... loading ...
جنوبی افریقہ میں مقیم پاکستانی نژاد سرجن کاشف مصطفیٰ طب کے عالمی حلقوں کی ایک معروف ترین شخصیت ہیں۔جو نیلسن منڈیلا اور افریقہ کی مقتدرر شخصیات کے معالج رہے ہیں۔اُنہوں نے جنوبی افریقہ کی ایک کانفرنس میں صحت سے متعلق ایک تقریر فرمائی۔جسے عوامی حلقوں میں بہت پسندکیا گیا۔ قارئین کے لیے اس تقریر کا اردو ترجمہ بہت ساری پیچیدہ طبی تفصیلات سے پہلو بچا کر انگریزی سے اردو میں محترم محمد اقبال دیوان نے کیا ہے۔کاشف مصطفیٰ کی تحریریں گاہے بہ گاہے قارئین ان صفحات پر ملاحظہ کر سکیں گے۔
ہمارے ہاں تو انڈر ٹیکر کا ایک سیدھا سادہ ترجمہ گورکن ہوگا۔ بدھ مت اور عیسائیوں کے ہاں انڈر ٹیکر کا کام ذرا مختلف،خرچیلا اور پیچیدہ ہوتا ہے۔ وہ لاش کو سجاتا سنوارتاہے اسے بہترین لباس میں ملبوس کرکے تابوت میں لٹا دیتا ہے اور تدفین کا بندوبست کرتا ہے۔ آپ خوبرو اداکارہ مارلن منرو کی لاش کی تصویر دیکھیں۔ اسے انڈر ٹیکر نے تیار کیا ہے۔ ان کی قبریں بھی بہت دل چسپ کتبوں سے مزین ہوتی ہیں۔ان کے قبرستان ہماری طرح کے بے ترتیب اجڑے ہوئے اور بے رونق نہیں ہوتے۔ان میں اور تہران کے قبرستان بہشت زہرا میں جائیں تو فیضؔ کا وہ مصرعہ بے اختیار زبان پر آجاتا ہے کہ ع اور سکوں ایسا کہ مرجانے کو جی چاہتا ہے۔ ۔۔پاکستانیوں کو ایک اور انڈر ٹیکر بھی بہت پسند ہے جس کا اصل نام تو مارک ولیم کالوے ہے مگر امریکی کشتیوں کے حوالے سے وہ اسے انڈر ٹیکر کے نام سے پہچانتے ہیں۔
ہمارا موضوع یہ سب کچھ نہیں۔ بہار میں اس سیاسی مقر ر کو جسے انگریزی میں سبCrowd -Pullerکہتے ہیں، وہاں ـ’’ بھیڑ کھینچو ‘‘ کہتے ہیں۔اس ابتدائیے کو بھی بس آپ بھیڑ کھینچو ہی سمجھیں۔
انیسویں صدی کے وسط میں انگلستان میں ایک بہت ہی مہان بڑھئی اور انڈر ٹیکر ہوا کرتا تھا۔ زندگی گزارنے کی تمام آسائشیں اسے میسر تھیں۔اپنے کام میں مہارت کی وجہ سے اسے اشرافیہ اور شاہی خاندان کے افراد اس کے دیگر ہم پیشہ افراد پر ترجیح دیتے تھے۔چند برسوں میں اس نے ڈیوک آف ویلنگٹن اور شہنشاہ جارج کو زمیں برد کیا تھا۔کام کی کمی نہ تھی یوں آمدنی بھی اچھی خاصی تھی۔ بیوی کے پیار کی نایاب دولت بھی میسر تھی اور بچے بھی فرمابردار اور محبتیلے تھے۔مغرب میں یہ بھی ایک بڑی طمانیت کا باعث امر ہے مگر موصوف بہت اداس اور دل شکستہ رہتے تھے۔جانے کیوں؟ان کو اداسی اور دل آزاری میں مبتلا رکھنے والی ایک بڑی وجہ تو ان کا روز افزوں موٹاپا تھا۔ان دنوں اس کا کوئی خاص علاج دریافت نہ ہوا تھا۔ موصوف کوتاہ قد تھے اور وزن بھی سو کلو سے تجاوز کرچکا تھا۔ان کے گھٹنوں میں اتنا بوجھ اٹھانے کی وجہ سے مستقل درد رہتا تھا۔ کمر کے درد کے لیے انہیں مستقل support پہننا پڑتا تھا۔ نیند میں اکثر اس کی سانس بھی رک جاتی تھی جس سے وہ گھبراکر چیخ مار کر اٹھ جاتا تھا۔اب کچھ عرصے سے اسے تیزی سے گرتی ہوئی بینائی کا بھی شکوہ ہوچلا تھا۔
