... loading ...
جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جدید تعلیمی عمل کا قیام اور استناد ایک قانونی عمل ہے، اور جدید ریاست کی عملداری میں ہے، اور جسے امتحانات کے نفاذ اور ان کے نتائج سے عملی صورت دی جاتی ہے۔ امتحانی استناد جدید تعلیم کے پورے عمل کا مرکز ہے اور اس کے اہداف کو پیش نظر رکھتے ہوئے کریکیولم، نصاب، تدریس اور آموزش کی سرگرمیاں متعین ہوتی ہیں۔ استنادی امتحانات مکمل طور پر مقداری اور شماریاتی ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے علاوہ یہ کچھ اور ہو نہیں سکتے۔ جدید تعلیمی عمل میں امتحانات اور استناد کی مرکزی حیثیت کی وجہ سے ان پر گفتگو ایک اعادے کے ساتھ ضروری ہے۔ جیسا کہ گزشتہ مضمون میں بھی عرض کیا تھا کہ فی الوقت ہم اچھے برے یا صحیح غلط کی بات نہیں کر رہے۔ ہم چیزیں جیسی ہیں ان کو ویسے ہی دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امتحانات دراصل مطالبات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ مطالبات کیا ہیں؟ ان مطالبات کو کون متعین کرتا ہے؟ ان مطالبات کو متعین کرتے ہوئے کیا ترجیحات پیش نظر ہوتی ہیں؟ اور یہ مطالبات کون سے مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہیں؟ کریکیولم ان مطالبات کا فکری اور عملی بیان ہے جو دنیا میں ہر جگہ ریاست ہی مقرر اور متعین کرتی ہے۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ کریکیولم قانونِ استناد کے فلسفے اور مقاصد کا بیان ہے۔ لیکن نفاذ کے وقت فلسفہ پیچھے رہ جاتا ہے اور کریکیولم استنادی قانون بن کر نافذ ہو جاتا ہے۔ کریکیولم تعلیم کے سفر پر روانہ ہونے والے بچے کے گلے میں بندھا ہوا امام ضامن ہے جو کامیاب تحصیل کے بعد تمغۂ سند بن کر اس کی جیب میں منتقل ہو جاتا ہے، اور دماغ بھی کھوپڑی سے نکل کر سند کے ساتھ اسی جیب میں مستقل رہائش اختیار کر لیتا ہے۔
پھر امتحانات تحدیدات ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تحدیدات کیا ہیں؟ ریاست انہیں کیوں اور کیسے قائم کرتی ہے؟ اور انہیں قائم کرنے کے کیا مقاصد ہیں؟ امتحانی اور استنادی عمل میں تحدیدات کا اثر کن چیزوں پر ہوتا ہے؟ بچے کے عقلی، نفسیاتی، اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کا ان تحدیدات سے براہ راست کیا تعلق ہے؟ کیا ان تحدیدات کے ہوتے ہوئے بچے میں کوئی عقلی پرداخت، اخلاقی فضائل اور روحانی شعور پیدا کرنا ممکن ہے یا نہیں؟ گزارش ہے کہ ان سوالات کو جدید تعلیم ہی کے مبحث میں رہتے ہوئے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ مطالبات کچھ مطلوب چیزوں کو تعلیم میں شامل رکھنے، انہیں فروغ دینے اور ان میں مہارتیں پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں، اسی طرح تحدیدات نامطلوب چیزوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ تحدیدات بنیادی طور پر انسانی ذہن اور شخصیت کے کچھ عوامل اور کچھ رویوں کو نامطلوب قرار دے کر انہیں پہلے غیر اہم بنانے اور پھر انسانی زندگی سے یکسر خارج کرنے کا تعلیمی عمل ہے۔ ریاست کے تشکیل کردہ تعلیمی نظام کی ساخت ہی میں یہ تحدیدات گندھی ہوئی ہیں، اور لازمی عملی نتائج پیدا کرتی ہیں۔
اپنی حتمی معنویت میں امتحانات استناد کی بنیاد ہیں۔ پورا تعلیمی عمل جن مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیا جاتا ہے، اس کی منزل مراد یہی استناد ہے۔ اس میں دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ ریاست کا تعلیمی استناد مقداری اور شماریاتی پہلوؤں کے علاوہ بھی کوئی معنویت رکھتا ہے یا نہیں؟ کیا عقلی اور فکری پرداخت، اخلاقی فضائل اور روحانی پہلو قابل استناد بھی ہیں یا نہیں؟ اگر وہ قابل استناد ہیں تو اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ اور اگر وہ قابل استناد نہیں ہیں تو طویل تعلیمی عمل ان کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟ کیا مقداری اور شماریاتی استناد کے ہوتے ہوئے بچے کی شخصیت میں اخلاقی اور روحانی پہلو باقی رکھے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جدید تعلیمی عمل کو جانے بوجھے بغیر اس پر کچھ اخلاقی فیصلے صادر کرتے ہیں، جو یقیناً بہت اچھے ہیں، لیکن ان کا کسی بھی سطح پر جدید تعلیمی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جو بوئے جائیں اور ان پر دم کر کے گندم اگنے کا یقین کر لیا جائے۔
گزارش ہے کہ جدید تعلیمی عمل کے مطالبات اور اس کی تحدیدات کریکیولم میں طے کی جاتی ہیں جو پورے فلسفۂ تعلیم اور اس کے مقاصد کا بیان ہوتا ہے۔ استناد، کریکیولم کی عملی شکل ہے، اور امتحانات اس کا نفاذی طریقۂ کار ہے۔ امتحانات، تعلیم کے مطالبات اور تحدیدات کو بچے کے ذہن، رویے اور عمل میں داخل کر کے اسے زندگی بھر کے لیے ”مستند“ کر دیتے ہیں۔
ہم نے گزشتہ دو سو سال میں ”اسلامی تعلیم“ کے ادارے بنانے کی بے شمار کوششیں کی ہیں، اور اس وقت بھی زور شور سے ہو رہی ہیں۔ ان کی حیثیت نقل لگانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اور ان کے نتائج بھی وہی رہے ہیں جو متداول جدید تعلیم سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جدید سے جدید تعلیم کی نقل لگانے میں ہم غیر معمولی ہنرمندی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن اسے سمجھنے کا معاملہ ہو تو بگڑ جاتے ہیں۔ ہمارے بچوں میں اگر کوئی دینی سوچ اور رویے نظر آتے ہیں تو اس کی وجہ گھر کا ماحول اور مذہبی کلچر کے اثرات ہیں، وہ کسی ادارے کا ”فیض“ نہیں ہیں۔ معاشرتی تبدیلی کے ساتھ یہ چیزیں بھی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ چند سال پہلے ہمارے ہاں جب امتحانات کے نظام کو سولو ٹیکسانومی پر منتقل کیا گیا تو ناچیز نے ایک دو بار ”ماہرین تعلیم“ کے سامنے اس کا تجزیہ پیش کرنے اور دینی اقدار سے اس کی منفی نسبتوں کی نشاندہی کرنا چاہی تو جان چھڑانی مشکل ہو گئی۔ مغرب میں ادارہ سازی مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتی رہتی ہے، اور ہمارا خیال یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کا کوئی جدید ادارہ بنا کے اور کچھ اپنی کتابیں لگا کے ہم دینی تعلیم کا احیا کر سکتے ہیں۔
جدید تعلیمی عمل میں امتحانات کے طریقۂ کار کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔ تعلیمی نفسیات کا پورا علم امتحانات کو ثمرآور بنانے کے لیے موجود ہے۔ تعلیمی نفسیات کی ”دریافتوں“ نے جدید تعلیمی امتحانات کو بہت زیادہ ٹیکنیکل چیز بنا دیا ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ امتحانی نظام بلوم ٹیکسانومی کی بنیاد پر ترتیب دیے جاتے تھے۔ اور گزشتہ پندرہ بیس سال سے یہ نظام سولو ٹیکسانومی پر منتقل ہوا ہے۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ کریکیولم کے ”اعلیٰ اخلاقی مقاصد“ کو ٹیکسانومی میں برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے، لیکن ہم فی الوقت ٹیکسانومی کی بحث میں نہیں جاتے۔ لیکن یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ پہلے سے طے شدہ کسی تصورِ انسان کے بغیر کوئی ٹیکسانومی نہیں بنائی جا سکتی۔ تعلیمی عمل میں ”ٹیکسانومی“ دراصل اس انسان کا پہلے سے بنایا ہوا نقشہ ہے جس کا امتحان لیا جانا مقصود ہے۔
اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ بطور مسلمان ہمارا کوئی تصور انسان نہیں ہے، اور اگر ہے تو اس کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں، تو اور بات ہے۔ لیکن اگر ہم بھی کوئی تصور انسان رکھتے ہیں تو بلوم ٹیکسانومی اور سولو ٹیکسانومی کو دیکھنا ہماری دینی ضروریات میں سے ہے۔ ان دونوں کے موازنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امتحان کے لیے بلوم ٹیکسانومی جس مخلوق کا نقشہ بناتی تھی اسے تو کھینچ تان کے انسان کہا جا سکتا ہے۔ لیکن سولو ٹیکسانومی امتحان کے لیے جس مخلوق کو فرض کرتی ہے اسے تو انسان کہنا بھی مشکل ہے۔ واضح رہے کہ امتحانات کے لیے جو انسان فرض کیا گیا ہے، وہی اس کے نتیجے کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ ہمارے موجودہ امتحانات سولو ٹیکسانومی کو بنیاد بنا کر لیے جاتے ہیں، اور اس سے کشاں کشاں ہم اسی انسان کو سامنے لا رہے ہیں جو ان امتحانات کا مقصود ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کی پوری گفتگو نصاب سے آگے نہیں جاتی، اور جو جدید تعلیمی نظام کا ایک انتہائی کم اہم حصہ ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ہمیں تعلیمی نظام تو کبھی نظر نہیں آیا بس یہی بستہ دکھائی دیتا رہتا ہے جس سے ہم نے آس لگائی ہوئی ہے کہ بدلے گا تو دنیا بدل دے گا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہو کہ عصری دنیا کے مختلف پہلوؤں کو ”فکری“ طور پر زیر بحث لاتے ہوئے ہم انسانی دیانت کی پامالی ایک فریضہ سمجھتے ہیں۔ تائید مزید کے طور پر ہم نے یہ بھی فرض کیا ہوا ہے، اور جو اب ہمارے عقیدے کا جزو بنتا جا رہا ہے، کہ جدید مغرب کی بنائی ہوئی ہر چیز عین اسلام کے مطابق ہے، لہٰذا اسے تنقیدی نظر سے دیکھنا ناشکری اور گناہ میں شمار ہوتا ہے۔ یہ مفروضہ اتنا طاقتور ہے کہ ہماری پوری تہذیب کی بربادی بھی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے، تو اس میں بیچاری تعلیم کی کیا اوقات ہے کہ نظر میں آئے۔ ہمیں تو بس اتنا ہی سجھائی دیتا ہے کہ جدید تعلیمی نظام ایک بستے کا نام ہے، اور اسی پر معتکف رہ کے ہم نے صدیاں گزار دی ہیں، اور اب بھی دھیان وہیں ہے۔ ہم بھول گئے ہیں کہ علم کا شجر ثمرآور ہو تو تعلیمی بستے بنا کرتے ہیں، اور بستوں کی کانٹ چھانٹ بھی علم کے شجرِ سایہ دار کے نیچے بیٹھ کر ممکن ہوتی ہے۔ تاریخی اور سماجی صورت حال کا فکری تجزیہ کرنا اور حل کی طرف پیش رفت کرنا ہمارے ہاں اب نہایت مذموم سرگرمی شمار ہوتی ہے۔ ہمارے علوم کی موجودہ صورت حال سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی تاریخی اور سماجی صورت حال کا تجزیہ تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس حل ہی حل ہیں، اور وہ اب اتنے زیادہ ہو گئے ہیں کہ یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ کون سا حل کس صورت حال یا مسئلے کا ہے۔ یہی صورت حال جدید تعلیم کی ہے، کہ ہر آدمی کی جیب میں بیسیوں حل ہوتے ہیں، اور ذہن تجزیے سے خالی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں چیزوں کو ویسے دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے جیسے کہ وہ ہیں۔
جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...
تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...
برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...
چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...
جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...
مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...
زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...
سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...
سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...
امریکی کانگریس میں ایک نئے بل کی تجویز دی گئی ہے جو امریکا میں تمام بچوں کی نفسیاتی ٹیسٹنگ اور پروفائلنگ کے لیے سرمایہ دے گا۔ منصوبہ امریکی اسکولوں کو طلبا کا حساس ڈیٹا جمع کرنے پر مجبور کرے گا جس میں سماجی و جذباتی تعلیم، رویے، اقدار، عقائد اور دیگر پہلوؤں کے حوالے سے معلومات ...