... loading ...
جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چاہیے کیونکہ سارا مسئلہ نصاب کا ہے۔ یہ جدید تعلیم کے اصلاحی منصوبے کا لوگو ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ہاں تعلیم تو ہے لیکن تربیت نہیں ہے اور یہ جدید تعلیم پر ہمارے کل تنقیدی شعور کا اظہار ہے۔ بس یہ دو باتیں کہہ کر ہم جدید تعلیم کے حوالے سے اپنی تمام تر ذمہ داری سے سبک دوش ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ عرض کیا جائے کہ نصاب جدید تعلیم کا ایک کم اہم حصہ ہے، تو بات بگڑ جاتی ہے۔ یا اگر یہ عرض کیا جائے کہ تربیت سے مراد ”ٹریننگ“ ہے یا ”مربیانہ عمل“ کی طرف اشارہ ہے تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارے تعلیمی تناظر میں جدید تعلیمی افکار اور اس کے نظری پہلوؤں کا ذکر نہایت معیوب خیال کیا جاتا ہے، جبکہ عین یہی وہ افکار ہیں جن کی بنیاد پر پوری جدید تعلیم کا نظام کھڑا کیا گیا ہے۔
”تربیت“ کے لفظ نے ہمارے ہاں بہت بڑا خلط مبحث پیدا کیا ہے اور جدید تربیتی عمل کو زیربحث لانے سے بہت کتراتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جدید تعلیم کے تنظیمی عمل اور روایتی تعلیم کے اخلاقی اور معاشرتی عمل میں امتیاز کو کبھی نہیں دیکھ پائے۔ جدید تنظیمی عمل میں ”تربیت“ سے مراد ”ٹریننگ“ ہے اور جو بچوں یا افراد میں ڈسپلن پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ جبکہ روایتی تعلیم میں تربیت ایک مربیانہ عمل تھا، جس میں ”ادب“ شامل تھا۔ یہاں ”ادب“ کا مطلب لٹریچر نہیں ہے، کیونکہ ”ادب“ بچے کو ”آداب“ سکھانے کا ایسا عمل تھا جس میں ”تادیب“ شامل ہوتی تھی، اور اس پورے عمل میں استاد ایک مربی کی حیثیت سے مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ روایتی تعلیمی تربیت میں مربیانہ تدریس اور ”ادب“ دونوں شامل ہوتے تھے۔ لیکن اس سارے عمل کا فعال مرکز استاد ہوتا تھا۔ ”مربیانہ عمل“ بچے کی ذہنی اور نفسی استعداد کو نشو ونما دینے کا طریقۂ کار تھا، جبکہ ادب بچے کی گفتگو اور رویوں کی تہذیب کا عمل تھا، جس میں اکثر ”سختی“ یا ”سزا“ بھی شامل ہوتی تھی۔ یہ ”سختی“ یا ”سزا“ صرف اور صرف اس تہذیبی تعلق میں بامعنی تھی جو استاد اور شاگرد دونوں کا بنیادی معرف تھا۔ اس تعلق کے خاتمے کے بعد یہ محض ایک ”تشدد“ ہے۔ روایتی تعلیم میں استاد ایک مربی ہوتا تھا جو بچے کے اخلاقی شعور کی پرداخت، سلیقے اور تہذیب الاخلاق کی ذمہ داری قبول کرتا تھا۔ ٹریننگ کے برعکس، روایتی تربیت کا مقصد بچے کی اخلاقی خودی کی حفاظت اور اس کے نفس کی اخلاقی خود مختاری کو فعال بنا کے تقوی کے احوال پیدا کرنا رہا ہے۔ جبکہ جدید تنظیمی ٹریننگ کا عمل فرد کی اخلاقی خودی کو نظرانداز کر کے غیر اہم بنا دیتا ہے اور اس کی کل شخصیت کو ڈسپلن کے میکانکی رویوں تک محدود کر دیتا ہے۔
جدید تعلیم اس پورے عمل کی نئی تشکیل ہے۔ جدید تعلیم ٹیچر کو سسٹم کا ایک پرزہ ہونے کی وجہ سے محض ایک ”سہولت کار“ (facilitator) کا درجہ دیتی ہے اور یہاں ”تربیت“ سے مراد ”ٹریننگ“ ہے۔ جدید تعلیم کا منہج تنظیمی ہے، اور جدید تنظیم کی پوری تشکیل طاقت اور پیداوار کے اصول پر ہوتی ہے۔ جدید تنظیم میں ٹریننگ غیرمعمولی اہمیت رکھتی ہے۔ ”ٹریننگ“ کا مقصد ہرگز اخلاقی نہیں ہوتا، بلکہ کارگر (ایفی شنٹ) ہونا ہے۔ ٹریننگ جدید ڈسپلن کے اصولوں پر انسانی شخصیت کے رویوں میں میکانکی تبدیلی پیدا کر دیتی ہے۔ جدید ڈسپلن میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، بلکہ اسے اختیار سے نافذ کیا جاتا ہے، اور معاشی و بدنی جزا و سزا کے تابع ہوتا ہے۔ ٹریننگ کا مقصد انسان کی اخلاقی آٹونومی اور انفرادیت کا خاتمہ کر کے اسے ایک روباٹی سانچے میں ڈھالنا ہے۔ تنظیم میں اختیار اور اس کے فرمودات اخلاق کی جگہ لے لیتے ہیں اور ”ٹریننگ“ انسانی عمل کے فعال مرکز کو داخل سے خارج میں منتقل کر دیتی ہے۔ ٹریننگ اختیار، مسلسل نگہداری اور معاشی جزا و سزا کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ ٹریننگ کا مقصد اخلاقی شعور سے مزین انسان پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ایک کارگر انسان پیدا کرنا ہے۔ جدید معاشرے اور ریاست کا تشکیلی اصول یہی تنظیم ہے، جو اب نہ صرف عالمگیر ہے بلکہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب یہ شرائط ہستی میں داخل ہے۔
