وجود

... loading ...

وجود

جدید تعلیم کیا ہے؟

جمعرات 08 ستمبر 2016 جدید تعلیم کیا ہے؟

education

اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہمارے ہاں ایک عظیم الشان خلط مبحث بن گئی ہے۔ اس خلط مبحث کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ ہم جدید تعلیمی نظام کا معروضی تجزیہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جدید ”تعلیمی نظام“ دراصل تین چیزوں کا مجموعہ ہے۔ ایک جدید تعلیم کا تصور ہے، دوسرا اس کا عملی پہلو ہے، تیسرا اس کے مقاصد ہیں۔ جب تک یہ نہ دیکھ لیا جائے کہ کوئی چیز کیا ہے، اس پر فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر یہ اچھی طرح دیکھ لیا جائے کہ جدید نظام تعلیم کیا چیز ہے تو اس کے بارے میں موقف بنانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اکثر انفرادی اعمال و واقعات کے بارے میں صحیح غلط کا فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن نظام اور اجتماعی سطح پر چیزیں آج کل بہت پیچیدہ ہو گئی ہیں، اس لیے ان کے بارے میں عجلت سے فیصلہ کرنا مفید نہیں ہوتا۔

معروضی تجزیے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ پہلے پورے نظام، اس کے تشکیلی اجزا اور اس کے مقاصد کو سمجھ لیا جائے۔ جدید نظام تعلیم بھی اپنا ایک بیان، عمل اور مقصد رکھتا ہے۔ ہمارا یہ مطالبہ نہیں کہ اس بیان اور اس کے مقاصد کو من و عن قبول کر لیا جائے یا رد کر دیا جائے۔ ہماری گزارش صرف اس قدر ہے کہ اس بیان کو، اس کے تحت واقع ہونے والے عمل کو اور اس عمل سے مطلوب مقاصد کو پہلے دیکھ لیا جائے اور اس کے بعد اس پر فیصلہ دیا جائے۔ اس میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چیزوں کے فکری تجزیے اور تفہیم کا عمل انسانوں میں مشترک ہوتا ہے جبکہ اس پر فیصلہ ہر آدمی اپنے تصور حیات کے مطابق کرتا ہے۔

جدید نظام تعلیم کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ اپنی کل حیثیت اور حقیقت میں ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ جدید تعلیم کی ہر بحث بالکل لایعنی ہے اگر اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جائے۔ ہر گفتگو، ہر فیصلہ بے کار ہے اگر اس بات کو سامنے نہ رکھا جائے اور اس کی تفصلات طے نہ کی جائیں۔ ”سیاسی فیصلے“ سے ہماری مراد یہ ہے کہ جدید تعلیم کا پورا بیان، پورا عمل اور مکمل مقاصد جدید ریاست طے کرتی ہے۔ اس کے اہداف ریاست متعین کرتی ہے۔ اس کے اخراجات ریاست کے ذمے ہیں۔ اس پورے نظام میں سے گزر کر تعلیم پانے والے بچے کی آموزش اور ہنر کا استناد ریاست کے پاس ہے۔ وہ آموزش اور ہنر قوم کے پورے معاشی اور سیاسی نظام میں جہاں جہاں درکار ہے اس کا اختیار، انتخاب اور جزا ریاست کے پاس ہے۔ جدید عہد میں ریاست کے اختیار سے باہر تعلیم کے کوئی معنی موجود نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ ہم صرف واقعاتی صورت حال عرض کر رہے ہیں، کوئی فیصلہ نہیں کر رہے ہیں۔

یہاں ضمناً گزارش ہے کہ تعلیم کا نظام اور علم کا نظام الگ الگ چیزیں ہیں۔ تعلیمی ادارے یعنی مکتب، اسکول وغیرہ تعلیم کا نظام ہیں اور جامعات علم کے نظام کے طور پر قائم ہیں۔ جدید دور میں تعلیم اور علم کی تقریباً کل معنویت ریاست کے اختیارات اور مطالبات سے باہر کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور نہ ہی فرض کی گئی ہے۔ بطور مسلمان ہمارے لیے یہ سوال بہت اہم ہے۔

یہ کہ ”جدید نظام تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے“ تعلیم پر ہر گفتگو کی بنیاد ہے۔ ”سیاسی فیصلہ“ ہر معاشرے میں قائم ریاست کا اختیار اور اعزاز ہے۔ سیاسی فیصلے سے مراد ہی یہ ہے کہ اس کے حتمی مقاصد کا تعلق طاقت اور معاش سے ہوتا ہے۔ اس سے ضمناً یہ بھی مراد ہے کہ مذہبی، اخلاقی اور روحانی مقاصد اس سے ازخود خارج ہو جاتے ہیں۔ اگر ان مقاصد کو ایک جز کے طور پر اس میں شامل کر بھی لیا جائے تو اطلاق کے وقت وہ خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔ کسی چیز کو ”سیاسی فیصلہ“ قرار دینا بے معنی ہے اگر اسے مقداری نہ بنایا جا سکے، اس میں میکانکیت داخل نہ ہو اور وہ نفاذ کے عمل سے نہ گزر سکے۔ ان پہلوؤں کی وجہ سے جدید نظام تعلیم میں اخلاقی اور روحانی مقاصد باقی نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ کوئی ”نفاذی“ جہت نہیں رکھتے۔

