وجود

... loading ...

وجود

قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

جمعه 16 ستمبر 2016 قربانی سے تکلیف کن کو ہے؟

eid-al-adha

ہمارا دفترگزشتہ ایک دہائی سے گلبرگ ، لاہور میں ہی واقع ہے۔ ادارہ بدلتا رہتا ہے لیکن علاقہ نہیں بدلتا۔ مشرف دور کی بات ہے ایک دن گھر کو واپسی کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کے گھر والی سڑک سے گزر کر نہر کے کنارے والی سڑک پر مڑے تو نہر کے کنارے بنی حفاظتی دیوار پر لکھا تھا ’’قربانی کے نام پر لاکھوں جانوروں کا خون بہانا کہاں کا انصاف ہے؟یہ پیسے کسی غریب آ دمی کودے دیں‘‘۔ خون کھول کر رہ گیا کہ اب دریدہ دہنی اس حد کو پہنچ گئی ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے ملک میں یوں کھلے عام دین کے بنیادی شعائرومظاہر پر ہی حملہ آور ہو جایا جائے؟ دوسرے دن یہ نعرہ مٹا یا جا چکا تھا لیکن اسی نہر کے شادمان کے طرف والی دیوار پر یہ فقرہ کئی ماہ تک لکھا رہا اور شایدپھر خود ہی مٹ گیا؟

تاریخ میں اسلام اور شعائرِ اسلام پر حملہ آوروں کا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ ہمیشہ اور مسلسل اسلام کی بنیادی اصولوں جیسے نکاح ، حج، اور دوسرے اعمال پر تنقید کرتے ہیں لیکن لبادہ انہوں نے انسانیت سے محبت اور رحم دلی کا اوڑھ رکھا ہوتا ہے۔ قول و فعل میں تضاد اس قدر کہ غیر ملکی برانڈ کے جھٹکے والے گوشت سے بنے برگر کھاتے ہوئے انہیں کبھی تکلیف نہیں ہوتی تا ہم اگر مذبح پر اللہ کا نام پڑھ لیا جائے اور کم تکلیف دے کر جانور کی جان لی جائے تو اس پر انسانیت کا رونا؟ ان کا مسئلہ صرف مذہب بیزاری ہے جو تمام حدود پار کرکے مذہب سے نفرت کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

یہ عناصر دراصل عالمی کارپوریٹ اداروں کے ایجنٹ کے طور پر رو بہ عمل ہیں۔ کیوں کہ عید الاضحیٰ پر فی کس بہت زیادہ صحت مند گوشت کھا لینے اور اس سے بھی زیادہ فریج میں رکھ لینے کے بعد کافی ہفتوں تک ہمارے معاشرے کا متوسط طبقہ ان بین الاقوامی فوڈ چین کی دُکانوں کا رُخ نہیں کرتا اور یوں ان اداروں کی سیلز میں چار سے چھ ہفتوں کے لیے کافی کمی ہوجاتی ہے۔ اس لیے کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ایسے تہواروں پر خرچ تو ہو لیکن جانور ذبح نہ کیے جائیں ۔ بیانیہ یہ ہے کہ ’’آپ یہی پیسے کسی غریب کو ویسے ہی ادا کردیں‘‘۔ حالانکہ ان جاہلوں کو یہ نہیں پتاکہ ان ہی قربانی کے جانور وں کے عوض ادا کیا گیا پیسہ ہی دراصل براہِ راست غریبوں کے پاس پہنچتا ہے۔اس وقت بھیڑبکریاں ، گائے بھینسیں پالنے کا زیادہ تر کام وہ طبقہ کرتا ہے جو اس ملک کا سب سے غریب ترین طبقہ شمار ہوتاہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق زراعت ہماری ملکی معیشت کا لگ بھگ 22 فی صد ہے اور اس 22 فی صد کا51 فی صد لائیواسٹاک پر مشتمل ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث بارہ ایکڑ سے کم زمین رکھنے والے کسان کا تو گزر بسر ہی گھر میں پالی جانے والی گائے ،بھینس کا دودھ یا اس کا بچھڑا فروخت کر کے چلتا ہے۔ اور یا پھر وہ عید کے موقع پر مہنگے داموں فروخت کے لیے کچھ بکریاں یا بھیڑیں پال لیتا ہے جنہیں وہ عید پر فروخت کر کے اپنی زندگی کا بھرم رکھتا ہے۔ اور یہ ذہن میں رکھئے کہ ہمارے کسانوں کی مجموعی تعداد کے نوے فی صد سے زائد وہ کسان ہیں جو اس شمار میں آتے ہیں۔

