... loading ...
(مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے)
تہتر کا آئین بناتے وقت اس وقت کے مرد آہن اور پاکستان کے ذہین ترین اور سب سے تعلیم یافتہ وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے پیش نظر پانچ بڑے مقاصد تھے۔پہلا مقصد تو یہ تھا کہ پارلیمنٹ کے میدان میں وہ اپنے بیشتر پیش رو سیاست دانوں سے بہت آگے تھے۔مولانا شاہ احمد نورانی،مولانا مودودی،مفتی محمود مذہبی طور پر پاکستان کے بڑے قائدین میں سے تھے اور اپنی اپنی جماعت کے سربراہان بھی تھے مگر ان کا پارلیمانی طرز کی جمہوریت میں کوئی سابقہ تجربہ نہ تھا۔عبدالولی خان اور غوث بخش بزنجو،نوابزادہ نصر اللہ خان علاقائی سطح پر بڑے لیڈر تھے مگر وہ بھی کسی پارلیمنٹ کا بطور ممبر کبھی حصہ نہ رہے تھے۔یہ سب رموز سیاست سے تو بخوبی آگاہ تھے مگر طرز حکومت کا ان میں سے کسی کو بھی عملی تجربہ نہ تھا۔
اس کے برعکس اس وقت کی پیپلز پارٹی میں حفیظ پیرزادہ،احمد رضا قصوری،یوسف بچ، عبدالحمید خان جتوئی،غلام مصطفی خان جتوئی،عزیز احمد،معراج محمد خان، ممتاز بھٹو،سائیں قائم علی شاہ اور رفیع رضا جیسے منجھے ہوئے قانون دان اوراہل سیاست شامل تھے۔یوں پارلیمانی طور پر ان تمام پارٹیوں پر پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری تھا۔ دوسرا مقصد ان کا آئین اور پارلیمنٹ کے ذریعے جمہوری ادارے یعنی ان کی حکومت کا دفاع تھا۔
بھٹو صاحب جنرل گل حسن خان کو ہٹا کر 3 مارچ سن1972میں جنرل ٹکا خان کو اپنا چیف آف آرمی اسٹاف بناچکے تھے۔وہ ان سے مشرقی پاکستان کے دنوں میں بہت قریب آچکے تھے۔اس کے باوجود بھٹو صاحب کو جرنیلوں پر کچھ زیادہ اعتماد نہ تھا۔نجی محافل میں وہ اکثر اپنے والد شاہ نواز بھٹوریاست جوناگڑھ کے وزیر اعظم سے وہاں کے درباروں میں سنی ہوئی ایک مثال دیا کرتے تھے کہ جرنیل اور داماد گدھے کی پچھلی لات ہوتے ہیں کسی وقت بھی وہ دولتی جھاڑ سکتے ہیں۔ بہت بعد میں جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف جنہیں دو مختلف جمہوری حکومتیں جونیئر ہونے کے باوجود نیچے سے اوپر لاکر فوج کے منصب اعلی پر فائز کرچکی تھیں، ان کے ان خدشات کو درست ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ بھٹو صاحب سمجھتے تھے کہ ان جرنیل صاحبان کے ان کی اپنی ایک محبوب اصطلاح Bonapartism ( فوج کی اقتدار پر قبضہ کرنے کی عادت) جوانہوں نے جنرل گل حسن اور ائیر مارشل عبدالرحیم کی برطرفی کے وقت استعمال کی تھی۔ ایسی صورت میں آئین اور پارلیمنٹ سب سے مضبوط خط دفاع ثابت ہوگی۔
ان کا تیسرا بڑا اور اہم مقصد یہ تھا کہ وہ ایک مضبوط مرکزی بیوروکریسی میں نہ صرف اپنے من پسند افراد کو داخل کرلیں بلکہ دیہی سندھ جس کی مرکز میں نمائندگی بہت قلیل تھی اس میں کوٹا سسٹم کے ذریعے ابتدائی اور وسطی سطح پر وفادار بیورکریٹس کی ایک مناسب اور محفوظ حلقہ بندی قائم کرلیں۔ قیام پاکستان سے اپنی ذات میں انجمن اور خود سر سی ایس پی کلاس کو وہ اپنے تئیں پارلیمنٹ میں زیر بحث لائے بغیرہی 20 اگست1973 کی انتظامی اصلاحات سے نکیل ڈال چکے تھے اور اس کا برطانوی راج والاآئینی احساس تحفظ اور کروفر ختم کرچکے تھے۔ اس کے علاوہ بھی حکومت آئین کے سن1973میں نفاذسے ایک سال پہلے ہی دس بڑے شعبوں میں(جن میں لینڈ،بینکنگ،لیبر،معاشی،نیشنلائزیشن،تعلیم،صحت، پیپلز ورکس پروگرام،انشورنس، پبلک کارپوریشنوں کا قیام شامل تھا) ان اصلاحات کو نافذ کرچکے تھے جس کی وجہ سے حکومت وقت کی سرکاری اداروں میں گرفت بہت مضبوط ہوچکی تھی۔یہ کام انہوں نے پاکستان کے چوتھے صدر کے طور پردسمبر 1971 سے اگست 1973 کے قلیل عرصے میں مکمل کرلیا تھا۔اس کے بعد کا ان کا چار سالہ دور پاکستان کے نویں وزیر اعظم کا ہے۔
