... loading ...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی قدر آسانی پیدا کی ہے تاہم اس کے بے جا اور غلط استعمال کی کوئی حد نظر نہیں آتی۔ یعنی موبائل فون کا استعمال تو بہت زیادہ ہورہا ہے لیکن اس میں مقصدیت اس کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ ۔ آپ کو کہیں جانا ہے دیر ہو رہی ہے جلدی جلدی تیار ہورہے ہیں کہ موبائل بج اٹھا، پتہ چلا مظہر بھائی، گپ شپ کے موڈ میں ہیں اب ان کو کون سمجھائے کہ بندہ خدا بعد میں بات کر لیں، لیکن ان کو اس بات کی پرواہ نہیں ان کو تو بات کرنی ہے، اور کیوں نہ کریں ان کو موبائل کا خرچ ان کے دفتر سے مل جاتا ہے۔ آپ بس میں ہیں، برابر میں بیٹھے صاحب موبائل پر کسی سے پتہ پوچھ رہے ہیں یا کسی کو اپنے سفر کی رننگ کمنٹری سنا رہے ہیں۔ اب آپ کان تو بند نہیں کر سکتے اس لئے آپ کویہ سب کچھ سننا ہی پڑے گا۔ کسی پارک میں ہوٹل میں یاکسی تقریب میں آپ کےکانوں میں ہمہ وقت اسٹاک ایکس چینج کے اتار چڑھاؤسے کسی کے گھریلو جھگڑے تک کی رننگ کمنٹری آتی رہے گی۔ ہاں کھانا ابھی نہیں ملا یار، پتہ نہیں یہ لوگ کھانا کب دیں گے۔ چلو کھانا کھل گیا ہے کھانے کے بعد بات کرتے ہیں۔ ارے بیگم بس ہو گئی نہ غلطی اب کسی کی طرف نہیں دیکھوں گا قسم تمہارے سر کی، اب مان بھی جاؤ نہ پلیز۔ کوئی اپنی گرل فرینڈ کو قسمیں دے دے کر دوبارہ ملنے کے لئے آمادہ کر رہا ہوگا۔ تو کوئی باس کو یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہوگا کہ ٹریفک میں پھنسا ہوا ہے اس لئے دفتر آنے میں دیر ہو رہی حالانکہ وہ اپنے کسی ذاتی کام سے بازار میں گھوم رہا ہوگا۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اتنی زور زور سے موبائل پر گفتگو فرماتے ہیں کہ لگتا ہے، کسی سیاسی جلسے میں تقریر کرنے کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ یہ پتہ نہیں لگتا کہ کچھ لوگ صرف دوسروں کو سنانے کے لئے اونچی آواز میں بات کر تے ہیں یا واقعی دوسرے فون پر کوئی بہرا ہوتا ہے۔ بھائی پرائیویسی بھی کوئی چیز ہے، بندہ خدا فون پر بات کرنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ ضروری تو نہیں کہ جو بات آپ سن رہے ہیں اس کاسننا دوسروں کے لئے بھی ضروری ہو۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی کے چہلم یا مذہبی تقریب میں شریک ہیں اور گاہے گاہے مختلف موبائل فونوں پر ہمہ اقسام کامیوزک یاگانے گونج رہے ہیں۔ یہاں تو مساجد میں بھی موبائل فون بند کرنا گناہ کبیرہ تصور کیا جاتا ہے۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔۔ خاص طور پر نو جوان نسل موبائل کا جو استعمال کر رہی ہے اس کا نوٹس لیے جانے کی ضرورت ہے، ، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دن بھر مس کالیں یا کالیں کرنے، گانیں سننے، واٹس اپ اور فیس بک پر یا گیم کھیلنے اور رات بھر بات چیت میں مگن رہنا پسند کرتے ہیں، آدھی رات ہو یا پورا چاند ان کی باتیں ہی ختم نہیں ہو کردیتیں۔ لگتا ہے کہ ایک ہی بات کو دو تین درجن بار تو ضرور دہراتے ہوں گے۔ سننے میں آیا ہے نئی نسل کی موبائل فون سے محبت کو دیکھتے ہوئے جینیٹک سائنسداں ایسے کان بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جو خود سے موبائل فون کو پکڑ سکے۔
