... loading ...
سیاسی ادراک اجتماعی عمل کا نہ صرف رہنما ہے بلکہ اس کی معنویت کا سرچشمہ بھی ہے۔ کسی قوم کی سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کا تشکیل کنندہ بھی سیاسی ادراک ہی ہے۔ سیاسی قوت اور اجتماعی عمل کے مسائل بھی اول اول سیاسی ادراک ہی میں ظاہر ہوتے ہیں۔ سیاسی ادراک کا اضمحلال بہت جلد سیاسی طاقت کی کمزوری، انتشار اور شکست میں ظاہر ہوتا ہے۔ جس طرح انسان کا حسی ادراک عموماً التباس (الوژن) اور وہم (ڈیلوژن) کا شکار ہو جاتا ہے، اسی طرح معاشروں کا سیاسی ادراک بھی مختل ہو جاتا ہے، اور انسانی معاشرے شکست کھا کر موت سے ہم آغوش ہو جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ”سیاسی ادراک“ سے ہم کیا مراد لے رہے ہیں؟ سیاسی ادراک ”طاقت“ اور ”سرمائے“ کو نامیاتی طور پر مربوط دیکھنے کی صلاحیت ہے۔ سیکولرزم، نیشنلزم، لبرلزم، جمہوریت، فاشزم اور اشتراکیت وغیرہ طاقت اور سرمائے کو دیکھنے کی مختلف رنگ اور مختلف نمبروں کی عینکیں ہیں۔ سیاسی ادراک میں تین چیزیں شامل ہیں: (۱) ہم عصر دنیا میں انسانی گروہوں کی طاقت اور سرمائے سے نسبتوں کو سمجھنا؛ (۲) طاقت اور سرمائے کے لیے ان گروہوں کی جدوجہد اور وسائل کا جائزہ لینا؛ (۳) ان گروہوں کی باہمی نسبتوں، اور طاقت اور سرمائے کے لیے جدوجہد کی امکانی حرکیات اور نتائج کا اندازہ لگانا۔ ”انسانی گروہوں“ کی شناخت نسلی، لسانی، طبقاتی، علاقائی، مذہبی یا غیرمذہبی ہو سکتی ہے۔ جدید عہد میں سیاسی طاقت کی غالب تشکیل ملکوں اور ریاستوں وغیرہ کی شکل میں ہوئی ہے، جبکہ سرمائے کی تشکیل عالمی ہے۔ ممالک اور ریاستیں سیاسی اور معاشی طاقت کے ارتکاز یا کنٹرول کے مراکز ہیں، اور ان کی پالیسیاں اور اعمال و افعال جاننا سیاسی ادراک میں داخل ہے۔ سادہ لفظوں میں، تاریخی واقعیت میں معاشروں کے اجتماعی اعمال و افعال اور ان کے ممکنہ مقاصد و اہداف کو سمجھنا سیاسی ادراک ہے۔
جدید عہد میں اقوام کے سیاسی ادراک کے دو بڑے اہداف ہیں: بقا اور ترقی۔ بقا میں معاشروں کی شناخت، فوجی طاقت کے وسائل، دفاع اور غلبہ وغیرہ شامل ہیں اور یہ سیاسی ادراک کا خارجی پہلو ہے۔ جدید سیاسی ادراک کا داخلی پہلو ”ترقی“ ہے جس میں معاشی عدل اجتماعی، قانون و انصاف اور معاشرے میں جاری سیاسی عمل شامل ہوتے ہیں۔ آزاد اور طاقتور اقوام کے سیاسی ادراک میں بقا اور ترقی ہمقدم رہتے ہیں۔ قومی زندگی میں اس بات کا قومی امکان ہوتا ہے کہ قومی بقا کے لیے عدل اجتماعی پر مبنی ترقی کی ضروریات کو نظرانداز کر دیا جائے، یا معاشی انصاف کے مطالبات میں بقا کو نظرانداز کر دیا جائے۔ ایسی صورت میں سیاسی ادراک کی وحدت کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور اس کا نتیجہ سیاسی عمل کی کسریت، معاشی پسماندگی اور معاشرتی انتشار میں ظاہر ہوتا ہے، اور بقا اور ترقی دونوں ناقابل حصول ہو جاتی ہیں۔