ان کاچوتھا مقصد اس آئین کے نفاذ سے یہ بھی تھا کہ اب ان اصلاحات اور حکومت کے طریق کار پر اگر کبھی پارلیمنٹ میں بحث ہوتی بھی تو ان اصلاحات کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کے بجائے محض ان شعبہ ہائے حکومت میں دوران نفاذ ظاہر ہونے والی نمایاں کمزوری کو دور کرنے پر بحث ہوتی۔اس حوالے سے جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے تمام سیاسی مخالفین کو Out-Wit کردیا تھا۔ اس بحث سے مخالفین کا احساس نمائندگی بھی مجروح نہ ہوتا اور ان کی دخل اندازی بھی ایک مناسب حد تک ہی رہ پائی ۔اس کا پانچواں بڑا مقصد خودان سیاسی مخالفین کے آئین اور پارلیمنٹ سے وابستگی باعث تفاخر تھی اور انہیں عوام کی نگاہ میں ممتاز کرتی تھی۔
پاکستان اور یورپ اور لاطینی امریکا کے کچھ پسماندہ ممالک کے عوامی نمائندوں کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ارباب اقتدار اوپر پہنچ کر لفٹ بند کردیتے ہیں ۔سسٹم کی جس رسی والی سیڑھی Rope-Ladderکو انہوں نے خود جمہوریت کے نام پر باندھ کر اوپر پہنچنے کا ذریعہ بنایا ہوتا ہے وہ اسی کو آگ لگا کر جلادیتے ہیں۔ان کو اپنی طاقت اور حالات پر کنٹرول کے حوالے سے یہ غلط فہمی لاحق ہوتی ہے کہ ان کا اقتدار ایک دائمی حقیقت ہے اور وہ اپنے ہر پیش رو سے زیادہ زیرک اور باصلاحیت ہیں۔یہی غلطی بھٹو صاحب سے بھی ہوئی۔عراق کے سفارت خانے سے جب اسلحہ برآمد ہوا تو انہوں نے بلوچستان اسمبلی برطرف کردی، جہاں ان دنوں نیپ کی حکومت تھی۔نیپ کے اہم لیڈروں پر پابندی لگا کر انہیں پابند سلاسل کردیا گیا۔جب 8 جنوری1977 کو اُن کے سیاسی مخالفین نے قومی اتحاد بنایا تو وہ Panic کرگئے اور غیر متوقع طور پر الیکشن کا اعلان کردیا۔
بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ آئین کی موجودگی میں جمہوری عمل کو ایک دوام مل چکا ہے جنرل ضیا الحق کو وہ سات جرنیلوں پر ترقی دے کر فوج کا سربراہ بنا چکے ہیں لہذا اس سمت سے انہیں کوئی خطرہ نہیں۔اب آئین اور پارلیمنٹ کے خلاف اگر فوج مداخلت پر اتر آئے تو آئین کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو خراب عورتوں کے قوام مردوں کی ہوتی ہے یعنی وہ محض ایک ٹاٹ کا پردہ ثابت ہوتے ہیں۔جب مملکت محفوظ ہوتی تھی تو گھر کے دروازے بند کرنے کا کوئی رجحان محلے میں نہ ہوتا تو غریب محلوں میں بوریوں کو سی کر ایک ٹاٹ کا پردہ لٹکادیا جاتا۔اس سے پردے کا تو اہتمام ہوجاتا تھا مگر یہ داخل ہونے والوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتا تھا۔
پاکستان میں آئین یوں بھی بہت عجلت میں بنا اور اس میں جتنی بھی ترامیم ہوئیں وہ بہت Person-Specific اورTurf -Securing تھیں۔آئین کی دفعہ 58(2) B جو صدر مملکت کو نامساعد حالات میں اسمبلی کو برطرف کرنے اور حکومت کو برخاست کرنے کا اختیار دیتی تھی۔یہ صدر ضیا الحق نے اپنی رکھیل مجلس شوری کے ذریعے 1985 میں اس لیے منظور کرایا تھا کہ ان کی مطلق العنانی میں فرق نہ آجائے۔اس کے تحت پہلے محمد خان جونیجو، بعد میں دو مرتبہ بے نظیر صاحبہ اور ایک مرتبہ نواز شریف صاحب کو اس دور کے صدور نے فارغ کردیا۔یوں چار مرتبہ تین وزیر اعظم گھر بھیج دیے گئے پاکستان میں موجودہ مروجہ آئین کی تشکیل سازی کا جائزہ لیں تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سقوط ڈھاکا کے بعد جو نئی حکومت جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کی اس نے پہلے دو سال تک یعنی 1973 تک اس نے صدراتی نظام کے تحت اپنا کام صدر ایوب خان والے 1962 کے آئین کے تحت چلایا۔