اس لیے عید کے موقع پر یہ جو چار سو ارب روپے سے زائد کی ’اقتصادی سرگرمی‘ پیدا ہوتی ہے اس کا معتدبہ حصہ بلوچستان، اندرونِ سندھ اور جنوبی پنجاب کے ان دوردراز گاوں ،گوٹھوں اور دیہاتوں میں بیٹھے ان غریب، بے زبان ، ہاریوں اور کسانوں تک پہنچتا ہے جو شہروں میں ہونے والی ترقی میں سے ماسوائے ’احساسِ کمتری‘ کے کوئی اور حصہ نہیں لے پا رہے ہوتے۔ ایسے میں جانوروں کا مذبح روک کے کیا ہم ملک میں پہلے سے موجود غریبوں کو مزید غریب کرنے کا باعث نہیں بنیں گے؟

ہوسکتا ہے کہ ان کا مطمح نظر ہی یہی ہو ، تا کہ یہ ان شدید غریبوں کی غربت کو اپنی این جی اوز کے ذریعے حسبِ سابق اور حسبِ روایت عالمی منڈی میں بیچ کر اپنے دام کھرے کر سکیں اور عالمی کارپوریٹ اداروں کے عید الاضحیٰ کے باعث کم ہو جانے والی سیلز کو بحال کروا پائیں؟ کیونکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ غربت کسی اورکی ہوتی ہے اور اس کو بیچتا کوئی اور ہے۔ کیا تاریخ میں اتنی دریدہ دہنی پہلے کبھی ہوئی ہے؟ اس طرح کے مباحث نجی محفلوں اور چائے خانوں کی میزوں پر توہوتے رہے ہیں اور ان دلائل کا تسلی بخش جواز بھی دیا جاتا رہا ہے لیکن اس قدر دیدہ دلیری سے اس کی وال چاکنگ اور اور یہ ترقی کہ یہ کام اب سرکاری ٹی وی پر پہنچ گیا ہے۔ ایسی باتیں تو شاید پہلی مرتبہ ہو رہی ہیں اور وہ بھی ’پانچ وقت کے نمازی‘ وزیر اعظم کے دورِ اقتدار میں۔

بہادر کمانڈو جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں ایسے تمام عناصر کو پاک فوج اور اس کے اداروں کے زیر اہتمام پال پوس کر جوان اور مضبوط کیا گیا اور یہ اس قدر مضبوط ہو گئے کہ انہوں نے اب قومی اداروں میں گھس کر یہ گند مچا دیا ہے۔ اور تو اور ساری عمر ہر بات اور ہر محفل میں ’’میرے ابا ماڈل ٹاون کی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھایا کرتے تھے‘‘ کے فقرے سے بات شروع کرنے والے صاحب پر حالیہ دنوں میں یہ کشف بھی ہوا ہے کہ ان کا مذہب اور اسلام سے دور دور تک کا واسطہ نہیں۔ اور یہ فقرہ صرف وہ ’’کمپنی کی مشہوری کے لیے ‘‘ کے لیے بولا کرتے تھے ۔

کچھ صائب الرائے احباب کا خیال ہے کہ ان کے بیانیے میں یو ٹرن آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ’باس‘ میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ بھی بدل گیاہے‘‘۔ اسی لیے جب میاں محمد نواز شریف کے اشارہ ابرو سے سرکاری ٹیلی ویژن کی زمام کار موصوف کی دست برد میں آئی ہے ،تو اس کے ساتھ ہی دینِ اسلام اور اس کے شعائر کا مذاق اڑانے اوراس پر باقاعدہ حملہ آور ہونے والے اسلام بیزار لوگوں کو سنگ باری کرنے کے لیے یہ مورچہ بھی دستیاب ہو گیا ہے۔

