... loading ...
پیدائش اور موت کے وقفے کوزندگی کہتے ہیں۔ جو پیدا ہو گیا اس کو موت بھی آنی ہے۔ تمام حیات کے لئے قدرت کا یہی قائدہ ہے۔ پیدائش اور موت کے درمیان کتنا وقفہ ہے یعنی زندگی کتنی طویل یا مختصر ہے ۔ پیدائش اور موت کے درمیان وقفے کو بقا کا نام دیا گیا ہے اور انسان سمیت ہر ذی روح کی کوشش ہوتی ہے کہ اس بقا کے وقفے کو جس قدر ہو سکے طویل کیا جائے ۔یعنی بقا ، حیات کا اولین مقصد قرار دیا جا سکتا ہے۔ہر ذی روح کو موت کاذائقہ چکھنا ہے ، یہی مشیتِ ایزدی ہے ، جو پیدا ہوا ہے اس کو مرنا بھی ہے ۔ بقا ئے دائمی تو بس خدا ئے بزرگ و برتر کے لئے مخصوص ہے۔۔
زندگی کی بقا اہم بات ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ زندگی گزرتی کیسے ہے یا زندگی کیسی گزر رہی ہے۔ویسے بقول شخصے اچھی یا بُری گزر تو سب کی جاتی ہے۔ کچھ کے نزدیک ہر گھڑی بدل رہی ہے روپ زندگی ، چھاؤں ہے کبھی، کہیں ہے دھوپ زندگی۔تو زندگی کی اس دھوپ چھاؤں کو ہنس کر گزارنا، خوش باش رہنا اور اپنے سے وابستہ لوگوں اور چیزوں کو بھی اس خوشی میں شامل رکھنا،یہ ہے اصل زندگی اور یہی زندگی کا اصلی مقصد بھی ہے، یعنی بہترین کے ساتھ بقا، افراط کے ساتھ بقا، خوشی کے ساتھ بقا۔
زندگی ایک خلیے کی سطح پر بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کسی انسان کی سطح پر اہم ہے۔پودے، کیڑے ،پرندے ،درخت سب زندہ رہنا چاہے ہیں اور سب ہی بہترین زندگی گزارنا چاہتے ہیں ۔ انسان سوچنے سمجھنے اوراحساس کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے زندگی کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، بقا اس کی دائمی منزل ہے لیکن انسان اچھی زندگی کی تلاش میں برائی کا راستہ بھی اپنا لیتا ہے اور یہیں سے زمین پر ہر فساد کی ابتدا ہوتی ہے۔انسان اپنی زندگی تو اچھی گزارنا چاہتا ہے لیکن دوسروں کی زندگی کی قیمت پر ۔۔ انسان کے اس رویے کی وجہ سے روز مرہ کی زندگی مشکل ہوتی ہے ، گھروں محلوں سڑکوں اور دفتروں میں جھگڑے ہوتے ہیں، جرائم ہوتے ہیں معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد پیدا ہوتا ہے ،جنگیں ہوتی ہیں ، درختوں کا خاتمہ ہوتا ہے جنگلی حیات اپنی بقا کے آخری کنارے پر پہنچ جاتی ہے۔ کتنے ہی لوگ روزانہ اس انسانی جنون کا شکار ہوتے ہیں، سڑکوں پر حادثات ہوتے ہیں ، قتل ہوتے ہیں ،ڈکیتیاں پڑتی ہیں،کرپشن کا بازار گرم کیا جاتاہے۔ یہ سب انسان اپنی اور اپنی اولاد کی بہترین بقا کے نام پر کررہا ہے۔یعنی اپنی بقا کے لئے دوسروں کی بقا کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔یہ رویہ کسی قوم ، کسی ملک ، کسی نسل ، کسی معاشرے اور کسی مذہب میں قابل قبول نہیں لیکن ہو ایسا ہی رہا ہے ۔ ہم انسان ملک، نسل ، مذہب اور معاشرت کے نام پر اپنی نسل اور دیگر انواع حیات کا بد ترین استحصال کر رہے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بقا کی اس بدترین شکل کو کیسے روکا جا سکتا ہے ، بقا کو دیگر انسانوں اور حیات و کائنات کی بقا سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔ کیسے خوش رہ کرباقی سب کو خوش رکھ کرز ندگی گزاری جا سکتی ہے۔۔