... loading ...
دوسرا قصہ ایک پنجابی افسر کا ہے!
دو بھائی تھے شہزاد اور عابد۔ شہزاد نرم خو اور معاملہ ساز اور علاقہ مجسٹریٹ تھے، عابد خرانٹ اور بے رحم۔ وہ پولیس کے تھانے دار تھے۔ دونوں بھائی چن کر ایسے علاقے کواپنا رجواڑہ بناتے تھے جہاں آبادی زیادہ اور مکس ہو، جرائم کی بہتات ہو، غیر آباد سرکاری زمین کی بہتات ہو۔ مال، عصبیت اور فرقہ واریت کی وجہ سے یہ عمل کچھ ایسا مشکل نہ ہوتا کہ انہیں اپنی پسند کا ایسا علاقہ ملنے میں جڑواں تعیناتی میں زیادہ دشواری پیش آتی۔
ہمیں سٹی کورٹ کے ایک وکیل صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ایس ایچ او عابد صاحب کی موجودگی میں اپنے ہی بھائی کی عدالت میں داخل کیے جانے والے ملزم جوڑے پر جو ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ اورنگی کے خالی گھر میں پڑوسیوں کی مخبری پر بالباس درست لیکن والہانہ ہم آغوشی کی حالت میں پکڑے گئے تھے۔ باعلم ہیڈ محرر صاحب نے بعینہ چالان میں بھی اس کیفیت کا اندراج کیا تھا اور اسی وجہ سے میڈیکل معائنے سے احتراز کیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے تازہ نافذ کردہ حدود آرڈیننس کا چالان سیشن عدالت میں بھیجے جانے کے لیے جب پیش ہوا تو وکیل صاحب نے اعتراض کیا کہ زنا اور حدود کے لیے چار گواہ، مقام، وقت اور حالت مواصلت کا جو لازمہ موجود ہے وہ پورا نہیں ہوتا، لہذا ایف آئی آر ہی کو ساقط کردیا جائے اور ملزمان کو عدالت سے ہی رہا کردیا جائے۔ وکیل صاحب کا اعتراض سن کر تھانے دار، عابد ِبدکار نے اپنی چارلی چپلن جیسی موچھوں کو اپنے بدنما ہونٹوں پر ادھر ادھر گھمایا اور کہنے لگا وکیل صاحب اسلام کے اور آپ کے حساب سے تو گواہی کے جو سولہ لازمی تقاضے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ زنا کو اولمپک میں شامل کرنا پڑے گا تاکہ گواہی کا بندوبست آپ کی تسلی کے عین مطابق آسانی سے ہو جائے۔ یہ بتائیں جب ملزم، ملزمہ کو اپنے خالی گھر میں آغوش میں لیے بیٹھا تھا تو کیا وہ اسے درس نظامی کی تعلیم دے رہا تھا۔ اس کا ارادہ مزید بگاڑ کا تھا۔ وہ تو پولیس موقع پر پہنچ گئی ورنہ گناہ کبیرہ تو تقریباً ہوچلاتھا۔
ہم نے شہزاد صاحب کو فون کیا کہ وہ اگر عدالت میں موجود ہوں تو آجائیں۔ وہ کبھی ہمارے ماتحت رہے تھے۔ ہمارا باہمی سلوک پیار و اخلاق کا تھا۔ یوں بھی وہ بڑے قالین مزاج افسر تھے۔ ہر وقت بچھے بچھے رہتے تھے۔ ہمارا دفتر سٹی کورٹ کے قریب تھا جہاں شہزاد صاحب انصاف کے دریا بہاتے تھے۔ شہزاد صاحب کو اصرار ہوا کہ معاملہ چونکہ ان کی عدالت عالیہ کا ہے لہذا ہمارا آنا ہی بہتر ہوگا۔ ہوا یوں تھا کہ ہمارے ایک کاروباری دوست سلیم کا بیٹا اور اس کے اسکول کا دوست آپس میں اپنی اپنی گرل فرینڈز کو نئی گاڑی دکھاکر متاثر کرنے کے لیے کار بدل کربیٹھے۔ سلیم کے بگڑے بیٹے خرم نے گاڑی لوٹانے میں دیر کی تو دوسرے دوست نے کار چوری کا مقدمہ درج کرادیا۔ بعدمیں وہ دونوں دوست آسٹریلیا چلے گئے۔ یہاں پولیس نے کار چوری کا مقدمہ عدالت شہزاد میں داخل کردایا۔ خرم کو پیش ہونے کے لیے وارنٹ موصول ہوئے تھے اور وہ ہوبارٹ میں پاکستان کا میچ دیکھ رہا تھا۔ شہزاد صاحب ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے سیڑھیوں پر موجود تھے۔ بہت تحمل سے معاملہ سنا۔ پوچھنے لگے ’’دو سال کے اندر خرم واپس تو نہیں آئے گا؟سلیم نے بتایا کہ اس نے چونکہ اب خفیہ طور پر دوسری شادی کرلی ہے اور وہ اپنی پہلی بیوی کو بھی وہیں بیٹے کے پاس بھجوارہا ہے۔ اس پر شہزاد صاحب نے انکشاف کیا کہ وہ اس مقدمہ کو داخل دفتر کرنے کے لیے ایک ڈرامہ رچائیں گے۔ ملزم پیش ہوگا اس پر جرم کی قبولیت اور پہلا جرم ہونے کے ناطے محض ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ یہ جرمانہ وہ پیش کار کے حوالے کردیں تاکہ وہ اس سے وکیل صاحب کو بروقت ادائیگی کرسکیں۔ اس پر شہزاد صاحب چیمبر سے اٹھ کر باہر گئے۔ عدالت سج گئی۔ جیل سے آئی کسٹڈی میں ایک ملزم موجود تھا اس پر ایک پڑیا ہیروئین رکھنے کا الزام تھا، بھرتی کے اس مقدمے میں ضمانت نہ ہونے پر جیل میں سڑ رہا تھا۔ عدالت میں ملزم خرم کو پیش کرنے کا اعلان ہوا تو ایک وکیل بخاری صاحب باقاعدہ طور پر اس کی پیروی کے لیے موجود تھے۔
جیل کسٹڈی والے ملزم کو خرم بنا کر پیش کیا گیا۔ وکیل صاحب نے کہا کہ ان کے موکل کا جرم قبول ہے۔ عدالت ملزم کی کم سنی کا لحاظ کرے اور نرم سزا سنائے جرمانہ کرکے فائل پر ملزم کا انگوٹھا لگوایا گیا جبکہ چالان میں ملزم کی عمر اٹھارہ سال اور پیشہ طالب علم درج تھا۔ تین سو روپے وکیل صاحب، سو روپے ملزم کو دیے گئے پانچ سو روپے تحفتاً پیش کار اور دیگر عملے بشمول جیل والوں میں تقسیم ہوئے۔ ہمارے دوست سلیم کو رحم آگیا تو اس نے اس جیل کسٹڈی والے مجرم سے بھی قبول جرم کرواکے جرمانہ ادا کردیا گیا۔ وکیل صاحب نے اس کی فیس کویہ کہہ کر لینے سے انکار کیا کہ صاحب آپ کی عدالت کے طفیل ہی ہمارا دھندہ چل رہا ہے۔ اس کی فیس نہیں لوں گا مگر سلیم نے وہ تین سو روپے واپس لے کر انہیں پانچ سو کے نوٹ میں بدل دیا۔
اس دن قبول جرم کے دو مختلف مقدمات پر ایک ہی ملزم کے انگوٹھے کے نشان تھے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ زیر حراست مشہور بینکر یونس حبیب کو اس زمانے میں جو سزا میں تخفیف کے ضابطے تھے، اس کے حساب سے دو دفعہ عطیہ خون پر ایک پی ایس پی افسر نے رعایت کی تھی اس میں دونوں مواقع پر یونس حبیب کے خون کا گروپ مختلف درج ہوا تھا۔ ایک دفعہ اے بی۔ مثبت تو دوسری دفعہ او۔ منفی۔ ایک تخفیفی معافی اسے قرآن حفظ کرنے پر بھی ملی تھی۔ ہم نے پوچھا تو کہنے لگا کہ مجھے تو سورۃ الاخلاص بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔ ہم نے کہا یہ تو وزیروں والی خوبی ہے۔ کہنے لگا :مارکیٹ اور جیل میں صرف روکڑے (میمنی زبان میں پیسہ) کی حکومت ہے۔
شہزاد صاحب اس واقعے کے پانچ سال بعد جیئے۔ ایک شادی ہمارے دوست کے مشورے سے کی۔ انہیں پارہ چنار سے لائی گئی دلہن، سرگودھا کے کسی حکیم کے کشتے اور شراب تمباکو نوشی لے ڈوبی۔ عابد بدکار نے سمجھایا بھی کہ بھائی جان شراب نوشی سے ذرا پرہیز کریں تو اچھا ہے مگر وہ کہنے لگے کہ پانی پینے والے کون سے ہمیشہ جیتے ہیں۔ آپ نے نوٹ فرمایا نا کہ دونوں برادران بے رحم میں دوسرے کی بات کو ایک گستاخانہ جسارت سے حتمی طور پر ختم کردینے کی خاص عادت تھی جو اختیارات کی قدرت وسائل کی بھرمار اور طاقت ور صوبائی وابستگی کی آسودگی سے پیدا ہوتی ہے۔ جب تک زندہ رہے ہمارا دوست انہیں عید پر مٹھائی اور قیمتی تحائف کی ایک ڈالی بھجواتا تھا۔ مگر شہزاد صاحب جب بھی ہم سے ملتے سلیم صاحب کو دعائیں دیتے کہ بہت محبتیلے انسان ہیں۔ ہمارے گھر میں الفت کا دوسر چراغ بھی ان ہی کے توسط سے جلا۔ ہر عید پر بے چارے ناحق تکلف کرتے ہیں۔ ایک قیمتی ڈالی بھیج دیتے ہیں۔ وہ خود تو اسے گفٹ ہیمپر کہتا تھا۔ اسے برطانوی افسران کی تقلید میں ڈالی کے تاریخی نام سے یاد کرتے تھے۔ وہ اسے برنس روڈ سے خرید کر عید کارڈ بھجواتے تھے۔ ڈالی سلسلۂ تحائف کو کہا جاتا تھا جو غیر منقسم ہندوستان میں ہر بڑے تہوار اور موقع پر علاقے کے اہل ثروت اور مہاراجے انگریز افسران کو بھجواتے تھے۔ ان میں خواتین سے لے کر اناج تک سبھی کچھ شامل ہوتا۔ (جاری ہے)
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...