موصوف بذاتِ خود بھی اور ان کے اَہالی موالی ، سرکاری ٹی وی پر بیٹھ کر ایسی ہی گفتگو فرماتے پائے جاتے ہیں ، اور اس پر کوئی جوابی تنقید کرے یا اس کا جواب دینے کی کوشش کرے تو اسے وہ جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے کر میاں نواز شریف کے سیاسی حجم کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ انور مسعود کی پنجابی نظم ’’آج کیا پکائیں‘‘ کے یہ ’’رحمے ‘‘ اپنے صاحب کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے متعین رہے ہیں۔ بیانیہ ، جوابی بیانیہ ، پروپیگنڈہ ، ملکی معاملات اور مفادات، ان کو کیا پتا کہ یہ کس چڑیا کے نام ہیں، ان کا کام تو ’بادشاہ ‘ کو گھٹیا جنسی لطیفے سنا کر ہنسی سے لوٹ پوٹ کرنا ہوا کرتا تھا۔

اس لیے جب اسلام کا چورن بیچا جا سکا وہ بیچا گیا اور اب اباحیت پسندی کا سودا بیچا جا رہا ہے اور وہ بھی سرکاری پھٹے پر رکھ کر؟


متعلقہ خبریں


بھارتی جنگی بیانیے کا جواب رضوان رضی - بدھ 05 اکتوبر 2016

کوئی تین سال پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک ہم عصر صحافی جو صحافت کرتے کرتے ایک دم غائب ہو گئے تھے، کچھ سالوں کے بعد ملے تو پتا چلا کہ وہ کابل میں ایک امریکی اخبار کے بیورو میں پائے جاتے ہیں اور ہر ماہ کسی افغان وار لارڈ کی طرح ڈالروں سے جیبیں بھرتے ہیں۔ پختون پس منظر کے باعث ان کو ...

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب

انتخابی وٹا اور چند اشارے رضوان رضی - منگل 04 اکتوبر 2016

جناب عمران خان نے رائیونڈ اور جاتی امراء چوک پر ایک اور جلسہ کرلیا۔ جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا معیار ہر دو فریقین کے نزدیک دیگر ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی ربع صدی تک سیاسی جلسوں کے جائزوں کے بعد خاکسار کا خیال ہے کہ بیس ہزار وہ جادوئی ہندسہ ہے جس کو پار کر جانے کے بعد کوئی ب...

انتخابی وٹا اور چند اشارے

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا رضوان رضی - اتوار 25 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف کا سخت سے سخت ناقد بھی اس بات کا معترف ہورہا ہے کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک بھرپور اور پاکستان جیسے اہم اسلامی ملک کے شایانِ شان تقریر کی۔ پاک بھارت شملہ معاہدے کے بعد کشمیر پر یہ پہلی سفارتی ’’جارحیت‘‘ ہے جس کا اعزاز بھی ایک منتخب جمہوری ح...

نواز شریف کی تقریر: کھسیانی بلی کا کھمبا

تاریخِ کشمیر کی پہلی سوگوار عید الطاف ندوی کشمیری - منگل 20 ستمبر 2016

کشمیر کے مسلمان گزشتہ ڈھائی سوسال سے عید ’’حکمِ شرع‘‘کی تکمیل کے لئے مناتے ہیں تاکہ اللہ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کی خلاف ورزی نہ ہو ورنہ کون نہیں جانتا ہے کہ عید صرف ’’صلوٰۃ العید‘‘تک محدود نہیں ہے بلکہ عید جہاں مظہر جلال ِمسلم ہے وہی تکمیل جمال بھی ہے ۔سوگواریت اور غم ناک...