17 اپریل1972کو بھٹو صاحب نے ایک ہمہ گیر حیثیت کی آل پارٹی میٹنگ بلائی جس میں ہر رنگ و نظریے کی حامل سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان جمع ہوئے۔اس کا مقصد کسی نئے آئین کی تشکیل نہ تھا بلکہ 1956 کے آئین کے ضابطوں کو نئے حالات کے مطابق ایک آئین نو کا جامہ پہنانا تھا اور انہیں محض ریاست کے مختلف علاقوں کی حکومت سے بڑھ کر تجارت ، مالیہ،وفاق کے قرضے اور مختلف اداروں میں اختیارات کو ایک واضح اور علیحدہ شکل دینی تھی۔مشہور سیاسی فلسفیJohn Locke اور اسلامی اقدار اور قوانین کو ہم آہنگ کرکے ایک مستند دستاویز کی صورت میں ڈھالنا تھا۔
اس کے مختلف اجلاسوں میں بالآخر یہ طے پاگیا کہ اسلام مملکت کا دین ہوگا۔وزیر اعظم ملک کا انتظامی سربراہ ہوگا جو اسمبلی اور صدر کو جواب دہ ہوگا۔پارلیمینٹ قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہوگی۔آئین میں قدامت پسند اسلامی ضوابط کی شمولیت پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے پی پی ارکان اوردیگر سرخے غیر مطمئن تھے۔اس میں پہلا Amendment تو پاکستان کی علاقائی حدود اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے سے متعلق تھا تو دوسرا قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اس کے ساتھ غیر مسلموں کے لیے چھ نشستیں مختص کرنے کے بارے میں تھا۔20 اکتوبر1972 کو اس مسودے پر اتفاق ہوگیا اور اس کے19 اپریل 1973 کو اسے کثرت رائے سے منظور کرنے کے بعد 14اگست1973 کو نافذ العمل کردیا گیا۔ اس کی نسبت اگر آپ ہندوستان اور امریکاکے آئین کا جائزہ لیں تو وہاں برطانوی ماڈل سے بہت مماثلت رکھی گئی تھی۔
امریکی آئین کی تشکیل کا جائزہ لیں تو وہاں اس کی نئی مملکت میں موزونیت کا جائزہ لینے تھامس پین، ایمرسن، جیفرسن،بینجمن فرینکلن اور جان ایڈمز جیسے لوگ موجود تھے جو بادشاہ کی مطلق العنانی سے نفرت اور انسانی آزادی کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔یہ کئی کئی مہینے مختلف اخبارات میں کالموں اور خطوط کے ذریعے ، اس بات پر بحث کرتے رہے کہ ان کے دستاویز کی بنیاد پر آئین کو وجود میں آنا تھا اس میں We A People لکھا جائے کہ We the people۔ یہ کیا زبردست دستاویز ہے۔
ان کے دوسرےAmendment میں ایک عام آدمی کے ہتھیار رکھنے کے حوالے سے Carryاور Bear اور Regulated جیسی اصطلاحات پر بھی خوب بحث ہوئی۔ یہ ایک چھوٹی سی تبدیلی تھی جو کچھ یوں تھی کہ
“A well regulated Militia, being necessary to the security of a free State, the right of the people to keep and bear Arms, shall not be infringed.”
آج تک یہ ترمیم امریکی طاقتور گن لابی کی وجہ سے عام امریکی شہری کی ہتھیاروں تک بے دریغ رسائی کے حوالے سے جو بے شمار ہلاکتیں کم سن طالب علموں کے ہاتھوں ہوئی ہیں مختلف مقدمات میں ان کی سپریم کورٹ میں بھی بحث کا نکتہ بنتی ہے۔
ان کا یہ آئین بمشکل چھ سے سات صفحات کی کتاب ہے جس نے انہیں ایک عالم کا مالک بنادیا جب کہ ایک عام کار جس میں بمشکل پانچ آدمی سماتے ہیں اس کا مینویل ہی دو سو صفحات سے کم نہیں ہوتا۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
[caption id="attachment_40697" align="aligncenter" width="640"] سینیٹر غفار خان جتوئی [/caption] پچھلے کالموں میں پنجابی، سندھی اور مہاجر افسروں کے رویوں کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کی دفعہ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ ان کالموں کو پڑھ کر اگر یہ تاثر قائم ہوکہ ...