سیاسی ادراک گہرے انسانی اور تاریخی شعور سے پیدا ہوتا ہے، جس میں کسی معاشرے کے تاریخی تجربات اور غالب مذہبی یا غیر مذہبی افکار نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اخلاقیات، شرائع اور قانون مذہبی متن سے اخذ ہوتے ہیں، جن کی حیثیت اس متن کو ماننے والے انسان سے کیے جانے والے کچھ مطالبات کی ہے۔ سیاسی ادراک کا تعلق واقعے اور اس میں فعال انسانی ارادے سے ہے۔ واقعہ مذہبی متن سے آزاد ہے، یعنی تاریخی واقعہ نہ صرف اپنی حرکیات میں آزاد ہے، بلکہ اپنی تفہیم میں بھی مذہبی متن سے آزاد ہے، کیونکہ مذہبی متن انسان سے مخاطب ہے، واقعے سے نہیں۔ تاریخی واقعہ متن پیدا کرتا ہے، متن کے تابع نہیں ہوتا۔ تاریخی اور سیاسی علوم واقعے اور اس میں فعال سیاسی ادراک اور ارادے کے بیان پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مذہبی متن واقعے کے تابع ہے نہ اس سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اس پر حَکم ہے، بلکہ واقعے میں شامل فعال ادراک اور ارادے کے حامل انسان کے لیے ہدایت اور اس پر حَکم ہے۔ اگر مذہبی متن اور تاریخی واقعے میں براہ راست نسبتیں پیدا کی جائیں تو ”تعبیرات“ کی ضرورت پیش آتی ہے، اور مذہبی متن انسانی ذہن کا آلۂ کار بن جاتا ہے۔ اگر انسان مخاطب اور امتثال امر کی جگہ کھڑا ہو تو ”تشریحات“ مذہبی متن کی ثقاہت کو محفوظ رکھتی ہیں۔ تعبیر معنی پر شبخون ہے اور تشریح معنی کی سلیقہ داری ہے۔ مذہبی متن کو براہ راست تاریخی واقعے سے متعلق کرنے کا مقصد متن کو واقعے اور ذہن انسانی کے تابع کرنا ہے، اور یوں ایسی تعبیرات راہ پا جاتی ہیں جو مذہبی متن کو مجروح کرتی ہیں۔ زوال کے بعد، ہمارے سیاسی ادراک کے خاتمے میں سامنے آنے والی ہماری مذہبی تعبیرات کی نوعیت اسی طرح کی ہے۔
گزارش ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے برصغیر کے مسلم معاشرے نے سیاسی ادراک کے غیرمعمولی سنگین مسائل کا کامیابی سے سامنا کیا ہے جو کسی بھی تاریخی اور فکری تناظر میں ایک نہایت حیرت انگیز امر ہے اور انہونی لگتی ہے۔ مسلمانوں میں سیاسی ادراک کا سب سے بڑا مسئلہ دین الٰہی کی صورت میں سامنے آیا تھا، یعنی برصغیر میں مسلم طاقت کے نقطۂ عروج پر اس کا سیاسی ادراک اور سیاسی ورلڈ ویو بحران کا شکار ہو کر بالکل ہی منہدم ہو جاتا ہے۔ یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اگر امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ کی بابرکت مساعی کی صورت میں اس کا کامیاب جواب سامنے نہ آتا تو برصغیر میں آج کوئی مسلمان بھی باقی نہ ہوتا۔ اکبر اعظم کی غیرمعمولی کوششوں کے باوجود مسلم سیاسی ورلڈ ویو کی جگہ لینے کے لیے ہندو سیاسی ورلڈ ویو نہ سامنے آ سکا اور نہ تشکیل دیا جا سکا۔ یہ انسانی تاریخ کا بھی ایک بالکل انوکھا واقعہ ہے، جو سنگین بحرانی حالات میں بھی اسلام کے غیرمعمولی تہذیبی اور فکری منابع کو ظاہر کرتا ہے، لیکن سردست ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے۔
