... loading ...
برطانوی راج سے ورثے میں ملی بیوروکریسی اپنی بناوٹ اور لالن پالن (ہندی میں پرورش اور نشو نما) کے حساب سے صلاحیت پسند Merit based غیر جانبدار Impartial اور لازماً انصاف پسند Fair ہوا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے پچیس تیس برس تک تو اس کا بھی یہی عالم رہا جیسا کہ اُن کے پیش رو انگریز دور کے افسروں کا ہوتا تھا۔ لیکن 1973 کی انتظامی اصلاحات سے بات بگڑ گئی اور اب آپ کو اس میں سیاسی جاگیرداروں کے کم دار (زمینوں کے منشی) زیادہ اور افسر کم کم دکھائی دیتے ہیں۔ صلاحیت پسندی، غیر جانبداری اور انصاف پسندی یہی وہ تین اوصاف حمیدہ ہیں جن کی وجہ سے بیوروکریسی بڑی حد تک ایک Formal Organization بن کر اپنے فرائض منصبی نبھانے کا وسیلہ بنتی ہے۔
کہنے کو تو کیا ہوا نہیں ہے۔ آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ قواعد و ضوابط کے اس تنگ پوشی کے عالم بے لطف میں گھٹ کے رہ جاتی ہوگی جوئے تند و تیز۔ ایسا ہرگز نہیں کہ طاقت کے اس ٹیولپ جام(جس میں سفید شراب پی جاتی ہے ) میں بھی اختر حمید خان جیسے عوام دوست ( اورنگی پائلٹ پراجیکٹ) مسعود کھدر پوش جیسے کسان دوست اور ایماندار قدرت اللہ شہاب جیسے اہل سلوک، ڈاکٹر ظفر الطاف جیسے باصلاحیت، دلیر اور غریب پرور مصطفے زیدی جیسے رنگ رنگیلے اور اوریا مقبول جان جیسے صاحب الرائے اور ایمان دار افسران اپنے ضمیر، مزاج کے حساب سے من مانیاں کرتے رہے اور مناصب کی مناسبت سے ڈٹ کر بہار جانفزا دکھاتے رہے۔
1973 ء کی اصلاحات کے بعد کیک کا بڑا حصہ فوجی ڈکٹیٹروں سے وابستہ اور اہل سیاست کے دامن عصیاں میں پناہ گیر افراد کو منتقل ہوا تو بیوروکریسی نے بھی اپنے بتدریج کم ہوتے معیار افسری عصبیت، سیاسی وابستگیوں اور لالچ کی لال چنریا پہنادی۔ ہم میمن گجراتی تو پاکستان کی بیوروکریسی میں ہندو اور عیسائیوں سے بھی کم تھے، لہذا تماشائے اہل کرم دیکھنے کا خوب موقع ملا۔
ہمیں گمان ہے کہ عبید اللہ علیم کا شعر ہے مگر غلطی کا احتمال ہوسکتا ہے ع
سو اس آئینہ خانے میں ہم نے دیکھا کہ مہاجر افسر کسی کا کام نہیں کرتے تھے۔ ننانوے قوانین آپ کے حق میں اور ایک مخالفت میں ہو تو وہ آپ کا کام نہ کرنے کے لیے اس ایک قانون کا سہارا لیں گے۔ اس کے برعکس اگر ان کا کام کہیں پڑ جائے توننانوے قوانین اس کام کی مخالفت میں ہوں اور ایک حق میں تو وہ آپ کو سجھاؤنی دیں گے کہ ا ن کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اس کا سہارا لیا جائے۔ پنجابی افسران عددی اکثریت کی باوجود جہاں تک ممکن ہوتا ہے سرکاری کاموں میں ضابطے کا اہتمام کرتے ہیں۔ معاشقہ کتنا ہی طویل اور بے تکلفانہ کیوں نہ ہو آخر میں نکاح کا اہتمام ضروری ہوگا۔ پٹھان افسر ہر کام بہت تکلف اور لحاظ سے کرتے ہیں۔ سرکاری کام سرانجام دیتے وقت بڑی سے بڑی قانون شکنی کرتے ہوئے بھی انہیں رازادری کا بہت خیال رہتا ہے۔ بلوچستان کے افسران کا ہم کیا کہیں۔۔ آتے آتے آئے گا تم کو خیال، جاتے جاتے بے خیالی جائے گی۔ دورافتادہ ہونے کا مطلب قانون کی پاسداری سے بھی مناسب فاصلہ ہے۔ وہاں کے سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی صاحب کے ہاں سے کوئین آف شیبا کے محلات کے خزانے نکلے۔ سندھ کا معاملہ مختلف ہے۔ یہاں دو طرح کے افسر ہیں سرکاری اور رواجی۔ رواجی افسر وہ ہوتے ہیں جو راجونی (عزیز و اقرباء کے درمیان غیر رسمی فیصلے جو جرگے کی نسبت کم Formal ہوتے ہیں) انداز میں علاقے، شخصیت، ماحول کو قواعد و ضوابط پر ترجیح دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چیف منسٹر ہاؤس میں ایک طویل عرصے تک پنجابی یا مہاجر افسر کو اس لیے نہیں تعینات کیا جاتا کہ یہ اے ٹی ایم سے نکالی ہوئی رقم بھی گننے کے عادی ہوتے ہیں۔
تین قومیتوں سے متعلق افسران کا فرق آپ کو ان تین واقعات سے سمجھ میں آجائے گا۔
پہلا واقعہ سندھی افسر کا ہے۔
خاتون ڈیفنس کراچی میں اپنے بنگلے سے کار ریورس کرتی ہوئی نکال رہی تھیں کہ محلے کا کوئی مالی اس کی زد میں آگیا۔ پچھلا پہیہ پیر کی انگلیوں پر اس طرح گھوما کہ ایک آدھ انگلی ٹوٹ گئی۔ انہوں نے فوری طور پر پیسے دے کر دفتر کے کسی فرد کے ساتھ بہترین علاج کرایا۔ اس کی روپے پیسے سے مدد بھی کی۔ یہ سارا منظر کسی سپاہی اللہ دتہ نے دیکھا۔ وہ اپنے عزیز سے ملنے قرب و جوار میں کہیں موجود تھا۔ اُسی کم بخت نے تھانے جا کر سناؤنی دی ہوگی۔ اسی لیے چوری چھپے مقدمہ قائم ہوا۔ مالی سے شکایت پر چپ چاپ دستخط کرالیے گئے۔ وہ مجبور و لاچار کارندہ شرمندگی، احسان فراموشی اور ڈر کے مارے علاقہ ہی چھوڑ گیا۔ ضرب خفیف چالان میں ملزمہ کو بیرون ملک مفرور دکھایا گیا۔ عدالت سے سمن جاری ہوئے جو ان پر Serve نہ کیے گئے۔ قابل ضمانت وارنٹ عدالت سے آئے تو عین تاریخ والے دن سپاہی بنگلے پر آیا۔ دو سو روپے اس بھلے زمانے میں اس لیے لے کر ٹلا کہ تاریخ پر وہ آج ہی عدالت آئیں۔ خاتون ہمارے دوست کی عزیزہ تھیں انہیں کے ساتھ شفون کی دھانی ساڑھی میں عدالت آئیں تو سٹی کورٹ میں کیا وکیل، کیا پیش کار، کیا ملزمان۔ ۔ سب کے دلوں میں ایمان لرزہ بر اندام ہوگیا اور ایک پیر کے ہاتھ سے تو تسبیح ہی گر پڑی۔ وہ دونوں سیدھے ہمارے پاس آئے۔
انہیں عبدالغفور صاحب کی عدالت میں پیش ہونا تھا۔ وہ علاقہ مجسٹریٹ تھے۔ تپے دار (پٹواری) سے شروع ہوئی ملازمت کا آخری برس تھا۔ دو سال پہلے ہی اسسٹنٹ کمشنر بنے تھے۔ مجسٹریٹ ہونے کے ناطے ضابطہ ٔ فوجداری کے فرسٹ کلاس اختیارات ہوم ڈیپارٹمنٹ سے ہم نے ہی جاری کرائے تھے۔ سیکشن افسر دوست تھے۔ ہمارا نام بھی مستحقین اور حقداران اختیار کی فہرست میں تھا۔ اس احسانِ گمنام کی انہیں خبر نہ تھی۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چونکہ ہمارے مداح اور مشفق تھے لہذا ان کی لاء اینڈ آرڈر کی وقت بے وقت ڈیوٹیاں ہمارے کہنے پر، ان کے بڑھاپے اور سادگی اور ہر ڈیوٹی کے عوض پانچ سو روپے کی مالی خدمت کے عوض بہت نرم لگاتے تھے۔ عبدالغفور صاحب کو اپنے پانچ سو روپے جو اس جاں بخشی کے عوض اپنے بدین کے رواجی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو دیتے تھے اتنا
