... loading ...
ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’’قربانی کے نام پر لاکھوں جانوروں کا خون بہانا کہاں کا انصاف ہے؟یہ پیسے کسی غریب آ دمی کودے دیں‘‘۔ خون کھول کر رہ گیا کہ اب دریدہ دہنی اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں یوں کھلے عام دین کے بنیادی شعائرومظاہر پر ہی حملہ آور ہو جایا جائے؟ دوسرے دن یہ نعرہ مٹا یا جا چکا تھا لیکن اسی نہر کے شادمان کے طرف والی دیوار پر یہ فقرہ کئی ماہ تک لکھا رہا اور شایدپھر خود ہی مٹ گیا؟
تاریخ میں اسلام اور شعائرِ اسلام پر حملہ آوروں کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ ہمیشہ اور مسلسل اسلام کی بنیادی اصولوں جیسے نکاح ، حج، اور دوسرے اعمال پر تنقید کرتے ہیں لیکن لبادہ انہوں نے انسانیت سے محبت اور رحم دلی کا اوڑھ رکھا ہوتا ہے۔ قول و فعل میں تضاد اس قدر کہ غیر ملکی برانڈ کے جھٹکے والے گوشت سے بنے برگر کھاتے ہوئے انہیں کبھی تکلیف نہیں ہوتی تا ہم اگر مذبح پر اللہ کا نام پڑھ لیا جائے اور کم تکلیف دے کر جانور کی جان لی جائے تو اس پر انسانیت کا رونا؟ ان کا مسئلہ صرف مذہب بیزاری ہے جو تمام حدود پار کرکے مذہب سے نفرت کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
یہ عناصر دراصل عالمی کارپوریٹ اداروں کے ایجنٹ کے طور پر رو بہ عمل ہیں۔ کیوں کہ عید الاضحیٰ پر فی کس بہت زیادہ صحت مند گوشت کھا لینے اور اس سے بھی زیادہ فریج میں رکھ لینے کے بعد کافی ہفتوں تک ہمارے معاشرے کا متوسط طبقہ ان بین الاقوامی فوڈ چین کی دُکانوں کا رُخ نہیں کرتا اور یوں ان اداروں کی سیلز میں چار سے چھ ہفتوں کے لیے کافی کمی ہوجاتی ہے۔ اس لیے کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ایسے تہواروں پر خرچ تو ہو لیکن جانور ذبح نہ کیے جائیں ۔ بیانیہ یہ ہے کہ ’’آپ یہی پیسے کسی غریب کو ویسے ہی ادا کردیں‘‘۔ حالانکہ ان جاہلوں کو یہ نہیں پتاکہ ان ہی قربانی کے جانور وں کے عوض ادا کیا گیا پیسہ ہی دراصل براہِ راست غریبوں کے پاس پہنچتا ہے۔اس وقت بھیڑبکریاں ، گائے بھینسیں پالنے کا زیادہ تر کام وہ طبقہ کرتا ہے جو اس ملک کا سب سے غریب ترین طبقہ شمار ہوتاہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زراعت ہماری ملکی معیشت کا لگ بھگ 22 فی صد ہے اور اس 22 فی صد کا51 فی صد لائیواسٹاک پر مشتمل ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث بارہ ایکڑ سے کم زمین رکھنے والے کسان کا تو گزر بسر ہی گھر میں پالی جانے والی گائے ،بھینس کا دودھ یا اس کا بچھڑا فروخت کر کے چلتا ہے۔ اور یا پھر وہ عید کے موقع پر مہنگے داموں فروخت کے لیے کچھ بکریاں یا بھیڑیں پال لیتا ہے جنہیں وہ عید پر فروخت کر کے اپنی زندگی کا بھرم رکھتا ہے۔ اور یہ ذہن میں رکھئے کہ ہمارے کسانوں کی مجموعی تعداد کے نوے فی صد سے زائد وہ کسان ہیں جو اس شمار میں آتے ہیں۔
اس لیے عید کے موقع پر یہ جو چار سو ارب روپے سے زائد کی ’اقتصادی سرگرمی‘ پیدا ہوتی ہے اس کا معتدبہ حصہ بلوچستان، اندرونِ سندھ اور جنوبی پنجاب کے ان دوردراز گاوں ،گوٹھوں اور دیہاتوں میں بیٹھے ان غریب، بے زبان ، ہاریوں اور کسانوں تک پہنچتا ہے جو شہروں میں ہونے والی ترقی میں سے ماسوائے ’احساسِ کمتری‘ کے کوئی اور حصہ نہیں لے پا رہے ہوتے۔ ایسے میں جانوروں کا مذبح روک کے کیا ہم ملک میں پہلے سے موجود غریبوں کو مزید غریب کرنے کا باعث نہیں بنیں گے؟
ہوسکتا ہے کہ ان کا مطمح نظر ہی یہی ہو ، تا کہ یہ ان شدید غریبوں کی غربت کو اپنی این جی اوز کے ذریعے حسبِ سابق اور حسبِ روایت عالمی منڈی میں بیچ کر اپنے دام کھرے کر سکیں اور عالمی کارپوریٹ اداروں کے عید الاضحیٰ کے باعث کم ہو جانے والی سیلز کو بحال کروا پائیں؟ کیونکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ غربت کسی اورکی ہوتی ہے اور اس کو بیچتا کوئی اور ہے۔ کیا تاریخ میں اتنی دریدہ دہنی پہلے کبھی ہوئی ہے؟ اس طرح کے مباحث نجی محفلوں اور چائے خانوں کی میزوں پر توہوتے رہے ہیں اور ان دلائل کا تسلی بخش جواز بھی دیا جاتا رہا ہے لیکن اس قدر دیدہ دلیری سے اس کی وال چاکنگ اور اور یہ ترقی کہ یہ کام اب سرکاری ٹی وی پر پہنچ گیا ہے۔ ایسی باتیں تو شاید پہلی مرتبہ ہو رہی ہیں اور وہ بھی ’پانچ وقت کے نمازی‘ وزیر اعظم کے دورِ اقتدار میں۔
بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں ایسے تمام عناصر کو پاک فوج اور اس کے اداروں کے زیر اہتمام پال پوس کر جوان اور مضبوط کیا گیا اور یہ اس قدر مضبوط ہو گئے کہ انہوں نے اب قومی اداروں میں گھس کر یہ گند مچا دیا ہے۔ اور تو اور ساری عمر ہر بات اور ہر محفل میں ’’میرے ابا ماڈل ٹاون کی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھایا کرتے تھے‘‘ کے فقرے سے بات شروع کرنے والے صاحب پر حالیہ دنوں میں یہ کشف بھی ہوا ہے کہ ان کا مذہب اور اسلام سے دور دور تک کا واسطہ نہیں۔ اور یہ فقرہ صرف وہ ’’کمپنی کی مشہوری کے لیے ‘‘ کے لیے بولا کرتے تھے ۔
کچھ صائب الرائے احباب کا خیال ہے کہ ان کے بیانیے میں یو ٹرن آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ’باس‘ میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ بھی بدل گیاہے‘‘۔ اسی لیے جب میاں محمد نواز شریف کے اشارہ ابرو سے سرکاری ٹیلی ویژن کی زمام کار موصوف کی دست برد میں آئی ہے ،تو اس کے ساتھ ہی دینِ اسلام اور اس کے شعائر کا مذاق اڑانے اوراس پر باقاعدہ حملہ آور ہونے والے اسلام بیزار لوگوں کو سنگ باری کرنے کے لیے یہ مورچہ بھی دستیاب ہو گیا ہے۔
موصوف بذاتِ خود بھی اور ان کے اَہالی موالی ، سرکاری ٹی وی پر بیٹھ کر ایسی ہی گفتگو فرماتے پائے جاتے ہیں ، اور اس پر کوئی جوابی تنقید کرے یا اس کا جواب دینے کی کوشش کرے تو اسے وہ جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے کر میاں نواز شریف کے سیاسی حجم کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ انور مسعود کی پنجابی نظم ’’آج کیا پکائیں‘‘ کے یہ ’’رحمے ‘‘ اپنے صاحب کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے متعین رہے ہیں۔ بیانیہ ، جوابی بیانیہ ، پروپیگنڈہ ، ملکی معاملات اور مفادات، ان کو کیا پتا کہ یہ کس چڑیا کے نام ہیں، ان کا کام تو ’بادشاہ ‘ کو گھٹیا جنسی لطیفے سنا کر ہنسی سے لوٹ پوٹ کرنا ہوا کرتا تھا۔
اس لیے جب اسلام کا چورن بیچا جا سکا وہ بیچا گیا اور اب اباحیت پسندی کا سودا بیچا جا رہا ہے اور وہ بھی سرکاری پھٹے پر رکھ کر؟
کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...
جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...
میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...
کشمیر کے مسلمان گزشتہ ڈھائی سوسال سے عید ’’حکمِ شرع‘‘کی تکمیل کے لئے مناتے ہیں تاکہ اللہ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کی خلاف ورزی نہ ہو ورنہ کون نہیں جانتا ہے کہ عید صرف ’’صلوٰۃ العید‘‘تک محدود نہیں ہے بلکہ عید جہاں مظہر جلال ِمسلم ہے وہی تکمیل جمال بھی ہے ۔سوگواریت اور غم ناک...
برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد عوامی مزاحمت کو کچلنے کیلئے، بھارتی فورسز جس بربریت کا مظا ہرہ کررہی ہیں اس کے نتیجے میں اب تک 80سے زائد معصوم افراد جاں بحق اور 11000سے زائدد زخمی ہوئے ہیں۔ 600کے قریب بچوں اور بچیوں کی بینائی جزوی طور پر متاثر ہوچکی جبکہ 300سے زائد افرد کی بینائی...
عید الاضحی ہمیں نہ صرف حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسما عیل ؑ کی قربانی یاد دلاتی ہے بلکہ اس قربانی میں ان کے سرخرو ہونے پر خوشیاں منا نے کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ حکم خدا وندی کی تعمیل میں با پ بیٹا دونوں دل اور روح کی گہرائیوں سے راضی اور اس عمل پر ان کا رب بھی راضی۔...
مولانا محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض قربانی کی تاریخ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام )کو ذبح کررہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے مکہ مکرمہ ...
دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...
میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...
سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...
ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ ب...
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عید الفطر کی طرح عید الضحیٰ بھی ملک سے باہر منائی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے دبئی میں اور مولانا فضل الرحمن نے سعودی عرب میں عید منائی ۔ ملک کی صفِ اول کی سیاسی قیادت میں عمران خان واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے دونوں عید...