے گھر کا پچھلا دروازہ استعمال کرے ۔ گاؤں میں چودھری کے فیصلے کی دھوم مچ گئی۔کہانی آپ نے سن لی اب آپ ہی فیصلہ کریں پی کے کو اس آئی این نامی پڑوسی کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے ۔ ڈنڈا تو پی کے بھائی کے گھر میں بھی موجود ہے ۔۔
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...
پیدائش اور موت کے وقفے کوزندگی کہتے ہیں۔ جو پیدا ہو گیا اس کو موت بھی آنی ہے۔ تمام حیات کے لئے قدرت کا یہی قائدہ ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ہے یعنی زندگی کتنی طویل یا مختصر ہے ۔ پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو بقا کا نام دیا گیا ہے اور انسان سمیت ہر ذی روح کی کو...