تاریخِ کشمیر کی پہلی سوگوار عید

مقبوضہ کشمیر میں دفعہ 144، نماز عید پڑھنے کی اجازت بھی نہیں! شیخ امین - منگل 13 ستمبر 2016

برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد عوامی مزاحمت کو کچلنے کیلئے، بھارتی فورسز جس بربریت کا مظا ہرہ کررہی ہیں اس کے نتیجے میں اب تک 80سے زائد معصوم افراد جاں بحق اور 11000سے زائدد زخمی ہوئے ہیں۔ 600کے قریب بچوں اور بچیوں کی بینائی جزوی طور پر متاثر ہوچکی جبکہ 300سے زائد افرد کی بینائی...

مقبوضہ کشمیر میں دفعہ 144، نماز عید پڑھنے کی اجازت بھی نہیں!

عید یا وعید!!! شیخ امین - منگل 13 ستمبر 2016

عید الاضحی ہمیں نہ صرف حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسما عیل ؑ کی قربانی یاد دلاتی ہے بلکہ اس قربانی میں ان کے سرخرو ہونے پر خوشیاں منا نے کا بھی تقاضا کرتی ہے۔ حکم خدا وندی کی تعمیل میں با پ بیٹا دونوں دل اور روح کی گہرائیوں سے راضی اور اس عمل پر ان کا رب بھی راضی۔...

عید یا وعید!!!

قربانی: تاریخ، فضائل اور مسائل وجود - منگل 13 ستمبر 2016

مولانا محمد نجیب سنبھلی قاسمی، ریاض قربانی کی تاریخ: حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام )کو ذبح کررہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے مکہ مکرمہ ...

قربانی: تاریخ، فضائل اور مسائل

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم ! رضوان رضی - هفته 10 ستمبر 2016

دو دن قبل ہی چین سے افغانستان کو چلنے والی پہلی مال گاڑی تاجکستان اور ازبکستان کے راستوں سے ہوتی ہوئی افغان صوبہ مزار شریف کے سرحدی گاؤں حیراتان کی خشک بندرگاہ پرپہنچی ہے ۔ یہ مال گاڑی کوئی پندرہ روز قبل چین سے روانہ ہوئی تھی۔ دونوں ممالک اس کو ایک اہم تاریخی سنگِ میل قرار دے رہ...

علاقائی تجارتی رابطے اور ہم !

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن رضوان رضی - اتوار 04 ستمبر 2016

میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان نوے کی دہائی میں سیاسی محاذ آرائی زوروں پر تھی تو بی بی کے خلاف مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک خانہ ساز بدعنوانی یا کرپشن کا ’بیانیہ ‘ نہ صرف اوصول کیا گیا بلکہ اس کو حسبِ توفیق آگے بھی پھیلایا ، وہ بیانیہ تھا کہ ’’بے نظیر ،زرداری اور ان ...

سیاسی اشرافیہ اور کرپشن

اکھیاں دی لالی رضوان رضی - اتوار 18 اکتوبر 2015

سابق آمر صدر ایوب کے دور میں پشاور میں بڈابیر کے ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ لگانے سے لے کر گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لاہور، کراچی گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے پر ہونے والے دستخط تک، پاکستان او ر روس کے دو طرفہ تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد پنڈ...

اکھیاں دی لالی

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز رضوان رضی - بدھ 07 اکتوبر 2015

ہمارے حجاج کرام اﷲ کے گھر سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ ان کے پاس سانحہ منیٰ و جمرات کے سانحے کے بارے میں سنانے کے لئے بہت سی داستانیں ہیں۔ لیکن ہم نے اپنے الیکٹرانک میڈیا کی مدد سے حج کے دوران پیش آنے والے واقعات پر ان کی سنے بغیر پہلے ہی اپنی رائے نہ صرف قائم کر لی ہے بلکہ اس کی تبلیغ ب...

سانحہ منیٰ اور ہمارے لیری کنگز

رہنماؤں کے ملک سے باہر عیدمنانے کا معمول ابن انتظار - اتوار 27 ستمبر 2015

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عید الفطر کی طرح عید الضحیٰ بھی ملک سے باہر منائی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے دبئی میں اور مولانا فضل الرحمن نے سعودی عرب میں عید منائی ۔ ملک کی صفِ اول کی سیاسی قیادت میں عمران خان واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے دونوں عید...

رہنماؤں کے ملک سے باہر عیدمنانے کا معمول

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر