... loading ...
افسروں کے طور اطوار اور اندازِ حکمرانی سمجھنے کے حوالے سے آخری واقعہ مہاجر افسر کا ہے۔ تعلق ٹنڈو الہ یار سے مگر حیدرآباد مننتقل ہو گئے تھے۔ نام مستقیم تھا مگر صراط مستقیم سے فطری طور پر ایسے ہی دور تھے جیسے شیطان اﷲ کی فرماں برداری سے۔ باپ کے توسط سے ایک ٹھیکے دار صاحب کی ملازمت میں داخل ہوئے۔ چند ہی برسوں میں وہ ان کے معتمد خاص بن گئے۔ ٹھیکے دار صاحب کو شراب نوشی اور مجروں کا بہت شوق تھا۔ حیدرآباد اس معاملے میں ذرا رنگ برنگا اور مستعد تھا۔ مجرے ہوتے تو حضرت بھی اپنے باس کی دل جوئی کے لیے انہیں نچوڑیوں کے ساتھ پگ گھنگرو باندھ میرا بن ناچتے تھے۔ بدن لچکیلا تھا۔ اہل محفل خوش ہوجاتے تھے۔ وہاں کونسی اداکارہ مادھوری ڈکشٹ اور سروج خان، فرح خان اور احمد خان (ہندوستان کے تین مشہور فلمی ڈانس ڈائریکٹرز) بیٹھے ہوتے کہ ان کے فن میں عیب نکالے جاتے۔
ٹھیکے دار صاحب صوبائی وزیر بنے تو مستقیم خان کو بھی براہ راست اسٹنٹ کمشنر بنا دیا گیا۔ 1973ء کی انتظامی اصلاحات کے بعد سول سروس کی یہ بربادی عام ہوگئی۔ سرکار کا ذمہ دار افسر اور علاقے میں لا ء اینڈ آرڈر کا انچارج ہونے کے بعد بھی حضرت کی وزیر صاحب کی تابعداری میں کوئی فرق نہ آیا۔ یوں ہی محافل شبینہ برپا ہوتی رہیں۔ ان کا رقص رواں صرف اتنے سے فرق سے جاری رہا کہ اب ان کا آئٹم آتا تو باقاعدہ گھونگھٹ نکالا ہوا ہوتا اور اعلان ہوتا کہ اب سندھ سرکار مجرے کی اجازت چاہتی ہے۔ یہ لکھنؤ کا خاص انداز تھا۔ طوائف خاندان کے سب سے بڑے فرد سے اجازت مانگ کر رقص ہوتی تھی۔ اس لیے لفظ مجرہ استعمال ہوتا ہے اور پاکستان کے اکثر قوانین کے ساتھ مجریہ لکھا ہوتا کہ یہ باقاعدہ طور پر اجرا ہوتے ہیں اور آپ کی زندگی میں ہر سو ناچتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے ہر قانون انگریزی کی خوف ناک اصطلاح Not withstanding سے شروع ہوتا ہے جو آپ کی مدد نہ کرنے کا بہترین بہانا بن جاتا ہے۔ یہودی حضرت موسی علیہ السلام کے حوالے سے کہتے ہیں کہ Let Law bend the mountain قانون پہاڑ کو بھی موڑ سکتا ہے مگر پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں فرد اداروں پر بھاری ہوگیا ہے اور فرد ہی قانون کو موم کی ناک کی طرح موڑتا رہتا ہے۔ ہمارے مستقیم صاحب کا ذکر تھا۔ حضرت اوائل ملازمت میں نیپئر روڈ کے مجسٹریٹ تھے تو کسی طوائف سے معاوضۂ شب کی ادائی پر ناراضی ہوگئی۔ یہ طیش میں آگئے۔ بے چاری کو رقم بھی ادا نہ کی اور تھپڑ بھی رسید کردیے۔ وہ بھی بدلے کی دھمکی دے کر چلی گئی۔ یہ حضرت اپنی نو دریافت شدہ طاقت کے گھمنڈ میں تھے۔ اسے ذرہ خاک جتنی بھی اہمیت نہ دی۔ اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ خراب عورتوں کے اچھے مردوں سے بڑے گہرے تعلقات ہوتے ہیں۔ بہت کم جگہ پر مذکور ہے کہ امریکامیں مافیا کا ڈان سیم جنکانا، اداکار فرینک سنٹارا اور صدر کینیڈی تینوں ایک سماجی تتلی (Social Butterfly) روکزان اور اداکارہ مارلن منرو کے دامن پرلطف سے بیک وقت ٹنگے رہتے تھے۔
ایف بی آئی کے چیف ایڈگر ہووؤر رات کو ان خواتین و حضرات کی Pillow Talks کی خفیہ ٹیپ سن کر ہی خوش ہوتے رہتے تھے کہ بڑے قومی سلامتی کے امور تک رسائی ہوگئی ہے۔ اصل میں بہت اوپر جاکر سیاست اور جرم کی خط امتیاز مٹ جاتی ہے: روم کے فلاسفر سیسرو نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ساٹھ سال قبل کہا تھا:
غریب : کام کرتا ہے
مالدار: غریب کے کام کا فائدہ اٹھاتا ہے