”ٹریننگ یافتہ“ آدمی میں روک کا مرکز اس کی ذات سے خارج میں ہوتا ہے جو مسلسل نگہداری اور جاسوسی کو ضروری بنا دیتا ہے۔ مسلسل نگہداری، خبرگیری اور جاسوسی پورے تنظیمی عمل میں اختیار اور منیجمنٹ کے خاص ذرائع ہیں۔ جبکہ اخلاقیات میں عمل اور روک کا مرکز انسان کے اندر ہوتا ہے جو حضورِ حق میں بامعنی ہوتا ہے۔ انسان کی اخلاقی خودی خالق کے دائمی حضور کا مرکز اور انسانی عمل کا منبع ہے۔ اخلاقی رویوں اور اخلاقی اعمال میں حضور انفسی ہے۔ جدید تنظیم اختیار کی بیلداری تشکیل ہے جو طاقت کے ”حضور“ کو آفاقی بنا دیتی ہے اور دائمی چوکیداری کے بغیر کھڑی ہی نہیں کی جا سکتی۔ ہر گھڑی دیکھنے والی آنکھ کے بغیر تنظیم ناممکن ہوتی ہے اور اب یہ آنکھ کیمرہ بن کر ہماری زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہو گئی ہے۔ ”ٹریننگ یافتہ“ انسان کا راہ راست پر رہنا طاقت کی اسی آنکھ کا مرہونِ منّت ہے جبکہ ”تربیت“ یافتہ انسان کا راہِ راست پر رہنا اس کے انفسی حضور میں اخلاقیات سے رہنمائی پاتا ہے۔
جدید تعلیم میں سزا کا معاملہ بہت دلچسپ ہے۔ ناچیز سزا کی حمایت نہیں کرتا لیکن اس پر بات تو شاید ہو سکتی ہے۔ جدید تعلیم کے کارپوریٹ اداروں نے تعلیم کا پورا پیراڈائم ہی بدل دیا ہے، اور وقت کے ساتھ جدید تعلیم کے کارپوریٹ اور سرمایہ دارانہ پہلو مکمل طور پر غالب آ گئے ہیں۔ اس ماحول میں استاد اور شاگرد کے تعلق کی بات کرنا بدمذاقی اور گھٹیا لطیفہ بن گیا ہے کیونکہ اداروں نے استاد کا امتحا مکمل کر دیا ہے۔ اب بچے اور اس کے والدین کا تعلق ادارے سے ہے اور اگر استاد سے کسی درجے میں ہے تو وہ بھی ادارہ جاتی ہی ہے۔ اب تعلیمی ادارے میں سزا کے خلاف قانون سازی بھی ہو چکی ہے اور جس کا مقصد ایک اخلاقی برائی کا خاتمہ بیان کیا جاتا ہے۔ اس کارپوریٹ تناظر میں استاد اور شاگرد کے تعلق کا خاتمہ کوئی اخلاقی برائی نہیں ہے بلکہ اہم سماجی پیشرفت خیال کیا جاتا ہے۔ اب جدید تعلیمی ادارے اور طالبعلم کا تعلق دکاندار اور گاہک کا ہے، اور اس معاشی رشتے میں سزا واقعی ایک اخلاقی برائی ہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں سزا کی قانونی ممانعت روایتی تعلیمی عمل کے مکمل طور پر تبدیل اور غیرمتعلق ہو جانے کا بالواسطہ اعتراف بھی ہے۔
ان گزارشات کے بعد یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ ہماری تعلیمی گفتگو میں ”تربیت“ بھی ویسا ہی بے معنی لفظ ہے جیسا کہ نصاب۔ دنیا ادھر سے ادھر ہو گئی ہے، بلکہ ہماری تو زیر و زبر ہو گئی ہے لیکن ہم ہیں کہ حالت انکار اور ہٹ دھرمی سے باہر نہیں آ پا رہے۔ ہم نصاب اور تربیت کا واویلا تو مچاتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کیوں مچاتے ہیں۔ ہم اپنی قومی تعلیم سے غیرمطمئن تو ہیں، اور سسٹم کے ایک دو پرزوں کے بارے میں چالاکی دکھانا چاہتے ہیں، لیکن اس کے تجزیے کو بے سود سمجھتے ہیں۔ پھر ہم ایک ایسی چیز کے قائل ہیں جسے ہم نے ”علمی سادگی“ کا جعلی نام دے رکھا ہے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ جسے ہم سادگی کہہ رہے ہیں وہ دراصل ہمارے قومی ذہن کی پستی ہے۔ ہم نے اپنی پستی کو سادگی قرار دے کر اسے بھی اپنی ایک ”اعلیٰ اخلاقی خوبی“ بنا لیا ہے۔ اور عین یہی وہ نام نہاد اخلاقی خوبی ہے جس کی آڑ لے کر ہم نے ہر طرح کے علوم کی تدفین مکمل کی ہے۔
جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...
تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...
برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...
چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...
مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...
زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...
جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...
سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...
سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...
امریکی کانگریس میں ایک نئے بل کی تجویز دی گئی ہے جو امریکا میں تمام بچوں کی نفسیاتی ٹیسٹنگ اور پروفائلنگ کے لیے سرمایہ دے گا۔ منصوبہ امریکی اسکولوں کو طلبا کا حساس ڈیٹا جمع کرنے پر مجبور کرے گا جس میں سماجی و جذباتی تعلیم، رویے، اقدار، عقائد اور دیگر پہلوؤں کے حوالے سے معلومات ...