دماغ کو بیدار کرنے اور اس سے بہتر کام لینے کی سائنس کے مطابق انسان سے وابستہ آٹھ ڈائنا مکس ہیں اور انسان کو ان سب میں بہتری کے لئے کوشش کرنی چاہئے تاکہ اس کی زندگی زیادہ خوش و خرم اور بہتر بن سکےیعنی بقا زیادہ خوشی اورافراط کے ساتھ ممکن ہو سکے۔ پہلا ڈائنامک ہے انسان کی ذات ۔ ہمیں سب سے پہلے اپنا خیال رکھنا ہے ، اپنے آپ کو خوش رکھنا ہے ، صحت مند رکھنا ہے، پاکیزہ رکھنا ہے ۔ہم اچھے ہوں گے ، خوش ہوں گےتو ہماری صحت بھی اچھی ہوگی ،صحت اچھی ہونے سے سوچ بھی اچھی ہوگی اور ان دونوں کے ہوتے ہوئے زندگی تو اچھی ہونا ہی ہے۔۔ دوسرا ڈائنامک ہے ہمارا جیون ساتھی اور بچے ، یعنی ہمارا خاندان،ہم اپنے جیون ساتھی اور بچوں پر اعتماد کریں گے ، ان کو توجہ دیں گے، ان کا خیال رکھیں گے ان کو خوش رکھنے کی کوشش کریں گے تو ہماری زندگی میں خوشیاں بھر جائیں گی۔یعنی ہم خوش ہوں گے تو جیون ساتھی اور بچے بھی خوش رکھیں گے اور ہمارا خاندان خوش و خرم ہوگا تو زندگی بھی خوش وخرم گزرے گی۔ہماری بقا طویل ہو جائے گی۔۔اب باری ہے تیسرے ڈائنامک کی یعنی گروپ ڈائنامک، زندگی کی اس جہت میں شامل ہے ہمارا محلہ ، اسکول ، ہماری ٹیم ، ہمارا دفتر ۔ یعنی وہ لوگ جو ہم سے وابستہ ہیں، ہم خوش ہیں ، مطمئن ہیں،پرخلوص ہیں ، لوگوں کی مدد کیلئے تیار ہیں تو ہمارے ارد گرد کے لوگ بھی ہم سے خوش اور مطمئن ہوں گے، ہماری بقا میں ان کی بقا ہے اور یونی گروپ کی بقا میں ہماری بقا ہے اور گروپ کے تما م ارکان اگر بقا کے بلند درجے پر ہیں یعنی خوش باش اور مطمئن اور صحت مند توسب کی انفرادی بقا بہتر ہو جائے گی زندگی آسانی اور سرخوشی کے ساتھ گزرے گی۔اگر ہم زندی کی صرف ان تین جہتوں یا ڈائنامکس پر کام کریں تو ہماری بقا بہترہو جائے گی ہم جتناجئیں گے اچھا جئیں گے اور ارد گرد کے لوگوں کو بھی ایک اچھی زندگی جینے میں مدد کریں گے۔
آپ نے لاہور دیکھ لیا، مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔ شائد معاملہ یہ رہا ہ...
کہتے ہیں زندگی زندہ دلی کا نام ہے، کبھی کہا جاتا ہے ہنسی علاج غم ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ زندہ دلی ہے کیا اور خوشی کیا ہوتی ہے اور اس کو ناپنے کا کیا پیمانہ ہے۔ اگر ہنسی کو علاج غم مان لیا جائے تو کیا صرف قہقہے لگانے سے غم دور ہو جائے گااور درد سے نجات مل جائے گی ؟خالی خولی ...
سرحد پر سینہ تان کر کھڑی ہے۔ لالہ جی کے لیے اس سچائی کا سامنا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے وہ نظریں ملانے کے بجائے زبان چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ صورتحال کا درست ادراک نہ رکھنا لالہ جی سمیت بھارتیوں کی عادت ہے اور کسی بھی قسم کے حالات میں احمقانہ حرکتیں اوٹ پٹانگ مشورے اور واہیات...