جدید تعلیم کا نظام جس طریقے سے بنایا گیا ہے اور جو اس کے اہداف مقرر کیے گئے ہیں، وہ تمام تر مقداری ہیں اور نفاذ اور مقاصد میں میکانکی ہیں۔ جدید تعلیم کے میکانکی مقاصد ہیں: ذہن کا میکانکی بن جانا، عمل کا میکانکی ہو جانا اور رویوں کا میکانکی ہو جانا۔ ”ذہن“ کے میکانکی ہو جانے سے مراد یہ ہے کہ ذہانت اور جذبے کے تعلق کا مکمل خاتمہ، اور انسانی شخصیت کے نفسی اور جذباتی (affective) پہلوؤں کی مکمل تطہیر۔ ذہن کے میکانکی بن جانے سے مادے کے مجرد ”قوانین“ اور کنکریٹ چیزوں سے اس کی نسبتیں مکمل ہو جاتی ہیں۔ ”عمل“ کے میکانکی ہو جانے سے مراد مشین کی شرائط پر ہنر اور کرافٹ کا حصول ہے۔ ”رویوں“ کے میکانکی ہو جانے سے مراد ڈسپلن ہے۔ ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کے لیے جو فرد درکار ہے اس کے شخصی اجزائے ترکیبی اور بنیادی تعارف یہی ہے۔ یہ فرد فی نفسہٖ مطلوب نہیں ہے، بلکہ خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور نظام کے لیے مطلوب ہے۔ اگر جدید تعلیم یہ مقاصد حاصل کر لے تو اسے منزل مراد مل گئی، ورنہ یہ ناکام ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان مقاصد میں اخلاقی اور روحانی مقاصد کہیں فٹ نہیں ہوتے، اور ایک وقت آتا ہے کہ ان کا ذکر بھی معیوب ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر جدید نظام تعلیم اخلاقی اور روحانی مقاصد کے حصول کو اپنا مقصد بنائے تو یہ اپنے طے کردہ معیارات ہی پر ناکام ہے۔

یہاں ہم چیزوں کے صحیح غلط یا اچھے برے ہونے کی بات ابھی نہیں کر رہے۔ ہم صرف یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید نظام تعلیم اپنی تشکیل میں کیا ہے؟ اس کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں؟ یہ اپنے طریقۂ کار میں کیا ہے؟ ہم صرف یہ گزارش کر رہے ہیں کہ جدید نظام تعلیم انسانی ذہن، انسانی ارادے اور انسانی نفس کی مکمل نئی تشکیل کرتا ہے۔ ہمیں فوری طور اس نئی تشکیل کا تجزیہ کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ تجزیہ اور فہم ہے جو ایک ایسے تعلیمی نظام کی بنیاد بن سکتا ہے، جو ہمارے تصور حیات کے بنیادی مقاصد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو یا کم از کم ان کے لیے کوئی گنجائش رکھتا ہو۔ آئندہ چند مضامین میں انشاء اللہ جدید نظام تعلیم کے کچھ اور پہلوؤں کو بھی دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ ہمارا فوری مقصد صرف تجزیے کی حد تک محدود ہے، اچھے برے یا صحیح غلط کا فیصلہ اس تجزیاتی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار محمد دین جوہر - بدھ 05 اکتوبر 2016

جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...

جدید تعلیم، حافظہ اور اقدار

جدید تعلیم اور معاش محمد دین جوہر - منگل 27 ستمبر 2016

تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...

جدید تعلیم اور معاش

پاک بھارت کشیدگی محمد دین جوہر - اتوار 25 ستمبر 2016

برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...

پاک بھارت کشیدگی

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف محمد دین جوہر - بدھ 21 ستمبر 2016

چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...

نظریۂ پاکستان اور مزاحمتی موقف

جدید تعلیم اور تربیت محمد دین جوہر - پیر 19 ستمبر 2016

جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...

جدید تعلیم اور تربیت

جدید تعلیم اور نصاب محمد دین جوہر - هفته 17 ستمبر 2016

مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...

جدید تعلیم اور نصاب

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل محمد دین جوہر - جمعه 16 ستمبر 2016

زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...

جدید تعلیم اور تنظیمی عمل

جدید تعلیم اور امتحانات محمد دین جوہر - اتوار 11 ستمبر 2016

جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...

جدید تعلیم اور امتحانات

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک محمد دین جوہر - منگل 06 ستمبر 2016

سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...

نظریۂ پاکستان اور ہمارا سیاسی ادراک

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟ محمد دین جوہر - جمعرات 01 ستمبر 2016

سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...

سیکولرزم اور لبرلزم میں کیا فرق ہے؟

بچوں کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لیے امریکا کا متنازع بل وجود - جمعرات 05 مئی 2016

امریکی کانگریس میں ایک نئے بل کی تجویز دی گئی ہے جو امریکا میں تمام بچوں کی نفسیاتی ٹیسٹنگ اور پروفائلنگ کے لیے سرمایہ دے گا۔ منصوبہ امریکی اسکولوں کو طلبا کا حساس ڈیٹا جمع کرنے پر مجبور کرے گا جس میں سماجی و جذباتی تعلیم، رویے، اقدار، عقائد اور دیگر پہلوؤں کے حوالے سے معلومات ...

بچوں کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لیے امریکا کا متنازع بل

مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر