... loading ...
وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر لی ہے جس میں آپ اُن کی تعریف کے سوا کچھ اور کر ہی نہیں سکتے!اگر حالات ایسے ہی رہے، اور تارکول کی سڑکوں کے ساتھ اقتصادی راہداری کی معاشی فضیلتوں کا جاپ جاری رہاتو لگتا ہے کہ وہ سررابرٹ والپول کا ریکارڈ توڑ دیں گے جو برطانیا میں 1722 سے 1742ء تک اکیس سال تک وزیراعظم رہا۔ اور آج تک اس کا یہ محفوظہ (ریکارڈ) توڑا نہیں جاسکا۔ اگرچہ والپول کے لیے کہا جاتا تھا کہ ’’وہ تو بنا ہی حکمرانی کے لیے تھا‘‘۔ مگر شاید یہ بات اب غلط ہو، ہمارے وزیراعظم نوازشریف پر یہ جملہ زیادہ پھبتا ہے۔ مگر ہم گئے زمانوں کی عمیق یادوں سے گونجتی آوازوں کا خوف کیوں پالیں، والپول کو چھوڑیں۔
ابھی ابھی رخصت ہونے والے ایک اور وزیراعظم کو یاد کریں۔
ڈیوڈ کیمرون نے 11مئی 2010ء کو برطانوی وزیراعظم کا منصب سنبھالا۔ اور اپنی پہلی میعاد8؍مئی 2015ء کو بطریق احسن مکمل کرتے ہوئے دوسری مرتبہ بھی اس منصب سے سرفراز ہوئے۔ ڈیوڈ کیمرون نے اپنی دوسری میعاد کا ابھی ایک سال ہی مکمل کیا تھا کہ برطانیا کو ا س مسئلے کا سامنا کرنا پڑا کہ اُسے یورپی یونین کا حصہ رہنا چاہیے یا نہیں؟ ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین میں اپنے ملک کو رکھنے کے حامی تھے۔ اس سوال پر جب برطانیا میں 23جون 2016ء کو ریفرنڈم کرایا گیا تو نتیجہ ڈیوڈ کیمرون کی رائے کے برخلاف آیا۔ یہ محض ایک مسئلے پر برطانوی عوام کی رائے تھی۔ جسے ڈیوڈ کیمرون پر عدم اعتماد قرار دینے کی ابھی کوئی پھلجڑی بھی کسی نے نہیں چھوڑی تھی۔ مگر اگلے روز یعنی 24 جون کو ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے اور کنزویٹو جماعت کے اگلے قائد کے انتخاب کے ساتھ ہی 13؍ جولائی کو اُنہوں نے اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ ڈیوڈ کیمرون نے 10ڈاوننگ اسٹریٹ سے جب اپنا سامان نکالا تو اُن کے چہرے پر ملال کا ذرا سا شائبہ تک نہیں تھا۔ ڈیوڈ کیمرون کو برطانوی وزیراعظم کا دفتر اور جمہوریت کی ماں کہلانے والی برطانوی پارلیمنٹ کے قائد ایوان کا منصب چھوڑنے کا ذرا بھی ملال کیوں نہیں تھا؟ اس لیے کہ برطانوی جمہوریت ذمہ داری کے ایک تصور اور جواب دہی کے ایک احساس کے ساتھ عبارت ہے۔ یہاں سب سے بڑے منصب کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ اب سب سے زیادہ امیر بننے کی دوڑ میں بھی شامل ہوگئے۔ اسی لیے ڈیوڈ کیمرون برطانوی وزیراعظم کا دفتر چھوڑتے ہی اپنے ایک دوست کے گھر منتقل ہوگئے۔