اپنی امارت کی وجہ سے وہ چونکہ خود بھی اب طبقہ اشرافیہ کا ممبر تھا لہذا وہ موٹاپا کم کرنے کے لیے اپنے ڈاکٹر دوستوں کے مشورے سے ورزش بھی کرنے لگا تھا کشتی رانی کا بھی شغل اسی مقصد سے اپنالیا تھا۔ ان سب معمولات کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ اسے بھوک بڑی کثرت سے لگنے لگی تھی اور وہ پیٹو ہوگیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کے وزن میں کوئی افاقہ نہیں ہوپارہا تھا۔تنگ آکر اس نے ڈاکٹروں کے مشورے سے سخت قسم کی ڈائٹنگ شروع کردی جس کا اس کے اندرونی نظام مدافعت پر بہت بُرا اثر پڑا۔ اس کے سارے بدن پر پھوڑے اُبھر آئے اور وزن بھی پورے چھ کلو کے قریب بڑھ گیا۔سماعت میں کمی کی شکایت ہوئی تو اس نے ایک ای این ٹی سرجن ولیم ہاروے سے مدد مانگی۔اس نے بتایا کہ معائنے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کی سماعت کی نالی میں بہت چربی جمع ہوگئی ہے۔اس انکشاف سے اس پر غشی کا دورہ پڑا۔جذبات کا ایک سیل رواں امڈ آیا۔سرجن نے کچھ دیر توقف کیا، اپنی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھا اور فرمانے لگے کہ ان کے پاس اس کا علاج تو ہے مگر یہ طریقہ علاج ابھی تک کسی انسان پر نہیں آزمایا گیا۔وہ بضد ہوگیا کہ اس تجربے کی ابتدا وہ اس سے کریں۔
ڈاکٹر ہاروے چند دن پہلے ہی پیرس کی کسی طبی کانفرنس سے لوٹے تھے۔پیرس ان دنوں طبی علاج اور تحقیق کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ وہ بتانے لگے کہ وہاں ڈاکڑ کلاڈ برنارڈ کی کتوں پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جگر میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ وہ ایسی چکنائی اور چربی بنانے لگتا ہے جو بغیر چینی کے استعمال کے بھیglycogen نامی مادے سے لبریز ہوتی ہے۔میں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جب جگر خود ہی مٹھاس پیدا کرتا ہے تو ہم چینی کیوں استعمال کریں۔تم بھی ایسا کرو کہ چینی کا استعمال بالکل ترک کردو۔
دیکھیں اس کے تمہاری عمومی صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں۔ وہ اس بات کا قائل ہوگیا اور بوجھل قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا۔ وہ خود توپڑھا لکھا نہ تھا مگر ذہن بہت رسا اور گہرے تجزیئے کرنے کا ماہر تھا۔ گھر پہنچا تو اپنے فارم ہاؤس پر اس کی نظر چراگاہ میں گھاس چرتے ایک گھوڑے پر پڑی جس کا پیٹ غیر معمولی طور پر بالکل اس کی طرح بھاری بھرکم تھا۔اس نے اپنے سائیس سے پوچھا کہ کیا یہ گھوڑا بیمار ہے؟سائیس نے جواب دیا کہ ایسا ہرگز نہیں بلکہ اسے اہل خانہ نے جو اس سے بہت پیار کرتے ہیں میٹھے کھانوں کی عادت ڈال دی ہے۔اب یہ اپنی فطری غذا کی بہ نسبت اس خوراک کو ترجیح دیتا ہے۔یوں اس کا پیٹ اور وزن دونوں ہی بڑھ گئے ہیں۔ انڈر ٹیکر کو اب رجن ہاروے کی بات زیادہ بہتر طریقے پر سمجھ آگئی۔اس نے فی الفور اپنا ڈائیٹ پلان بنایاجس میں ابلا ہوا گوشت، مختلف اقسام کے دالوں کے سوپ اور پھلیاں شامل تھیں۔اب اس کی خوراک کی مرکزی اجزا یہی اشیائے خورد بن گئیں۔ اس کا حیران کن نتیجہ سامنے آیا اور سال بھر میں ہی اس کا وزن پورے اکیس کلو گرام کم ہوگیا۔اس کی کمر کے درد میں بھی بہت کمی واقع ہوئی اور گرتی ہوئی بینائی کی شکایت بھی جاتی رہی۔نیند میں دم گھٹنے کی مشکل بھی دور ہوگئی اور وہ سیڑھیاں بھی بغیر کسی دقت کے بآسانی چڑھنے لگا۔اپنے ان تجربات کی روشنی میں اس نے ایک کتاب اپنی صاحب زادی کی مدد سے لکھی جس کا نام ہے “letter on Corpulence” اس کی پانچ ہزار کاپیاں فروخت ہوئیں۔ اس نے 82 سال کی عمر پائی۔اس انڈر ٹیکر کا نام تھا Willian Bantingتھا۔ اس کے بنائے ہوئے ڈایٹ پلان کو بینٹنگ ڈائٹ کا نام دیا گیا ہے۔اس سے دنیا بھر میں بے شمار افراد نے استفادہ کیا ہے۔اہل طب اور میڈیکل تحقیق سے وابستہ افراد بہت کتابی ہوتے ہیں۔ ان کے لیے ایک ان پڑھ گورکن کی اس کتاب سے حاصل ہونے والی شہرت پر بہت منفی جذبات پائے جاتے رہے ہیں۔وہ اسے تحقیق سے عاری ایک فرد کے نجی معاملات سے زیادہ حیثیت دینے پر رضامند نہیں لیکن چونکہ اس سے مستفید ہونے والوں میں اس وقت فرانس کا بادشاہ اور دیگر اہم افراد شامل ہیں جنہیں اپنا فربہ پن دور کرنے کے لیے اس ڈائیٹ پلان سے بہت مدد ملی۔اسی وجہ سے اس کے معتقدین کی بھی ایک کثیر تعداد ہے۔
ان دنوں موٹاپا یوں عام نہ تھا۔لوگ اچھی سادہ قدرتی خوراک کھاتے۔جسمانی محنت سے جی نہ چراتے تھے پانی بھی بوتلوں کی بجائے نلکوں سے صاف ملتا تھا جو پاکستان میں بھی سن 1970 تک عام بات تھی اب تو پاکستان میں اسی فیصد سے زائد افراد غیر محفوظ پانی پیتے ہیں۔بیسویں صدی کے آغاز سے ہی جب شہر وں کی آبادی بڑھ گئی تو موٹاپااور اس سے متعلقہ بیماریوں نے انسانی اجسام میں ڈیرے جمالیے۔ سرمایہ دارنہ نظام کو فروغ ملا تو لوگوں نے بیٹھ کر کام کرنا، رات کو دیر سے سونا، جلد تیار ہونے والی خوراک اور ادھر ادھر کی دعوتوں میں غیر صحتمندانہ خوراک کو طعام آخر سمجھ کر کھانا شروع کردیا۔بچے بڑے سب ہی فاسٹ فوڈ کے گرویدہ ہوگئے اور موٹاپا ایک بین الاقوامی وبا بن گیا۔ اب ترقی یافتہ ممالک میں ہر تیسرا فرد اس بیماری کا شکار ہے۔اس کی وجہ سے ذیابیطس امراض قلب اور مختلف اقسام کے کینسرز میں بھی بہت اضافہ ہوگیا ہے۔پچھلے دنوں میں نے 29 برس کے ایک نوجوان کا بائی پاس بڑے دکھی دل سے کیا۔پیٹ کی موٹی تازی سرنگ کے راستے ہم اب قبروں میں اتر تے جارہے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے کہا ہے کہ ہم اپنی قبریں دانتوں سے کھود رہے ہیں۔
طب کے پیشے سے وابستہ افراد اپنی ہی معین کردہ رہنمائی کی وجہ سے اس بہت بڑے استحصالی نظام کا شکار ہوچلے ہیں۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ مجبوریوں کی وجہ سے خود بھی اس نظام کے آلہء کار بن گئے ہیں۔ جہاں بڑی کارپوریشنوں نے اپنے پنجے ہماری جیب اور زندگی پر بری طرح گاڑ لیے ہیں۔امریکا میں جب گیہوں، مکئی اور سیب کی بہترین فصل لہلہاتی ہے تو ان کی کارپوریشن مختلف ترغیبات کو بروئے کار لا کر کادن فلیکس کے ناشتے کو مقبول عام بنادیتی ہے۔ایک سیب دن میں، ڈاکڑ سے عمر بھر کی دوری کو آپ کی سوچ کا حصہ بنادیا جاتا ہے جو کہ طبی طور پر قطعی غلط فارمولا ہے۔ان پر مزید مہر تصدیق دنیا بھر کی مختلف طبی انجمنیں لگا دیتی ہیں۔