آگے چل کر مسلم معاشرے کا بحال شدہ روایتی سیاسی ادراک یکے بعد دیگرے کئی بحرانوں کا شکار ہوا اور آخر کار ۱۸۵۷ء میں ہند مسلم تہذیب اپنے سیاسی وجود اور سیاسی ادراک دونوں میں ختم ہو گئی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد مسلم معاشرہ کسی غیرفرقہ وارانہ مذہبی اور تہذیبی موقف کو باقی نہیں رکھ سکا۔ ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کا زمانہ برصغیر میں مسلم تاریخ کا تاریک ترین دور ہے۔ توحید، رسالت، خلافت اور جہاد جیسے اساسی دینی مواقف پر مسلمانوں میں باہم شدید مناقشہ اور نزاعی صورت حال پیدا ہو گئی تھی اور دینی روایت کی غیرفرقہ وارانہ معنویت ہی نگاہوں سے اوجھل ہو کر رہ گئی۔ یہ وہ دور تھا جب دینی روایت اپنے داخلی افتراق کی وجہ سے خود ہی کو نہیں سنبھال پا رہی تھی، کجا یہ کہ وہ ہمعصر تاریخ سے نبردآزما ہونے کے لیے مسلمانوں کو کوئی سیاسی ادراک فراہم کر پائے۔ ۱۸۵۷ء تا ۱۹۴۷ء کے درمیانی عرصے میں تحریک خلافت پہلی بڑی سیاسی تحریک ہے اور ہمارے حالات کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔ اس میں ظاہر ہونے والا سیاسی جذبہ غیرمعمولی طور پر قوی تھا اور سیاسی ادراک صفر تھا۔ یہ مسلمانوں کی لاانتہا بے بسی، لاانتہا غم و غصے، غیرمعمولی مذہبی اور سیاسی جذبے اور سیاسی ادراک کے مکمل افلاس کا اظہار تھی۔ سیاسی ادراک کے بغیر ”غیرمعمولی مذہبی اور سیاسی جذبہ“ لاوارث ہوتا ہے۔ ہم اس تحریک کے گہرے اور دور رس اثرات کی تفصیل میں نہیں جاتے، لیکن اس نے ایک حقیقت واشگاف کر دی کہ واضح اور بامعنی سیاسی ادراک کے بغیر کوئی تحریک پراثر تو ہو سکتی ہے، نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ ”خلافت“ ہمارے سیاسی ادراک کا لب لباب اور عمل کا منبع ہے، لیکن ہمعصر دنیا میں مطلوب فکری تشکیلات کی کمک اسے حاصل نہیں ہے۔ تحریک خلافت نے ”خلافت“ کی اجتماعی تہذیبی ذمہ داری کو استعمار سے ایک سیاسی مطالبے تک محدود کر دیا، اور کمال اتاترک کے اقدام کے بعد ہم یہ مطالبہ بھی بھول گئے۔ تحریک خلافت کی قابل تحسین عملی اور سیاسی کوششوں کے باوجود خلافت ایک تہذیبی اور سیاسی فکر بن کر ہمارے سیاسی عمل کی رہنما نہ بن سکی اور ہم آج تک اس کی عصری معنویت تک رسائی نہیں پا سکے۔ جنگ آزادی کے بعد دینی روایت کے انتشار کے ساتھ ساتھ تحریک خلافت نے ہمارے سیاسی عزائم اور فکر کے افلاس کو بھی آشکار کر دیا۔
برصغیر کی تاریخ میں ۱۸۵۷ء اور ۱۹۴۷ء کے درمیانی عرصے میں دینی روایت کا انتشار ہماری اتنی ہی بڑی بدنصیبی ہے جتنی کہ مسلم حکومت کا خاتمہ۔ اس دوہرے سانحے کی وجہ سے مسلم معاشرہ خارجی طور پر مکمل محکومی اور غلامی اور داخلی طور پر مکمل مذہبی اور فکری انتشار کا شکار ہو گیا۔ اس عرصے کا مسلم معاشرہ ”غلامی میں انارکی“ کی تام مثال ہے۔ اندھیرا ہی اندھیرا ہے، اور کچھ سجھائی بھی نہیں دیتا۔ اس صورت حال کے پیدا ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ جنگ آزادی کا ایک نظرانداز شدہ پہلو ہے، جو فیصلہ کن ثابت ہوا۔ جنگ آزادی جب شروع ہوئی تو دو فریق تھے، اور جب شکست میں ختم ہوئی تو تین فریق تھے۔ جنگ آزادی فریقین کی بنیاد پر لڑی گئی، یعنی ہندوستانی اور انگریز۔ جبکہ اس کے نتائج تین فریقوں میں ظاہر اور منقسم ہوئے۔ فتح انگریزوں کے حصے میں آئی، شکست کا بڑا حصہ مسلمانوں کے حصے میں آیا اور کچھ حصہ ہندوؤں کے پاس گیا۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی جنگ لڑی گئی ہو جس کے خاتمے پر دو کی بجائے تین فریق سامنے آئے ہوں: فاتح، نیم مفتوح، اور مکمل مفتوح۔ جنگ آزادی استعمار کا نقطۂ عروج ہے، مسلمانوں کے لیے ایک ”خاتمہ“ ہے جبکہ ہندوؤں کے لیے ایک ”آغاز“ ہے۔ ”خاتمے“ اور ”آغاز“ میں اتحاد وغیرہ نہیں ہوا کرتا۔ یہ نہایت افسوسناک ہے کہ جنگ آزادی کے بعد ہندو اور مسلم معاشرہ جن تقدیری اور وجودی احوال سے دوچار تھے، ان میں برابری کی بنیاد ہی باقی نہیں رہی تھی، اور کسی سیاسی مفاہمت کی بنیاد فراہم بھی نہیں ہو رہی تھی۔ مسلمانوں کے پاس آپشن صرف غلامی کی تھی، اور مخالفین کے برعکس آقائے سرسید نے ”درست“ غلامی کا انتخاب کیا۔ جنگ عام طور پر ایک نئی سیاسی صورت حال پیدا کرتی ہے، لیکن جنگ آزادی نے ایک بالکل ہی نئی تہذیبی صورت حال پیدا کر دی، جو بہت زیادہ پیچیدہ ہے اور جس کو کسی ایک تاریخی اور فکری تناظر میں رہتے ہوئے سمجھنا مشکل ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر اسے ہندوستانی تاریخ کا اہم موڑ کہا جا سکتا ہے۔
اس جنگ کے نتیجے میں سب سے کمزور فریق مسلمان تھے۔ یہ سوال اہم ہے کہ اگر جنگ کے فوراً بعد ہندوؤں اور انگریزوں میں ایک وسیع البنیاد مفاہمت سامنے آ جاتی تو مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوتا؟ جنگ بقا کے لیے لڑی جاتی ہے، اور شکست میں بقا ہی سوالیہ نشان بنتی ہے۔ شکست کے بعد مسلمانوں کے پاس کوئی راستہ تھا ہی نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ تھا، تو اس کی خوش فہمی ہے یا ہٹ دھرمی ہے، اور اسے انیسویں اور بیسویں صدی کے مشرقی یورپ اور وسطی ایشا کے مسلم معاشروں کو ایک نظر دیکھ لینا چاہیے۔ استعمار کے ہیبت ناک اور خونی بارش والے پہاڑوں میں آقائے سرسید نے یہ راستہ بالکل ویسے ہی نکالا تھا جیسے کہ فرہاد جوئے شیر بنا لایا تھا۔ یہ ایسی جنگ تھی جس میں آقائے سرسید کو ”درست“ غلامی حاصل کرنے کے لیے بھی پوری تہذیب سرنڈر کرنا پڑی تھی، اور تب کہیں جا کر بقا کا پروانہ حاصل ہوا تھا۔ جنگ میں شکست کا تاریخی جبر یہ بھی ہے کہ فاتح کی موجودگی میں شکست خوردہ گروہوں میں اتحاد ممکن نہیں ہوتا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہندوستانیوں کی شرکت ایک خواب تھا اور شکست میں ہندومسلم اتحاد کا خاتمہ اس کی تعبیر۔ ان حالات میں آقائے سرسید جس طرح مسلم معاشرے کو بچانے میں کامیاب ہوئے اور آئندہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے انہیں جس طرح بقا کے وسائل فراہم کیے وہ انسانی تاریخ کا اچنبھا ہے۔