موثر نہ جانتے تھے جتنی ہماری محکمانہ سرپرستی کو سمجھتے تھے۔ یوں وہ ہمیں محسنین کا درجہ دیتے تھے۔
تھرپارکر کے علاقے ڈیپلو سے تعلق تھا۔ ہم تینوں پہنچے تو عبدالغفور صاحب عدالت لگائے بیٹھے تھے۔ چونکہ ہم سب ڈویژنل مجسٹریٹ تھے۔ انتظامی طور پر ان سے ذرا بلند سطح پر تھے لہذا ان کے نائیک (عدالت کا نائب قاصد جو آواز لگا تا ہے) کیا سپاہی سبھی ہی آگے پیچھے ہوئے۔ عبدالغفور صاحب کے ایما پر ان کا پیش کار کود کر نیچے آیا۔ چیمبر میں ہمیں بٹھایا اور منٹوں میں عدالت کے اطراف میں برف کی بالٹی لے کر منڈلاتے ہوئے پھیری والے سے تین بوتلیں پکڑ کرہمیں ملزمہ اور اس کے ساتھی کو پیش کردیں۔ عبدالغفور نے فی الفور عدالت برخواست کی چیمبر میں آئے اور کہنے لگے ہم نے بڑا ظلم کیا کہ ایس ڈی ایم ہونے کے باوجود اس طرف آئے بہتر ہوتا ہم انہیں کسی کو بھیج کر اپنے ہاں بلوالیتے۔ ماجرا سنا تو فائل منگوائی ایک نظر ڈالی اور کہنے لگے فائل آپ پھاڑیں گے یا ہم۔ ہم نے کہا ارے ارے سائیں یہ کورٹ فائل ہے۔ تو کہنے لگے’’ سائیں کار ایکسیڈنٹ کا معمولی کیس ہے کونسا بڑا کیس ہے ادھر مجیب الرحمن حرامی کو ملک توڑنے پر معاف کردیا تو بے چاری ادّی کو کیوں تکلیف دیں۔ ہماری عورتیں گھر چلالیتی ہیں یہ بھی کیا کم ہے کہ ابھی کار بھی ٹھیک سے چلائیں۔
فائل کا توجانے کیا انجام ہوا۔ مگر خاتون باعزت بری ہوکر، دوسری دفعہ بیاہ کر انگلستان منتقل ہوگئیں۔
عبدالغفور جنرل ضیا الحق کے ریفرنڈم میں آخری دفعہ ایک پولنگ اسٹیشن پر ملے تھے۔ رات کے وقت تک علاقے میں بجلی نہ ہونے پر پولنگ کے عملے سمیت تھانے جانے کی تیاریاں کررہے تھے۔ عملہ تھانے جانے پر احتجاج کررہا تھا۔ ہم نے پوچھا تھانے کیوں جاتے ہیں؟ کہنے لگے فوجی صدر کا انتخاب ہے سائیں اس کا نتیجہ بھی تھانے میں ہی ٹھیک ہوگا۔ (جاری ہے)
[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...
ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...
[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...
ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...
بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...
[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...
[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...
پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...
[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...
[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...
معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...
میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...