ڈاکٹر واٹسن یہاں آؤ، مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔۔ یہ ہیں وہ الفاظ جودنیا بھر میں سب سے پہلے برقی تار کے ذریعے ایک جگہ بولے اور دوسری جگہ سنے گئے۔ الیگزینڈر گراہم بیل نے وائرلیس پر اپنے تجربات کے دوران اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر واٹسن کو پکارا اور دوسرے کمرے سے ڈاکٹر واٹسن خوشی میں جھومتے...
آپ نے شادی کر لی مبارک ہو۔ آپ کو دنیا کی سب سے اچھی بیوی مل گئی بہت بہت مبارک ہو۔آپ خود کو خوش قسمت تصور کر رہے ہیں بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ کی بیوی بھی بالکل اسی طرح محسوس کرے جیسا آپ محسوس کررہے ہیں، وہ بھی خود کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھے جتنا آپ سمجھ ر...
کہا جاتا ہے کہ سیاست خدمت کا دوسرا نام ہے، لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کی خدمت کرنی ہے۔ ہمارے یہاں تو خود اپنی اور اپنے خاندان کی خدمت کرنے کو سیاست کہا جاتاہے۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ جمہوریت جمہور پر جمہور کے ذریعے حکومت کرنے کو کہتے ہیں، ملک پاکستان میں عام شہریوں کو بچہ جمہورا...
کہانی ہے ایک پہاڑی گاؤں کی جہاں لوگ خوشی خوشی رہتے ہیں، پہاڑوں کی وادی میں بسے اس خوبصورت گاؤں میں سبزہ وافر اور پانی کی فراوانی ہے، پھل سبزیا ں بھی بڑی مقدار میں موجود ہیں، گایوں بھینسوں اور بھیڑ بکریوں کی بھی کمی نہیں۔اس گاؤں میں ایک گھر پی کے کا ہے، اپنے گھر کوترتیب سے چلان...
انٹرنیٹ ،کمپیوٹر، موبائل فونز ،بلیک بیریز ، جی پی آر ایس ، اور ٹیکنالوجی کے اور کئی شاہکار آج ہم جن کے بغیر شایدخود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ان تمام آلات نے انسان کو مواصلات کی نئی جہتوں سے روشناس کرایا ،اورمعلومات کی باآسانی فراہمی کو نئے مفہوم سے آشنا کی...
ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ وہ جو چیز ایجاد کر رہا ہے وہ موبائل فون بن کر اکیسویں صدی میں کیا کیا گل کھلائے گی۔ موبائل کی بہاریں چار سو پھیلی ملیں گی۔ جس کس و ناکس کو دیکھ لیں ہاتھ میں موبائل فون ضرورہوگا۔ یہ ضرور ہے کہ موبائل فون نے زندگی میں کسی ...
زندگی نام ہے جینے کا، یعنی زندہ رہنے کا اور زندہ رہنے کے لئے کھانا پڑتا ہے۔ ہم جینے کے لئے کھاتے ہیں لیکن کچھ لوگ کھانے کے لئے بھی جیتے ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بڑی چیز ہے، پیٹ بھر جاتا ہے لیکن نیت ہے کہ بھرنے کا نام نہیں لیتی۔ ہمارے تقریبا ہر شہر میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں چٹوروں...
میں سڑک کے چوک پر لگی لال بتی پر رکنا چاہتا ہوں لیکن میرے پیچھے والے شاید بہت جلدی میں ہوتے ہیں، ہارن بجا بجا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں پھر گاڑی ریورس کرکے دائیں بائیں سے نکلنے والی گاڑیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ بظاہر معزز نظر آنے والےبھی جاتے ہوئے زور سے چلاتے...
سطح زمین پر حیات کی ابتداء پانی میں ہوئی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کوئی دو ارب سال پہلے حیات کےپودے کی کونپل پانی ہی میں پھوٹی تھی۔ امینو ایسڈ سے شروع ہونے والی یک خلوی زندگی نے نے اربوں سال کے ارتقائی عمل میں ڈائینوسار جیسے دیوقامت جاندار بھی پیدا کیے اور امیبا جیسے خوردبین سے دیک...