اب پچھلے چند برسوں سے خوراک کے غیر روایتی ماہرین اور طب سے وابستہ افراد اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ غذا میں نشاستے starch کی موجودگی بدن میں مختلف اقسام کے toxic پیدا کرتی ہے اور بنٹنگ ڈائٹ کامقبول ترین چربہ ایٹکن ڈائٹ اب اس سے گریز کرنے کو کہتا ہے۔انسانی جسم اپنی ساخت میں ایک حیوانی جسم ہے۔یہ اپنے ارتقائی عمل سے جڑا رہتا ہے۔ میرے زیر علاج کئی مریض جن کا زندگی گزرانے کا انداز ایک مسلسل خودکشی کا عمل لگتا ہے مجھ سے دوران علاج پوچھتے ہیں۔ہم کیا کھائیں اور کتنا کھائیں۔ تو میر ا ایک ہی مشورہ ہوتا ہے قدرتی غذا جس میں کبھی کبھار اچھا گوشت، اکثرسبزیاں اور پھل شامل ہوں وہ کھائیں اور صرف شدید بھوک کے وقت۔کھانے کی مقدار کم اور دن میں صرف دو مرتبہ اس لیے کہ دو وقت کی روٹی کا محاروہ بلاوجہ وجود میں نہیں آیا۔ورزش لازم ہے مگر ورزش کرکے آپ نے پیزاکھایا اور بوتلوں کے جعلی مشروب پی لیے تو اس ورزش کے اثرات منفی ہوں گے۔اس وکٹورین انڈر ٹیکر نے جو بات آج سے ڈیڑھ صدی پہلے بتائی تھی وہی سچ ہے۔انگریزی زبان کی لغت میں صرف تین افراد کے نام سے وابستہ ایسے افعال جوڑے گئے ہیں جو ایک مکمل طرز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں اس میں ایک تو آئر لینڈ کے کپتان بائیکاٹ تھے، دوسرے فرانس کے لوئی پاسچر اور تیسرے ہمارے انڈر ٹیکر صاحب ولیم بنٹنگ۔
چند ماہ ہوئے میں ڈنمارک کے دارالخلافہ کوپن ہیگن میں تھا۔ وہاں میرے ایک عزیز دوست ڈاکڑ ہین سن نے ایک فینسی جاپانی سوشی (جاپانی ڈش جس میں سرکے میں ابلے ہوئے چاول، کچے سی فوڈ اور ابلی ہوئی سبزیاں شامل ہوتی ہیں) کھانے کے لیے آرڈر کی۔تب ریسٹورنٹ میں ہمارے سامنے کھانے سے پہلے تر و تازہ مہکتی ہوئی ڈبل روٹی کے ٹکڑوں کو ایک باسکٹ میں سجا کر بطور starter پیش کیا گیا تو ڈاکڑ ہین سن نے ویٹر س کو مسکرا کر انہیں یہ کہہ کر واپس کردیا کہ No Thanks we are Banting”‘‘
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
[caption id="attachment_39632" align="aligncenter" width="1248"] مصنف حضرت اسحاق علیہ السلام کے مزار پر[/caption] سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائ...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔ وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپر...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...
سرجن کاشف مصطفی کا تعلق بنیادی طور پر راولپنڈی سے ہے ۔وہ قلب اور پھیپھڑوں کی سرجری کے ماہر ہیں اور ان دنوں جنوبی افریقہ میں سکونت پذیر ہیں۔وہ گزشتہ دنوں اسرائیل کے دورے پر گئے تھے۔ ہمارے مشترکہ دوست اقبال دیوان صاحب کی تحریک پر خاص’’ وجود‘‘ کے لیے اپنے دورہ اسرائیل کے تجربات سپرد...