اُدھر اوباما کو دیکھیں!جس کے ملک کے پیسوں نے تیسری دنیا کے کتنے ہی ملکوں کو بدعنوان بنایا اور جس نے پاکستان کے اندر کسی بااثر آدمی کو اپنے چنگل میں لانے کے لیے دولت سے ڈھیر نہیں کردیا۔ مگر خود اُس کا اپنا صدر کیا رویہ رکھتا ہے۔ دنیا پر حکمران ملک کا صدر اب
قصرابیض(وائٹ ہاؤس) چھوڑنے والا ہے۔ اور ان دنوں اپنے لیے کرائے کے مکان کی تلاش میں ہے۔ دنیا کے سب سے طاقت ور صدر نے اب تک نو مکان محض اسے لئے مسترد کردیے کیونکہ اُس کاکرایہ اُن کے اخراجات کی حد سے باہر تھا۔ آدمی حیران رہ جاتا ہے کیا واقعی یہ لوگ دنیا کے سب سے طاقت ور مراکز اور دولت کے سب سے زیادہ بہاؤ کے اختیارات برتنے کے بعد اپنی نجی زندگی میں واپس اس قدرآسانی سے جاسکتے ہیں؟
جینیفر براؤن نے 10ڈاوننگ اسٹریٹ کے باسیوں کی زندگی اور دلچسپ واقعات کا ایک زبردست احوال لکھا ہے۔ وہ اس سوال کو جواب دیتا ہے کہ ’’وزیراعظم کسی چیتے کی مانند ہوتا ہے جو اپنی زمین کبھی نہیں چھوڑتا۔ وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے، جیسا ہو، اس دوران میں بھی ویسا ہی رہتا ہے۔ اور پھر جب اُس کے اقتدار کا عرصہ ختم ہوتا ہے تو اُسے اپنے پرانے طرزِ زندگی کو اپنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ (اکا دکا مثالوں کو چھوڑ کر)۔ اس کی وجہ پھر وہی جمہوریت کا کردار ہے کہ جو اسے یہ سمجھ لینے میں آسانی مہیا کرتا ہے کہ اُس کے جوتے کا سائز اُس کے 10۔ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں قیام کے دوران میں ذرا سا بھی تبدیل نہیں ہوا۔ ‘‘ہمارے وزرائے اعظم کا ماجرا مختلف ہے۔ اُن کے جوتوں، پیٹوں، بیٹوں اور چہیتوں کا سائز ہی نہی اُن سب کے جیبوں کا وزن تک تبدیل ہوجاتا ہے۔ مگروہ ہم سے ایسی عزت اور تکریم کا مطالبہ کرتے ہیں جو جمہوریت نے ڈیوڈ کیمرون کو دی ہے۔ وہ جمہوریت کو اور نہ ہی ڈیوڈ کیمرون کی مثالوں کو اپناتے ہیں مگر اُن سے کوئی سوال کیا جائے تو وہ اِسے جمہوریت کے خلاف سازش باور کرادیتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف تو پاناما لیکس کے معاملے میں حساس ترین اور ٹھوس الزامات کے باوجود خود اپنے وعدے کے مطابق بھی جوابدہ ہونے کو تیار نہیں، چہ جائیکہ وہ ڈیوڈ کیمرون کی طرح کسی اخلاقی احساس کے ساتھ رخصتی کے دروازے پر نگاہِ غلط انداز بھی ڈالنا گوارا کریں۔ پاکستان میں ایسی جذباتی آسودگیاں کبھی میسر نہیں آتیں جو مغرب کی کارپوریٹ جمہوریت اپنی مثالوں کے ساتھ گاہے مہیا کرتی ہیں تاکہ مغرب کے عوام کا اس نظام پر سے اعتماد نہ اُٹھے۔ مگر پاکستان کے تو زمین وآسمان ہی الگ ہیں۔ یہاں ایسی مثالوں کو قائم کیے بغیر ہی جمہوریت پر ایمان کو اس طرح مستحکم کیا جارہا ہے کہ بس ذرا سا اس پر سے اعتماد ڈگمگایا تو آپ کی عاقبت خراب ہوئی۔
اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے سیاست دان جب وزرائے اعظم کی کینچلی بدلتے ہیں تو اُن کے خریدے گئے جوتے، بدلے گئے لباس اور ہاتھ میں تبدیل ہوتی گھڑیاں موضوع بحث بنتی ہیں، جبکہ اوباما اور ڈیوڈ کیمرون کے علاوہ دیگر وزرائے اعظم کی جو سرگرمیاں سامنے آتی ہیں وہ کتابوں کی خریداری، بوڑھے اور بچوں کے ساتھ گزارا گیا وقت، بلٹ ٹرین میں اپنے ٹکٹ سے نشست کے بغیر سواری، اکثر پروٹوکول سے عاری سفر اور سماجی مسائل پر غوروفکر جیسے موضوعات ہوتے ہیں۔ اس سے ذہنوں کا فرق ہی واضح نہیں ہوتا بلکہ ترقی کے تناظر بھی نکلتے ہیں۔ پہلی قسم کے وزرائے اعظم اپنے ملک کی ترقی تارکول کی سڑکوں کی لمبائی چوڑائی اور لپائی پُتائی میں دُھونڈتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کے سربراہانی یہی ترقی تعلیم و صحت کے متعلق مہیا کی گئی سہولتوں میں دیکھتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگوں کی بَک بَک میں دولت، خزانہ، اتنے ارب اور اتنے کھرب سے زبانیں الجھی رہتی ہیں۔ جبکہ دوسرے کی لَپ جَھپ میں انسانی وسائل اور ذرائع کی ترقی کا گیان جھلکتا ہے۔ فرق تو صاف ظاہر ہے، پہلی قسم کے سربراہان انسانوں پر سواری کااپنا محبوب مشغلہ بنائے رکھتے ہیں۔ اور دوسری قسم کے سربراہاں اپنے منصب چھوڑتے ہوئے بسا اوقات خوشی محسوس کرتے ہیں۔ لارڈ گرینول بھی اُن میں سے ایک تھا۔ اُس نے 1807ء میں برطانوی وزیراعظم کا منصب چھوڑتے ہوئے اپنے بھائی لارڈ بکنگھم کو لکھا کہ
’’میں اب پھر سے ایک آزاد انسان ہوں۔ اور اپنی اس نجات سے میں جتنی خوشی محسوس کررہا ہوں سوائے تمہارے میں اور لوگوں سے اس کا اظہار بھی نہیں کرسکتا۔ ‘‘
ہمارے ’’لارڈ گرینول‘‘ کا بھائی جانتا ہے کہ پاناما لیکس کے باوجود بھی اُس کا بھائی ایسی ’’نجات‘‘ کی خوشی پانے کا آرزومند نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ہمارے ’’لارڈ گرینول‘‘ بھی جانتے ہیں کہ اُن کے بھائی ایسی تحریر سے کتنی خوشی محسوس کریں گے۔ پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارا ’’لارڈ گرینول‘‘اپنے جوتے کا سائز بھی بڑھا چکا ہے۔ مناصب جن کے جوتے کا سائز بڑھادیتے ہوں تو وہ متوازی طور پر اُن کے دماغ کا سائز گھٹا بھی دیتے ہیں۔ اور کردار کاتو کوئی سائز ہی نہیں رہنے دیتے۔
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
ہم وہ دن پیچھے چھوڑ آئے،جو دراصل ہمارے ساتھ چمٹ چکا ہے۔ ہماری تاریخ وتہذیب کے لئے سب سے بڑا امتحان بن چکا ہے اور قومی حیات سے لے کر ہمارے شرعی شب وروز پر مکمل حاوی ہو چکا ہے۔یہ مسلم ذہن کے ملی شعور کی سب سے بڑی امتحان گاہ کا خطرناک ترین دن ہے۔ امریکامیں نوگیارہ سے قبل جاپان کی...