... loading ...
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہمارے ہاں ایک عظیم الشان خلط مبحث بن گئی ہے۔ اس خلط مبحث کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ ہم جدید تعلیمی نظام کا معروضی تجزیہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جدید ”تعلیمی نظام“ دراصل تین چیزوں کا مجموعہ ہے۔ ایک جدید تعلیم کا تصور ہے، دوسرا اس کا عملی پہلو ہے، تیسرا اس کے مقاصد ہیں۔ جب تک یہ نہ دیکھ لیا جائے کہ کوئی چیز کیا ہے، اس پر فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر یہ اچھی طرح دیکھ لیا جائے کہ جدید نظام تعلیم کیا چیز ہے تو اس کے بارے میں موقف بنانے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اکثر انفرادی اعمال و واقعات کے بارے میں صحیح غلط کا فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن نظام اور اجتماعی سطح پر چیزیں آج کل بہت پیچیدہ ہو گئی ہیں، اس لیے ان کے بارے میں عجلت سے فیصلہ کرنا مفید نہیں ہوتا۔
معروضی تجزیے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ پہلے پورے نظام، اس کے تشکیلی اجزا اور اس کے مقاصد کو سمجھ لیا جائے۔ جدید نظام تعلیم بھی اپنا ایک بیان، عمل اور مقصد رکھتا ہے۔ ہمارا یہ مطالبہ نہیں کہ اس بیان اور اس کے مقاصد کو من و عن قبول کر لیا جائے یا رد کر دیا جائے۔ ہماری گزارش صرف اس قدر ہے کہ اس بیان کو، اس کے تحت واقع ہونے والے عمل کو اور اس عمل سے مطلوب مقاصد کو پہلے دیکھ لیا جائے اور اس کے بعد اس پر فیصلہ دیا جائے۔ اس میں دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چیزوں کے فکری تجزیے اور تفہیم کا عمل انسانوں میں مشترک ہوتا ہے جبکہ اس پر فیصلہ ہر آدمی اپنے تصور حیات کے مطابق کرتا ہے۔
جدید نظام تعلیم کے حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ اپنی کل حیثیت اور حقیقت میں ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ جدید تعلیم کی ہر بحث بالکل لایعنی ہے اگر اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا جائے۔ ہر گفتگو، ہر فیصلہ بے کار ہے اگر اس بات کو سامنے نہ رکھا جائے اور اس کی تفصلات طے نہ کی جائیں۔ ”سیاسی فیصلے“ سے ہماری مراد یہ ہے کہ جدید تعلیم کا پورا بیان، پورا عمل اور مکمل مقاصد جدید ریاست طے کرتی ہے۔ اس کے اہداف ریاست متعین کرتی ہے۔ اس کے اخراجات ریاست کے ذمے ہیں۔ اس پورے نظام میں سے گزر کر تعلیم پانے والے بچے کی آموزش اور ہنر کا استناد ریاست کے پاس ہے۔ وہ آموزش اور ہنر قوم کے پورے معاشی اور سیاسی نظام میں جہاں جہاں درکار ہے اس کا اختیار، انتخاب اور جزا ریاست کے پاس ہے۔ جدید عہد میں ریاست کے اختیار سے باہر تعلیم کے کوئی معنی موجود نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ ہم صرف واقعاتی صورت حال عرض کر رہے ہیں، کوئی فیصلہ نہیں کر رہے ہیں۔
یہاں ضمناً گزارش ہے کہ تعلیم کا نظام اور علم کا نظام الگ الگ چیزیں ہیں۔ تعلیمی ادارے یعنی مکتب، اسکول وغیرہ تعلیم کا نظام ہیں اور جامعات علم کے نظام کے طور پر قائم ہیں۔ جدید دور میں تعلیم اور علم کی تقریباً کل معنویت ریاست کے اختیارات اور مطالبات سے باہر کوئی حقیقت نہیں رکھتی اور نہ ہی فرض کی گئی ہے۔ بطور مسلمان ہمارے لیے یہ سوال بہت اہم ہے۔
یہ کہ ”جدید نظام تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے“ تعلیم پر ہر گفتگو کی بنیاد ہے۔ ”سیاسی فیصلہ“ ہر معاشرے میں قائم ریاست کا اختیار اور اعزاز ہے۔ سیاسی فیصلے سے مراد ہی یہ ہے کہ اس کے حتمی مقاصد کا تعلق طاقت اور معاش سے ہوتا ہے۔ اس سے ضمناً یہ بھی مراد ہے کہ مذہبی، اخلاقی اور روحانی مقاصد اس سے ازخود خارج ہو جاتے ہیں۔ اگر ان مقاصد کو ایک جز کے طور پر اس میں شامل کر بھی لیا جائے تو اطلاق کے وقت وہ خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔ کسی چیز کو ”سیاسی فیصلہ“ قرار دینا بے معنی ہے اگر اسے مقداری نہ بنایا جا سکے، اس میں میکانکیت داخل نہ ہو اور وہ نفاذ کے عمل سے نہ گزر سکے۔ ان پہلوؤں کی وجہ سے جدید نظام تعلیم میں اخلاقی اور روحانی مقاصد باقی نہیں رہ سکتے کیونکہ یہ کوئی ”نفاذی“ جہت نہیں رکھتے۔
جدید تعلیم کا نظام جس طریقے سے بنایا گیا ہے اور جو اس کے اہداف مقرر کیے گئے ہیں، وہ تمام تر مقداری ہیں اور نفاذ اور مقاصد میں میکانکی ہیں۔ جدید تعلیم کے میکانکی مقاصد ہیں: ذہن کا میکانکی بن جانا، عمل کا میکانکی ہو جانا اور رویوں کا میکانکی ہو جانا۔ ”ذہن“ کے میکانکی ہو جانے سے مراد یہ ہے کہ ذہانت اور جذبے کے تعلق کا مکمل خاتمہ، اور انسانی شخصیت کے نفسی اور جذباتی (affective) پہلوؤں کی مکمل تطہیر۔ ذہن کے میکانکی بن جانے سے مادے کے مجرد ”قوانین“ اور کنکریٹ چیزوں سے اس کی نسبتیں مکمل ہو جاتی ہیں۔ ”عمل“ کے میکانکی ہو جانے سے مراد مشین کی شرائط پر ہنر اور کرافٹ کا حصول ہے۔ ”رویوں“ کے میکانکی ہو جانے سے مراد ڈسپلن ہے۔ ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کے لیے جو فرد درکار ہے اس کے شخصی اجزائے ترکیبی اور بنیادی تعارف یہی ہے۔ یہ فرد فی نفسہٖ مطلوب نہیں ہے، بلکہ خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور نظام کے لیے مطلوب ہے۔ اگر جدید تعلیم یہ مقاصد حاصل کر لے تو اسے منزل مراد مل گئی، ورنہ یہ ناکام ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو ان مقاصد میں اخلاقی اور روحانی مقاصد کہیں فٹ نہیں ہوتے، اور ایک وقت آتا ہے کہ ان کا ذکر بھی معیوب ہو جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر جدید نظام تعلیم اخلاقی اور روحانی مقاصد کے حصول کو اپنا مقصد بنائے تو یہ اپنے طے کردہ معیارات ہی پر ناکام ہے۔
یہاں ہم چیزوں کے صحیح غلط یا اچھے برے ہونے کی بات ابھی نہیں کر رہے۔ ہم صرف یہ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جدید نظام تعلیم اپنی تشکیل میں کیا ہے؟ اس کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں؟ یہ اپنے طریقۂ کار میں کیا ہے؟ ہم صرف یہ گزارش کر رہے ہیں کہ جدید نظام تعلیم انسانی ذہن، انسانی ارادے اور انسانی نفس کی مکمل نئی تشکیل کرتا ہے۔ ہمیں فوری طور اس نئی تشکیل کا تجزیہ کرنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی وہ تجزیہ اور فہم ہے جو ایک ایسے تعلیمی نظام کی بنیاد بن سکتا ہے، جو ہمارے تصور حیات کے بنیادی مقاصد کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو یا کم از کم ان کے لیے کوئی گنجائش رکھتا ہو۔ آئندہ چند مضامین میں انشاء اللہ جدید نظام تعلیم کے کچھ اور پہلوؤں کو بھی دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ ہمارا فوری مقصد صرف تجزیے کی حد تک محدود ہے، اچھے برے یا صحیح غلط کا فیصلہ اس تجزیاتی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے۔
جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...
تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...
برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...
چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...
جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...
مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...
زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...
جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...
سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی ...
سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...
امریکی کانگریس میں ایک نئے بل کی تجویز دی گئی ہے جو امریکا میں تمام بچوں کی نفسیاتی ٹیسٹنگ اور پروفائلنگ کے لیے سرمایہ دے گا۔ منصوبہ امریکی اسکولوں کو طلبا کا حساس ڈیٹا جمع کرنے پر مجبور کرے گا جس میں سماجی و جذباتی تعلیم، رویے، اقدار، عقائد اور دیگر پہلوؤں کے حوالے سے معلومات ...