فوجی: ان دونوں کی حفاظت کرتا ہے
ٹیکس دہندہ: ان تینوں کا خرچہ اٹھاتا ہے
شرابی : ان چاروں کی شراب پی جاتا ہے
بینکر:ان پانچوں کو لوٹتا رہتا ہے
وکیل: ان چھ کو دھوکا دیتا ہے
ڈاکٹر : ان ساتوں کا ہلاک کردیتا ہے
گورکن: ان آٹھوں کو دفنا دیتا ہے
سیاست دان: ان نو طبقات کی وجہ سے مزے لوٹتا ہے۔
یاد رکھیں! یہ حالات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ساٹھ سال پہلے کے تھے اور مملکت کا نام پاکستان بھی نہ تھا۔
اس طوائف کے مہربانوں میں لائٹ ہاؤس پر کپڑے کا ایک بیوپاری ایسا بھی تھا جو بہت روشن ضمیر تھا۔ مجسٹریٹ صاحب کا مالی نقصان تو اس نے فی الفور پورا کردیا کہ جہاں دیدہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ بیسوا اور پنڈت سے بھاؤ تاؤ میں نہ تن کی سیوا ہوتی ہے نہ من کی۔ متعلقہ فوجی حلقوں میں رسائی کے باعث یہ شکایت پہنچائی گئی۔ ضیا الحق کا مارشل لاء تھا۔ ملتان میں ایک ڈپٹی کمشنر کو کوڑے مارے جاچکے تھے۔ خیال تھا ان کا بھی ویسا ہی حال کیا جائے مگر پھر بات یہاں پر ٹہری کہ معطل کرکے ان کے خلاف انکوائریاں کرادیں۔
بہت بعد میں جب وہ فوجی افسر یہاں سے سدھارے تو ان کے حالات میں بہتری آئی۔
ہم سے ان کا واسطہ تب ہی ہوا۔ چاند رات کو ہمارے دھوبی آگیا کہ اس کے پڑوسی کے نوجوان بیٹے کو محلے میں لڑکی کے عشق کی وجہ سے ضابطہ فوجداری پاکستان کی دفعہ107/117/151 یعنی نقضِ امن کے خدشے کی وجہ سے بند کرادیا ہے۔ میں نے لڑکی کے والدین کو سمجھادیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر لڑکا باز آجائے تو انہیں اس کی رہائی پر کوئی اعتراض نہیں۔ ہم نے مستقیم صاحب کو فون کیا۔ عام طور پر علاقہ ایس ڈی ایم کے فون پر تھانہ روز نامچے میں اندراج کرکے چھوڑ دیتا تھا۔ اگلے دن عدالت میں ضمانت کے لیے پیش ہوجاتے تھے۔ عدالت میں مستقل حاضری لگتی تھی۔ چند ماہ بعد مقدمہ ختم ہوجاتا تھا۔
مستقیم صاحب بہت خوش ہوئے جواب میں ایک کام ہمیں بھی بتادیا جو خاصا مشکل تھا۔ کہنے لگے ابھی فون کرتا ہوں۔ ضمانتیوں کو کہیں فوراً تھانے پہنچیں۔ کل عید ہے۔ چند دن خاموشی رہی۔ ہم نے جانا کہ کام ہوگیا ہوگا تو کسی نے اطلاع دینے کی زحمت نہ کی ہوگی۔ پندرہ بیس دن بعد دھوبی صاحب سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ دس ہزار روپے تو ایس ڈی ایم صاحب نے فوراً لے لیے تھے مگر رہائی عید کے تیسرے دن ملی کہ ڈی سی صاحب نے منع کیا کہ کسی کو بھی ضمانت نہیں دینی۔ ہمیں دکھ ہوا مگر یہ سوچ لیا کہ بدلہ پُرانا نہیں ہوتا۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ چھوڑنا نہیں ہے۔
چند ماہ بعد ایک وفد چیف سیکرٹری سے ملنے آیا تو ایک حاجی صاحب ان کے شکایت کنندہ نکلے۔ ان کی درخواست ہمارے پاس آگئی تو انہیں سن گن مل گئی۔ آئے تو ہم نے کہا جاکر اس خاندان کو دس ہزار روپیہ واپس کرو۔ اُن کو ساتھ لاؤ اور ہمارے سامنے ان سے معافی مانگو۔ سب کچھ ایسے ہی ہوا۔ ایس ڈی ایم صاحب ہوٹل کے ایک باورچی کے گھر معافی مانگنے پہنچے ہوئے تھے بمع رقم کے۔
سب مراحل سے گزر کر ان کی درخواست ہم نے اپنے تبادلے والے دن چارج چھوڑتے وقت نئے افسر کے حوالے کردی۔ اس مشورے کے ساتھ کہ اسے دھیرج سے بار بی کیو کروں۔ باربی کیو اور گرل کا فرق یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ باربی کیو دھیمے سلگتے کوئلوں پر دیر تک پکانے کا عمل ہے جب کہ گرل میں براہ راست سلگتی آگ پر پکایا جاتاہے۔
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...