خیر سےرہی سہی کسر میسیج نامی بلا نے پوری کر دی ہے۔ ایسے ایسے فضو ل اور لا یعنی ایس ایم ایس بھیجے جاتے ہیں کہ پڑھ کر غصہ آتا ہے اور ان کے بھیجے والوں کی دماغی صحت پر شک ہونے لگتا ہے۔ لطیفے، کہانیاں، افواہیں اور جانے کیا الا بلا ایس ایم ایس آپ کی جان کھانے کے لیے موبائل کا دروازہ کھٹکھتاتے رہتے ہیں۔ دن میں آنے والے میسیج اور کالز کی تو خیر ہے، معاملہ رات کو زیادہ خراب ہوجاتاہے۔ اب رات کو دوبجے آدمی تھکا ماندا سو رہا ہے کہ بیل بجے گی جس کے بعد ایک عدد ایس ایم ایس پیغام موصول ہوگا، آپ نے یااللہ خیر پڑھتے ہوئے میسج کھولا تو لکھا تھا، ، ہا ہا ہا ہا اٹھا دیا نہ۔ یا پھر کوئی کہانی سنا کر فرمائش کی جائے گی کہ اسے کم از کم بیس لوگوں تک ایس ایم ایس کیا جائے۔ کوئی صبح کے چار بجے لطیفہ بھیج رہا ہوگا تو کوئی دعا کی تلقین کا ایس ایم ایس بھیج دے گا۔ آج کل تو سیاست داں بھی ایس ایم ایس کے ذریعے اپنی انتخابی تحریک چلاتے نظر آتے ہیں۔ موبائل فون کا استعمال ایسا فیشن بن گیا ہے جس کے بغیر آج کی زندگی کا تصور بھی شایدلوگوں کےلئے نا ممکن ہے۔ جس کو دیکھو جہاں دیکھو جس حال میں دیکھو موبائل فون کے چکرمیں گھن چکر بنا ہوا ہے۔ ایسے بھی لوگ ہیں جو گاڑی چلاتے ہوئے بڑے مزے سے موبائل پر گپ شپ کر تے ہیں۔ بھائی آپ کا سارا دھیان تو باتیں کرنے پر لگا ہوا ہے خدا نہ کرے حادثہ ہو گیا تو کون ذمہ دار ہوگا۔۔ ان سے بھی خطرناک وہ بھائی ہیں جو موٹر سائیکل چلاتے ہوئے بھی موبائل پر بات کرنے سے باز نہیں آتے۔ بھائی صاحب آپ کو اپنی جان کا خوف نہیں تو بڑے مزے سے خود کشی کرلیں لیکن سڑک پر دوسروں کی جان کیوں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ سڑک دوسرے لوگ بھی استعمال کر رہے ہیں، بچے بوڑھے خواتین سڑک پار کر رہی ہیں، وہ آپ کی لا پرواہی کی زد میں آسکتے ہیں۔
یہ تو رہے موبائل فون کے کچھ ایسے استعمال جو کسی بھی طرح لائق تحسین نہیں۔ ایک مسئلہ ان سے بھی پہلے جنم لیتا ہے اور وہ ہے دوسروں کو متاثر کرنے کے لئے مہنگے اور جدید ترین ماڈلز کے موبائل خریدنا۔ اسٹیٹس کو کی اس دوڑ میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔
یہ لوگ موبائل فون کو ہر وقت ہاتھ میں رکھتے ہیں اور جہاں چار لوگ جمع دیکھے شروع ہو گئے موبائل کو کان سے لگا کر کسی سے لایعنی قسم کی گفتگو میں۔ امیر آدمی کی تو خیر ہے کہ اللہ کے فضل سے ایک چھوڑ دو مہنگے موبائل خرید کر رکھ سکتا ہے یہاں تو مصیبت ان بیچارے سفید پوشوں کی آتی ہے جو اپنا خالی خولی کا بھرم دکھانے کے لئے مہنگا موبائل رکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ چاہے بچے کی فیس لیٹ ہو جائے موبائل کی قسط لیٹ نہ ہونے پائے ورنہ ناک کٹ جائے گی۔
فون تو رابطے کا ذریعہ ہے اور اس سے یہی کام لینا زیادہ ضروری ہے، سارے سستے اور مہنگے موبائل فون بنیادی طور پر رابطے کے لئے ہی بنے ہیں۔ اس ساری لکھت کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر آپ موبائل فون استعمال کرتے ہیں تو دیکھیں کہ کہیں آپ اس کا غلط استعمال تو نہیں کر رہے۔ موبائل فون ضرور رکھیں لیکن اس کے استعمال کے لئے خود سے کچھ ضابطے بھی بنائیں۔ یہ کوئی زیادہ محنت کا کام نہیں ہے، آپ دوسروں کا خیال رکھیں اور اس طرح خود بھی زحمت سے محفوظ رہیں۔ کیونکہ موبائل استعمال کرنے والوں کے طور پر اس کے درست استعمال کی ذمہ داری ہماری ہی رہے گی۔
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...
پیدائش اور موت کے وقفے کوزندگی کہتے ہیں۔ جو پیدا ہو گیا اس کو موت بھی آنی ہے۔ تمام حیات کے لئے قدرت کا یہی قائدہ ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ہے یعنی زندگی کتنی طویل یا مختصر ہے ۔ پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو بقا کا نام دیا گیا ہے اور انسان سمیت ہر ذی روح کی کو...