گزارش ہے کہ ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک برصغیر کی تاریخ کو کسی ایک یک رخے تناظر میں سمجھنا ممکن نہیں، کیونکہ یہ اشکالات اور تضادات اور تفرقات سے پُر ایک مائن فیلڈ کی طرح ہے جس میں احتیاط سے چلنا پڑتا ہے۔ گزارش ہے کہ اس عرصے میں مسلمانوں میں تحریک خلافت جیسی عظیم الشان اور قطعی بے نتیجہ سیاسی سرگرمی تو یقیناً سامنے آئی، لیکن یہ تحریک سیاسی جذبے سے معمور اور سیاسی ادراک سے بالکل تہی تھی۔ سیاسی ادراک کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ فلاں سے خلافت مت چھینو، فلاں قانون نافذ کر دو، فلاں کے ساتھ مل جل کر رہو، وغیرہ وغیرہ کیونکہ یہ چند ایک مطالبات کا مجموعہ نہیں ہے۔ سیاسی ادراک بقا اور طاقت کی جدوجہد ہے، اور شکست و فتح اس کے تاریخی سنگ میل ہیں۔ اقتدار کے بغیر سیاسی ادراک کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اس تاریک زمانے میں برصغیر کے مسلم معاشرے کا واحد سیاسی ادراک نظریۂ پاکستان کی صورت میں سامنے آیا، اور جو حصول اقتدار میں کامیاب رہا۔ اگر کوئی تحریک سیاسی ہے، اور اس کا مقصد حصول اقتدار نہیں، تو پھر اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کیا ہے، کیونکہ تاریخ کے طالب علم کے لیے وہ ایک ”نامعلوم“ چیز ہے۔ نظریۂ پاکستان اور تحریک پاکستان کے علاوہ جو سیاسی سرگرمی، سیاسی فکر یا مذہبی نظریے وغیرہ موجود تھے یا سامنے آئے، وہ مسلم معاشرے کی اجتماعی خودکشی کے نہایت مفصل اور مبسوط منصوبوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھے۔
جیسا کہ ہم نے کسی گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ نظریہ تاریخ پر غالب آ جاتا ہے اور ریاست سے شکست کھا جاتا ہے۔ پاکستانی ریاست کی متوارث استعماری ساخت کی وجہ سے ان تہذیبی مقاصد کے حصول میں کامیابی نہ ہو سکی جنہیں نظریۂ پاکستان نے قومی منزل اور آدرش قرار دیا تھا۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ ریاست کو کسی تہذیبی آدرش میں جوتنے کے لیے نظریے کا ورلڈ ویو میں ڈھلنا ضروری ہے، ورنہ جدید ریاست نظریے کو ڈنڈا بنائے رکھنے میں مہارت تامہ رکھتی ہے۔ نظریہ میدان جنگ میں رہنما ہوتا ہے، عدل اجتماعی کی بنیاد پر معاشرے اور پوری تہذیب کی تشکیل کے لیے تصور حیات (ورلڈ ویو) لازمی ہے۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد اس طرف کوئی پیشرفت نہ ہو سکی، اور ہماری بقا اور ترقی کے آدرش مخدوش سے مخدوش تر ہوتے چلے گئے۔ سوال یہ ہے کہ نظریۂ پاکستان میں ظاہر ہونے والا سیاسی ادراک کس ورلڈ ویو میں بامعنی ہے؟ اب دینی تعلیمات اور خلافت راشدہ کی اساس پر اس ورلڈ ویو کی ہمعصر فکری تشکیلات کی طرف پیشقدمی کی ضرورت ہے۔ اپنی آئندہ گزارشات میں اس کا جائزہ لینے کی سعی کریں گے۔
جدید عہد میں زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز نیا ہے۔ جدید آدمی کا زمانے اور تاریخ کو دیکھنے کا انداز مذہبی انداز سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ آج کا انسان زمانے کا خطی تصور رکھتا ہے، جبکہ مذہبی معاشرے میں زمانے کا تصور محوری تھا۔ سوال یہ ہے کہ زمانے کا تصور خطی ہو یا محوری، اس ...
تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ جدید تعلیم کا پورا نظام اسی سوال کے جواب میں کھڑا کیا گیا ہے۔ جدید فلسفۂ تعلیم اور اصولِ تعلیم کے وسیع علوم اس سوال کا تفصیلی جواب سامنے لاتے ہیں۔ اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ فرد کو ایک جمہوری اور لبرل معاشرے کا کارآمد شہری بنانا اور اسے زندگی گزارنے ک...
برصغیر پاک و ہند ایک جغرافیائی وحدت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن تاریخی سفر میں اس جغرافیائی وحدت نے ایک غیر معمولی لسانی، ثقافتی اور مذہبی کثرت کو جنم دیا ہے۔ اس خطے میں جغرافیائی وحدت اور ثقافتی کثرت ایک دوسرے کے معاون پہلو ہیں۔ برصغیر اپنی تمام تر رنگارنگی کے باوجود امن کی سرزمین صر...
چند ہفتے قبل ایک سیاسی پارٹی کے رہنما نے اپنی تقریر میں پاکستان کو ”ناسور“ اور عالمی دہشت گردی کا ”مرکز“ قرار دیا جس پر بجا طور پر سخت ردعمل سامنے آیا، اور قومی سطح پر شدید سیاسی سرگرمی بھی وقتی طور پر دیکھنے میں آئی۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ہاں انفرادی، سماجی اور قومی سطح ...
جدید تعلیم کے بارے میں ہماری ”دانش“ نے آج تک صرف دو چیزیں بہم پہنچائی ہیں، اور وہ بھی اب آخری اور نہایت درجے تک گھس پٹ کر بے معنی ہو گئی ہیں۔ تعلیم پر ہر گفتگو میں یہ دونوں چیزیں ایک یکسانیت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں اور بالکل کہاوت کی طرح کہی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ نصاب تبدیل ہونا چ...
مجھے افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور اجنبی موضوع کی وجہ سے گزشتہ مضمون کچھ مشکل ہو گیا اور اختصار کی وجہ سے ابلاغ میں بھی کچھ دشواری پیدا ہو گئی۔ اس میں ہم نے عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم میں بنیادی اہمیت تنظیمی عمل کی ہے اور باقی چیزیں ضمنی ہیں اور اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت ...
زوال، دینی روایت کے انتشار، عقلی علوم کے خاتمے اور خاص طور پر توحید کے جدید تصورات کی وجہ سے ہماری نظر بھی ”خوگرِ پیکر محسوس“ ہو گئی ہے۔ عام زندگی میں کسی موضوع پر کوئی گفتگو ہو، تو نیم خواندہ عام آدمی بھی فوراً ”نص“ کا مطالبہ کرتا ہے گویا کہ معلوم نصوص سے اس کا بہرہ مکمل ہو گیا ...
جیسا کہ ہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں عرض کیا تھا کہ جدید تعلیم ایک سیاسی فیصلہ ہے۔ اور سیاسی فیصلہ اگر قانون بن کر ”نافذ“ نہ ہو سکے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ریاست جبر و اختیار کا منبع ہے، لیکن جدید تعلیم اس کا اہم ترین ”پیداواری“ اظہار ہے۔ جدید تعلیم کا ریاستی فیصلہ استناد کی...
اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید تعلیم ایک خوشحال، ترقی یافتہ اور طاقتور معاشرہ بنانے کی شرط اول ہے۔ ہمارے ہاں یہ سوال کا ایک حصہ ہے اور غیر اختلافی ہے۔ سوال کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ کیا اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدید تعلیم معاون ہے یا نہیں؟ یہ حصہ اختلافی ہے۔ اسی وجہ سے جدید تعلیم ہم...
سیکولرزم اور لبرلزم میں فرق کو مختلف اسالیب میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مختصراً عرض ہے کہ یہ دونوں تحریک ِتنویر کی جڑواں اولاد ہیں اور جدیدیت کی پیدا کردہ مغربی تہذیب میں ایک ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ اب سیکولرزم سٹھیا گیا ہے اور لبرلزم پوپلا گیا ہے۔ تنویری اور جدید عقل نئے انسان اور...